ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے، فرمایا کہ ہم نماز مغرب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس وقت پڑھتے تھے جب سورج پردے میں چھپ جاتا۔
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:561
حدیث حاشیہ: نماز مغرب کا وقت غروب آفتاب ہے جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ نماز مغرب اس وقت پڑھی جاتی جب سورج غروب ہوکر پردوں میں چھپ جاتا۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1440(636) ایک روایت میں ہے کہ مغرب کی نماز کا وقت، اس وقت ہوتا ہے جب آفتاب غروب ہوکر بالکل غائب ہو جائے اور سرخی غائب ہونے تک رہتا ہے۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1385(612) غروب آفتاب کے بعد مغرب کی جانب کچھ دیر تک سرخی رہتی ہے جو اکثر موسموں میں تقریباً ایک گھنٹے تک افق پر رہتی ہے۔ اس کے ختم ہونے پر مغرب کا وقت ختم ہوجاتا ہے اور عشاء کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 561
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 417
´مغرب کے وقت کا بیان۔` سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مغرب سورج ڈوبتے ہی پڑھتے تھے جب اس کے اوپر کا کنارہ غائب ہو جاتا۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 417]
417۔ اردو حاشیہ: سورج کی ٹکیہ کا افق میں غائب ہو جانا ہی ”غروب“ ہوتا ہے، اس کے بعد احتیاط کے کوئی معنی نہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 417
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 164
´مغرب کے وقت کا بیان۔` سلمہ بن الاکوع رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم مغرب اس وقت پڑھتے جب سورج ڈوب جاتا اور پردے میں چھپ جاتا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 164]
اردو حاشہ: 1؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مغرب کا وقت سورج ڈوبنے کے بعد شروع ہوتا ہے اور اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مغرب میں تاخیرنہیں کرنی چاہئے بلکہ ا سے اوّل وقت ہی میں ادا کرنا چاہئے۔ 2؎: سلف کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ مغرب کا وقت ممتد (پھیلا ہوا) ہے یا غیرممتد، جمہور کے نزدیک سورج ڈوبنے سے لے کرشفق ڈوبنے تک پھیلا ہواہے، اور شافعی اورابن مبارک کی رائے ہے کہ مغرب کا صرف ایک ہی وقت ہے اور وہ اوّل وقت ہے، ان لوگوں کی دلیل جبریل علیہ السلام والی روایت ہے جس میں ہے کہ دونوں دنوں میں آپ نے مغرب سورج ڈوبنے کے فوراً بعد پڑھائی اور جمہور کی دلیل صحیح مسلم میں موجود ابوموسیٰ کی روایت ہے، اس میں ہے ((ثُمَّ أخَّرَ المَغرِبَ حَتَّى كَانَ عِندَ سُقوطِ الشَّفقِ)) جمہور کی رائے ہی زیادہ صحیح ہے، جمہور نے جبرائیل والی روایت کا جواب تین طریقے سے دیا ہے: 1- اس میں صرف افضل وقت کے بیان پر اکتفا کیا گیا ہے، وقت جواز کو بیان نہیں گیا، 2- جبرائیل کی روایت متقدم ہے مکّی دور کی اور مغرب کا وقت شفق ڈوبنے تک ممتد ہونے کی روایت متاخر ہے مدنی دورکی، 3- یہ روایت جبرائیل والی روایت سے سند کے اعتبارسے زیادہ صحیح ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 164