صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: اخلاق کے بیان میں
The Book of Al-Adab (Good Manners)
85. بَابُ إِكْرَامِ الضَّيْفِ وَخِدْمَتِهِ إِيَّاهُ بِنَفْسِهِ:
85. باب: مہمان کی عزت اور خود اس کی خدمت کرنا۔
(85) Chapter. To honour one’s guest and to serve him with one’s own hands.
حدیث نمبر: 6136
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا ابن مهدي، حدثنا سفيان، عن ابي حصين، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يؤذ جاره، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرا او ليصمت".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يُؤْذِ جَارَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ".
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن مہندی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ابوحصین نے، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اس پر لازم ہے کہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے، جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اس پر لازم ہے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اس پر لازم ہے کہ بھلی بات کہے ورنہ چپ رہے۔

Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "Whoever believes in Allah and the Last Day, should not hurt his neighbor and whoever believes in Allah and the Last Day, should serve his guest generously and whoever believes in Allah and the Last Day, should talk what is good or keep quiet."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 158


   صحيح البخاري6018عبد الرحمن بن صخرمن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يؤذ جاره من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرا أو ليصمت
   صحيح البخاري6138عبد الرحمن بن صخرمن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليصل رحمه من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرا أو ليصمت
   صحيح البخاري6475عبد الرحمن بن صخرمن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرا أو ليصمت من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يؤذ جاره من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه
   صحيح البخاري6136عبد الرحمن بن صخرمن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يؤذ جاره من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرا أو ليصمت
   صحيح مسلم174عبد الرحمن بن صخرمن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يؤذي جاره من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرا أو ليسكت
   صحيح مسلم173عبد الرحمن بن صخرمن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرا أو ليصمت من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم جاره من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه
   جامع الترمذي2500عبد الرحمن بن صخرمن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرا أو ليصمت
   سنن أبي داود5154عبد الرحمن بن صخرمن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يؤذ جاره من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرا أو ليصمت
   سنن أبي داود3749عبد الرحمن بن صخرالضيافة ثلاثة أيام ما سوى ذلك فهو صدقة
   سنن ابن ماجه3971عبد الرحمن بن صخرمن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرا أو ليسكت
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6136 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6136  
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں وضاحت ہے کہ میزبان کو اپنے خاص عطیے سے مہمان کا اکرام کرنا چاہیے۔
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی:
اللہ کے رسول! عطیے سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا:
ایک دن اور ایک رات اور مہمان نوازی تین دن تک، اس سے زائد صدقہ ہے۔
(صحیح مسلم، اللقطة، حدیث: 4513(48)
ایک دوسری حدیث میں ہے:
مہمان کی ایک رات ضیافت تو ہر مسلمان پر واجب ہے۔
اگر اس نے محرومی کی حالت میں اس کے ہاں صبح کی تو اس کے لیے میزبان پر قرض ہو گا، اگر چاہے تو اس سے مطالبہ کر لے اور اگر چاہے تو اسے چھوڑ دے۔
(سنن ابن ماجة، الأدب، حدیث: 3677) (2)
ہمارے رجحان کے مطابق چند وجوہات کی بنا پر مہمان کی ضیافت کرنا واجب ہے:
٭ ضیافت کو اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان کی فرع قرار دیا گیا ہے۔
٭ تین دن سے زائد صدقہ ہے کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے واجب ہے۔
٭ مذکورہ بالا ابن ماجہ کی روایت میں اس کے واجب ہونے کی صراحت ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6136   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3971  
´فتنہ میں زبان بند رکھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیئے کہ وہ اچھی بات کہے، یا خاموش رہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3971]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بری بات کہنے سے اجتناب ایمان کا تقاضہ ہے۔

(2)
فضول باتیں کرنے سے اجتناب کرنا اور خاموش رہنا اچھی عادت ہے۔

(3)
بے فائدہ باتوں میں مشغول رہنے سے ذکر الہی اور تلاوت وغیرہ میں مشغول رہنا بہت ہی بہتر ہے۔
اس کی وجہ سے گناہ سے حفاظت ہوتی ہے اور نیکیاں زیادہ ہوتی ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3971   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2500  
´باب:۔۔۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ اپنے مہمان کی عزت کرے، اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ بھلی بات کہے یا خاموش رہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2500]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہوا کہ بولنے سے پہلے بولنے والا خوب سوچ سمجھ لے تب بولے،
یا پھر خاموش ہی رہے تو بہتر ہے،
کہیں ایسا نہ ہو کہ بھلی بات بھی الٹے نقصان دہ ہوجائے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2500   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6018  
6018. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو کوئی اللہ پر ایمان اور آخرت پر یقین رکھتا ہو اسے چاہئے کہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے۔ جو شخص اللہ پر ایمان اور آخرت پر یقین رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔ اور کوئی اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کہے یا پھر خاموش رہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6018]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ ایمان کا تقاضا ہے کہ پڑوسی کو دکھ نہ دیا جائے۔
مہمان کی عزت کی جائے، زبان کو قابو میں رکھا جائے، ورنہ ایمان کی خیر منانی چاہیئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6018   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6138  
6138. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جو شخص اللہ پر ایمان اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہے اسے چایئے کہ وہ صلہ رحمی کرے۔ اور جو اللہ پر ایمان اور قیامت رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اچھی بات کرے یا پھر خاموش رہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6138]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں جو صفات حسنہ مذکور ہوئی ہیں وہ اتنی اہم ہیں کہ ان سے محروم رہنے والے آدمی کو ایمان سے محروم کہا جا سکتا ہے۔
مہمان کا اکرام کرنا، صلہ رحمی کرنا، زبان قابو میں رکھنا یہ بڑی ہی اونچی خوبیاں ہیں جو ہر مسلمان کے اندر ہونی ضروری ہیں، ورنہ خالی نماز روزہ بے وزن ہوکر رہ جائیں گے۔
آج کل کتنے ہی نمازی مدعیان دین ہیں جو محض لفافہ ہیں اندر کچھ نہیں ہے۔
بے مغز بے کار محض ہوتی ہے، کتنے نام نہاد علماء وحفاظ بھی ایسے ہوتے ہیں جو محض ریا ونمود کے طلب گار ہوتے ہیں۔
إلا ماشاء اللہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6138   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6475  
6475. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص کا اللہ پر ایمان اور قیامت پر یقین ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔ اور جو کوئی اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور جس شخص کا اللہ اور یوم آخرت پر ایمان ہے وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6475]
حدیث حاشیہ:
قسطلانی نے کہا اللہ کی رضامندی کی بات یہ ہے کہ کسی مسلمان کی بھلائی کی بات کہے جس سے اس کو فائدہ پہنچے اور ناراضی کی بات یہ ہے کہ مثلاً ظالم بادشاہ یا حاکم سے مسلمان بھائی کی برائی کرے اس نیت سے کہ اس کو ضرر پہنچے۔
ابن عبد البر سے ایساہی منقول ہے۔
ابن عبد السلام نے کہا ناراضی کی بات سے وہ بات مراد ہے جس کا حسن اور قبح معلوم نہ ہو ایسی بات منہ سے نکالنا حرام ہے۔
تمام حکمت اور اخلاق کا خلاصہ اور اصل الاصول یہ ہے کہ آدمی سوچ کر بات کہے بن سوچے جو منہ پرآئے کہہ دینا نادانوں کا کام ہے بہت لوگ ایسے ہیں کہ بات جان کر بھی اس پر عمل نہیں کرتے اور ٹر ٹر بے فائدہ باتیں کئے جاتے ہیں ایسا علم بغیر عمل کے کیا فائدہ دے گا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6475   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6138  
6138. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جو شخص اللہ پر ایمان اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہے اسے چایئے کہ وہ صلہ رحمی کرے۔ اور جو اللہ پر ایمان اور قیامت رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اچھی بات کرے یا پھر خاموش رہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6138]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض حضرات کا خیال ہے کہ میزبانی وصول کرنے کا حکم ابتدائے اسلام میں عربوں کے ہاں رائج دستور کے مطابق تھا کہ مہمان، میزبان سے اپنا حق چھین لے۔
آج کل ہوٹلوں کا دور ہے، مسافر کو کھانے پینے کے معاملے میں کسی قسم کی وقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا لیکن حدیث کا تقاضا یہی ہے کہ مہمانوں کی خبر گیری کی جائے اور ایسا کرنا اہل اسلام کے لیے ضروری ہے۔
(2)
مذکورہ بالا حدیث کے مطابق اگر مہمان نوازی نہ کی جائے تو مہمان کو اپنا حق چھین لینے کی اجازت ہے، اس کے عدم وجوب پر جو تاویل پیش کی گئی ہے اس کی کتاب و سنت میں کوئی دلیل نہیں ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6138   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.