صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: اخلاق کے بیان میں
The Book of Al-Adab (Good Manners)
28. بَابُ الْوَصَاةِ بِالْجَارِ:
28. باب: پڑوسی کے حقوق کا بیان۔
(28) Chapter. To recommend to be kind to one’s neighbour.
حدیث نمبر: 6015
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن منهال، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا عمر بن محمد، عن ابيه، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما زال جبريل يوصيني بالجار حتى ظننت انه سيورثه".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ".
ہم سے محمد بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے عمر بن محمد نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبرائیل علیہ السلام مجھے اس طرح باربار پڑوسی کے حق میں وصیت کرتے رہے کہ مجھے خیال گزرا کہ شاید پڑوسی کو وراثت میں شریک نہ کر دیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrates Ibn `Umar: Allah' Apostle said, Gabriel kept on recommending me about treating the neighbors in a kind and polite manner, so much so that I thought that he would order (me) to make them (my) heirs."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 44


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري6015عبد الله بن عمرما زال جبريل يوصيني بالجار حتى ظننت أنه سيورثه
   صحيح مسلم6687عبد الله بن عمرما زال جبريل يوصيني بالجار حتى ظننت أنه سيورثه

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6015 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6015  
حدیث حاشیہ:
(1)
اسلام میں پڑوس کی بہت اہمیت ہے، خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر، عبادت گزار ہو یا فاسق و فاجر، دوست ہو یا دشمن، اپنا ہویا بیگانہ، قریبی ہو یا اجنبی، خیرخواہ ہو یا بدخواہ ہر قسم کے پڑوسی کے ساتھ خیر خواہی کرنے کا حکم ہے۔
(2)
پڑوسی تین طرح کے ہوتے ہیں:
ایک وہ جو مشرک ہو۔
اس کا صرف ایک حق ہے۔
دوسرا وہ جو مسلمان ہو۔
اس کے دو حق ہیں:
ایک پڑوسی ہونے کا دوسرا مسلمان ہونے کا، تیسرا وہ جو رشتے دار بھی ہو۔
اس کے تین حق ہیں:
ایک پڑوس کا، دوسرا اسلام کا اور تیسرا رشتے داری کا۔
دور جاہلیت میں بھی لوگ ہمسائیگی کے حق ادا کرتے تھے، اسلام نے بھی اسے برقرار رکھا ہے۔
(3)
مذکورہ احادیث سے بھی ہمسائے کی حیثیت کا پتا چلتا ہے، حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما جب گھر میں بکری ذبح کرتے تو اپنے ایک یہودی پڑوسی کے گھر اس کا گوشت ضرور بھیجتے۔
(سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 5152)
ان احادیث کا سبب ورود یہ ہے کہ ایک انصاری صحابی اپنے گھر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کے لیے نکلے تو انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک شخص سے محو گفتگو پایا۔
وہ بیٹھ کر انتظار کرتے رہے، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تادیر کھڑے دیکھ کر اسے آپ پر ترس آنے لگا....۔
آخر کار جب ملاقات ہوئی تو آپ نے فرمایا:
کیا تجھے علم ہے کہ یہ کون تھے؟ میں نے کہا:
نہیں۔
آپ نے فرمایا:
یہ جبرئیل علیہ السلام تھے جو مجھے پڑوسی کے متعلق وصیت کررہے تھے، یہاں تک کہ مجھے شک گزرا کہ وہ میرا وارث بن جائے گا۔
(مسند أحمد: 32/5)
اگرچہ پڑوسی مالی ترکے میں وارچ نہیں ہوتا، تاہم وہ علمی جائیداد میں وراثت کا حق دار ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6015   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.