صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: قسموں اور نذروں کے بیان میں
The Book of Oaths and Vows
1. بَابُ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى: {لاَ يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ} :
1. باب: اللہ تعالیٰ نے سورۃ المائدہ میں فرمایا ”اللہ تعالیٰ لغو قسموں پر تم کو نہیں پکڑے گا، البتہ ان قسموں پر پکڑے گا جنہیں تم پکے طور سے کھاؤ۔ پس اس کا کفارہ دس مسکینوں کو معمولی کھانا کھلانا ہے، اس اوسط کھانے کے مطابق جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا ان کو کپڑا پہنانا یا ایک غلام آزاد کرنا۔ پس جو شخص یہ چیزیں نہ پائے تو اس کے لیے تین دن کے روزے رکھنا ہے۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جس وقت تم قسم کھاؤ اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے حکموں کو کھول کر بیان کرتا ہے۔ شاید کہ تم شکر کرو۔
(1) Chapter. The Statement of Allah: “Allah will not punish you for what is unintentional in your oaths, but He will punish you for your deliberate oaths; for its expiation (a deliberate oath) feed ten poor persons, on a scale of the average of that with which you feed your own families; or clothe them; or manumit a slave. But whosoever cannot afford (that), then he should fast for three days. That is the expiation for the oath when you have sworn. And protect your oaths (i.e., do not swear much). Thus Allah make clear to you His Ayat (proofs, evidances, verses, lessons, signs, revelations, etc.) that you may be grateful." (V.5:89)
حدیث نمبر: 6622
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو النعمان محمد بن الفضل، حدثنا جرير بن حازم، حدثنا الحسن، حدثنا عبد الرحمن بن سمرة، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" يا عبد الرحمن بن سمرة، لا تسال الإمارة، فإنك إن اوتيتها عن مسالة وكلت إليها، وإن اوتيتها من غير مسالة اعنت عليها، وإذا حلفت على يمين فرايت غيرها خيرا منها، فكفر عن يمينك، وات الذي هو خير".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَمُرَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ سَمُرَةَ، لَا تَسْأَلِ الْإِمَارَةَ، فَإِنَّكَ إِنْ أُوتِيتَهَا عَنْ مَسْأَلَةٍ وُكِلْتَ إِلَيْهَا، وَإِنْ أُوتِيتَهَا مِنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ أُعِنْتَ عَلَيْهَا، وَإِذَا حَلَفْتَ عَلَى يَمِينٍ فَرَأَيْتَ غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا، فَكَفِّرْ عَنْ يَمِينِكَ، وَأْتِ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ".
ہم سے ابونعمان محمد بن فضل سدوسی نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، کہا ہم سے امام حسن بصری نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عبدالرحمٰن بن سمرہ! کبھی کسی حکومت کے عہدہ کی درخواست نہ کرنا کیونکہ اگر تمہیں یہ مانگنے کے بعد ملے گا تو اللہ پاک اپنی مدد تجھ سے اٹھا لے گا، تو جان، تیرا کام جانے اور اگر وہ عہدہ تمہیں بغیر مانگے مل گیا تو اس میں اللہ کی طرف سے تمہاری اعانت کی جائے گی اور جب تم کوئی قسم کھا لو اور اس کے سوا کسی اور چیز میں بھلائی دیکھو تو اپنی قسم کا کفارہ دے دو اور وہ کام کرو جو بھلائی کا ہو۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Abdur-Rahman bin Samura: The Prophet said, "O `Abdur-Rahman bin Samura! Do not seek to be a ruler, because if you are given authority for it, then you will be held responsible for it, but if you are given it without asking for it, then you will be helped in it (by Allah): and whenever you take an oath to do something and later you find that something else is better than the first, then do the better one and make expiation for your oath."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 78, Number 619


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري6722عبد الرحمن بن سمرةلا تسأل الإمارة فإنك إن أعطيتها من غير مسألة أعنت عليها وإن أعطيتها عن مسألة وكلت إليها إذا حلفت على يمين فرأيت غيرها خيرا منها فأت الذي هو خير وكفر عن يمينك
   صحيح البخاري7147عبد الرحمن بن سمرةلا تسأل الإمارة فإن أعطيتها عن مسألة وكلت إليها إن أعطيتها عن غير مسألة أعنت عليها إذا حلفت على يمين فرأيت غيرها خيرا منها فأت الذي هو خير وكفر عن يمينك
   صحيح البخاري7146عبد الرحمن بن سمرةلا تسأل الإمارة فإنك إن أعطيتها عن مسألة وكلت إليها وإن أعطيتها عن غير مسألة أعنت عليها وإذا حلفت على يمين فرأيت غيرها خيرا منها فكفر عن يمينك وأت الذي هو خير
   صحيح البخاري6622عبد الرحمن بن سمرةلا تسأل الإمارة فإنك إن أوتيتها عن مسألة وكلت إليها وإن أوتيتها من غير مسألة أعنت عليها إذا حلفت على يمين فرأيت غيرها خيرا منها فكفر عن يمينك وأت الذي هو خير
   صحيح مسلم4715عبد الرحمن بن سمرةلا تسأل الإمارة فإنك إن أعطيتها عن مسألة أكلت إليها وإن أعطيتها عن غير مسألة أعنت عليها
   صحيح مسلم4281عبد الرحمن بن سمرةلا تسأل الإمارة فإنك إن أعطيتها عن مسألة وكلت إليها وإن أعطيتها عن غير مسألة أعنت عليها وإذا حلفت على يمين فرأيت غيرها خيرا منها فكفر عن يمينك وائت الذي هو خير
   جامع الترمذي1529عبد الرحمن بن سمرةلا تسأل الإمارة فإنك إن أتتك عن مسألة وكلت إليها إن أتتك عن غير مسألة أعنت عليها إذا حلفت على يمين فرأيت غيرها خيرا منها فأت الذي هو خير ولتكفر عن يمينك
   سنن أبي داود2929عبد الرحمن بن سمرةلا تسأل الإمارة فإنك إذا أعطيتها عن مسألة وكلت فيها إلى نفسك وإن أعطيتها عن غير مسألة أعنت عليها
   سنن النسائى الصغرى5386عبد الرحمن بن سمرةلا تسأل الإمارة فإنك إن أعطيتها عن مسألة وكلت إليها وإن أعطيتها عن غير مسألة أعنت عليها
   بلوغ المرام1173عبد الرحمن بن سمرة وإذا حلفت على يمين فرأيت غيرها خيرا منها فكفر عن يمينك وائت الذي هو خير

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6622 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6622  
حدیث حاشیہ:
اگر کوئی آدمی خود کسی کو منصب کے اہل سمجھتا ہے اور اسے معلوم ہے کہ کوئی دوسرا اس منصب پر آ کر ملک و ملت کا نقصان کرے گا تو امارت طلب کرنے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے وزارت مال کا قلمدان خود طلب کیا تھا۔
اس کی تفصیل کتاب الاحکام حدیث: 7146، 7147 میں بیان ہو گی، البتہ اس مقام پر یہ حدیث بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم اٹھاتا ہے لیکن وہ سمجھتا ہے کہ قسم توڑ کر وہ کام کرنا یا نہ کرنا بہتر ہے تو اپنی قسم کا کفارہ دے دے جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں ہے:
اگر کوئی قسم اٹھاتا ہے، پھر دیکھتا ہے کہ اس کے غیر میں بھلائی ہے تو بہتر کام کو کرے اور اپنی قسم کو چھوڑ دے۔
(مسند أحمد: 258/4)
ایک حدیث میں ہے:
بہتر کام کر گزرے اور اپنی قسم کا کفارہ دے دے۔
(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 4277 (1651)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6622   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1173  
´(قسموں اور نذروں کے متعلق احادیث)`
سیدنا عبدالرحمٰن بن سمرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم کسی کام پر قسم کھاؤ اور اس کام کے خلاف کو بہتر دیکھو تو قسم کا کفارہ ادا کر دو اور جو بہتر ہے وہ کر لو۔ (بخاری و مسلم) اور بخاری کے الفاظ یہ ہیں کہ جو کام بہتر ہے اسے کرو اور قسم کا کفارہ ادا کرو۔ اور ابوداؤد کی روایت میں اس طرح ہے کہ اپنی قسم کا کفارہ دے کر وہ کام کرو جو بہتر ہے۔ دونوں احادیث کی سند صحیح ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1173»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأيمان والنذور، باب قول الله تعالي: "لا يؤاخذكم الله باللغو في أيمانكم"، حديث:6622، ومسلم، الأيمان، باب ندب من حلف يمينًا فرأي غير ها خيرًا منها...، حديث:1652، وأبوداود، الأيمان والنذور، حديث:3277.»
تشریح:
حدیث کے مجموعی الفاظ کفارے کی ادائیگی قسم توڑنے سے پہلے بھی اسی طرح جائز قرار دیتے ہیں جس طرح قسم توڑنے کے بعد۔
جمہور کا یہی مسلک ہے مگر احناف کے نزدیک قسم کا کفارہ قسم توڑنے سے پہلے ادا کرنا کسی صورت درست نہیں ہے۔
لیکن ابوداود کی مذکورہ حدیث ان کے خلاف حجت ہے کیونکہ اس میں کفارے کے بعد ثُـمَّ کے لفظ سے امر خیر کا حکم ہے‘ اور ثُـمَّ کا لفظ ترتیب کا مقتضی ہے۔
راویٔ حدیث:
«حضرت عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ان کی کنیت ابوسعید ہے۔
شرف صحابیت سے مشرف ہیں۔
فتح مکہ کے بعد دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے۔
سجستان اور کابل کے فاتح ہیں۔
بصرہ میں سکونت پذیر ہوئے اور یہیں ۵۰ ہجری میں یا اس کے بعد وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1173   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5386  
´حکومت اور عہدہ منصب کی خواہش منع ہے۔`
عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: منصب طلب مت کرو، اس لیے کہ اگر مانگے سے وہ تمہیں ملا تو تم اسی کے سپرد کر دئیے جاؤ گے ۱؎ اور اگر وہ تمہیں بن مانگے مل گیا تو تمہاری اس میں مدد ہو گی۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5386]
اردو حاشہ:
(1) حکومت اور امارت ایک ذمے داری ہے جس کی جو اب دہی بھی کرنا ہوگی۔ کمی کوتاہی کی صورت میں سزا بھی بھگتنا ہوگی۔ اور کمی کوتاہی ہو جانا لازمی امر ہے، اس لیے خواہ مخواہ اس مصیبت کو گلے نہ ڈالا جائے، البتہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ذمہ داری آن پڑے، لوگ زبردستی گلے میں ڈال دیں تو اللہ کا نام لے کر سنبھال لے۔ اس صورت میں اللہ تعالیٰ کی توفیق بھی شامل حال ہوگی اور لوگ بھی تعاون کریں گے۔
(2) اکیلا چھوڑ دیا جائے گا یعنی نہ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے گا نہ لوگوں کا تعاون حاصل ہوگا۔ ظاہر ہے، پھر صرف بدنامی ہی ہوگی اور ناکامی کا سامنا ہوگا۔ لفظی معنیٰ ہیں: تجھے امارت کے سپرد کر دیا جائےگا۔ (نیز دیکھیے: حدیث:5384)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5386   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2929  
´حکومت و اقتدار کو طلب کرنا کیسا ہے؟`
عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے عبدالرحمٰن بن سمرہ! امارت و اقتدار کی طلب مت کرنا کیونکہ اگر تم نے اسے مانگ کر حاصل کیا تو تم اس معاملے میں اپنے نفس کے سپرد کر دئیے جاؤ گے ۱؎ اور اگر وہ تمہیں بن مانگے ملی تو اللہ کی توفیق و مدد تمہارے شامل حال ہو گی ۲؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2929]
فوائد ومسائل:
انسان کا کوئی معاملہ ایسا نہیں۔
جو اللہ عزوجل کی خاص رحمت اور مدد کے بغیر درست ہوسکے جب کہ حکومت تو بہت بڑی اور کٹھن ذمہ داری ہے۔
اس لئے مانگ کر حکومت لینا اللہ کی رحمت سے محرومی کا سبب بنتا ہے۔


حضرت یوسف ؑ کا یہ فرمانا کہ (اجْعَلْنِي عَلَىٰ خَزَائِنِ الْأَرْضِ) (یوسف:55) مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کر دیجئے۔
کسی منصب کے طلب کےلئے نہیں، بلکہ ایک عمومی پیش کش پر نوعیت کی تعین کے لئے تھا۔
کیونکہ یہ بات اس وقت انہوں نے کہی جب عزیز مصر نے ذمہ داری کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ (إِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِينٌ أَمِينٌ) (یوسف:54) آپ آج سے ہمارے ہاں ذی مرتبہ اور امانت دار ہیں، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جب ملک وقوم کے حالات دگرگوں ہوں اور کوئی باصلاحیت فرد نیک نیتی سے یہ سمجھتا ہو کہ وہ اس صورت حال سے عہدہ برآ ہ ہو سکتا ہے۔
تو اس کو آگے آنا چاہیے۔
ایسا شخص اگر امام عادل کے جیسے وصف سے موصوف ہو تو اس کے متعلق بشارتوں کا بھی اعلان ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2929   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1529  
´کسی کام پر قسم کھانے کے بعد اس سے بہتر کام جان جائے تو اس کے حکم کا بیان۔`
عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عبدالرحمٰن! منصب امارت کا مطالبہ نہ کرو، اس لیے کہ اگر تم نے اسے مانگ کر حاصل کیا تو تم اسی کے سپرد کر دیئے جاؤ گے ۱؎، اور اگر وہ تمہیں بن مانگے ملی تو اللہ کی مدد و توفیق تمہارے شامل ہو گی، اور جب تم کسی کام پر قسم کھاؤ پھر دوسرے کام کو اس سے بہتر سمجھو تو جسے تم بہتر سمجھتے ہو اسے ہی کرو اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب النذور والأيمان/حدیث: 1529]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی اللہ کی نصرت وتائید تمہیں حاصل نہیں ہوگی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1529   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7146  
7146. سیدنا عبدالرحمن بن سمرہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے مجھے فرمایا: اے عبدالرحمن! تم حکومت کا عہدہ مت طلب کرو کیونکہ اگر تمہیں طلب کرنے پر حکومت کی ذمہ داری دی گئی تم اس جے سپرد کردیے جاؤ گے اور اگر تمہیں طلب کے بغیر کوئی عہدہ دیا گیا تو اللہ کی طرف سے اس میں تمہاری مدد کی جائے گی۔ اور اگر تم قسم اٹھاؤ پھر اس کے خلاف میں کوئی بہتری دیکھو تو اپنی قسم کا کفارہ ادا کردو اور جو بہتر ہے اسے کر گزرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7146]
حدیث حاشیہ:
غلط بات پر خواہ مخواہ اڑے رہنا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔
اگر غلط قسم کی صورت ہو تو اس کا کفارہ ادا کرنا ضروری ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7146   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7147  
7147. سیدنا عبدالرحمن بن سمرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے مجھےفرمایا: اے عبدالرحمن!حکومتی مت طلب کرنا کیونکہ اگر تجھے طلب کرنے پر کوئی عہدہ ملا تم اس کے حوالے کردیے جاؤ گے اور اگر تمہیں طلب کیے بغیر کوئی ذمہ داری ملی تو اس میں تمہاری مدد کی جائے گی۔ اور اگر تم کسی بات پر قسم اٹھاؤ پھر اس کے سوا کسی دوسری چیز میں بہتری دیکھو تو اسے کرلو اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7147]
حدیث حاشیہ:
اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ حاکم اعلیٰ اپنی حکومت میں قابل ترین افراد کو تلاش کرکے امور حکومت ان کے حوالے کرے اور جو لوگ خود لالچی ہوں ان کو کوئی ذمہ داری کا منصب سپرد نہ کرے۔
ایسے لوگ ادائیگی میں کامیاب نہیں ہوں گے، الا ماشاءاللہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7147   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6722  
6722. حضرت عبدالرحمن بن سمرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ازخود امارت کا سوال نہ کرو کیونکہ اگر تجھے یہ امات مانگے بغیر مل جائے تو اس پر تیری مدد کی جائے گی اور اگر تجھے مانگنے سے دی جائے تو تجھے اس کے سپرد کر دیا جائے گا، نیز جب تو کسی چیز کی قسم اٹھائے پھر اس کا غیر اس سے بہتر دیکھے تو وہ کرو جو بہتر ہو اور اپنی قسم کا کفارہ دے دو۔ اشہل نے ابن عون سے روایت کرنے میں عثمان بن عمر کی متابعت کی ہے۔ اور یونس، سماک بن عطیہ، سماک بن حرب، حمید، قتادہ، منصور ہشام اور ربیع نے بھی ابن عون کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6722]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قسم کا کفارہ، قسم توڑنے کے بعد ادا کیا جائے جبکہ صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے:
''اپنی قسم کا کفارہ دے دو اور وہ کام کرو جو بہتر ہو۔
'' (صحیح البخاری، الایمان والنذور، حدیث: 6622)
اس روایت کا تقاضا ہے کہ قسم توڑنے سے پہلے بھی کفارہ دیا جا سکتا ہے، اس سے امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف ثابت ہوا کہ کفارہ، قسم توڑنے سے پہلے اور بعد میں دیا جا سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔
واللہ اعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6722   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7146  
7146. سیدنا عبدالرحمن بن سمرہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے مجھے فرمایا: اے عبدالرحمن! تم حکومت کا عہدہ مت طلب کرو کیونکہ اگر تمہیں طلب کرنے پر حکومت کی ذمہ داری دی گئی تم اس جے سپرد کردیے جاؤ گے اور اگر تمہیں طلب کے بغیر کوئی عہدہ دیا گیا تو اللہ کی طرف سے اس میں تمہاری مدد کی جائے گی۔ اور اگر تم قسم اٹھاؤ پھر اس کے خلاف میں کوئی بہتری دیکھو تو اپنی قسم کا کفارہ ادا کردو اور جو بہتر ہے اسے کر گزرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7146]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حکومتی عہدہ یا عدالتی منصب خود طلب کرکے نہیں لیناچاہیے اور جسے خواہش کے بغیر کوئی حکومتی ذمہ دار مل جائے تو وہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اسے قبول کرے۔
ایسے بندوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ ان کی ضرور رہنمائی کرے گا جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
\" جو کوئی منصب قضا کا طالب ہوگا اور درخواست کرکے اسے حاصل کرے گا تو اسے کی ذات کے حوالے کردیا جائے گا اور جس شخص کو مجبور کرکے قاضی بنایاجائے تواللہ اس کی رہنمائی کے لیے فرشتہ اتار(مقررکر)
دیتا ہے جو اسے ٹھیک ٹھیک چلاتا ہے۔
(جامع الترمذی الاحکام حدیث 1323)

اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی مدد کی بھی وضاحت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فرشتہ اس کی رہنمائی کرے گا۔w
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7146   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7147  
7147. سیدنا عبدالرحمن بن سمرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے مجھےفرمایا: اے عبدالرحمن!حکومتی مت طلب کرنا کیونکہ اگر تجھے طلب کرنے پر کوئی عہدہ ملا تم اس کے حوالے کردیے جاؤ گے اور اگر تمہیں طلب کیے بغیر کوئی ذمہ داری ملی تو اس میں تمہاری مدد کی جائے گی۔ اور اگر تم کسی بات پر قسم اٹھاؤ پھر اس کے سوا کسی دوسری چیز میں بہتری دیکھو تو اسے کرلو اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7147]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں اشارہ ہے کہ حاکم اعلیٰ کا کام ہے کہ وہ اپنی حکومت میں قابل ترین افراد کو تلاش کرکے امور حکومت ان کےحوالے کردے اور جو لوگ خود لالچی اور حریص ہوں انھیں کوئی منصب نہ دیاجائے۔
ایسے لوگ اسے چلانے میں ناکام رہیں گے۔
لیکن کوئی اگر اپنے اندرصلاحیت پاتا ہے اور حکومتی تقاضے پورے کرنے کی ہمت پاتا ہے اور اسے یہ بھی احساس ہے کہ اگر میں نے اسے حاصل نہ کیا تو نالائق آدمی اس پر قابض ہوجائے گا تو اس صورت میں عہدہ طلب کرنے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے وزارت مال کا قلمدان مانگ کرلیاتھا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
\"یوسف علیہ السلام نے کہا:
مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کردیجیے۔
میں ان کی حفاظت کرنے والا اور یہ کام میں جانتا بھی ہوں۔
\"(یوسف 12/55)

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حکومتی ذمہ داری محنت ومشقت سے خالی نہیں۔
اگراللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہوتو انسان کی دنیا تباہ اور آخرت برباد ہوجاتی ہے،اس لیے کوئی عقلمند اسے مانگ کر کرلینے کی جراءت نہیں کرتا اور اگر اپنے اندر صلاحیت پاتا ہے اور طلب کے بغیر اسے کوئی ذمہ داری دی جاتی ہے تواللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہوتی ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بشارت دی ہے۔
(فتح الباری 13/155) w
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7147   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.