ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، جو عبداللہ بن عمرو ہیں، کہا ہم سے عبدالوارث بن سعید نے حسین بن ذکوان سے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن بریدہ نے، کہا مجھ سے عبداللہ مزنی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ایسا نہ ہو کہ ” مغرب “ کی نماز کے نام کے لیے اعراب (یعنی دیہاتی لوگوں) کا محاورہ تمہاری زبانوں پر چڑھ جائے۔ عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے کہا یا خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بدوی مغرب کو عشاء کہتے تھے۔
Narrated `Abdullah Al-Muzani: The Prophet said, "Do not be influenced by bedouins regarding the name of your Maghrib prayer which is called `Isha' by them."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 10, Number 538
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 563
� تشریح: بدوی لوگ نماز مغرب کو عشاء اور نماز عشاء کو عتمہ سے موسوم کرتے تھے۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بدویوں کی اصطلاح غالب نہ ہونی چاہئیے۔ بلکہ ان کو مغرب اور عشاء ہی کے ناموں سے پکارا جائے۔ عتمہ وہ باقی دودھ جو اونٹنی کے تھن میں رہ جاتا اور تھوڑی رات گزرنے کے بعد اسے نکالتے۔ بعضوں نے کہا کہ عتمہ کے معنی رات کی تاریکی تک دیر کرنا چونکہ اس نماز عشاء کا یہی وقت ہے۔ اس لیے اسے عتمہ کہا گیا۔ بعض مواقع پر نماز عشاء کو صلوٰۃ عتمہ سے ذکر کیا گیا ہے۔ اس لیے اسے درجہ جواز دیا گیا۔ مگر بہتر یہی کہ لفظ عشاء ہی سے یاد کیا جائے۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ یہ ممانعت آپ نے اس خیال سے کی کہ عشاء کے معنی لغت میں تاریکی کے ہیں اور یہ شفق ڈوبنے کے بعد ہوتی ہے۔ پس اگر مغرب کا نام عشاء پڑ جائے تو احتمال ہے کہ آئندہ لوگ مغرب کا وقت شفق ڈوبنے کے بعد سمجھنے لگیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 563
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:563
حدیث حاشیہ: (1) دیہاتی لوگ نام رکھنے میں برعکس طریقہ اختیار کرتے تھے۔ وہ مغرب کو عشاء کا نام دیتے جبکہ مغرب سے غروب کا اول وقت مراد ہوتا ہے اور عشاء رات کے ابتدائی اندھیرے کو کہتے ہیں جو شفق کے غائب ہونے سے شروع ہوتا ہے، یعنی اول وقت کو آخر وقت کا نام دے دینا، بڑے مغالطے میں ڈال دیتا ہے، اس لیے شریعت نے اس کی اصلاح فرمائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے مغرب پر عشاء کا اطلاق کسی حدیث سے ثابت نہیں۔ اگر مغرب پر عشاء کا طلاق کیا جائے تو اندیشہ ہے کہ مغرب کا اول وقت شفق کا غائب ہونا قرار دے دیا جائے۔ یہ اس لیے بھی منع ہے کہ اس کے دو نقصان حسب ذیل ہیں: ٭اسلامی زبان کی حفاطت نہ ہو سکے گی۔ ٭احکام میں التباس ہوگا، حالانکہ دونوں کے احکام الگ الگ ہیں۔ اگر احکام میں التباس نہ ہو اور دیہاتی زبان کے غلبے کا بھی اندیشہ نہ ہو تو منع نہیں ہوگا۔ جیسا کہ مغرب نماز عشاء اولیٰ اور عشاء کوالآخرة کہا جائے یا تغلیب کے طور پر دونوں کو عشاءين کہہ دیا جائے۔ (2) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ احکام شرعیہ کےبیان میں شرعی اصطلاحات کی پابندی کی جائے۔ مغرب کو مغرب ہی کے نام سے یاد کیاجائے، لفظ عشاء کا اس پر اطلاق نہ کیا جائے، کیونکہ ایسا کرنے سے اسلامی نام کے مقابلے میں جاہلیت کا نام فروغ پائے گا اور احکام شرعیہ کا بھی التباس ہوجائے گا۔ (فتح الباري: 58/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 563