436. حضرت عائشہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھم سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ پر مرض الوفات میں نزع کی حالت طاری ہوئی تو آپ نے اپنی چادر کو بار بار اپنے چہرہ اقدس پر ڈالنا شروع کر دیا۔ جب گھٹن محسوس فرماتے تو اسے چہرے سے اتار دیتے۔ اسی حالت میں آپ نے فرمایا: ”یہودونصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو، انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا۔“ اس طرح آپ امت کو یہودونصاریٰ کے (مشرکانہ) افعال سے خبردار کر رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:436]
حدیث حاشیہ: 1۔
قبروں پر مساجد تعمیر کرنا اور انھیں عبادت گاہ بنانا افراط ہے اور ان کی بے حرمتی کرنا انھیں بلا وجہ اکھاڑنا تفریط ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے افراط و تفریط سے منع فرمایا ہے۔
ان احادیث میں قبروں کے متعلق یہود و نصاری کے افراط کو بیان کیا گیا ہے۔
امام بخاری ؒ نے ان احادیث پر کوئی عنوان قائم نہیں کیا، کیونکہ یہ پہلے باب کا نتیجہ یا تکملہ ہے۔
احادیث میں قدر مشترک یہ ہے کہ قبروں کو مساجدکا درجہ دینے سے منع کیا گیا ہے۔
امام بخاری ؒ اس فعل کی شناعت بیان کرتے ہیں کہ یہ فعل انتہائی قابل مذمت ہے، خواہ ان میں تصاویر رکھی جائیں یا تصاویر کے بغیرہوں۔
(فتح الباری: 689/1) عنوان ذکر نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہود ونصاری کی عبادت گاہوں میں نماز کی کراہت اس وجہ سے ہے کہ وہاں مجسمے اور تصاویر ہوتی ہیں، بصورت دیگر اصل کے اعتبار سے تو ہر جگہ نماز جائز ہے، ممانعت کی اصل وجہ منکرات اور خلاف شرع امور کا پایا جانا ہے۔
اس بنا پر یہ ممانعت یہود ونصاریٰ کے عبادت خانوں کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ اگر مسلمانوں کی مساجد میں بھی ایسی کوئی صورت پیدا ہو جائے تو ان میں بھی نماز پڑھنا کراہت سے خالی نہ ہو گا، مثلاً:
کسی مسجد میں نمایاں طور پر قبر کو برقرار رکھا گیا ہو۔
گویا امام بخاری ؒ یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ مساجد میں قبروں کو باقی رکھنا ایسا ہی سے جیسے یہود ونصاری کے عبادت خانوں میں تصاویر کا پایا جانا۔
چنانچہ ان احادیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا جا سکتا ہے:
(باب كراهية الصلاة في المساجد التي فيها القبور) ”ایسی مساجد میں نمازپڑھنا مکروہ ہے جن میں قبروں کو برقرار رکھا گیا ہو۔
“ 2۔
پہلی حدیث میں ایک اشکال ہے کہ اس میں مشرکانہ عمل کے لیے یہود ونصاری دونوں کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے جبکہ واقعہ یہ ہے کہ انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنانے کے اصل مجرم تو یہودی ہیں نصاری نے کسی نبی کی قبر کو سجدہ گاہ نہیں بنایا کیونکہ عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھالیا گیا تھا اور ان کی قبر بنانے کی نوبت ہی نہیں آئی اور ان کے بعد رسول اللہ ﷺ تک کوئی اور نبی بھی نہیں آیا تو ان حالات میں انبیاء علیہم السلام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنانے کے جرم میں نصاری کو یہود کے ساتھ شریک کرنا چہ معنی وارد؟ اس کی متعدد توجیہات حسب ذیل ہیں۔
عیسیٰ ؑ کے بعد نبی توآئے تھے، لیکن وہ رسول نہ تھے۔
جیسا کہ حواربیین میں سے بعض اس کام کے لیے مامور کیے گئے تھے جن کا تذکرہ سوریٰس آیات 13تا18میں ہے۔
اس لیے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنانے کا الزام ان پر براہ راست بھی عائد ہو سکتا ہے۔
حدیث میں انبیاء علیہم السلام کے ساتھ کبار اتباع بھی مراد ہیں۔
جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ یہود ونصاریٰ نے اپنے انبیاء اور صلحاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔
یہی وجہ ہے کہ حدیث نمبر434 میں جب نصاریٰ کا بطور خاص ذکر ہوا تو وہاں کسی نیک بندے کی قبر کو سجدہ گاہ بنانے کا حوالہ دیا گیااور جب حدیث نمبر436 میں یہود کو بطور خاص بیان کیا گیا تو انبیاء کی قبروں کو سجدہ گا ہ بنانے کا تذکرہ ہوا ہے۔
اگرچہ اس کام کے موجود یہودی تھے، لیکن نصاریٰ نے اس فعل بد کا برابر اتباع کیا، لہٰذا اس لعنت میں دونوں شریک ہو گئے۔
یہودی ابتداع
(پہلے پہل یہ کام کرنے) کے طور پر اور عیسائی اتباع
(یہود کی پیروی) کے طور پر
(فتح الباری: 689/1) 3۔
ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ حدیث اس وقت بیان فرمائی ہو جب آپ کے سامنے حضرت اُم سلمہ ؒ اور اُم حبیبہ ؒ نے سر زمین حبشہ پر کنیسہ ماریہ کے متعلق اپنے چشم دیدواقعات بیان کیے ہیں جن کا ذکر اس سے قبل حدیث 434 میں ہوا ہے اور مرض وفات میں آپ کو قرائن و آثار یا بذریعہ وحی معلوم ہوگیا ہو کہ اب دنیا سے روانگی کا وقت بھی قریب آپہنچا ہے تو آپ نے امت کو تنبیہ فرمائی کہ میری قبر پر میلہ نہ لگانا اور اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی کہ یا اللہ!میری قبر کو بت نہ بنانا کہ اس کی پوجا پاٹ ہو نے لگے۔
(مسند احمد: 246/2) آپ نے اس وقت یہ حدیث بھی ازراہ احتیاط بیان فرمائی کہ مبادا آپ کی قبر کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے۔
لیکن دور حاضر کے نام نہاد مسلمانوں پر افسوس کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی آخری خواہش کا احترام کرنے کے بجائے اس کی خلاف ورزی میں مصروف ہیں اللہ تعالیٰ حکومت سعودیہ اور اس کے ذمہ داران کوا اپنے ہاں جزائے خیر دے کہ وہ لوگوں کو رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک پر غیر شرعی کام کرنے سے روکتے ہیں، اس سے بڑھ کر یہ بات افسوس ناک ہے کہ بدعتی حضرات کی طرف سے یہ مطالبہ سننے میں آرہا ہے کہ مدینہ منورہ کو کھلا شہر قراردیا جائے تاکہ یہ لوگ اپنی مرضی سے وہاں بدعات و خرافات کورواج دے سکیں 4۔
اس حدیث کی روشنی میں ہم عام مسلمانوں کے کردار کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آج اکثر یت حدیث نبوی کی مخالفت پر کمر بستہ ہے مثلاً رسول اللہ ﷺ نے قبور انبیاء پر نماز پڑھنے سے منع فرمایا، مگر مسلمان قبروں پر عبادت کرنے کو اپنی سعادت خیال کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے قبروں پر عمارت کھڑی کرنے سے منع فرمایا، لیکن مسلمان ان پر مزارات اور خانقاہیں تعمیر کرتے ہیں اور انھیں دربار کا نام دیتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے قبروں پر چراغاں کرنے سے منع فرمایا، لیکن مسلمان قبروں پر قمقموں اور روشنیوں کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے قبروں پر زائد مٹی ڈالنے سے منع فرمایا مگر یہ حضرات ماربل اور چینی کی ٹائلیں لگا کر انھیں پختہ کرتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے قبروں پر لکھنے سے منع فرمایا، مگر ہمارے رواجی مسلمان قرآنی آیات پر مشتمل کتبے آویزاں کرتے ہیں اور صاحب قبر کا نام کندہ کراتے ہیں، بلکہ آج تو بیت اللہ کی طرح بعض قبروں کا طواف اور وہاں"مناسک حج " ادا کیے جاتے ہیں۔
(هَدَاهُمُ اللهُ تَعَالى)