صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
The Book of (The Wedlock)
109. بَابُ غَيْرَةِ النِّسَاءِ وَوَجْدِهِنَّ:
109. باب: عورتوں کی غیرت اور ان کے غصے کا بیان۔
(109) Chapter. The jealousy of women and their anger.
حدیث نمبر: 5228
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبيد بن إسماعيل، حدثنا ابو اسامة، عن هشام، عن ابيه، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إني لاعلم إذا كنت عني راضية وإذا كنت علي غضبى، قالت: فقلت: من اين تعرف ذلك؟ فقال: اما إذا كنت عني راضية، فإنك تقولين: لا ورب محمد، وإذا كنت علي غضبى، قلت: لا ورب إبراهيم، قالت: قلت: اجل، والله يا رسول الله ما اهجر إلا اسمك".(مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي لَأَعْلَمُ إِذَا كُنْتِ عَنِّي رَاضِيَةً وَإِذَا كُنْتِ عَلَيَّ غَضْبَى، قَالَتْ: فَقُلْتُ: مِنْ أَيْنَ تَعْرِفُ ذَلِكَ؟ فَقَالَ: أَمَّا إِذَا كُنْتِ عَنِّي رَاضِيَةً، فَإِنَّكِ تَقُولِينَ: لَا وَرَبِّ مُحَمَّدٍ، وَإِذَا كُنْتِ عَلَيَّ غَضْبَى، قُلْتِ: لَا وَرَبِّ إِبْرَاهِيمَ، قَالَتْ: قُلْتُ: أَجَلْ، وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَهْجُرُ إِلَّا اسْمَكَ".
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ میں خوب پہچانتا ہوں کہ کب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو اور کب تم مجھ پر ناراض ہو جاتی ہو۔ بیان کیا کہ اس پر میں نے عرض کیا آپ یہ بات کس طرح سمجھتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو کہتی ہو نہیں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے رب کی قسم! اور جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو نہیں ابراہیم علیہ السلام کے رب کی قسم! بیان کیا کہ میں نے عرض کیا جی ہاں، اللہ کی قسم یا رسول اللہ! (غصے میں) صرف آپ کا نام زبان سے نہیں لیتی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Aisha: That Allah's Apostle said to her, "I you are pleased with me or angry with me." I said, "Whence do you know that?" He said, "When you are pleased with me, you say, 'No, by the Lord of Muhammad,' but when you are angry with me, then you say, 'No, by the Lord of Abraham.' " Thereupon I said, "Yes (you are right), but by Allah, O Allah's Apostle, I leave nothing but your name."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 62, Number 155


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري6078عائشة بنت عبد اللهأعرف غضبك ورضاك قالت قلت وكيف تعرف ذاك يا رسول الله قال إنك إذا كنت راضية قلت بلى ورب محمد وإذا كنت ساخطة قلت لا ورب إبراهيم قالت قلت أجل لست أهاجر إلا اسمك
   صحيح البخاري5228عائشة بنت عبد اللهأعلم إذا كنت عني راضية وإذا كنت علي غضبى قالت فقلت من أين تعرف ذلك فقال أما إذا كنت عني راضية فإنك تقولين لا ورب محمد وإذا كنت علي غضبى قلت لا ورب إبراهيم قالت قلت أجل والله يا رسول الله ما أهجر إلا اسمك
   صحيح مسلم6285عائشة بنت عبد اللهأعلم إذا كنت عني راضية وإذا كنت علي غضبى قالت فقلت ومن أين تعرف ذلك قال أما إذا كنت عني راضية فإنك تقولين لا ورب محمد وإذا كنت غضبى قلت لا ورب إبراهيم قالت قلت أجل والله يا رسول الله ما أهجر إلا اسمك

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5228 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5228  
حدیث حاشیہ:
دل میں تو آپ کی محبت میں غرق رہتی ہوں۔
ظاہر میں غصہ کی وجہ سے آپ کام نام نہیں لیتی۔
یہ غصہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے بطور ناز محبوبیت کے ہوا کرتا تھا۔
قسطلانی نے کہا اس حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ عورت اپنے خاوند کا نام لے سکتی ہے یہ کوئی عیب کی بات نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5228   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5228  
حدیث حاشیہ:
(1)
اگر بیوی اپنے خاوند کی بدکاری اور اس کی طرف سے اپنی حق تلفی پر غیرت کرے اور ناراضی کا اظہار کرے تو یہ غیرت اور ناراضی جائز ہے اور اگر کسی قسم کی دلیل کے بغیر محض شکوک و شبہات کی بنا پر غیرت اور غصہ کرتی ہے تو اس قسم کی غیرت ناپسندیدہ اور گناہ ہے۔
(2)
واضح رہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں غرق رہتی تھیں، ظاہر میں غصے کی وجہ سے آپ کا نام نہیں لیتی تھیں۔
یہ غصہ بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے بطور ناز محبوبیت ہوا کرتا تھا۔
اس حالت میں بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام لیتی تاکہ محبوبیت کے دائرے سے کسی طرح بھی خارج نہ ہوں۔
رضی اللہ عنہا (فتح الباري: 405/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5228   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6078  
6078. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں تمہاری ناراضی اور خوشی کو خوب پہچانتا ہوں۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ کیسے پہچانتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: جب تم خوش ہوتی تو کہتی ہو: کیوں نہیں مجھے رب محمد ﷺ کی قسم ہے اور جب ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو: نہیں نہیں، مجھے رب ابراہیم کی قسم ہے۔ سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے کہا: میں نے عرض کی: ہاں ایسا ہی ہے، میں صرف آپ کا نام لینا چھوڑ دیتی ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6078]
حدیث حاشیہ:
باقی دل سے آپ کی محبت نہیں جاتی۔
ترجمہ باب سے مطابقت یوں ہوئی کہ جب حدیث سے بے گناہ خفا رہنا جائز ہوا تو گناہ کی وجہ سے خفا رہنا بطریق اولیٰ جائز ہوگا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6078   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6078  
6078. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں تمہاری ناراضی اور خوشی کو خوب پہچانتا ہوں۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ کیسے پہچانتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: جب تم خوش ہوتی تو کہتی ہو: کیوں نہیں مجھے رب محمد ﷺ کی قسم ہے اور جب ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو: نہیں نہیں، مجھے رب ابراہیم کی قسم ہے۔ سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے کہا: میں نے عرض کی: ہاں ایسا ہی ہے، میں صرف آپ کا نام لینا چھوڑ دیتی ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6078]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی طبعی امر کی وجہ سے ناراضی کی جا سکتی ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خفا ہو جاتی تھیں اور آپ کا غصہ صرف طبعی غیرت کی وجہ سے ہوتا تھا جو عورتوں کے لیے معاف ہے کیونکہ یہ غیرت خاوند سے زیادہ محبت کی بنا پر ہوتی ہے۔
جب کسی طبعی امر کی بنا پر ناراضی کی جا سکتی ہے تو مخالف شرع کام پر بطریق اولی جائز ہے۔
مخالف شریعت کام اگر زیادہ سنگین ہے تو بائیکاٹ اور ناراضی بھی زیادہ ہونی چاہیے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے پچاس رات تک قطع تعلق کیا تھا اور اگر کسی معاشرتی وجہ سے ناراضی ہو تو خندہ پیشانی ترک ہونی چاہیے، دل میں ناراضی نہیں ہونی چاہیے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے واقعے سے معلوم ہوتا ہے۔
آپ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لینا ترک کر دیتی تھیں، دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بدستور باقی رہتی تھی۔
واللہ اعلم. (فتح الباري: 611/10) (2)
امام ابو داود رحمہ اللہ میل ملاپ چھوڑنے کی وعید ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
اگر یہ قطع تعلقی اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتو اس پر وعیدیں نہیں ہیں کیونکہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ایک آدمی سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا تھا۔
(سنن ُبذ داود، الأدب، تحت حدیث: 4916)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6078   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.