الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 164
´مغرب کے وقت کا بیان۔`
سلمہ بن الاکوع رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم مغرب اس وقت پڑھتے جب سورج ڈوب جاتا اور پردے میں چھپ جاتا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 164]
اردو حاشہ:
1؎:
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مغرب کا وقت سورج ڈوبنے کے بعد شروع ہوتا ہے اور اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مغرب میں تاخیرنہیں کرنی چاہئے بلکہ ا سے اوّل وقت ہی میں ادا کرنا چاہئے۔
2؎:
سلف کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ مغرب کا وقت ممتد (پھیلا ہوا) ہے یا غیرممتد،
جمہور کے نزدیک سورج ڈوبنے سے لے کرشفق ڈوبنے تک پھیلا ہواہے،
اور شافعی اورابن مبارک کی رائے ہے کہ مغرب کا صرف ایک ہی وقت ہے اور وہ اوّل وقت ہے،
ان لوگوں کی دلیل جبریل علیہ السلام والی روایت ہے جس میں ہے کہ دونوں دنوں میں آپ نے مغرب سورج ڈوبنے کے فوراً بعد پڑھائی اور جمہور کی دلیل صحیح مسلم میں موجود ابوموسیٰ کی روایت ہے،
اس میں ہے ((ثُمَّ أخَّرَ المَغرِبَ حَتَّى كَانَ عِندَ سُقوطِ الشَّفقِ)) جمہور کی رائے ہی زیادہ صحیح ہے،
جمہور نے جبرائیل والی روایت کا جواب تین طریقے سے دیا ہے: 1- اس میں صرف افضل وقت کے بیان پر اکتفا کیا گیا ہے،
وقت جواز کو بیان نہیں گیا، 2- جبرائیل کی روایت متقدم ہے مکّی دور کی اور مغرب کا وقت شفق ڈوبنے تک ممتد ہونے کی روایت متاخر ہے مدنی دورکی، 3- یہ روایت جبرائیل والی روایت سے سند کے اعتبارسے زیادہ صحیح ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 164