16. باب: آیت «وما كنا لنهتدي لولا أن هدانا الله» الخ کی تفسیر۔
(16) Chapter. “...Never could we have found guidance, were it not that Allah had guided us...” (V.7:43) "...If only Allah had guided me, I should indeed have been among the Al-Muttaqun." (V.39:57)
لو ان الله هداني لكنت من المتقين.لَوْ أَنَّ اللَّهَ هَدَانِي لَكُنْتُ مِنَ الْمُتَّقِينَ.
«وما كنا لنهتدي لولا أن هدانا الله»”اور ہم ہدایت پانے والے نہیں تھے، اگر اللہ نے ہمیں ہدایت نہ کی ہوتی۔“ «لو أن الله هداني لكنت من المتقين»”اگر اللہ نے مجھے ہدایت کی ہوتی تو میں متقیوں میں سے ہوتا۔“(الزمر: 57)
(مرفوع) حدثنا ابو النعمان، اخبرنا جرير هو ابن حازم، عن ابي إسحاق، عن البراء بن عازب، قال: رايت النبي صلى الله عليه وسلم يوم الخندق ينقل معنا التراب وهو يقول:" والله لولا الله ما اهتدينا، ولا صمنا ولا صلينا، فانزلن سكينة علينا، وثبت الاقدام إن لاقينا، والمشركون قد بغوا علينا، إذا ارادوا فتنة ابينا".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، أَخْبَرَنَا جَريِرٌ هُوَ ابْنُ حَازِمٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْبَرَاء بْنِ عَازِب، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْخَنْدَقِ يَنْقُلُ مَعَنَا التُّرَابَ وَهُوَ يَقُولُ:" وَاللَّهِ لَوْلَا اللَّهُ مَا اهْتَدَيْنَا، وَلَا صُمْنَا وَلَا صَلَّيْنَا، فَأَنْزِلَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا، وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا، وَالْمُشْرِكُونَ قَدْ بَغَوْا عَلَيْنَا، إِذَا أَرَادُوا فِتْنَةً أَبَيْنَا".
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو جریر نے خبر دی جو ابن حازم ہیں، انہیں ابواسحاق نے، ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے غزوہ خندق کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ ہمارے ساتھ مٹی اٹھا رہے تھے اور یہ کہتے جاتے تھے۔ ”واللہ، اگر اللہ نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پا سکتے۔ نہ روزہ رکھ سکتے اور نہ نماز پڑھ سکتے۔ پس اے اللہ! ہم پر سکینت نازل فرما۔ اور جب سامنا ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھ۔ اور مشرکین نے ہم پر زیادتی کی ہے۔ جب وہ کسی فتنہ کا ارادہ کرتے ہیں تو ہم انکار کرتے ہیں۔“
Narrated Al-Bara' bin `Azib: I saw the Prophet on the Day of (the battle of) Al-Khandaq, carrying earth with us and saying, "By Allah, without Allah we would not have been guided, neither would we have fasted, nor would we have prayed. O Allah! Send down Sakina (calmness) upon us and make our feet firm when we meet (the enemy). The pagans have rebelled against us, but if they want to put us in affliction (i.e., fight us) we refuse (to flee)." (See Hadith No. 430, Vol. 5).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 77, Number 617
اللهم لولا أنت ما اهتدينا ولا تصدقنا ولا صلينا فأنزلن سكينة علينا وثبت الأقدام إن لاقينا إن الأولى قد بغوا علينا وإن أرادوا فتنة أبينا قال ثم يمد صوته بآخرها
والله لولا الله ما اهتدينا ولا تصدقنا ولا صلينا فأنزلن سكينة علينا وثبت الأقدام إن لاقينا إن الأولى قد بغوا علينا إذا أرادوا فتنة أبينا ورفع بها صوته أبينا أبينا
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6620
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں ''لولا'' کا استعمال اللہ تعالیٰ کے احسان کے طور پر استعمال ہوا ہے، ایسا جائز ہے اور قرآن کریم میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں، البتہ اپنے عجز کو ظاہر کرنے کے لیے یا تقدیر پر تدبیر کو حاکم بنانے کے لیے ''لو'' کا استعمال شرعاً جائز نہیں جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے: ”جو چیز تجھے نفع دے اس کے لیے حریص بنو، اس کے حصول کے لیے اللہ سے مدد طلب کرو اور عاجزی اختیار نہ کرو۔ اور اگر کبھی کوئی نقصان ہو جائے تو اس طرح نہ کہنا: اگر میں ایسا کرتا تو ایسا ہو جاتا بلکہ یوں کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے اسی طرح مقدر فرما دیا تھا، لہذا جیسا اس نے چاہا تھا اسی کے موافق ہو گیا کیونکہ اس ''اگر'' کے کلمے سے شیطانی عمل کا دروازہ کھلتا ہے۔ “(صحیح مسلم، القدر، حدیث: 6774 (2664)(2) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو انسان نفع اور فائدہ دینے والے اعمال میں حریص نہیں وہ عاجز انسان ہے۔ انسان کا کمال عجز اختیار کرنے میں نہیں بلکہ کامیابی کے لیے سر توڑ کوشش کرنے میں ہے اور یہ عقیدہ رکھ کر جدوجہد کی جائے کہ ہمارے مقدر میں جو لکھا جا چکا ہے یہ اس کے لیے ہے، یعنی تدبیر کرنا ضروری ہے لیکن اسے حاکم بنا کر نہیں بلکہ تقدیر کا محکوم بنا کر کوشش کی جائے۔ اب اگر تدبیر کارگر نہ ہوئی اور اسباب اختیار کر لینے کے بعد مقصد پورا نہ ہو سکا تو یہ کہنا شروع کر دیا جائے، اگر میں یوں کرتا تو کامیاب ہو جاتا۔ یہ بھی دراصل تقدیر کو تدبیر کا محکوم بنانے کے مترادف ہے، اس لیے یہ مومن بندے کی شان نہیں بلکہ یہ شیطان کی حرکت ہے کیونکہ اب اگر، مگر کہنے سے سوائے ندامت، پشیمانی اور افسوس کے کچھ حاصل نہیں ہو گا، جو مقدر تھا وہ تو ہو چکا، لہذا اب اگر مگر کے دروازے کو کھولنے کا فائدہ؟ ہاں جدوجہد کے بعد بھی اگر مقصد حاصل نہ ہو تو اب اسے قضائے الٰہی کے حوالے کر دینا یہ مومن کی شان ہے اور یہ اس کے لیے باعث تسلی بھی ہے، لہذا نتیجہ ظاہر ہونے سے پہلے تدبیر سے غفلت کا نام عجز ہے، اسے تقدیر پر اعتماد کا نام نہیں دیا جا سکتا اور نتائج کے خلاف ہونے کی صورت میں اپنی تدبیر کی کمزوری کو یاد کرنا شیطانی عمل ہے اور اسے تقدیر الٰہی کے حوالے کر دینا مومن کی شان ہے۔ (3) امام بخاری رحمہ اللہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ قضا و قدر اپنی جگہ پر ہے اور کسب و اختیار اپنی جگہ پر لیکن شان مومن یہ ہے کہ کامیابی ہو یا ناکامی دونوں حالتوں میں وہ اپنی بندگی اور عبودیت کو قائم رکھے اور شیطان کو در آنے (گھسنے اور داخل ہونے) کا موقع نہ دے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ اپنے معاملات کے لیے پوری جدوجہد کرے، پھر اگر نتیجہ موافق برآمد ہو تو اس پر اترائے نہیں اور اگر خلاف ہو جائے تو اس پر بے صبری کا مظاہرہ نہ کرے۔ قرآن کریم کی درج ذیل آیت میں بھی یہی سبق دیا گیا ہے: ”تاکہ اس پر غم نہ کھاؤ جو تمہیں حاصل نہ ہو سکا اور اس پر اتراؤ نہیں جو تمہیں عطا فرمایا۔ “(الحدید: 23/57)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6620
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2836
2836. حضرت براء ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ (خندق کے دن)خود مٹی اٹھاتے اور یہ شعرپڑتے تھے۔ ”اے اللہ! اگر تیرا کرم نہ ہوتا تو ہم ہدایت یا فتہ نہ ہوتے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2836]
حدیث حاشیہ: یہ جنگ شوال ۵ھ میں ہوئی تھی‘ جس میں جملہ اقوام عرب نے متحد ہو کر اسلام کے خلاف یلغار کی تھی مگر اللہ نے ان کو ذلیل کرکے لوٹا دیا۔ سورۂ احزاب میں اس جنگ کے کچھ لرزہ خیز کوائف مذکور ہوئے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2836
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7236
7236. حضرت براء بن عازبؓ سے روایت ہے‘ انہوں نے کہا: غزوۂ خندق کے دن خود نبیﷺ ہمارے ساتھ مٹی اُٹھا رہے تھے۔ میں نے آپ کو دیکھا کہ مٹی نے آپ کے پیٹ کی سفید کو چھپا رکھا تھا۔ آپ فرماتے تھے: ”اے اللہ! اگر تو نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے نہ صدقہ کرتے اور نہ نماز پڑھتے‘ لہذا تو ہم پر دلجمعی نازل فرما۔ ان (دشمنوں) کی جماعت نے ہم پر ظلم ڈھایا ہے۔ جب یہ فتنہ چاہتے ہیں تو ہم ان کا انکار کرتے ہیں‘ ان کی بات نہیں مانتے“ اس کے ساتھ آپ اپنی آواز بلند کر دیتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7236]
حدیث حاشیہ: مولانا وحید الزماں کا منظوم ترجمہ یوں ہے اے خدا اگر تو نہ ہوتا تو کہاں ملتی نجات کیسے پڑھتے ہم نمازیں کیسے دیتے ہم زکوٰۃ اب اتار ہم پر تسلی اے شہ عالی صفات پاؤں جموا دے لڑائی میں تو دے ہم کو ثبات (یہ مصرعہ بارہویں پارے میں ہے یہاں مذکور نہیں ہے) بے سبب ہم پر یہ دشمن ظلم سے چڑھ آئے ہیں جب وہ فتنہ چاہیں تو سنتے نہیں ہم ان کی بات۔ آپ بلند آواز سے یہ اشعار پڑھتے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7236
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3034
3034. حضرت براء ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے خندق کے دن رسول ا للہ ﷺ کو دیکھاکہ آپ خود مٹی اٹھا رہے تھے اور گرد و غبار نے آپ کے سینے کے بالوں کو ڈھانپ رکھا تھا اور آپ گھنے بالوں والے بہادر مرد تھے۔ اس وقت آپ حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ کے اشعار پڑھ رہے تھے: تو ہدایت گرنہ کرتا تو کہاں ملتی نجات۔۔۔ کیسے پڑھتے ہم نمازیں کیسے دیتے ہم زکاۃ۔۔۔ اب اتار ہم پر تسلی اے شہ عالی صفات۔۔۔ پاؤں جمادے ہمارے دے لڑائی میں ثبات۔۔۔ بے سبب ہم پر یہ کافر ظلم سے چڑھ آئے ہیں۔۔۔ جب وہ بہکائیں ہم سنتے نہیں ان کی بات۔۔۔ رسول اللہ ﷺ یہ اشعار بآواز بلندپڑھ رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3034]
حدیث حاشیہ: حضرت مولانا وحید الزمان مرحوم نے ان اشعار کا ترجمہ اردو اشعار میں یوں کیا ہے۔ تو ہدایت گر نہ کرتا تو کہاں ملتی نجات کیسے پڑھتے ہم نمازیں کیسے دیتے ہم زکوٰۃ اب اتار ہم پر تسلی اے شہ عالی صفات پاؤں جموا دے ہمارے دے لڑائی میں ثبات بے سبب ہم پر یہ دشمن ظلم سے چڑھ آئے ہیں جب وہ بہکائیں ہمیں سنتے نہیں ہم ان کی بات ترجمۃ الباب میں حافظ صاحب ؒ فرماتے ہیں: وکان المصنف أشار في الترجمة بقوله ورفع الصوت في حفر الخندق إلی أن کراھة رفع الصوت مختصة بحالة القتال و ذل فیما أخرجه أبو داود من طریق قیس بن عباد قال کان أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم یکرھون الصوت عند القتال (فتح) یعنی حضرت امامؒ نے اس میں اشارہ فرمایا ہے کہ عین لڑائی کے وقت آواز بلند کرنا مکروہ ہے جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ اصحاب رسول لڑائی کے وقت آواز بلند کرنا مکروہ جانتے تھے۔ حالت قتال کے علاوہ مکروہ نہیں ہے جیسا کہ یہاں خندق کی کھدائی کے موقع پر مذکور ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3034
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4106
4106. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ غزوہ احزاب کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کو میں نے خود دیکھا کہ آپ خندق کھودتے اور اس کی مٹی بھی اٹھا اٹھا کر باہر لاتے تھے حتی کہ آپ کے بطن مبارک کی جلد گردوغبار سے اٹ گئی تھی جبکہ آپ کے سینے پر گھنے بال تھے۔ میں نے خود سنا کہ آپ ﷺ مٹی اٹھاتے ہوئے حضرت ابن رواحہ ؓ کے رجزیہ اشعار پڑھ رہے تھے: ”اے اللہ! اگر تو نہ ہوتا تو ہمیں سیدھا راستہ نہ ملتا۔ نہ ہم صدقہ کرتے اور نہ نماز پڑھتے۔ ہم پر اپنی طرف سے سکینت نازل فرما۔ اور اگر (دشمن سے) ہمارا آمنا سامنا ہو جائے تو ہمیں ثابت قدمی عطا فرما۔ یہ لوگ ہمارے خلاف چڑھ آئے ہیں۔ اور جب یہ (ہم سے) کوئی فتنہ چاہتے ہیں تو ہم ان کی بات نہیں مانتے بلکہ انکار کر دیتے ہیں۔“ راوی کہتا ہے کہ آپ ﷺ آخری کلمات کو خوب کھینچ کھینچ کر پڑھتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4106]
حدیث حاشیہ: حضرت مولانا وحیدالزمان مرحوم نے ان اشعار کا منظوم ترجمہ یوں کیاہے: تو ہدایت کر نہ کرتا توکہاں ملتی نجات کیسے پڑھتے ہم نمازیں کیسے دیتے ہم زکوۃ اب اتار ہم پرتسلی اے شہ عالی صفات! پاؤں جموا د ے ہمارے دے لڑائی میں ثبات بے سبب ہم پر یہ دشمن ظلم سےچڑھ آئے ہیں جب وہ بہکائیں ہمیں سنتے ہم ان کی بات
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4106
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3034
3034. حضرت براء ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے خندق کے دن رسول ا للہ ﷺ کو دیکھاکہ آپ خود مٹی اٹھا رہے تھے اور گرد و غبار نے آپ کے سینے کے بالوں کو ڈھانپ رکھا تھا اور آپ گھنے بالوں والے بہادر مرد تھے۔ اس وقت آپ حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ کے اشعار پڑھ رہے تھے: تو ہدایت گرنہ کرتا تو کہاں ملتی نجات۔۔۔ کیسے پڑھتے ہم نمازیں کیسے دیتے ہم زکاۃ۔۔۔ اب اتار ہم پر تسلی اے شہ عالی صفات۔۔۔ پاؤں جمادے ہمارے دے لڑائی میں ثبات۔۔۔ بے سبب ہم پر یہ کافر ظلم سے چڑھ آئے ہیں۔۔۔ جب وہ بہکائیں ہم سنتے نہیں ان کی بات۔۔۔ رسول اللہ ﷺ یہ اشعار بآواز بلندپڑھ رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3034]
حدیث حاشیہ: عرب لوگوں کی عادت تھی کہ وہ جنگ کے موقع پر جہادی ترانے گاتے تھے۔ اس سے نشاط،چستی اور ارادے میں پختگی پیدا ہوتی ہے ایسے موقع پر حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے بھی رجز یہ اشعار پڑھنے منقول ہیں جیسا کہ آئندہ حدیث میں اس کا ذکر ہوگا۔ (صحیح البخاري، حدیث: 3041) بہرحال عین جنگ کے موقع پر خاموشی اختیار کی جاتی اور جنگ کی تیاری کے وقت اشعار پڑھے جاتے تاکہ لڑنے والوں کی ہمت مضبوط ہو اور ان کے حوصلے بلند ہوجائیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3034
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4104
4104. حضرت براء ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ خندق کے دن مٹی اٹھاتے تھے حتی کہ غبار نے آپ کا پیٹ چھپ دیا تھا یا آپ کا پیٹ غبار آلود ہو چکا تھا اور آپ یہ اشعار پڑھتے تھے: ”اللہ کی قسم! اگر اللہ (کا کرم) نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے، نہ صدقہ کرتے اور نہ نماز پڑھتے۔ (اے اللہ!) ہم پر سکون و اطمینان نازل فرما۔ اور اگر ہم دشمن کا مقابلہ کریں تو ہمیں ثابت قدم رکھ۔ بلاشبہ ان لوگوں (اہل مکہ) نے ہم پر زیادتی کی ہے۔ جب انہوں نے فتنے کا ارادہ کیا تو ہم نے صاف انکار کر دیا۔“ ہم نے صاف انکار کر دیا، ہم نے صاف انکار کر دیا کہتے ہوئے آپ کی آواز بلند ہو جاتی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4104]
حدیث حاشیہ: عربوں کی عادت تھی کہ مشکل حالات میں اشعار کے ذریعے سے ان کے جذبات کو ابھارا جاتا، پھر وہ دل جمعی اور لگن سے اپنا کام سر انجام دیتے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ کے مذکورہ بالا اشعار سے یہی کلام لیا۔ حضرت انس ؓ کی روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے یہ اشعار پڑھے۔ ”اے اللہ! زندگی تو بس آخرت ہی کی ہے لہٰذا تو انصار اور مہاجرین کو معاف کردے۔ “ اور صحابہ کرام ؓ خندق کی مٹی اپنی کمر پر لادے یہ شعر پڑھ کر رسول اللہ ﷺ کو جواب دیتے۔ ”ہم وہ لوگ ہیں جنھوں نے حضرت محمد ﷺ کی بیعت کی ہے اس بات پر کہ جب تک زندہ رہیں گے اسلام کی خاطرزندہ رہیں گے۔ “(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4099)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4104
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4106
4106. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ غزوہ احزاب کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کو میں نے خود دیکھا کہ آپ خندق کھودتے اور اس کی مٹی بھی اٹھا اٹھا کر باہر لاتے تھے حتی کہ آپ کے بطن مبارک کی جلد گردوغبار سے اٹ گئی تھی جبکہ آپ کے سینے پر گھنے بال تھے۔ میں نے خود سنا کہ آپ ﷺ مٹی اٹھاتے ہوئے حضرت ابن رواحہ ؓ کے رجزیہ اشعار پڑھ رہے تھے: ”اے اللہ! اگر تو نہ ہوتا تو ہمیں سیدھا راستہ نہ ملتا۔ نہ ہم صدقہ کرتے اور نہ نماز پڑھتے۔ ہم پر اپنی طرف سے سکینت نازل فرما۔ اور اگر (دشمن سے) ہمارا آمنا سامنا ہو جائے تو ہمیں ثابت قدمی عطا فرما۔ یہ لوگ ہمارے خلاف چڑھ آئے ہیں۔ اور جب یہ (ہم سے) کوئی فتنہ چاہتے ہیں تو ہم ان کی بات نہیں مانتے بلکہ انکار کر دیتے ہیں۔“ راوی کہتا ہے کہ آپ ﷺ آخری کلمات کو خوب کھینچ کھینچ کر پڑھتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4106]
حدیث حاشیہ: غزوہ احزاب کے موقع پر مدینہ طیبہ کی قیادت نہایت بیدار مغز اور چوکس تھی وہ حالات کا جائزہ لے کرمناسب اقدام کرتی، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اتحادی فوجوں کی اطلاع پاتے ہی ہائی کمان کی مجلس شوری منعقد کی اور مدینے کا دفاع کرنے کا مشورہ کیا۔ حضرت سلمان فارسی ؓ نے تجویز دی کہ اللہ کے رسول اللہ ﷺ! فارس میں جب ہمارا محاصرہ کیا جاتا تھا تو ہم اپنے گرد خندق کھود لیتے تھے یہ بڑی باحکمت دفاعی تجویز تھی۔ اہل عرب اس سے واقف نہ تھے لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس پر فوراً عمل کرتے ہوئے صحابہ کرام ؓ کو خندق کھودنے کاکام سونپ دیا۔ رسول اللہ ﷺ اس کام کی ترغیب بھی دیتے تھے اور عملی طور پر اس میں حصہ بھی لیتے تھے۔ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی عملی شرکت اور آپ کی ترغیب کا بیان ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4106
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7236
7236. حضرت براء بن عازبؓ سے روایت ہے‘ انہوں نے کہا: غزوۂ خندق کے دن خود نبیﷺ ہمارے ساتھ مٹی اُٹھا رہے تھے۔ میں نے آپ کو دیکھا کہ مٹی نے آپ کے پیٹ کی سفید کو چھپا رکھا تھا۔ آپ فرماتے تھے: ”اے اللہ! اگر تو نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے نہ صدقہ کرتے اور نہ نماز پڑھتے‘ لہذا تو ہم پر دلجمعی نازل فرما۔ ان (دشمنوں) کی جماعت نے ہم پر ظلم ڈھایا ہے۔ جب یہ فتنہ چاہتے ہیں تو ہم ان کا انکار کرتے ہیں‘ ان کی بات نہیں مانتے“ اس کے ساتھ آپ اپنی آواز بلند کر دیتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7236]
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ عنوان کے ذریعے سے ایک دوسری روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: ”اللہ کی قسم! اگر اللہ نہ ہوتا تو ہم ہدایت یافتہ نہ ہوتے، نہ ہم صدقہ کرتے اور نہ نماز پڑھتے۔ “(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4104) 2۔ عربی زبان میں لفظ (لَوْلا) ایک چیز کے وجود سے دوسری چیز کے امتناع کے لیے آتا ہے۔ اگر اس کے ذریعے سے حق کومعلق کیاجائے جیساکہ مذکورہ حدیث میں ہے تو جائز بصورت دیگر اگرکسی باطل یا ناجائز کو معلق کیاجائے توصحیح نہیں کیونکہ جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے مقدر کیا ہے وہ ہرحال ہرصورت میں ہوکر رہے گی یہ اسے کرے یا نہ کرے۔ لفظ (لَوْلا) کے ذریعے سے ایک باطل چیز کومعلق کرنا اور اس کا عقیدہ رکھنا گویا تقدیر کی تکذیب کرناہے۔ (فتح الباري: 275/13)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7236