فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5240
´بالوں میں مانگ نکالنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بال چھوڑ دیتے تھے اور کفار و مشرکین بالوں میں مانگ نکالتے تھے، آپ ایسے معاملات میں جن میں کوئی حکم نہ ملتا اہل کتاب (یہود و نصاری) کی موافقت پسند فرماتے تھے، پھر اس کے بعد آپ نے بھی مانگ نکالی۔ [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5240]
اردو حاشہ:
(1) عادات میں جب تک نہی نہ آئے جواز قائم رہتا ہے۔ چونکہ مانگ نکالنے سے نہی وارد نہیں ہوئی لہٰذا مانگ نکالنا جائز ہے اور نہ نکالنا بھی جائز ہے کیونکہ نکالنے کا حکم وارد نہیں۔ آپ سے مانگ نکالنا بھی ثابت ہے اور نہ نکالنا بھی۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس کی بابت شریعت نے کوئی مخصوص حکم نہیں دیا۔ حالات کے تحت دونوں میں سے کسی کو بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔ ایسے مسائل میں آپ کا اہل کتاب کی موافقت کرنا ان کی تالیف قلب کے لیے تھا کہ شاید وہ اسلام کی طرف مائل ہو جائیں مگر جب محسوس فرمایا کہ ان کے لیے موافقت بھی مفید نہیں تو آپ نے ان کی موافقت چھوڑ دی۔ رسول اللہ ﷺ کو اہل کتاب کی موافقت اس لیے موافقت بھی مفید نہیں توآپ نے ان کی موافقت چھوڑ دی۔ رسول اللہ ﷺ کو اہل کتاب کی موافقت اس لیے بھی پسند تھی کہ وہ کم از کم دعوے کی حد تک ہی سہی سماوی دین پر عمل پیرا ہونے کے دعویدار تھے۔ اس کے برعکس مشرکین تو پکے بت پرست تھے۔
(2) مانگ سر کے درمیان میں نکالنے چاہیے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارکہ درمیان میں مانگ نکالنا ہی تھی۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5240