(مرفوع) حدثنا حجاج بن منهال، حدثنا جرير بن حازم، عن الحسن، عن عبد الرحمن بن سمرة، قال: قال لي النبي صلى الله عليه وسلم:" يا عبد الرحمن بن سمرة، لا تسال الإمارة، فإنك إن اعطيتها عن مسالة وكلت إليها، وإن اعطيتها عن غير مسالة اعنت عليها، وإذا حلفت على يمين، فرايت غيرها خيرا منها فكفر عن يمينك وات الذي هو خير".(مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: قَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ سَمُرَةَ، لَا تَسْأَلِ الْإِمَارَةَ، فَإِنَّكَ إِنْ أُعْطِيتَهَا عَنْ مَسْأَلَةٍ وُكِلْتَ إِلَيْهَا، وَإِنْ أُعْطِيتَهَا عَنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ أُعِنْتَ عَلَيْهَا، وَإِذَا حَلَفْتَ عَلَى يَمِينٍ، فَرَأَيْتَ غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا فَكَفِّرْ عَنْ يَمِينِكَ وَأْتِ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ".
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، ان سے حسن نے اور ان سے عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اے عبدالرحمٰن! حکومت کے طالب نہ بننا کیونکہ اگر تمہیں مانگنے کے بعد حکومت ملی تو تم اس کے حوالے کر دئیے جاؤ گے اور وہ تمہیں بلا مانگے ملی تو اس میں تمہاری (اللہ کی طرف سے) مدد کی جائے گی اور اگر تم نے قسم کھا لی ہو پھر اس کے سوا دوسری چیز میں بھلائی دیکھو تو اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دو اور وہ کام کرو جس میں بھلائی ہو۔“
Narrated `Abdur-Rahman bin Samura: The Prophet said, "O `Abdur-Rahman! Do not seek to be a ruler, for if you are given authority on your demand then you will be held responsible for it, but if you are given it without asking (for it), then you will be helped (by Allah) in it. If you ever take an oath to do something and later on you find that something else is better, then you should expiate your oath and do what is better."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 89, Number 260
لا تسأل الإمارة فإنك إن أعطيتها من غير مسألة أعنت عليها وإن أعطيتها عن مسألة وكلت إليها إذا حلفت على يمين فرأيت غيرها خيرا منها فأت الذي هو خير وكفر عن يمينك
لا تسأل الإمارة فإن أعطيتها عن مسألة وكلت إليها إن أعطيتها عن غير مسألة أعنت عليها إذا حلفت على يمين فرأيت غيرها خيرا منها فأت الذي هو خير وكفر عن يمينك
لا تسأل الإمارة فإنك إن أعطيتها عن مسألة وكلت إليها وإن أعطيتها عن غير مسألة أعنت عليها وإذا حلفت على يمين فرأيت غيرها خيرا منها فكفر عن يمينك وأت الذي هو خير
لا تسأل الإمارة فإنك إن أوتيتها عن مسألة وكلت إليها وإن أوتيتها من غير مسألة أعنت عليها إذا حلفت على يمين فرأيت غيرها خيرا منها فكفر عن يمينك وأت الذي هو خير
لا تسأل الإمارة فإنك إن أعطيتها عن مسألة وكلت إليها وإن أعطيتها عن غير مسألة أعنت عليها وإذا حلفت على يمين فرأيت غيرها خيرا منها فكفر عن يمينك وائت الذي هو خير
لا تسأل الإمارة فإنك إن أتتك عن مسألة وكلت إليها إن أتتك عن غير مسألة أعنت عليها إذا حلفت على يمين فرأيت غيرها خيرا منها فأت الذي هو خير ولتكفر عن يمينك
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7146
حدیث حاشیہ: غلط بات پر خواہ مخواہ اڑے رہنا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔ اگر غلط قسم کی صورت ہو تو اس کا کفارہ ادا کرنا ضروری ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7146
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7146
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حکومتی عہدہ یا عدالتی منصب خود طلب کرکے نہیں لیناچاہیے اور جسے خواہش کے بغیر کوئی حکومتی ذمہ دار مل جائے تو وہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اسے قبول کرے۔ ایسے بندوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ ان کی ضرور رہنمائی کرے گا جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: \" جو کوئی منصب قضا کا طالب ہوگا اور درخواست کرکے اسے حاصل کرے گا تو اسے کی ذات کے حوالے کردیا جائے گا اور جس شخص کو مجبور کرکے قاضی بنایاجائے تواللہ اس کی رہنمائی کے لیے فرشتہ اتار(مقررکر) دیتا ہے جو اسے ٹھیک ٹھیک چلاتا ہے۔ (جامع الترمذی الاحکام حدیث 1323) 2۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی مدد کی بھی وضاحت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فرشتہ اس کی رہنمائی کرے گا۔w
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7146
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1173
´(قسموں اور نذروں کے متعلق احادیث)` سیدنا عبدالرحمٰن بن سمرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جب تم کسی کام پر قسم کھاؤ اور اس کام کے خلاف کو بہتر دیکھو تو قسم کا کفارہ ادا کر دو اور جو بہتر ہے وہ کر لو۔“(بخاری و مسلم) اور بخاری کے الفاظ یہ ہیں کہ ” جو کام بہتر ہے اسے کرو اور قسم کا کفارہ ادا کرو۔“ اور ابوداؤد کی روایت میں اس طرح ہے کہ ” اپنی قسم کا کفارہ دے کر وہ کام کرو جو بہتر ہے۔“ دونوں احادیث کی سند صحیح ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1173»
تخریج: «أخرجه البخاري، الأيمان والنذور، باب قول الله تعالي: "لا يؤاخذكم الله باللغو في أيمانكم"، حديث:6622، ومسلم، الأيمان، باب ندب من حلف يمينًا فرأي غير ها خيرًا منها...، حديث:1652، وأبوداود، الأيمان والنذور، حديث:3277.»
تشریح: حدیث کے مجموعی الفاظ کفارے کی ادائیگی قسم توڑنے سے پہلے بھی اسی طرح جائز قرار دیتے ہیں جس طرح قسم توڑنے کے بعد۔ جمہور کا یہی مسلک ہے مگر احناف کے نزدیک قسم کا کفارہ قسم توڑنے سے پہلے ادا کرنا کسی صورت درست نہیں ہے۔ لیکن ابوداود کی مذکورہ حدیث ان کے خلاف حجت ہے کیونکہ اس میں کفارے کے بعد ثُـمَّ کے لفظ سے ”امر خیر“ کا حکم ہے‘ اور ثُـمَّ کا لفظ ترتیب کا مقتضی ہے۔
راویٔ حدیث: «حضرت عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ» ان کی کنیت ابوسعید ہے۔ شرف صحابیت سے مشرف ہیں۔ فتح مکہ کے بعد دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے۔ سجستان اور کابل کے فاتح ہیں۔ بصرہ میں سکونت پذیر ہوئے اور یہیں ۵۰ ہجری میں یا اس کے بعد وفات پائی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1173
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5386
´حکومت اور عہدہ منصب کی خواہش منع ہے۔` عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”منصب طلب مت کرو، اس لیے کہ اگر مانگے سے وہ تمہیں ملا تو تم اسی کے سپرد کر دئیے جاؤ گے ۱؎ اور اگر وہ تمہیں بن مانگے مل گیا تو تمہاری اس میں مدد ہو گی۔“[سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5386]
اردو حاشہ: (1) حکومت اور امارت ایک ذمے داری ہے جس کی جو اب دہی بھی کرنا ہوگی۔ کمی کوتاہی کی صورت میں سزا بھی بھگتنا ہوگی۔ اور کمی کوتاہی ہو جانا لازمی امر ہے، اس لیے خواہ مخواہ اس مصیبت کو گلے نہ ڈالا جائے، البتہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ذمہ داری آن پڑے، لوگ زبردستی گلے میں ڈال دیں تو اللہ کا نام لے کر سنبھال لے۔ اس صورت میں اللہ تعالیٰ کی توفیق بھی شامل حال ہوگی اور لوگ بھی تعاون کریں گے۔ (2)”اکیلا چھوڑ دیا جائے گا“ یعنی نہ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے گا نہ لوگوں کا تعاون حاصل ہوگا۔ ظاہر ہے، پھر صرف بدنامی ہی ہوگی اور ناکامی کا سامنا ہوگا۔ لفظی معنیٰ ہیں: ”تجھے امارت کے سپرد کر دیا جائےگا۔“(نیز دیکھیے: حدیث:5384)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5386
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2929
´حکومت و اقتدار کو طلب کرنا کیسا ہے؟` عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”اے عبدالرحمٰن بن سمرہ! امارت و اقتدار کی طلب مت کرنا کیونکہ اگر تم نے اسے مانگ کر حاصل کیا تو تم اس معاملے میں اپنے نفس کے سپرد کر دئیے جاؤ گے ۱؎ اور اگر وہ تمہیں بن مانگے ملی تو اللہ کی توفیق و مدد تمہارے شامل حال ہو گی ۲؎۔“[سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2929]
فوائد ومسائل: انسان کا کوئی معاملہ ایسا نہیں۔ جو اللہ عزوجل کی خاص رحمت اور مدد کے بغیر درست ہوسکے جب کہ حکومت تو بہت بڑی اور کٹھن ذمہ داری ہے۔ اس لئے مانگ کر حکومت لینا اللہ کی رحمت سے محرومی کا سبب بنتا ہے۔
2۔ حضرت یوسف ؑ کا یہ فرمانا کہ (اجْعَلْنِي عَلَىٰ خَزَائِنِ الْأَرْضِ)(یوسف:55) مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کر دیجئے۔ کسی منصب کے طلب کےلئے نہیں، بلکہ ایک عمومی پیش کش پر نوعیت کی تعین کے لئے تھا۔ کیونکہ یہ بات اس وقت انہوں نے کہی جب عزیز مصر نے ذمہ داری کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ (إِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِينٌ أَمِينٌ)(یوسف:54) آپ آج سے ہمارے ہاں ذی مرتبہ اور امانت دار ہیں، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جب ملک وقوم کے حالات دگرگوں ہوں اور کوئی باصلاحیت فرد نیک نیتی سے یہ سمجھتا ہو کہ وہ اس صورت حال سے عہدہ برآ ہ ہو سکتا ہے۔ تو اس کو آگے آنا چاہیے۔ ایسا شخص اگر امام عادل کے جیسے وصف سے موصوف ہو تو اس کے متعلق بشارتوں کا بھی اعلان ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2929
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1529
´کسی کام پر قسم کھانے کے بعد اس سے بہتر کام جان جائے تو اس کے حکم کا بیان۔` عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عبدالرحمٰن! منصب امارت کا مطالبہ نہ کرو، اس لیے کہ اگر تم نے اسے مانگ کر حاصل کیا تو تم اسی کے سپرد کر دیئے جاؤ گے ۱؎، اور اگر وہ تمہیں بن مانگے ملی تو اللہ کی مدد و توفیق تمہارے شامل ہو گی، اور جب تم کسی کام پر قسم کھاؤ پھر دوسرے کام کو اس سے بہتر سمجھو تو جسے تم بہتر سمجھتے ہو اسے ہی کرو اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دو۔“[سنن ترمذي/كتاب النذور والأيمان/حدیث: 1529]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی اللہ کی نصرت وتائید تمہیں حاصل نہیں ہوگی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1529
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7147
7147. سیدنا عبدالرحمن بن سمرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے مجھےفرمایا: ”اے عبدالرحمن!حکومتی مت طلب کرنا کیونکہ اگر تجھے طلب کرنے پر کوئی عہدہ ملا تم اس کے حوالے کردیے جاؤ گے اور اگر تمہیں طلب کیے بغیر کوئی ذمہ داری ملی تو اس میں تمہاری مدد کی جائے گی۔ اور اگر تم کسی بات پر قسم اٹھاؤ پھر اس کے سوا کسی دوسری چیز میں بہتری دیکھو تو اسے کرلو اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کرو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7147]
حدیث حاشیہ: اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ حاکم اعلیٰ اپنی حکومت میں قابل ترین افراد کو تلاش کرکے امور حکومت ان کے حوالے کرے اور جو لوگ خود لالچی ہوں ان کو کوئی ذمہ داری کا منصب سپرد نہ کرے۔ ایسے لوگ ادائیگی میں کامیاب نہیں ہوں گے، الا ماشاءاللہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7147
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6622
6622. حضرت عبدالرحمن بن سمرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: ”اے عبدالرحمن بن سمرہ! امارت طلب نہ کرنا کیونکہ اگر طلب کرنے سے تجھے امارت دی گئی تو تو اس کے سپرد کر دیا جائے گا اور اگر طلب کے بغیر تجھے امارت سونپ دی گئی تو تیری مدد کی جائے گی۔ اور جب تو قسم کھائے، پھر اس کی خلاف ورزی میں تجھے بہتری نظر آئے تو اپنی قسم توڑ کر اس کا کفارہ دے دو اور جو کام بہتر ہو اسے ضرور کرو،۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6622]
حدیث حاشیہ: اگر کوئی آدمی خود کسی کو منصب کے اہل سمجھتا ہے اور اسے معلوم ہے کہ کوئی دوسرا اس منصب پر آ کر ملک و ملت کا نقصان کرے گا تو امارت طلب کرنے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے وزارت مال کا قلمدان خود طلب کیا تھا۔ اس کی تفصیل کتاب الاحکام حدیث: 7146، 7147 میں بیان ہو گی، البتہ اس مقام پر یہ حدیث بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم اٹھاتا ہے لیکن وہ سمجھتا ہے کہ قسم توڑ کر وہ کام کرنا یا نہ کرنا بہتر ہے تو اپنی قسم کا کفارہ دے دے جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں ہے: ”اگر کوئی قسم اٹھاتا ہے، پھر دیکھتا ہے کہ اس کے غیر میں بھلائی ہے تو بہتر کام کو کرے اور اپنی قسم کو چھوڑ دے۔ “(مسند أحمد: 258/4) ایک حدیث میں ہے: ”بہتر کام کر گزرے اور اپنی قسم کا کفارہ دے دے۔ “(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 4277 (1651)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6622
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6722
6722. حضرت عبدالرحمن بن سمرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ازخود امارت کا سوال نہ کرو کیونکہ اگر تجھے یہ امات مانگے بغیر مل جائے تو اس پر تیری مدد کی جائے گی اور اگر تجھے مانگنے سے دی جائے تو تجھے اس کے سپرد کر دیا جائے گا، نیز جب تو کسی چیز کی قسم اٹھائے پھر اس کا غیر اس سے بہتر دیکھے تو وہ کرو جو بہتر ہو اور اپنی قسم کا کفارہ دے دو۔“ اشہل نے ابن عون سے روایت کرنے میں عثمان بن عمر کی متابعت کی ہے۔ اور یونس، سماک بن عطیہ، سماک بن حرب، حمید، قتادہ، منصور ہشام اور ربیع نے بھی ابن عون کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6722]
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قسم کا کفارہ، قسم توڑنے کے بعد ادا کیا جائے جبکہ صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے: ''اپنی قسم کا کفارہ دے دو اور وہ کام کرو جو بہتر ہو۔ '' (صحیح البخاری، الایمان والنذور، حدیث: 6622) اس روایت کا تقاضا ہے کہ قسم توڑنے سے پہلے بھی کفارہ دیا جا سکتا ہے، اس سے امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف ثابت ہوا کہ کفارہ، قسم توڑنے سے پہلے اور بعد میں دیا جا سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ واللہ اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6722
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7147
7147. سیدنا عبدالرحمن بن سمرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے مجھےفرمایا: ”اے عبدالرحمن!حکومتی مت طلب کرنا کیونکہ اگر تجھے طلب کرنے پر کوئی عہدہ ملا تم اس کے حوالے کردیے جاؤ گے اور اگر تمہیں طلب کیے بغیر کوئی ذمہ داری ملی تو اس میں تمہاری مدد کی جائے گی۔ اور اگر تم کسی بات پر قسم اٹھاؤ پھر اس کے سوا کسی دوسری چیز میں بہتری دیکھو تو اسے کرلو اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کرو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7147]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث میں اشارہ ہے کہ حاکم اعلیٰ کا کام ہے کہ وہ اپنی حکومت میں قابل ترین افراد کو تلاش کرکے امور حکومت ان کےحوالے کردے اور جو لوگ خود لالچی اور حریص ہوں انھیں کوئی منصب نہ دیاجائے۔ ایسے لوگ اسے چلانے میں ناکام رہیں گے۔ لیکن کوئی اگر اپنے اندرصلاحیت پاتا ہے اور حکومتی تقاضے پورے کرنے کی ہمت پاتا ہے اور اسے یہ بھی احساس ہے کہ اگر میں نے اسے حاصل نہ کیا تو نالائق آدمی اس پر قابض ہوجائے گا تو اس صورت میں عہدہ طلب کرنے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے وزارت مال کا قلمدان مانگ کرلیاتھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: \"یوسف علیہ السلام نے کہا: مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کردیجیے۔ میں ان کی حفاظت کرنے والا اور یہ کام میں جانتا بھی ہوں۔ \"(یوسف 12/55) 2۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حکومتی ذمہ داری محنت ومشقت سے خالی نہیں۔ اگراللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہوتو انسان کی دنیا تباہ اور آخرت برباد ہوجاتی ہے،اس لیے کوئی عقلمند اسے مانگ کر کرلینے کی جراءت نہیں کرتا اور اگر اپنے اندر صلاحیت پاتا ہے اور طلب کے بغیر اسے کوئی ذمہ داری دی جاتی ہے تواللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہوتی ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بشارت دی ہے۔ (فتح الباری 13/155) w
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7147