(مرفوع) حدثني محمد، قال: اخبرني مخلد، قال: اخبرني ابن جريج، قال: اخبرني عبيد الله بن حفص، ان عمر بن نافع، اخبره عن نافع مولى عبد الله، انه سمع ابن عمر رضي الله عنهما، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ينهى عن القزع" قال عبيد الله: قلت: وما القزع؟ فاشار لنا عبيد الله قال:" إذا حلق الصبي وترك ها هنا شعرة وههنا وههنا، فاشار لنا عبيد الله إلى ناصيته وجانبي راسه" قيل لعبيد الله: فالجارية والغلام، قال: لا ادري، هكذا قال: الصبي، قال عبيد الله: وعاودته، فقال:" اما القصة والقفا للغلام فلا باس بهما، ولكن القزع ان يترك بناصيته شعر وليس في راسه غيره، وكذلك شق راسه هذا وهذا".(مرفوع) حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَخْلَدٌ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ حَفْصٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ نَافِعٍ، أَخْبَرَهُ عَنْ نَافِعٍ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَنْهَى عَنِ الْقَزَعِ" قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: قُلْتُ: وَمَا الْقَزَعُ؟ فَأَشَارَ لَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ قَالَ:" إِذَا حَلَقَ الصَّبِيَّ وَتَرَكَ هَا هُنَا شَعَرَةً وَهَهُنَا وَهَهُنَا، فَأَشَارَ لَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ إِلَى نَاصِيَتِهِ وَجَانِبَيْ رَأْسِهِ" قِيلَ لِعُبَيْدِ اللَّهِ: فَالْجَارِيَةُ وَالْغُلَامُ، قَالَ: لَا أَدْرِي، هَكَذَا قَالَ: الصَّبِيُّ، قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: وَعَاوَدْتُهُ، فَقَالَ:" أَمَّا الْقُصَّةُ وَالْقَفَا لِلْغُلَامِ فَلَا بَأْسَ بِهِمَا، وَلَكِنَّ الْقَزَعَ أَنْ يُتْرَكَ بِنَاصِيَتِهِ شَعَرٌ وَلَيْسَ فِي رَأْسِهِ غَيْرُهُ، وَكَذَلِكَ شَقُّ رَأْسِهِ هَذَا وَهَذَا".
مجھ سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا کہ مجھے مخلد بن یزید نے خبر دی، کہا کہ مجھے ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے عبیداللہ بن حفص نے خبر دی، انہیں عمرو بن نافع نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے غلام نافع نے کہ انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ نے «قزع.» سے منع فرمایا، عبیداللہ کہتے ہیں کہ میں نے نافع سے پوچھا کہ «قزع.» کیا ہے؟ پھر عبیداللہ نے ہمیں اشارہ سے بتایا کہ نافع نے کہا کہ بچہ کا سر منڈاتے وقت کچھ یہاں چھوڑ دے اور کچھ بال وہاں چھوڑ دے۔ (تو اسے «قزع.» کہتے ہیں) اسے عبیداللہ نے پیشانی اور سر کے دونوں کناروں کی طرف اشارہ کر کے ہمیں اس کی صورت بتائی۔ عبیداللہ نے اس کی تفسیر یوں بیان کی یعنی پیشانی پر کچھ بال چھوڑ دیئے جائیں اور سر کے دونوں کونوں پر کچھ بال چھوڑ دیئے جائیں۔ پھر عبیداللہ سے پوچھا گیا کہ اس میں لڑکا اور لڑکی دونوں کا ایک ہی حکم ہے؟ فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں۔ نافع نے صرف لڑکے کا لفظ کہا تھا۔ عبیداللہ نے بیان کیا کہ میں نے عمرو بن نافع سے دوبارہ اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ لڑکے کی کنپٹی یا گدی پر چوٹی کے بال اگر چھوڑ دیئے جائیں تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن «قزع.» یہ ہے کہ پیشانی پر بال چھوڑ دیئے جائیں اور باقی سب منڈوائے جائیں اسی طرح سر کے اس جانب میں اور اس جانب میں۔
Narrated Ubaidullah bin Hafs: that `Umar bin Nafi` told him that Nafi`, Maula `Abdullah had heard `Umar saying, "I heard Allah's Apostle forbidding Al-Qaza'." 'Ubaidullah added: I said, "What is Al-Qaza'?" 'Ubaidullah pointed (towards his head) to show us and added, "Nafi` said, 'It is when a boy has his head shaved leaving a tuft of hair here and a tuft of hair there." Ubaidullah pointed towards his forehead and the sides of his head. 'Ubaidullah was asked, "Does this apply to both girls and boys?" He said, "I don't know, but Nafi` said, 'The boy.'" 'Ubaidullah added, "I asked Nafi` again, and he said, 'As for leaving hair on the temples and the back part of the boy's head, there is no harm, but Al-Qaza' is to leave a tuft of hair on his forehead unshaved while there is no hair on the rest of his head, and also to leave hair on either side of his head.'"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 72, Number 803
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5053
´قزع یعنی کچھ بال رکھنا اور کچھ منڈانا منع ہے۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اللہ تعالیٰ نے «قزع»(سر کے کچھ بال منڈانے اور کچھ رکھ چھوڑنے) سے منع کیا ہے۔“[سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5053]
اردو حاشہ: یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ منکر ہے۔ محقق کتاب کا اسے بخاری و مسلم کی طرف منسوب کرنا درست نہیں کیونکہ بخاری ومسلم کا سیاق آئندہ روایت کے مطابق ہے۔ دیکھئے: (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی:38؍13)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5053
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5054
´قزع یعنی کچھ بال رکھنا اور کچھ منڈانا منع ہے۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «قزع»(سر کے کچھ بال منڈانے اور کچھ رکھ چھوڑنے) سے منع فرمایا ہے۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: یحییٰ بن سعید اور محمد بن بشر کی حدیث زیادہ قرین صواب ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5054]
اردو حاشہ: قزع سے مراد یہ ہے کہ سر کہیں سے مونڈ دیا جائے کہیں سے چھوڑ دیا جائے۔ منع کی وجہ حدیث نمبر5051 میں دیکھئے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5054
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4193
´چوٹی (زلف) رکھنا کیسا ہے؟` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «قزع» سے منع فرمایا ہے، اور «قزع» یہ ہے کہ بچے کا سر مونڈ دیا جائے اور اس کے کچھ بال چھوڑ دئیے جائیں۔ [سنن ابي داود/كتاب الترجل /حدیث: 4193]
فوائد ومسائل: ہمارے ہاں آج کل برگر کٹ کے نام سے جو آدھا سر مونڈ دیا جا تا ہے، اس حدیث کی روشنی میں جائز نہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4193
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4194
´چوٹی (زلف) رکھنا کیسا ہے؟` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے «قزع» سے منع فرمایا ہے، اور «قزع» یہ ہے کہ بچے کا سر مونڈ دیا جائے اور اس کی چوٹی چھوڑ دی جائے۔ [سنن ابي داود/كتاب الترجل /حدیث: 4194]
فوائد ومسائل: اہلِ بدعت میں یہ مروج ہے کہ وہ اپنے بعض پیروں اور بزرگوں کے نام سے کچھ بال نہیں کاٹتےایک لٹ باقی رکھتے ہیں تو ان کا یہ عمل حرام ہے، کیونکہ یہ نظر غیراللہ ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4194
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3638
´قزع سے ممانعت کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «قزع» سے منع فرمایا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3638]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1)(قزع) کے لغوی معنی ہیں: بادل کے متفرق ٹکڑے۔ حدیث میں اس کا مطلب وہى جو حضرت ابن عمر ؓ نے بیان فرمایا۔
(2) اس سےممانعت کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ اہل کتاب کے احبار و رہبان اس طرح کرتے تھے۔ اور یہ وجہ بھی کہ یہ فاسق لوگوں کا طریقہ تھا۔
(3) آج کل سر پر لمبے بال رکھ کر گردن سے صاف کر دئے جاتے ہیں۔ اور گردن سے بتدریج بڑے ہوتے جاتے ہیں۔ خاص طور پر فوجیوں اور پولیس والوں کے بال کاٹنے کا خاص انداز بھی اس سے ملتا جلتا ہے اس میں زیادہ حصے کے بال کاٹے جاتے ہیں۔ یہ طریقہ بھی قزع سے ایک لحاظ سے مشابہہ اور خلاف شریعت ہے اس لئے اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
(4) کسی بیماری یا دوسرے عذر کی وجہ سے اگر سر کے ایک حصے کے بال اتارنے پڑیں تو جائز ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3638
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5559
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قزع سے منع فرمایا، عبیداللہ نے نافع سے دریافت کیا، قزع کسے کہتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا، بچے کے سر کا بعض حصہ مونڈ دیا جائے اور بعض کو چھوڑ دیا جائے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:5559]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: امام نووی نے لکھا ہے، قَزَعِ کی صحیح تعریف یہی ہے، جو نافع نے کی ہے، اگرچہ بعض نے یہ کہا ہے کہ قزع متفرق مقامات سے بال مونڈنے کا نام ہے، لیکن عبیداللہ سے بخاری شریف میں جو تعریف منقول ہے، وہ یہی ہے کہ إذا حلق الصبي وترك ههنا شعرة وههنا وههنا، جس کا معنی ہے پیشانی اور سر کے دونوں جوانب سے بال مونڈنا اور درمیان میں بال چھوڑ دینا، نیز عبیداللہ نے نافع سے نقل کیا ہے، لڑکے کے لیے کنپٹی اور گدی کے بال منڈوانے میں کوئی حرج نہیں ہے، امام نووی نے لکھا ہے، علماء کا اس پر اجماع ہے، قزع اگر مختلف مقامات سے ہو تو مکروہ تنزیہی ہے، الا یہ کہ علاج وغیرہ کے لیے ہو، شوافع کے نزدیک مرد اور عورت دونوں کے لیے بلا قید مکروہ ہے اور امام مالک کے نزدیک لڑکے اور لڑکی کے لیے بھی بلا قید مکروہ ہے، جبکہ بعض مالکیوں کا خیال ہے، کنپٹی اور گدی کے بال لڑکے کے لیے منڈوانا مکروہ نہیں ہے، اور قزع کے مکروہ ہونے کی وجہ خلقت کو بگاڑنا اور برے لوگوں کی روش اختیار کرنا ہے اور سنن ابی داود کی ایک روایت کی رو سے یہ یہودیوں کی شکل اور ہئیت ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5559
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5921
5921. حضرت ابن عمر ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ''قزع' سے منع فرمایا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5921]
حدیث حاشیہ: (1) ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچے کو دیکھا اس کے کچھ بال مونڈ دیے گئے تھے اور کچھ چھوڑے ہوئے تھے تو آپ نے انہیں اس سے منع فرمایا اور کہا: اس کے سارے بال مونڈ دو یا سارے بال رکھو۔ (سنن أبي داود، الترجل، حدیث: 4195) اس کی ممانعت اس لیے ہے کہ اہل کتاب کے احبار و رہبان اس طرح کرتے تھے اور یہ فاسق لوگوں کا طریقہ تھا، نیز اس انداز سے خلقت میں قباحت معلوم ہوتی ہے۔ (فتح الباري: 448/10)(2) دور حاضر میں سر پر بال رکھ کر گردن سے صاف کر دیے جاتے ہیں پھر گردن کے اوپر سے بتدریج بڑے ہوتے جاتے ہیں، خاص طور پر فوجیوں اور پولیس والوں کے بال اس طرح کاٹے جاتے ہیں جسے فوجی کٹ کہا جاتا ہے۔ یہ طریقہ بھی قزع سے ملتا جلتا ہے، اس لیے اس انداز سے بھی بچنا چاہیے۔ آج کل "برگر کٹ" کے نام سے جو آدھا سر یا اس سے کم حصہ مونڈ دیا جاتا ہے وہ اس قزع کی زد میں آتا ہے۔ (3) بہرحال مسلمانوں کو مشرکین اور کفار کی نقالی سے ہر حال میں بچنا چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ لباس اور حجامت میں اسلامی ثقافت کو رواج دیں اور اسے اختیار کریں۔ نوجوانانِ اسلام کو ایسی غلط روایات کے خلاف جہاد کرنا چاہیے، خاص طور پر ہپی ازم بال رکھنے کی اسلام میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5921