صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
The Book of The Times of As-Salat (The Prayers) and Its Superiority
24. بَابُ النَّوْمِ قَبْلَ الْعِشَاءِ لِمَنْ غُلِبَ:
24. باب: اگر نیند کا غلبہ ہو جائے تو عشاء سے پہلے بھی سونا درست ہے۔
(24) Chapter. Sleeping before the Isha prayer if (one is) overwhelmed by it (sleep).
حدیث نمبر: 571
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) وقال سمعت ابن عباس، يقول: اعتم رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة بالعشاء حتى رقد الناس واستيقظوا ورقدوا واستيقظوا، فقام عمر بن الخطاب، فقال: الصلاة، قال عطاء: قال ابن عباس: فخرج نبي الله صلى الله عليه وسلم كاني انظر إليه الآن يقطر راسه ماء واضعا يده على راسه، فقال: لولا ان اشق على امتي لامرتهم ان يصلوها هكذا، فاستثبت عطاء كيف وضع النبي صلى الله عليه وسلم على راسه يده كما انباه ابن عباس؟ فبدد لي عطاء بين اصابعه شيئا من تبديد، ثم وضع اطراف اصابعه على قرن الراس، ثم ضمها يمرها كذلك على الراس حتى مست إبهامه طرف الاذن مما يلي الوجه على الصدغ، وناحية اللحية لا يقصر ولا يبطش إلا كذلك، وقال: لولا ان اشق على امتي لامرتهم ان يصلوا هكذا.(مرفوع) وَقَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: أَعْتَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً بِالْعِشَاءِ حَتَّى رَقَدَ النَّاسُ وَاسْتَيْقَظُوا وَرَقَدُوا وَاسْتَيْقَظُوا، فَقَامَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: الصَّلَاةَ، قَالَ عَطَاءٌ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَخَرَجَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ الْآنَ يَقْطُرُ رَأْسُهُ مَاءً وَاضِعًا يَدَهُ عَلَى رَأْسِهِ، فَقَالَ: لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي لَأَمَرْتُهُمْ أَنْ يُصَلُّوهَا هَكَذَا، فَاسْتَثْبَتُّ عَطَاءً كَيْفَ وَضَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَأْسِهِ يَدَهُ كَمَا أَنْبَأَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ؟ فَبَدَّدَ لِي عَطَاءٌ بَيْنَ أَصَابِعِهِ شَيْئًا مِنْ تَبْدِيدٍ، ثُمَّ وَضَعَ أَطْرَافَ أَصَابِعِهِ عَلَى قَرْنِ الرَّأْسِ، ثُمَّ ضَمَّهَا يُمِرُّهَا كَذَلِكَ عَلَى الرَّأْسِ حَتَّى مَسَّتْ إِبْهَامُهُ طَرَفَ الْأُذُنِ مِمَّا يَلِي الْوَجْهَ عَلَى الصُّدْغِ، وَنَاحِيَةِ اللِّحْيَةِ لَا يُقَصِّرُ وَلَا يَبْطُشُ إِلَّا كَذَلِكَ، وَقَالَ: لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي لَأَمَرْتُهُمْ أَنْ يُصَلُّوا هَكَذَا.
تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات عشاء کی نماز میں دیر کی جس کے نتیجہ میں لوگ (مسجد ہی میں) سو گئے۔ پھر بیدار ہوئے پھر سو گئے ‘ پھر بیدار ہوئے۔ آخر میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اٹھے اور پکارا نماز عطاء نے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بتلایا کہ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے تشریف لائے۔ وہ منظر میری نگاہوں کے سامنے ہے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے اور آپ ہاتھ سر پر رکھے ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر میری امت کے لیے مشکل نہ ہو جاتی، تو میں انہیں حکم دیتا کہ عشاء کی نماز کو اسی وقت پڑھیں۔ میں نے عطاء سے مزید تحقیق چاہی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سر پر رکھنے کی کیفیت کیا تھی؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں اس سلسلے میں کس طرح خبر دی تھی۔ اس پر عطاء نے اپنے ہاتھ کی انگلیاں تھوڑی سی کھول دیں اور انہیں سر کے ایک کنارے پر رکھا پھر انہیں ملا کر یوں سر پر پھیرنے لگے کہ ان کا انگوٹھا کان کے اس کنارے سے جو چہرے سے قریب ہے اور داڑھی سے جا لگا۔ نہ سستی کی اور نہ جلدی، بلکہ اس طرح کیا اور کہا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میری امت پر مشکل نہ گزرتی تو میں حکم دیتا کہ اس نماز کو اسی وقت پڑھا کریں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

I said to `Ata', 'I heard Ibn `Abbas saying: Once Allah's Apostle delayed the `Isha' prayer to such an extent that the people slept and got up and slept again and got up again. Then `Umar bin Al-Khattab I, stood up and reminded the Prophet I of the prayer.' `Ata' said, 'Ibn `Abbas said: The Prophet came out as if I was looking at him at this time, and water was trickling from his head and he was putting his hand on his head and then said, 'Hadn't I thought it hard for my followers, I would have ordered them to pray (`Isha' prayer) at this time.' I asked `Ata' for further information, how the Prophet had kept his hand on his head as he was told by Ibn `Abbas. `Ata' separated his fingers slightly and put their tips on the side of the head, brought the fingers downwards approximating them till the thumb touched the lobe of the ear at the side of the temple and the beard on the face. He neither slowed nor hurried in this action but he acted like that. The Prophet said: "Hadn't I thought it hard for my followers I would have ordered them to pray at this time."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 10, Number 545


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 571 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 571  
تشریح:
صحابہ کرام تاخیر کی وجہ سے نماز سے پہلے سو گئے۔ پس معلوم ہوا کہ ایسے وقت میں نماز عشاء سے پہلے بھی سونا جائز ہے۔ بشرطیکہ نماز عشاء باجماعت پڑھی جا سکے۔ جیسا کہ یہاں صحابہ کرام کا عمل منقول ہے یہی باب کا مقصد ہے۔
«لايقصر» کا مطلب یہ کہ جیسے میں ہاتھ پھیر رہا ہوں اسی طرح پھیرا، نہ اس سے جلدی پھیرا، نہ اس سے دیر میں۔ بعض نسخوں میں لفظ «لايعصر» ہے تو ترجمہ یوں ہو گا۔ نہ بالوں کو نچوڑتے نہ ہاتھ میں پکڑتے بلکہ اسی طرح کرتے۔ یعنی انگلیوں سے بالوں کو دبا کر پانی نکال رہے تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 571   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:571  
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ابن عمر ؓ کی روایت کے پیش نظر بعض حضرات کا خیال ہے کہ نیند سے وضو نہیں ٹوٹتا، کیونکہ حضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ ہم مسجد میں سو گئے اور اس کے بعد وضوکرنے کا ذکر نہیں ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے وہ اس انداز سے زمین پر جم کر بیٹھنے کی حالت میں سوئے ہوں کہ خروج ریح کا امکان نہ ہو یا وہ لیٹ کر سوئے ہوں، پھر بیدار ہونے کہ بعد وضو کرکے نماز میں شمولیت اختیار کی ہو۔
اگرچہ روایت میں وضو کرنے کا ذکر نہیں ہے، لیکن صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی عادت تھی کہ وہ وضو کے بغیر نماز نہیں پڑھتے تھے۔
(فتح الباري: 67/2) (2)
امام بخاری ؒ نے مذکورہ ہر دو روایات سے ثابت کیا ہے کہ نماز سے پہلے غیر اختیاری نیند مکروہ نہیں۔
اختیاری حالات میں نماز عشاء سے پہلے اس وقت سونا مکروہ ہے جب نماز کے فوت ہوجانے کا اندیشہ ہو۔
اگر کسی نے بیداری کا بندوبست کررکھا ہو تو اس کے لیے نماز سے پہلے سونا کسی صورت میں ناپسندیدہ نہیں۔
جیسا کہ حضرت ابن عمر ؓ نماز عشاء سے پہلے بعض اوقات سو جاتے اور اپنے اہل خانہ کو کہہ دیتے کہ مجھےنماز کے وقت بیدار کر دیا جائے۔
حدیث ابن عباس سے عنوان اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں تشریف لانے کے بعد سونے والوں پر کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ آپ کی طرف سے انتظار کرنے کی تعریف کی گئی۔
واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ کا انتظار کرتے کرتے کچھ لوگ اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے گئے، البتہ حضرت عثمان بن مظعون ؓ اور ان کے ساتھ تقریباً سولہ آدمی مسجد میں رسول اللہ ﷺ کے منتطر تھے۔
(فتح الباري: 68/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 571   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.