صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
The Book of (The Wedlock)
89. بَابُ كُفْرَانِ الْعَشِيرِ:
89. باب: عشیر کی ناشکری کی سزا عشیر خاوند کو کہتے ہیں عشیر شریک یعنی ساتھی کو بھی کہتے ہیں۔
(89) Chapter. To be unthankful to Al-Ashir, i.e., the husband. Al-Ashir also means the companion.
حدیث نمبر: Q5197
Save to word اعراب English
وهو الزوج وهو الخليط من المعاشرة، فيه: عن ابي سعيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم.وَهُوَ الزَّوْجُ وَهُوَ الْخَلِيطُ مِنَ الْمُعَاشَرَةِ، فِيهِ: عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
‏‏‏‏ یہ لفظ معاشرے سے نکلا ہے جس کے معنی خلط ملط یعنی ملا دینے کے ہیں۔ اس باب میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔

حدیث نمبر: 5197
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن زيد بن اسلم، عن عطاء بن يسار، عن عبد الله بن عباس، انه قال:" خسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس معه، فقام قياما طويلا نحوا من سورة البقرة، ثم ركع ركوعا طويلا، ثم رفع فقام قياما طويلا وهو دون القيام الاول، ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون الركوع الاول، ثم سجد، ثم قام فقام قياما طويلا وهو دون القيام الاول، ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون الركوع الاول، ثم رفع فقام قياما طويلا وهو دون القيام الاول، ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون الركوع الاول، ثم رفع، ثم سجد، ثم انصرف وقد تجلت الشمس، فقال: إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله لا يخسفان لموت احد ولا لحياته، فإذا رايتم ذلك فاذكروا الله، قالوا: يا رسول الله، رايناك تناولت شيئا في مقامك هذا، ثم رايناك تكعكعت، فقال: إني رايت الجنة او اريت الجنة، فتناولت منها عنقودا ولو اخذته لاكلتم منه ما بقيت الدنيا، ورايت النار فلم ار كاليوم منظرا قط ورايت اكثر اهلها النساء، قالوا: لم يا رسول الله؟ قال: بكفرهن، قيل: يكفرن بالله، قال: يكفرن العشير ويكفرن الإحسان لو احسنت إلى إحداهن الدهر، ثم رات منك شيئا، قالت: ما رايت منك خيرا قط".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ:" خَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ مَعَهُ، فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا نَحْوًا مِنْ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا، ثُمَّ رَفَعَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ قَامَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَفَعَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَفَعَ، ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ انْصَرَفَ وَقَدْ تَجَلَّتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ: إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَاذْكُرُوا اللَّهَ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَأَيْنَاكَ تَنَاوَلْتَ شَيْئًا فِي مَقَامِكَ هَذَا، ثُمَّ رَأَيْنَاكَ تَكَعْكَعْتَ، فَقَالَ: إِنِّي رَأَيْتُ الْجَنَّةَ أَوْ أُرِيتُ الْجَنَّةَ، فَتَنَاوَلْتُ مِنْهَا عُنْقُودًا وَلَوْ أَخَذْتُهُ لَأَكَلْتُمْ مِنْهُ مَا بَقِيَتِ الدُّنْيَا، وَرَأَيْتُ النَّارَ فَلَمْ أَرَ كَالْيَوْمِ مَنْظَرًا قَطُّ وَرَأَيْتُ أَكْثَرَ أَهْلِهَا النِّسَاءَ، قَالُوا: لِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: بِكُفْرِهِنَّ، قِيلَ: يَكْفُرْنَ بِاللَّهِ، قَالَ: يَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ وَيَكْفُرْنَ الْإِحْسَانَ لَوْ أَحْسَنْتَ إِلَى إِحْدَاهُنَّ الدَّهْرَ، ثُمَّ رَأَتْ مِنْكَ شَيْئًا، قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ مِنْكَ خَيْرًا قَطُّ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں زید بن اسلم نے، انہیں عطاء بن یسار نے اور انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے ساتھ اس کی نماز پڑھی۔ آپ نے بہت لمبا قیام کی اتنا طویل کہ سورۃ البقرہ پڑھی جا سکے پھر طویل رکوع کیا۔ رکوع سے سر اٹھا کر بہت دیر تک قیام کیا۔ یہ قیام پہلے قیام سے کچھ کم تھا۔ پھر آپ نے دوسرا طویل رکوع کیا۔ یہ رکوع طوالت میں پہلے رکوع سے کچھ کم تھا۔ پھر سر اٹھایا اور سجدہ کیا۔ پھر دوبارہ قیام کیا اور بہت دیر تک حالت قیام میں رہے۔ یہ قیام پہلی رکعت کے قیام سے کچھ کم تھا۔ پھر طویل رکوع کیا، یہ رکوع پہلے رکوع سے کچھ کم طویل تھا۔ پھر سر اٹھایا اور طویل قیام کیا۔ یہ قیام پہلے قیام سے کچھ کم تھا۔ پھر رکوع کیا، طویل رکوع۔ اور یہ رکوع پہلے رکوع سے کچھ کم طویل تھا۔ پھر سر اٹھایا اور سجدہ میں گئے۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو گرہن ختم ہو چکا تھا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ ان میں گرہن کسی کی موت یا کسی کی حیات کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ اس لیے جب تم گرہن دیکھو تو اللہ کو یاد کرو۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے اپنی جگہ سے کوئی چیز بڑھ کر لی۔ پھر ہم نے دیکھا کہ آپ ہم سے ہٹ گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے جنت دیکھی تھی یا (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا راوی کو شک تھا) مجھے جنت دکھائی گئی تھی۔ میں نے اس کا خوشہ توڑنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تھا اور اگر میں اسے توڑ لیتا تو تم رہتی دنیا تک اسے کھاتے اور میں نے دوزخ دیکھی آج کا اس سے زیادہ ہیبت ناک منظر میں نے کبھی نہیں دیکھا اور میں نے دیکھا کہ اس میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہے۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ایسا کیوں ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شوہر کی ناشکری کرتی ہیں اور ان کے احسان کا انکار کرتی ہیں، اگر تم ان میں سے کسی ایک کے ساتھ زندگی بھر بھی حسن سلوک کا معاملہ کرو پھر بھی تمہاری طرف سے کوئی چیز اس کے لیے ناگواری خاطر ہوئی تو کہہ دے گی کہ میں نے تو تم سے کبھی بھلائی دیکھی ہی نہیں۔

Narrated `Abdullah bin `Abbas: During the lifetime of Allah's Apostle, the sun eclipsed. Allah's Apostle offered the prayer of (the) eclipse) and so did the people along with him. He performed a long Qiyam (standing posture) during which Surat-al-Baqara could have been recited; then he performed a pro-longed bowing, then raised his head and stood for a long time which was slightly less than that of the first Qiyam (and recited Qur'an). Then he performed a prolonged bowing again but the period was shorter than the period of the first bowing, then he stood up and then prostrated. Again he stood up, but this time the period of standing was less than the first standing. Then he performed a prolonged bowing but of a lesser duration than the first, then he stood up again for a long time but for a lesser duration than the first. Then he performed a prolonged bowing but of lesser duration than the first, and then he again stood up, and then prostrated and then finished his prayer. By then the sun eclipse had cleared. The Prophet then said, "The sun and the moon are two signs among the signs of Allah, and they do not eclipse because of the death or birth of someone, so when you observe the eclipse, remember Allah (offer the eclipse prayer)." They (the people) said, "O Allah's Apostle! We saw you stretching your hand to take something at this place of yours, then we saw you stepping backward." He said, "I saw Paradise (or Paradise was shown to me), and I stretched my hand to pluck a bunch (of grapes), and had I plucked it, you would have eaten of it as long as this world exists. Then I saw the (Hell) Fire, and I have never before, seen such a horrible sight as that, and I saw that the majority of its dwellers were women." The people asked, "O Allah's Apostle! What is the reason for that?" He replied, "Because of their ungratefulness." It was said. "Do they disbelieve in Allah (are they ungrateful to Allah)?" He replied, "They are not thankful to their husbands and are ungrateful for the favors done to them. Even if you do good to one of them all your life, when she seems some harshness from you, she will say, "I have never seen any good from you.' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 62, Number 125


   صحيح البخاري3202عبد الله بن عباسالشمس والقمر آيتان من آيات الله لا يخسفان لموت أحد
   صحيح البخاري5197عبد الله بن عباسالشمس والقمر آيتان من آيات الله لا يخسفان لموت أحد ولا لحياته
   صحيح مسلم2109عبد الله بن عباسالشمس والقمر آيتان من آيات الله لا ينكسفان لموت أحد ولا لحياته
   سنن النسائى الصغرى1494عبد الله بن عباسالشمس والقمر آيتان من آيات الله لا يخسفان لموت أحد
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5197 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5197  
حدیث حاشیہ:
حدیث میں نماز کسوف کا بیان ہے آخر میں دوزخ کا ایک نظارہ کیا گیا ہے جو نافرمان عورتوں سے متعلق ہے۔
اسی سے باب کا مطلب ثابت ہوتا ہے عورتوں کی یہ فطرت ہے جو بیان ہوئی إلا ما شاء اللہ۔
بہت کم نیک بخت عورتیں ایسی ہوتی ہیں جو شکر گزار اور اطاعت شعار ہوں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5197   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5197  
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوزخ کا ایک منظر پیش کیا گیا جو نافرمان اور معصیت شعار عورتوں سے متعلق ہے۔
وہ یہ ہے کہ عورتیں اپنے شوہروں کے حقوق کی ناشکری کرتی رہتی ہیں جبکہ ایسا کرنا سخت گناہ ہے اور یہی گناہ ان کے دوزخ میں جانے کا سبب ہے۔
(2)
حدیث میں جو عورتوں کی فطرت بیان ہوئی ہے وہ مبنی بر حقیقت ہے۔
بہت کم نیک بخت عورتیں ایسی ہوتی ہیں جو خاوند کی فرمانبردار اور اطاعت شعار ہوں اور خاوند کی طرف سے روکھی سوکھی پر شکر گزار ہوں۔
(فتح الباري: 371/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5197   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1494  
´سورج گرہن کی نماز میں قرأت کی مقدار کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ سورج گرہن لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے ساتھ لوگوں نے نماز پڑھی، آپ نے قیام کیا تو لمبا قیام کیا، اور سورۃ البقرہ جیسی سورت پڑھی، پھر آپ نے ایک لمبا رکوع کیا، پھر اپنا سر اٹھایا تو لمبا قیام کیا، اور یہ پہلے سے کم تھا، پھر آپ نے ایک لمبا رکوع کیا، اور یہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر آپ نے سجدہ کیا، پھر ایک لمبا قیام کیا، اور یہ پہلے قیام سے کم تھا، پھر آپ نے ایک لمبا رکوع کیا، اور یہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر آپ نے رکوع سے اپنا سر اٹھایا، پھر ایک لمبا قیام کیا، اور یہ پہلے قیام سے کم تھا، پھر آپ نے ایک لمبا رکوع کیا، اور یہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر آپ نے سجدہ کیا، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو سورج صاف ہو چکا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، یہ دونوں کسی کے مرنے سے نہیں گہناتے ہیں، اور نہ کسی کے پیدا ہونے سے، چنانچہ جب تم انہیں گہنایا ہوا دیکھو تو اللہ تعالیٰ کو یاد کرو، لوگوں نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ اپنی جگہ میں کسی چیز کو آگے بڑھ کر لے رہے تھے، اور پھر ہم نے دیکھا آپ پیچھے ہٹ رہے تھے؟ تو آپ نے فرمایا: میں نے جنت کو دیکھا یا مجھے جنت دکھائی گئی تو میں اس میں سے پھل کا ایک گچھا لینے کے لیے آگے بڑھا، اور اگر میں اسے لے لیتا تو تم اس سے رہتی دنیا تک کھاتے، اور میں نے جہنم کو دیکھا چنانچہ میں نے آج سے پہلے اس بھیانک منظر کی طرح کبھی نہیں دیکھا تھا، اور میں نے اہل جہنم میں زیادہ تر عورتوں کو دیکھا، انہوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! ایسا کیوں ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ایسا ان کے کفر کی وجہ سے ہے، پوچھا گیا: کیا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں؟ آپ نے فرمایا: (نہیں بلکہ) وہ شوہر کے ساتھ کفر کرتی ہیں (یعنی اس کی ناشکری کرتی ہیں) اور (اس کے) احسان کا انکار کرتی ہیں، اگر تم ان میں سے کسی کے ساتھ زمانہ بھر احسان کرو، پھر اگر وہ تم سے کوئی چیز دیکھے تو وہ کہے گی: میں نے تم سے کبھی بھی کوئی بھلائی نہیں دیکھی۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الكسوف/حدیث: 1494]
1494۔ اردو حاشیہ:
➊ نمازکسوف میں لمبا قیام وغیرہ سورج کو روشن کرنے کے لیے نہیں، اس نے اپنے معمول کے مطابق روشن ہوہی جانا ہوتا ہے، کوئی نماز پڑھے یا نہ پڑھے یا گالیاں دے کیونکہ وہ تکوینی چیز ہے۔ یہ تو صرف وقتی فریضہ ادا کرنے کے لیے ہے، جیسے صبح کی نماز لمبی پڑھی جاتی ہے۔ عموماً کسوف کا وقت طویل ہوتا ہے۔ خصوصاً آپ کے دور کا کسوف مکمل سورج گرہن تھا اور مکمل سورج گرہن ختم ہونے میں کافی وقت لگتا ہے، لہٰذا اس نماز میں طوالت مستحب اور وقتی تقاضا ہے۔
➋ کفر کے معنی انکار کرنا بھی ہیں، ناشکری کرنا بھی۔ یہاں دوسرے معنی مراد ہیں۔ اور جہنم میں یہ دخول عارضی ہے کیونکہ گناہ گار مومنوں کا اصل اور مستقل ٹھکانا جنت ہے، ہاں حقیقی کافر دائمی جہنمی ہیں اور جہنم ان کا مستقل ٹھکانا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1494   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3202  
3202. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ فرمایا: بلاشبہ سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ کسی شخص کی موت یا پیدائش کیوجہ سے ان کو گرہن نہیں لگتا۔ جب تم یہ دیکھو تو اللہ کا ذکر کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3202]
حدیث حاشیہ:
کیوں کہ یہ جملہ انقلابات قدرت الٰہی کے تحت ہوتے رہتے ہیں پس ایسے مواقع پر خصوصیت کے ساتھ اللہ کو یاد کرنا اور نماز پڑھنا ایمان کی ترقی کا ذریعہ ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3202   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.