ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبداللہ بن مثنیٰ بن عبداللہ بن انس بن مالک نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «قزع.» سے منع فرمایا تھا۔
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5921
حدیث حاشیہ: (1) ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچے کو دیکھا اس کے کچھ بال مونڈ دیے گئے تھے اور کچھ چھوڑے ہوئے تھے تو آپ نے انہیں اس سے منع فرمایا اور کہا: اس کے سارے بال مونڈ دو یا سارے بال رکھو۔ (سنن أبي داود، الترجل، حدیث: 4195) اس کی ممانعت اس لیے ہے کہ اہل کتاب کے احبار و رہبان اس طرح کرتے تھے اور یہ فاسق لوگوں کا طریقہ تھا، نیز اس انداز سے خلقت میں قباحت معلوم ہوتی ہے۔ (فتح الباري: 448/10)(2) دور حاضر میں سر پر بال رکھ کر گردن سے صاف کر دیے جاتے ہیں پھر گردن کے اوپر سے بتدریج بڑے ہوتے جاتے ہیں، خاص طور پر فوجیوں اور پولیس والوں کے بال اس طرح کاٹے جاتے ہیں جسے فوجی کٹ کہا جاتا ہے۔ یہ طریقہ بھی قزع سے ملتا جلتا ہے، اس لیے اس انداز سے بھی بچنا چاہیے۔ آج کل "برگر کٹ" کے نام سے جو آدھا سر یا اس سے کم حصہ مونڈ دیا جاتا ہے وہ اس قزع کی زد میں آتا ہے۔ (3) بہرحال مسلمانوں کو مشرکین اور کفار کی نقالی سے ہر حال میں بچنا چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ لباس اور حجامت میں اسلامی ثقافت کو رواج دیں اور اسے اختیار کریں۔ نوجوانانِ اسلام کو ایسی غلط روایات کے خلاف جہاد کرنا چاہیے، خاص طور پر ہپی ازم بال رکھنے کی اسلام میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5921
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5053
´قزع یعنی کچھ بال رکھنا اور کچھ منڈانا منع ہے۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اللہ تعالیٰ نے «قزع»(سر کے کچھ بال منڈانے اور کچھ رکھ چھوڑنے) سے منع کیا ہے۔“[سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5053]
اردو حاشہ: یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ منکر ہے۔ محقق کتاب کا اسے بخاری و مسلم کی طرف منسوب کرنا درست نہیں کیونکہ بخاری ومسلم کا سیاق آئندہ روایت کے مطابق ہے۔ دیکھئے: (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی:38؍13)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5053
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5054
´قزع یعنی کچھ بال رکھنا اور کچھ منڈانا منع ہے۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «قزع»(سر کے کچھ بال منڈانے اور کچھ رکھ چھوڑنے) سے منع فرمایا ہے۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: یحییٰ بن سعید اور محمد بن بشر کی حدیث زیادہ قرین صواب ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5054]
اردو حاشہ: قزع سے مراد یہ ہے کہ سر کہیں سے مونڈ دیا جائے کہیں سے چھوڑ دیا جائے۔ منع کی وجہ حدیث نمبر5051 میں دیکھئے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5054
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4193
´چوٹی (زلف) رکھنا کیسا ہے؟` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «قزع» سے منع فرمایا ہے، اور «قزع» یہ ہے کہ بچے کا سر مونڈ دیا جائے اور اس کے کچھ بال چھوڑ دئیے جائیں۔ [سنن ابي داود/كتاب الترجل /حدیث: 4193]
فوائد ومسائل: ہمارے ہاں آج کل برگر کٹ کے نام سے جو آدھا سر مونڈ دیا جا تا ہے، اس حدیث کی روشنی میں جائز نہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4193
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4194
´چوٹی (زلف) رکھنا کیسا ہے؟` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے «قزع» سے منع فرمایا ہے، اور «قزع» یہ ہے کہ بچے کا سر مونڈ دیا جائے اور اس کی چوٹی چھوڑ دی جائے۔ [سنن ابي داود/كتاب الترجل /حدیث: 4194]
فوائد ومسائل: اہلِ بدعت میں یہ مروج ہے کہ وہ اپنے بعض پیروں اور بزرگوں کے نام سے کچھ بال نہیں کاٹتےایک لٹ باقی رکھتے ہیں تو ان کا یہ عمل حرام ہے، کیونکہ یہ نظر غیراللہ ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4194
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3638
´قزع سے ممانعت کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «قزع» سے منع فرمایا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3638]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1)(قزع) کے لغوی معنی ہیں: بادل کے متفرق ٹکڑے۔ حدیث میں اس کا مطلب وہى جو حضرت ابن عمر ؓ نے بیان فرمایا۔
(2) اس سےممانعت کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ اہل کتاب کے احبار و رہبان اس طرح کرتے تھے۔ اور یہ وجہ بھی کہ یہ فاسق لوگوں کا طریقہ تھا۔
(3) آج کل سر پر لمبے بال رکھ کر گردن سے صاف کر دئے جاتے ہیں۔ اور گردن سے بتدریج بڑے ہوتے جاتے ہیں۔ خاص طور پر فوجیوں اور پولیس والوں کے بال کاٹنے کا خاص انداز بھی اس سے ملتا جلتا ہے اس میں زیادہ حصے کے بال کاٹے جاتے ہیں۔ یہ طریقہ بھی قزع سے ایک لحاظ سے مشابہہ اور خلاف شریعت ہے اس لئے اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
(4) کسی بیماری یا دوسرے عذر کی وجہ سے اگر سر کے ایک حصے کے بال اتارنے پڑیں تو جائز ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3638
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5559
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قزع سے منع فرمایا، عبیداللہ نے نافع سے دریافت کیا، قزع کسے کہتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا، بچے کے سر کا بعض حصہ مونڈ دیا جائے اور بعض کو چھوڑ دیا جائے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:5559]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: امام نووی نے لکھا ہے، قَزَعِ کی صحیح تعریف یہی ہے، جو نافع نے کی ہے، اگرچہ بعض نے یہ کہا ہے کہ قزع متفرق مقامات سے بال مونڈنے کا نام ہے، لیکن عبیداللہ سے بخاری شریف میں جو تعریف منقول ہے، وہ یہی ہے کہ إذا حلق الصبي وترك ههنا شعرة وههنا وههنا، جس کا معنی ہے پیشانی اور سر کے دونوں جوانب سے بال مونڈنا اور درمیان میں بال چھوڑ دینا، نیز عبیداللہ نے نافع سے نقل کیا ہے، لڑکے کے لیے کنپٹی اور گدی کے بال منڈوانے میں کوئی حرج نہیں ہے، امام نووی نے لکھا ہے، علماء کا اس پر اجماع ہے، قزع اگر مختلف مقامات سے ہو تو مکروہ تنزیہی ہے، الا یہ کہ علاج وغیرہ کے لیے ہو، شوافع کے نزدیک مرد اور عورت دونوں کے لیے بلا قید مکروہ ہے اور امام مالک کے نزدیک لڑکے اور لڑکی کے لیے بھی بلا قید مکروہ ہے، جبکہ بعض مالکیوں کا خیال ہے، کنپٹی اور گدی کے بال لڑکے کے لیے منڈوانا مکروہ نہیں ہے، اور قزع کے مکروہ ہونے کی وجہ خلقت کو بگاڑنا اور برے لوگوں کی روش اختیار کرنا ہے اور سنن ابی داود کی ایک روایت کی رو سے یہ یہودیوں کی شکل اور ہئیت ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5559
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5920
5920. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ قزع سے منع فرمایا کرتے تھے۔ (راوی حدیث) عبید اللہ کہتے ہیں۔ میں نے پوچھا قزع کیا ہے؟ پھر عبید اللہ نے ہمیں اشارے سے بتایا کہ بچےکا سر منڈواتے وقت کچھ بال یہاں چھوڑ دیے جائیں اور کچھ بال وہاں چھوڑ دیے جائیں۔ عبید اللہ نے اپنی پیشانی اور اپنے سر کے دونوں کناروں کی طرف اشارہ کر کے ہمیں اس کی صورت سے آگاہ کیا۔ عبید اللہ سے پوچھا گیا: اس میں لڑکے اور لڑکی دونوں کا ایک حکم ہے؟ فرمایا: مجھے معلوم نہیں، حضرت عمر بن نافع نے صرف بچے کا لفظ کہا تھا۔ عبید اللہ نے کہا: میں نے عمر بن نافع سے دوبارہ اس کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ لڑکے کی پیشانی اور گدی کے بال مونڈھنے میں کوئی حرج نہیں لیکن قزع یہ ہے کہ پیشانی کے بال چھوڑدیے جائیں اس کے سوا سر پر کوئی بال نہ ہو اس طرح سر کے اس طرف اور اس طرف یعنی دائیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:5920]
حدیث حاشیہ: بال چھوڑنے کو قزع کہتے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5920