ہم سے ہدبہ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوجمرہ نے بیان کیا، ابوبکر بن ابی موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے اپنے باپ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ٹھنڈے وقت کی دو نمازیں (وقت پر) پڑھیں (فجر اور عصر) تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔ ابن رجاء نے کہا کہ ہم سے ہمام نے ابوجمرہ سے بیان کیا کہ ابوبکر بن عبداللہ بن قیس رضی اللہ عنہ نے انہیں اس حدیث کی خبر دی۔ ہم سے اسحاق نے بیان کیا، کہا ہم سے حبان نے، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہمام نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوجمرہ نے بیان کیا ابوبکر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، پہلی حدیث کی طرح۔
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 574
� تشریح: مقصد یہ ہے کہ ان ہر دو نمازوں کا وقت پر پابندی کے ساتھ ادا کیا۔ چونکہ ان اوقات میں اکثر غفلت ہو سکتی ہے اس لیے اس خصوصیت سے ان کا ذکر کیا، عصر کا وقت کاروبار میں انتہائی مشغولیت اور فجر کا وقت میٹھی نیند سونے کا وقت ہے، مگر اللہ والے ان کی خاص طور پر پابندی کرتے ہیں۔ عبداللہ بن قیس، ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا نام ہے۔ اس تعلیق سے حضرت امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ ابوبکر بن ابی موسیٰ جو اگلی روایت میں مذکور ہیں وہ حضرت ابوموسیٰ اشعری کے بیٹے ہیں۔ اس تعلیق کو ذہلی نے موصولاً روایت کیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 574
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:574
حدیث حاشیہ: (1) دو ٹھنڈے وقتوں کی نمازوں سے مراد فجر اور عصر کی نمازیں ہیں کیونکہ حدیث جریر ؓ میں قبل از طلوع آفتاب اور قبل از غروب آفتاب کی نمازوں کی پابندی کا ذکر ہے، پھر صحیح مسلم میں عصر اور فجر کی صراحت بھی ہے۔ یہ نمازیں دن کے دونوں طرف واقع ہیں۔ ان کے اوقات میں ہوا بہت خوش گوار ہوتی ہے اور گرمی کا جوش بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ پھر ان دونوں وقتوں میں ایک وقت آرام اور سکون کا ہوتا ہے اور دوسرا وقت کثرت مشاغل کا، اس لیے ان نمازوں کی پابندی پر جنت کی بشارت دی گئی ہے کہ جو ان اوقات میں بھی پابندی کرے گا، وہ دوسرے اوقات میں زیادہ آسانی سے اپنے فرائض بجالائے گا۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ جو شخص طلوع شمس اور غروب شمس سے پہلے نمازوں کی پابندی کرے گا، وہ کبھی جہنم میں داخل نہیں ہوگا۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1436(634) بہر حال امام بخاری ؒ نے ان احادیث سے نماز فجر کی فضیلت کو ثابت کیا ہے۔ (فتح الباري: 71/2) (2) امام بخاری ؒ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے مروی حدیث کے متعلق دو شواہد بیان فرماتے ہیں: ٭پہلی تعلیق ابن رجاء کی ہے جو امام بخاری کے شیخ ہیں۔ اسے محمد بن یحییٰ ذہلی نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ ٭دوسرا طریق اسحاق بن منصور کا ہے جو حبان بن ہلال کے شاگرد ہیں۔ (فتح الباري: 71/2)(3) حضرت فضالہ لیثی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا۔ آپ نے مجھے دیگر تعلیمات کے ساتھ پانچوں نمازوں کو بروقت پابندی سے ادا کرنے کی تلقین فرمائی۔ میں نے عرض کیا کہ ان اوقات میں مجھے بہت مصروفیت ہوتی ہے، لہٰذاآپ مجھے ایسی جامع باتیں بتائیں جن پر عمل پیرا ہونا کافی ہوجائے تو آپ نے فرمایا: "عصرین"کی پابندی کریں۔ ”چونکہ یہ لفظ ہماری زبان میں مستعمل نہیں تھا، اس لیے میں نے عصرین کا مفہوم دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ”اس سے فجر اور عصر کی نمازیں مراد ہیں۔ “(مسند أحمد: 344/4) اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ فجر اور عصر کے علاوہ دیگر نمازوں کی ضرورت ہی نہیں، بلکہ رسول اللہ ﷺ اسے اس انداز سے پابند بنانا چاہتے تھے کہ دفعتًا بار خاطر بھی نہ ہو اور کام بھی ہوجائے، اس لیے آپ نے راحت و آرام اورکثرت مشاغل کے وقت نمازوں کی اہمیت بیان فرمائی۔ جب کوئی ان اوقات میں نمازوں کی پابندی کرے گا تو دیگر اوقات میں پابندی کرنا اس کےلیے آسان ہو گا۔ الغرض "بردین" جنھیں دوسری روایت میں"عصرین" کہاگیا ہے، کی پابندی کو دخول جنت میں اس طرح دخل ہےکہ ان اوقات کی پابندی سے دوسرے اوقات میں پابندی آسان ہوجاتی ہے، اس لیے ان کی اہمیت کو بطور خاص بیان کیا گیا ہے۔ والله أعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 574
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1438
ابو بکر اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے دو ٹھنڈے وقت کی نمازیں پڑھیں، وہ جنت میں داخل ہوگا۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:1438]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: صَلَّي الْبَْردَيْنِ: فجر اور عصر کی نمازیں ٹھنڈے وقت میں ہوتی ہیں، اس لیے ان کو بردين (ٹھنڈی دو نمازیں) سے تعبیر کردیا گیا ہے۔ فوائد ومسائل: ان حدیثوں میں صرف فجر اور عصر کی نماز کی پابندی کرنے پر دوزخ کی آگ سے محفوظ رہنے اور جنت میں داخل ہونے کی بشارت دی گئی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ باقی نمازیں نہ بھی پڑھے تو کوئی حرج نہیں ہے بلکہ یہ مقصد ہے کہ ان دو نمازوں کی پابندی اور اہتمام کرنے والا یقیناً باقی نمازوں کی بھی پابندی اور حفاظت کرے گا اس لیے ان کے الگ تذکرہ کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی یا یہ ان لوگوں کے لیے جنت کی بشارتیں ہے جو اس وقت ایمان لائے جبکہ ابھی پانچ نمازیں فرض نہیں ہوئی تھیں۔