(مرفوع) حدثنا حفص بن عمر، حدثنا شعبة، عن محمد هو ابن زياد، قال: سمعت ابا هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إذا اتى احدكم خادمه بطعامه فإن لم يجلسه معه فليناوله اكلة او اكلتين او لقمة او لقمتين فإنه ولي حره وعلاجه".(مرفوع) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَمَّدٍ هُوَ ابْنُ زِيَادٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا أَتَى أَحَدَكُمْ خَادِمُهُ بِطَعَامِهِ فَإِنْ لَمْ يُجْلِسْهُ مَعَهُ فَلْيُنَاوِلْهُ أُكْلَةً أَوْ أُكْلَتَيْنِ أَوْ لُقْمَةً أَوْ لُقْمَتَيْنِ فَإِنَّهُ وَلِيَ حَرَّهُ وَعِلَاجَهُ".
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے محمد نے، وہ زیاد کے صاحبزادے ہیں، کہا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں کسی شخص کا خادم اس کا کھانا لائے تو اگر وہ اسے اپنے ساتھ نہیں بٹھا سکتا تو کم از کم ایک یا دو لقمہ اس کھانے میں سے اسے کھلا دے (کیونکہ) اس نے (پکاتے وقت) اس کی گرمی اور تیاری کی مشقت برداشت کی ہے۔
Narrated .Abu Huraira: The Prophet said, "When your servant brings your food to you, if you do not ask him to join you, then at least ask him to take one or two handfuls, for he has suffered from its heat (while cooking it) and has taken pains to cook it nicely."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 65, Number 370
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5460
حدیث حاشیہ: خادم کھانا پکاتے وقت اس کی گرمی اور دھواں برداشت کرتا ہے، اس لیے اسے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلانا چاہیے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو اسے ایک یا دو لقمے دے دیے جائیں تاکہ اس کی حوصلہ افزائی ہو۔ ایک روایت میں ہے کہ خادم کو اپنے ساتھ بٹھائے۔ اگر وہ نہیں بیٹھتا تو ایک یا دو لقمے اسے دے دے۔ ایک یا دو لقمے اس صورت میں دیے جائیں جب کھانا کم ہو۔ اگر زیادہ ہو تو اسے ساتھ بٹھایا جائے یا اس کا حصہ الگ کر دیا جائے۔ (سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث: 3846، و فتح الباري: 720/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5460
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3846
´مالک کے ساتھ خادم کے کھانے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں کسی کے لیے اس کا خادم کھانا بنائے پھر اسے اس کے پاس لے کر آئے اور اس نے اس کے بنانے میں گرمی اور دھواں برداشت کیا ہے تو چاہیئے کہ وہ اسے بھی اپنے ساتھ بٹھائے تاکہ وہ بھی کھائے، اور یہ معلوم ہے کہ اگر کھانا تھوڑا ہو تو اس کے ہاتھ پر ایک یا دو لقمہ ہی رکھ دے۔“[سنن ابي داود/كتاب الأطعمة /حدیث: 3846]
فوائد ومسائل: فائدہ۔ : غلاموں اور خادموں کے ساتھ حسن معاملہ اور ان کی ہر ممکن دلجوئی اسلامی تہذیب وثقافت کا حصہ ہے۔ ان کا دل توڑنا ان کو حقیر سمجھنا یا ان کی تحقیر کرنا بہت بڑا عیب ہے۔ اور شرعا بھی درست نہیں ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3846
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4317
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کا خادم اس کے لیے کھانا تیار کرے، پھر وہ اس کے سامنے پیش کرے اور وہ اس کے پکانے اور تیار کرنے میں، اس کی گرمی اور دھواں برداشت کر چکا ہے، تو آقا کو چاہیے اسے اپنے ساتھ بٹھائے، تاکہ وہ بھی ساتھ کھا سکے، اگر (کبھی) وہ کھانا کم ہو اور دونوں کے لیے کافی نہ ہو سکے، تو وہ اس کے ہاتھ میں اس سے ایک دو نوالے دے دے۔“ راوی داؤد معنی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4317]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) مَشفُوهاً: جس پر بہت سے ہونٹ گزرے ہوں، اس لیے راوی نے اس کی تفسیر قلیل تھوڑے سے کی ہے۔ (2) أُكلَةً أَو أُكلَتَينِ: ایک دو لقمے۔ فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوا، اگر کھانا وافر ہو، تو خادم کو ساتھ کھلائے یا ضرورت کے مطابق دے، اور کسی وجہ سے کھانا کم ہو، تو پھر کچھ نہ کچھ ضرور دے تاکہ خادم کی نظر ہوس یا للچائی نظر سے محفوظ رہے، اور اس کے دل میں حسد و کدورت یا خیانت کا جذبہ نہ ابھرے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4317
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2557
2557. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کے پاس اس کاخادم کھانا لے کر آئے تو اگر اسے اپنے ساتھ (کھلانے کے لیے) نہ بٹھا سکے تو اس کوایک یادو لقمے ضرور کھلادے، یا آپ ﷺ نے (لقمة اور لقمتين کے بجائے) أكلة أو أكلتين فرمایا۔ کیونکہ اس نے اس (کو تیار کرنے) کی زحمت اٹھائی ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2557]
حدیث حاشیہ: لفظ خادم میں غلام، نوکر چاکر، شاگرد سب داخل ہو سکتے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2557
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2557
2557. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کے پاس اس کاخادم کھانا لے کر آئے تو اگر اسے اپنے ساتھ (کھلانے کے لیے) نہ بٹھا سکے تو اس کوایک یادو لقمے ضرور کھلادے، یا آپ ﷺ نے (لقمة اور لقمتين کے بجائے) أكلة أو أكلتين فرمایا۔ کیونکہ اس نے اس (کو تیار کرنے) کی زحمت اٹھائی ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2557]
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں مکارم اخلاق کی تعلیم و ترغیب ہے۔ جب کوئی شخص کھانا تیار کرے تو اسے محنت کا پھل دینا چاہیے کیونکہ اس نے آگ کی گرمی اور دھواں وغیرہ برداشت کیا ہے۔ خادم کو اپنے ساتھ بٹھانے کا حکم استحباب کے طور پر ہے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو کم از کم ایک یا دو لقمے اسے ضرور دینے چاہئیں، نیز لفظ خادم میں نوکر چاکر اور شاگرد وغیرہ سب شامل ہو سکتے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2557