صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
The Book of (The Wedlock)
108. بَابُ الْغَيْرَةِ:
108. باب: غیرت کا بیان۔
(108) Chapter. Al-Ghaira (i.e. honour, prestige or self-respect).
حدیث نمبر: 5226
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن ابي بكر المقدمي، حدثنا معتمر، عن عبيد الله، عن محمد بن المنكدر، عن جابر بن عبد الله رضي الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" دخلت الجنة او اتيت الجنة، فابصرت قصرا، فقلت: لمن هذا؟ قالوا: لعمر بن الخطاب، فاردت ان ادخله، فلم يمنعني إلا علمي بغيرتك، قال عمر بن الخطاب: يا رسول الله، بابي انت وامي يا نبي الله اوعليك اغار".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" دَخَلْتُ الْجَنَّةَ أَوْ أَتَيْتُ الْجَنَّةَ، فَأَبْصَرْتُ قَصْرًا، فَقُلْتُ: لِمَنْ هَذَا؟ قَالُوا: لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَدْخُلَهُ، فَلَمْ يَمْنَعْنِي إِلَّا عِلْمِي بِغَيْرَتِكَ، قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَوَعَلَيْكَ أَغَارُ".
ہم سے محمد بن ابی بکر مقدمی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبیداللہ بن عمرعمری نے، ان سے محمد بن منکدر نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں جنت میں داخل ہوا یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ) میں جنت میں گیا، وہاں میں نے ایک محل دیکھا میں نے پوچھا یہ محل کس کا ہے؟ فرشتوں نے بتایا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا میں نے چاہا کہ اس کے اندر جاؤں لیکن رک گیا کیونکہ تمہاری غیرت مجھے معلوم تھی۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، اے اللہ کے نبی! کیا میں آپ پر غیرت کروں گا۔

Narrated Jabir: The Prophet, said, "I entered Paradise and saw a palace and asked whose palace is this? They (the Angels) said, "This palace belongs to `Umar bin Al-Khattab.' I intended to enter it, and nothing stopped me except my knowledge about your sense of Ghira (self-respect (O `Umar)." `Umar said, "O Allah's Apostle! Let my father and mother be sacrificed for you! O Allah's Prophet! How dare I think of my Ghira (self-respect) being offended by you?"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 62, Number 153


   صحيح البخاري7024جابر بن عبد اللهدخلت الجنة فإذا أنا بقصر من ذهب فقلت لمن هذا فقالوا لرجل من قريش فما منعني أن أدخله يابن الخطاب إلا ما أعلم من غيرتك
   صحيح البخاري5226جابر بن عبد اللهأتيت الجنة فأبصرت قصرا فقلت لمن هذا قالوا لعمر بن الخطاب فأردت أن أدخله فلم يمنعني إلا علمي بغيرتك قال عمر بن الخطاب يا رسول الله بأبي أنت وأمي يا نبي الله أوعليك أغار
   صحيح مسلم6198جابر بن عبد اللهدخلت الجنة فرأيت فيها دارا أو قصرا فقلت لمن هذا فقالوا لعمر بن الخطاب فأردت أن أدخل فذكرت غيرتك فبكى عمر وقال أي رسول الله أوعليك يغار
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5226 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5226  
حدیث حاشیہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام امت کے لئے پدر بزگوار کی طرح تھے اورحضرت عمر رضی اللہ عنہ کے تو آپ داماد بھی تھے، داماد سسر کا عزیز خاص ہوتا ہے، اس میں یہاں غیرت کا سوال ہی نہ تھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5226   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7024  
7024. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں (بحالت خواب) جنت میں داخل ہوا۔ وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ سونے کے محل میں داخل ہو رہا ہوں۔ میں نے پوچھا: یہ محل کس کا ہے؟ انہوں نے کہا: یہ محل ایک قریشی مرد کا ہے۔ اے ابن الخطاب! مجھے اس کے اندر جانے سے تمہاری غیرت نے روک دیا جسے میں خوب جانتا ہوں۔ حضرت عمر ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! کیا میں آپ پر غیرت کر سکتا ہوں؟۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7024]
حدیث حاشیہ:

ابن قتیبہ اور علامہ خطابی نے اس حدیث کے لفظ (تَتَوَضَّاءُ)
پر اعتراض کیا ہے کہ اس میں تحریف ہوئی ہے یہ اصل میں (شوهاء)
ہے جس کے معنی خوبصورت کے ہیں اس کی بنیاد یہ ہے کہ جنت دار تکلیف نہیں کہ وہاں وضو کرنے کی ضرورت ہو۔
لیکن یہ اعتراض برمحل نہیں کیونکہ وہ عورت اس لیے وضو کرتے ہوئے دکھائی گئی تاکہ اس کا حسن دوبالا ہو اور اس کے نور میں اضافہ ہو۔
وہ میل کچیل دور کرنے کرنے کے لیے وضو نہیں کرتی تھیں کیونکہ جنت اس سے پاک ہے۔
اس بنا پر ان بزرگوں کا صحیح بخاری کے الفاظ پر اعتراض درست نہیں۔

علامہ کرمانی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے۔
کہ تتوضأ کا لفظ وضاءة سے مشتق ہے جس کے معنی نظافت و لطافت کے ہیں وضو سے بھی مشتق ہو سکتا ہے اور جنت کا دار تکلیف نہ ہونا اس امر سے مانع نہیں کیونکہ ہو سکتا ہےکہ یہ وضو بطور تکلیف نہ ہو۔
واللہ أعلم۔
(فتح الباري: 519/12)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7024   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.