وقالت عائشة بنت سعد: عن ابيها، قال النبي صلى الله عليه وسلم:" اللهم اشف سعدا"وَقَالَتْ عَائِشَةُ بِنْتُ سَعْدٍ: عَنْ أَبِيهَا، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اللَّهُمَّ اشْفِ سَعْدًا"
عائشہ بنت سعد اپنے والد (سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے یوں دعا کی «اللهم اشف سعدا".» کہ یا اللہ! سعد کو تندرست کر دے۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مریض کے پاس تشریف لے جاتے یا کوئی مریض آپ کے پاس لایا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرماتے «أذهب الباس رب الناس، اشف وأنت الشافي لا شفاء إلا شفاؤك، شفاء لا يغادر سقما»”اے پروردگار لوگوں کے! بیماری دور کر دے، اے انسانوں کے پالنے والے! شفاء عطا فرما، تو ہی شفاء دینے والا ہے۔ تیری شفاء کے سوا اور کوئی شفاء نہیں، ایسی شفاء دے جس میں مرض بالکل باقی نہ رہے۔“ اور عمرو بن ابی قیس اور ابراہیم بن طہمان نے منصور سے بیان کیا، انہوں نے ابراہیم اور ابوالضحیٰ سے کہ ”جب کوئی مریض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا جاتا۔“
Narrated `Aisha: Whenever Allah's Apostle paid a visit to a patient, or a patient was brought to him, he used to invoke Allah, saying, "Take away the disease, O the Lord of the people! Cure him as You are the One Who cures. There is no cure but Yours, a cure that leaves no disease."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 70, Number 579
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5675
حدیث حاشیہ: وقال جرير عن منصور عن أبي الضحى وحده، وقال إذا أتى مريضا. اور جریر بن عبدالحمید نے منصور سے، انہوں نے ابوالضحی اکیلے سے یوں روایت کیا کہ ”آپ جب کسی بیمار کے پاس تشریف لے جاتے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5675
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5675
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بیمار کے لیے شفایابی کی دعا کرنی چاہیے جبکہ دوسری احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بیماری گناہوں کا کفارہ اور ثواب کا ذریعہ ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دعا ایک عبادت ہے جو کفارے اور ثواب کے منافی نہیں ہے کیونکہ ثواب اور کفارہ تو مرض کے آغاز ہی میں حاصل ہو جاتا ہے بشرطیکہ وہ صبر کا مظاہرہ کرے۔ دعا کرنے والا دو قسم کی حسنات (نیکیاں) کماتا ہے: یا تو اسے مقصود، یعنی شفا مل جاتی ہے یا اس کے عوض گناہوں کا کفارہ اور ثواب مل جاتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے متعلق ہیں۔ (فتح الباري: 163/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5675
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1619
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کلمات کے ذریعہ حفاظت و عافیت کی دعا کرتے تھے «أذهب الباس رب الناس. واشف أنت الشافي لا شفاء إلا شفاؤك شفاء لا يغادر سقما»”اے لوگوں کے رب! بیماری دور کر دے، اور شفاء دے، تو ہی شفاء دینے والا ہے، شفاء تو بس تیری ہی شفاء ہے، تو ایسی شفاء عنایت فرما کہ کوئی بیماری باقی نہ رہے“ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ بیماری سخت ہو گئی جس میں آپ کا انتقال ہوا، تو میں آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کے جسم پر پھیرتی تھی، اور یہ کلمات کہتی جاتی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہات۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1619]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) دعا کے ساتھ اللہ کی پناہ حاصل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بیماری سے حفاظت یا نجات کے لئے ان الفاظ کے ساتھ اللہ سے دعا فرمایا کرتے تھے۔
(2) بیماری کے موقع پر مسنون الفاظ کے ساتھ دعا اور دم کرنا چاہیے تاکہ ان کی برکت سے اللہ تعالیٰ شفا عطا فرمائے۔
(3) مشکلات کو حل کرنے اور بیماری سے شفا دینے کا اختیار صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ خود نبی کریمﷺ نے بھی اللہ ہی سے شفا مانگی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی فرمایا تھا۔ ﴿وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ﴾(الشعراء۔ 80، 26) ”اور جب میں بیمار پڑ جاؤں تو وہی مجھے شفا عطا فرماتا ہے۔“ اس لئے صحت وعافیت کا سوال صرف اللہ ہی سے کرنا چاہیے۔
(4)(الرفیق الاعلیٰ) سے مراد انبیاء واولیاء ہیں جو نبی کریمﷺ سے پہلے ر حلت فرما کر جنت میں پہنچ گئے جیسے کہ اگلی حدیث سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔
(5) رسول اللہ ﷺ کے ان الفاظ کو موت کی تمنا قرار نہیں دینا چاہیے۔ بلکہ یہ اللہ کے فیصلے پر رضامندی (رضا بالقضا) کا اظہار ہے موت کی تمنا اس وقت منع ہے۔ جب اس کا سبب دنیا کی مشکلات سے پریشانی ہو۔ شہادت کی تمنا بھی ممنوع نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1619
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3520
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی (دوسروں پر) دم کی دعائیں اور آپ پر کئے جانے والے دم کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مریض کے پاس آتے تو آپ اس کے لیے دعا فرماتے، اور کہتے: «أذهب الباس رب الناس واشف أنت الشافي لا شفاء إلا شفاؤك شفاء لا يغادر سقما»”اے لوگوں کے رب! تو بیماری دور فرما، اور صحت عطا کر، تو ہی صحت عطا کرنے والا ہے، شفاء اور صحت وہی ہے جو تو عطا کرے، تو ایسی شفاء عطا کر کہ پھر کوئی بیماری باقی نہ رہ جائے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الطب/حدیث: 3520]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1) مریض کی عیادت سنت نبوی ﷺ ہے۔
(2) عیادت کے وقت مریض کو تسلی دینے کے ساتھ ساتھ اس کے لئے دعا کرنا بھی مسنون ہے۔
(3) شفا صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ لہٰذا دعا بھی اسی سے کرنی چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3520
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5707
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، جب ہم میں سے کوئی انسان بیمار ہو جاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر اپنا دایاں ہاتھ پھیرتے، پھر فرماتے ”تکلیف ختم کر دے، اے لوگوں کے مالک اور صحت بخش تو ہی شفا بخشنے والا ہے، تیری شفا ہی اصل شفا ہے، ایسی شفا بخش، جو کسی قسم کی بیماری نہ چھوڑے۔“ تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور اس میں شدت پیدا ہوئی، میں نے آپ کا ہاتھ پکڑ لیا، تاکہ آپ کے ساتھ اس قسم کا سلوک اختیار کروں، جو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:5707]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے، یہ دعائیہ کلمات پڑھتے وقت مریض پر ہاتھ پھیرنا چاہیے اور بیماری میں اللہ تعالیٰ ہی مدد کر سکتا ہے، علاج معالجہ محض ایک ظاہری سبب ہے، اللہ تعالیٰ کو منظور ہو تو کارگر ہو جاتا ہے، وگرنہ نہیں اور آخری وقت میں ہر طرف سے کٹ کر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جانا، فعلی اور عملی طور پر توحید ہی کا اقرار کرنا ہے اور یہ کلمہ توحید ہی کے قائم مقام ہے، اس لیے آپ کا آخری قول، اللهم اغفرلی واجعلنی مع الرفيق الاعلیٰ اور رفیق اعلیٰ سے مراد جنت ہے، جہاں ملائکہ اور انبیاء وغیرھم کی رفاقت حاصل ہو گی، یا اس سے مراد، انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں، جو ایک قلب ہوں گے، اس لیے مفرد کا صیغہ استعمال ہوا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5707
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5744
5744. سیدہ عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا پڑھ کر دم کرتے تھے: ”اے لوگوں کے رب! تکلیف دور کردے۔ تیرے ہاتھ ہی میں شفا ہے تیرے سوا کوئی بھی تکلیف دور کرنے والا نہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5744]
حدیث حاشیہ: یہ فرماکر آپ نے شرک کی جڑ بنیاد اکھیڑ دی۔ جب اس کے سوا کوئی درد دکھ تکلیف دفع نہیں کرسکتا تو اس کے سوا کسی بت دیوتا یا پیر کو پکارنا محض نادانی وحماقت ہے۔ اس سے قبوریوں کو سبق لینا چاہیے جو دن رات اہل قبور سے استدعا کرتے رہتے ہیں اور مزارات بزرگوں کو قبلہ حاجات سمجھے بیٹھے ہیں۔ حالانکہ خود قرآن پاک کا بیان ہے ﴿ان الذین تدعون من دون اللہ لن یخلقوا ذبابا ولواجتمعوا لہ﴾(الحج: 73) حاجات کے لیے جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو یہ سب مل کر ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے اس آیت میں سارے دیوی دیوتا پیروں ولیوں کے متعلق کہا گیا ہے جن کو لوگ پوجتے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5744
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5750
5750. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ کسی پر دم کرتے وقت اپنا دایاں ہاتھ پھیرتے اور یہ دعا پڑھتے تھے: ”اے لوگوں کے رب! تکیلف دور کردے اور شفا دے۔ تو ہی شفا دینے والا ہے۔ شفا وہی ہے جو تیری طرف سے ہو، ایسی شفا کہ بیماری کا نشان تک نہ رہے۔“ سفیان نے کہا: میں نے یہ منصور سے ذکر کیا تو انہوں نے ابراہیم نخعی سے، انہوں نے مسروق سے، انہوں نے سیدہ عائشہ ؓ سے اسی طرح بیان کیا [صحيح بخاري، حديث نمبر:5750]
حدیث حاشیہ: اس حدیث کی روشنی میں لفظ دست شفا رائج ہو اہے۔ بعض ہاتھوں میں اللہ پاک یہ اثر رکھ دیتا ہے کہ وہ دم کریں یا کوئی نسخہ لکھ کردیں اللہ ان کے ذریعہ سے شفا دیتا ہے ہر حکیم ڈاکٹر وید کو یہ خوبی نہیں ملتی الا ماشاءاللہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5750
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5744
5744. سیدہ عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا پڑھ کر دم کرتے تھے: ”اے لوگوں کے رب! تکلیف دور کردے۔ تیرے ہاتھ ہی میں شفا ہے تیرے سوا کوئی بھی تکلیف دور کرنے والا نہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5744]
حدیث حاشیہ: (1) ان احادیث میں مسنون دم کی وضاحت ہے۔ اس سے شرک کو جڑ سے اکھاڑ دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی مصیبتیں، دکھ درد اور پریشانیاں دور نہیں کر سکتا۔ قرآن کریم میں بھی یہی تعلیم دی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”اور اگر اللہ تمہیں کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی دوسرا اسے دور کرنے والا نہیں ہے اور اگر وہ تمہیں خیر پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کو کوئی روکنے والا نہیں۔ وہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے نچھاور کر دے۔ وہ بڑی مغفرت والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔ “(یونس: 10/107)(2) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی پہلی حدیث میں ''يُعَوِذُ" کے الفاظ تھے، امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسری حدیث لا کر وضاحت فرمائی ہے کہ اس کے معنی دم کرنا ہیں تاکہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کی طرح یہ ثابت ہو کہ یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دم ہے۔ (فتح الباری: 10/256)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5744
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5750
5750. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ کسی پر دم کرتے وقت اپنا دایاں ہاتھ پھیرتے اور یہ دعا پڑھتے تھے: ”اے لوگوں کے رب! تکیلف دور کردے اور شفا دے۔ تو ہی شفا دینے والا ہے۔ شفا وہی ہے جو تیری طرف سے ہو، ایسی شفا کہ بیماری کا نشان تک نہ رہے۔“ سفیان نے کہا: میں نے یہ منصور سے ذکر کیا تو انہوں نے ابراہیم نخعی سے، انہوں نے مسروق سے، انہوں نے سیدہ عائشہ ؓ سے اسی طرح بیان کیا [صحيح بخاري، حديث نمبر:5750]
حدیث حاشیہ: (1) دم کے آداب یہ ہیں کہ دم کرنے والا اپنا دایاں ہاتھ متاثرہ جگہ پر پھیرے تاکہ دائیں ہاتھ کی برکت حاصل ہو۔ امام طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ دایاں ہاتھ نیک شگون کے طور پر پھیرا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بیماری یا تکلیف کو دور کر دے۔ (فتح الباری: 10/255)(2) دست شفا کی اصطلاح بھی اسی حدیث سے ماخوذ ہے۔ بعض ہاتھوں میں اللہ تعالیٰ شفا رکھ دیتا ہے کہ وہ دم کریں یا کوئی نسخہ لکھ کر دیں تو اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے سے شفا عنایت فرما دیتا ہے۔ واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5750