کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیونکر شروع ہوئی
The Book of The Beginning of Creation
4. بَابُ صِفَةِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ:
4. باب: (سورۃ الرحمن کی اس آیت کی تفسیر کہ) سورج اور چاند دونوں حساب سے چلتے ہیں۔
(4) Chapter. Characteristic of the sun and the moon. [The sun and the moon run on their fixed courses (exactly) caculated with measured out stages for each (for reckoning)]. (V.55:5)
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں کسی کی موت و حیات سے ان میں گرہن نہیں لگتا۔ اس لیے جب تم گرہن دیکھو تو اللہ کی یاد میں لگ جایا کرو۔“
Narrated `Abdullah bin `Abbas: The Prophet said, "The sun and the moon are two signs amongst the Signs of Allah. They do not eclipse because of someone's death or life. So, if you see them (i.e. eclipse), celebrate the Praises of Allah (i.e. pray).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 54, Number 424
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3202
حدیث حاشیہ: کیوں کہ یہ جملہ انقلابات قدرت الٰہی کے تحت ہوتے رہتے ہیں پس ایسے مواقع پر خصوصیت کے ساتھ اللہ کو یاد کرنا اور نماز پڑھنا ایمان کی ترقی کا ذریعہ ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3202
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1494
´سورج گرہن کی نماز میں قرأت کی مقدار کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ سورج گرہن لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے ساتھ لوگوں نے نماز پڑھی، آپ نے قیام کیا تو لمبا قیام کیا، اور سورۃ البقرہ جیسی سورت پڑھی، پھر آپ نے ایک لمبا رکوع کیا، پھر اپنا سر اٹھایا تو لمبا قیام کیا، اور یہ پہلے سے کم تھا، پھر آپ نے ایک لمبا رکوع کیا، اور یہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر آپ نے سجدہ کیا، پھر ایک لمبا قیام کیا، اور یہ پہلے قیام سے کم تھا، پھر آپ نے ایک لمبا رکوع کیا، اور یہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر آپ نے رکوع سے اپنا سر اٹھایا، پھر ایک لمبا قیام کیا، اور یہ پہلے قیام سے کم تھا، پھر آپ نے ایک لمبا رکوع کیا، اور یہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر آپ نے سجدہ کیا، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو سورج صاف ہو چکا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، یہ دونوں کسی کے مرنے سے نہیں گہناتے ہیں، اور نہ کسی کے پیدا ہونے سے، چنانچہ جب تم انہیں گہنایا ہوا دیکھو تو اللہ تعالیٰ کو یاد کرو“، لوگوں نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ اپنی جگہ میں کسی چیز کو آگے بڑھ کر لے رہے تھے، اور پھر ہم نے دیکھا آپ پیچھے ہٹ رہے تھے؟ تو آپ نے فرمایا: ”میں نے جنت کو دیکھا یا مجھے جنت دکھائی گئی تو میں اس میں سے پھل کا ایک گچھا لینے کے لیے آگے بڑھا، اور اگر میں اسے لے لیتا تو تم اس سے رہتی دنیا تک کھاتے، اور میں نے جہنم کو دیکھا چنانچہ میں نے آج سے پہلے اس بھیانک منظر کی طرح کبھی نہیں دیکھا تھا، اور میں نے اہل جہنم میں زیادہ تر عورتوں کو دیکھا“، انہوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! ایسا کیوں ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ”ایسا ان کے کفر کی وجہ سے ہے“، پوچھا گیا: کیا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”(نہیں بلکہ) وہ شوہر کے ساتھ کفر کرتی ہیں (یعنی اس کی ناشکری کرتی ہیں) اور (اس کے) احسان کا انکار کرتی ہیں، اگر تم ان میں سے کسی کے ساتھ زمانہ بھر احسان کرو، پھر اگر وہ تم سے کوئی چیز دیکھے تو وہ کہے گی: میں نے تم سے کبھی بھی کوئی بھلائی نہیں دیکھی۔“[سنن نسائي/كتاب الكسوف/حدیث: 1494]
1494۔ اردو حاشیہ: ➊ نمازکسوف میں لمبا قیام وغیرہ سورج کو روشن کرنے کے لیے نہیں، اس نے اپنے معمول کے مطابق روشن ہوہی جانا ہوتا ہے، کوئی نماز پڑھے یا نہ پڑھے یا گالیاں دے کیونکہ وہ تکوینی چیز ہے۔ یہ تو صرف وقتی فریضہ ادا کرنے کے لیے ہے، جیسے صبح کی نماز لمبی پڑھی جاتی ہے۔ عموماً کسوف کا وقت طویل ہوتا ہے۔ خصوصاً آپ کے دور کا کسوف مکمل سورج گرہن تھا اور مکمل سورج گرہن ختم ہونے میں کافی وقت لگتا ہے، لہٰذا اس نماز میں طوالت مستحب اور وقتی تقاضا ہے۔ ➋ کفر کے معنی انکار کرنا بھی ہیں، ناشکری کرنا بھی۔ یہاں دوسرے معنی مراد ہیں۔ اور جہنم میں یہ دخول عارضی ہے کیونکہ گناہ گار مومنوں کا اصل اور مستقل ٹھکانا جنت ہے، ہاں حقیقی کافر دائمی جہنمی ہیں اور جہنم ان کا مستقل ٹھکانا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1494
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5197
5197. سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں سورج کو گرہن لگا تو رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کے ساتھ نماز گرہن پڑھی۔ آپ نے سورہ بقرہ پڑھنے کی مقدار طویل قیام کیا، پھر لمبا رکوع کیا، رکوع سے سر اٹھا کر پھر لمبا قیام فرمایا اور یہ قیام پہلے قیام سے کچھ مختصر تھا، پھر آپ نے دوسرا طویل رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا پھر سر اٹھایا اس کے بعد سجدہ کیا اور کھڑے ہو گئے۔ پھر آپ نے طویل رکوع کیا جو پہلی رکعت کے رکوع سے کم تھا پھر اپنا سر اٹھایا اور طویل قیام کیا یہ قیام پہلے سے کچھ کم تھا، پھر رکوع کیا اور یہ رکوع پہلے رکوع سے کچھ کم طویل تھا پھر اٹھایا اور سجدے میں چلے گئے، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو سورج روشن ہو چکا تھا اس کے بعد آپ نے فرمایا: ”سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، انہیں کسی کی موت و حیات کی وجہ سے گرہن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:5197]
حدیث حاشیہ: حدیث میں نماز کسوف کا بیان ہے آخر میں دوزخ کا ایک نظارہ کیا گیا ہے جو نافرمان عورتوں سے متعلق ہے۔ اسی سے باب کا مطلب ثابت ہوتا ہے عورتوں کی یہ فطرت ہے جو بیان ہوئی إلا ما شاء اللہ۔ بہت کم نیک بخت عورتیں ایسی ہوتی ہیں جو شکر گزار اور اطاعت شعار ہوں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5197
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5197
5197. سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں سورج کو گرہن لگا تو رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کے ساتھ نماز گرہن پڑھی۔ آپ نے سورہ بقرہ پڑھنے کی مقدار طویل قیام کیا، پھر لمبا رکوع کیا، رکوع سے سر اٹھا کر پھر لمبا قیام فرمایا اور یہ قیام پہلے قیام سے کچھ مختصر تھا، پھر آپ نے دوسرا طویل رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا پھر سر اٹھایا اس کے بعد سجدہ کیا اور کھڑے ہو گئے۔ پھر آپ نے طویل رکوع کیا جو پہلی رکعت کے رکوع سے کم تھا پھر اپنا سر اٹھایا اور طویل قیام کیا یہ قیام پہلے سے کچھ کم تھا، پھر رکوع کیا اور یہ رکوع پہلے رکوع سے کچھ کم طویل تھا پھر اٹھایا اور سجدے میں چلے گئے، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو سورج روشن ہو چکا تھا اس کے بعد آپ نے فرمایا: ”سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، انہیں کسی کی موت و حیات کی وجہ سے گرہن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:5197]
حدیث حاشیہ: (1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوزخ کا ایک منظر پیش کیا گیا جو نافرمان اور معصیت شعار عورتوں سے متعلق ہے۔ وہ یہ ہے کہ عورتیں اپنے شوہروں کے حقوق کی ناشکری کرتی رہتی ہیں جبکہ ایسا کرنا سخت گناہ ہے اور یہی گناہ ان کے دوزخ میں جانے کا سبب ہے۔ (2) حدیث میں جو عورتوں کی فطرت بیان ہوئی ہے وہ مبنی بر حقیقت ہے۔ بہت کم نیک بخت عورتیں ایسی ہوتی ہیں جو خاوند کی فرمانبردار اور اطاعت شعار ہوں اور خاوند کی طرف سے روکھی سوکھی پر شکر گزار ہوں۔ (فتح الباري: 371/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5197