32. باب: جس نے کچھ خاص دنوں میں روزہ رکھنے کی نذر مانی ہو پھر اتفاق سے ان دنوں میں بقر عید یا عید ہو گئی تو اس دن روزہ نہ رکھے (جمہور کا یہی قول ہے)۔
(32) Chapter. If somebody has vowed that he will observe Saum (fast) for a few successive days and then those days appear to coincide with Eid-ul-Adha or Eid-ul-Fitr (should he observe fast then or make expiation, or observe fast on other days)?
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا يزيد بن زريع، عن يونس، عن زياد بن جبير، قال: كنت مع ابن عمر، فساله رجل، فقال: نذرت ان اصوم كل يوم ثلاثاء، او اربعاء ما عشت، فوافقت هذا اليوم يوم النحر، فقال:" امر الله بوفاء النذر، ونهينا ان نصوم يوم النحر"، فاعاد عليه، فقال: مثله لا يزيد عليه.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ، فَسَأَلَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: نَذَرْتُ أَنْ أَصُومَ كُلَّ يَوْمِ ثَلَاثَاءَ، أَوْ أَرْبِعَاءَ مَا عِشْتُ، فَوَافَقْتُ هَذَا الْيَوْمَ يَوْمَ النَّحْرِ، فَقَالَ:" أَمَرَ اللَّهُ بِوَفَاءِ النَّذْرِ، وَنُهِينَا أَنْ نَصُومَ يَوْمَ النَّحْرِ"، فَأَعَادَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مِثْلَهُ لَا يَزِيدُ عَلَيْهِ.
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن ذریع نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے زیادہ بن جبیر نے بیان کیا کہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ میں نے نذر مانی ہے کہ ہر منگل یا بدھ کے دن روزہ رکھوں گا۔ اتفاق سے اسی دن کی بقر عید پڑ گئی ہے؟ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے نذر پوری کرنے کا حکم دیا ہے اور ہمیں بقر عید کے دن روزہ رکھنے کی ممانعت کی گئی ہے۔ اس شخص نے دوبارہ اپنا سوال دہرایا تو آپ نے پھر اس سے صرف اتنی ہی بات کہی اس پر کوئی زیادتی نہیں کی۔
Narrated Ziyad bin Jubair: I was with Ibn `Umar when a man asked him, "I have vowed to fast every Tuesday or Wednesday throughout my life and if the day of my fasting coincided with the day of Nahr (the first day of `Id-al- Adha), (What shall I do?)" Ibn `Umar said, "Allah has ordered the vows to be fulfilled, and we are forbidden to fast on the day of Nahr." The man repeated his question and Ibn `Umar repeated his former answer, adding nothing more.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 78, Number 697
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6706
حدیث حاشیہ: بہترین دلیل پیش کی کہ سچے مسلمانوں کے لیے اسوۂ نبوى سے بڑھ کر اور کوئی دلیل نہیں ہو سکتی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6706
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6706
حدیث حاشیہ: (1) اہل علم کا اس امر پر اتفاق ہے کہ عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے دن نفلی یا فرض یا نذر کا روزہ جائز نہیں۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے روزے سے منع فرمایا ہے۔ (صحیح البخاري، الصوم، حدیث: 1991) اگر کوئی شخص کچھ دنوں کے لیے روزے رکھنے کی نذر مانتا ہے اور ان دنوں میں عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ آ جائے تو امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ان دنوں کا روزہ نہ رکھے اور نہ چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا ہی دے جبکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ان دنوں روزہ تو نہ رکھے، البتہ اس کی قضا ضروری ہے۔ (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے پہلی حدیث کے آخر میں علامہ اسماعیلی کے حوالے سے ایک اضافہ نقل کیا ہے کہ جب اس کا ذکر حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کے پاس ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ اس کے بجائے بعد میں ایک دن کا روزہ رکھ لیا جائے۔ (فتح الباري: 720/11) واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6706
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2675
زیاد ابن جبیر رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور پوچھا میں نے ایک دن روزہ رکھنے کی نذر مانی اور وہ دن اضحیٰ کا دن یا فطر کا دن نکل آیا تو ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے جواب دیا اللہ تعالیٰ نے نذر پوری کرنے کا حکم دیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کے روزے سے منع فرمایا ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2675]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: امت کے نزدیک بالاتفاق عید الفطر اور عید الاضحیٰ کا روزہ رکھنا حرام ہے لیکن اگر کسی نے ان دنوں کے روزے کی نذر مانی تو جمہور ائمہ کے نزدیک وہ نذر کالعدم ہوگی اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک وہ نذر منعقد ہوجائے گی اور اس کی قضاء ضروری ہوگی اور اگر اسی دن روزہ رکھ لے تو ہو جائے گا یعنی اگر کسی نے نذر مانی کہ میں فلاں تاریخ کو روزہ رکھوں گا یافلاں ماہ کے پہلے ہفتہ میں سوموار کا یا جمعرات کا روزہ رکھوں گا اور وہ دن اتفاق سے عید کا دن نکلا تو جمہور کے نزدیک روزہ کی نذر کالعدم ہوگی اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قضاء لازم ہے کیونکہ نذر منعقد ہوچکی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2675
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1994
1994. حضرت زیاد بن جبیر سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ ایک شخص حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے پاس آیا اور کہنے لگا: ایک شخص نے نذر مانی ہے کہ وہ ایک روزہ رکھے گا، میرا گمان ہے کہ وہ سوموار کا دن ہے اور اتفاق سے اس دن عید تھی۔ حضرت عبداللہ ؓ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے نذر کو پوراکرنے کا حکم دیا ہے اور نبی کریم ﷺ نے اس دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1994]
حدیث حاشیہ: علامہ ابن حجر فرماتے ہیں: لم یفسر العید في هذہ الروایة و مقتضی إدخاله هذا الحدیث في ترجمة صوم یوم النحر أن یکون المسؤل عنه یوم النحر و هو مصرح به في روایة یزید بن زریع المذکورة و لفظه فوافق یوم النحر۔ یعنی اس روایت میں عید کی وضاحت نہیں ہے کہ وہ کون سی عید تھی اور یہاں باب کا اقتضاءعیدالاضحی ہے سو اس کی تصریح یزید بن زریع کی روایت میں موجود ہے جس میں یہ ہے کہ اتفاق سے اس دن قربانی کا دن پڑگیا تھا۔ یزید بن زریع کی روایت میں یہ لفظ وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔ اور ایسا ہی احمد کی روایت میں ہے جسے انہوں نے اسماعیل بن علیہ سے، انہوں نے یونس سے نقل کیا ہے، پس ثابت ہو گیا کہ روایت میں یوم عید سے عید الاضحی یوم النحر مراد ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1994
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1994
1994. حضرت زیاد بن جبیر سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ ایک شخص حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے پاس آیا اور کہنے لگا: ایک شخص نے نذر مانی ہے کہ وہ ایک روزہ رکھے گا، میرا گمان ہے کہ وہ سوموار کا دن ہے اور اتفاق سے اس دن عید تھی۔ حضرت عبداللہ ؓ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے نذر کو پوراکرنے کا حکم دیا ہے اور نبی کریم ﷺ نے اس دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1994]
حدیث حاشیہ: (1) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: اس روایت میں وضاحت نہیں ہے کہ وہ کون سی عید تھی لیکن عنوان کا تقاضا ہے کہ اس سے مراد عید الاضحیٰ کا دن ہے، چنانچہ یزید بن زریع کی روایت میں اس کی صراحت ہے، یعنی جس دن روزہ رکھنے کی نذر مانی تھی اس دن اتفاق سے عید الاضحیٰ تھی۔ حضرت ابن عمر ؓ نے دلائل کے تعارض کے پیش نظر صراحت کے ساتھ جواب دینے سے توقف فرمایا۔ (2) علامہ خطابی فرماتے ہیں: اس مسئلے میں اختلاف ہے۔ بعض نے کہا ہے: اگر کسی نے نذر مانی کہ جس دن فلاں آئے گا وہ روزہ رکھے گا، اور وہ عید کے دن آیا تو نہ روزہ رکھے اور نہ اس کی قضا ہی دے۔ بعض نے کہا کہ وہ عید کے دن روزہ نہ رکھے لیکن بعد میں اس کی قضا دے۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ جہاں امر اور نہی دونوں جمع ہو جائیں وہاں نہی پر عمل کیا جائے گا، لہذا اس دن روزہ نہ رکھا جائے اور نہ اس کی قضا ہی دینا ضروری ہے۔ (فتح الباري: 306/4) ہمارے نزدیک راجح موقف یہ ہے کہ نہی کو مقدم کرتے ہوئے اس دن کا روزہ نہ رکھا جائے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کو سوار ہونے کا حکم دیا تھا جس نے پیدل چل کر حج کرنے کی نذر مانی تھی۔ اگر ایسے حالات میں نذر کا پورا کرنا ضروری ہوتا تو آپ اسے سواری استعمال کرنے کا حکم نہ دیتے۔ صورت مذکورہ میں بھی نذر کا پورا کرنا ضروری نہیں کیونکہ اس دن کا روزہ رکھنا جائز نہیں، لہذا وہ اپنی نذر کسی صورت میں پوری نہیں کرے گا۔ (فتح الباري: 307/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1994