مجھ سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں عیسیٰ بن طہمان نے خبر دی، بیان کیا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ دو جوتے لے کر ہمارے پاس باہر آئے جس میں دو تسمے لگے ہوئے تھے۔ ثابت بنانی نے کہا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے ہیں۔
Narrated Isaa bin Tahman: Anas bin Malik brought out for us, two sandals having two straps. Thabit Al-Banani said, "These were the sandals of the Prophet ."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 72, Number 749
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5858
حدیث حاشیہ: اسی آخری جملے سے باب کا دوسرا مضمون ثابت ہوا حضرت عبداللہ بن مبارک علمائے ربانیین میں سے ہیں۔ امام فقیہ حافظ حدیث زاہد پر ہیز گار سخی پختہ کار تھے۔ اللہ تعالیٰ نے خیر کی خصلتوں میں سے ایسی کوئی خصلت نہیں پیدا کی جو حضرت عبداللہ بن مبارک کو نہ عطا فرمائی ہو۔ بغداد میں درس حدیث دیا۔ سنہ 118ھ میں پیدا ہوئے سنہ181ھ میں وفات پائی۔ رب توفني مسلما و ألحقني بالصالحین، آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5858
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5858
حدیث حاشیہ: (1) عہد نبوی میں جوتے کی بناوٹ دور حاضر کی ہوائی چپل سے ملتی جلتی تھی۔ اس میں چمڑے کا ایک ٹکڑا انگلیوں کے درمیان ہوتا تھا اور اس کا دوسرا سرا زمام سے بندھا ہوتا تھا۔ زمام کا نام قبال بھی ہے۔ اس قسم کے جوتے میں پاؤں کا اکثر حصہ کھلا رہتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اتارے بغیر پاؤں دھو لیتے تھے جیسا کہ حدیث میں صراحت ہے۔ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 166) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے کی دو پٹیاں تھیں جن کے تسمے دہرے تھے۔ (سنن ابن ماجة، اللباس، حدیث: 3614)(2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ عنوان کا دوسرا جز اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتوں کے دو تسمے تھے تو ایک جوتے کا ایک تسمہ ثابت ہوا۔ (فتح الباری: 385/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5858