(مرفوع) حدثنا عمرو بن عاصم، حدثنا همام، عن قتادة، قال: سئل انس:" كيف كانت قراءة النبي صلى الله عليه وسلم؟ فقال: كانت مدا، ثم قرا: بسم الله الرحمن الرحيم، يمد ببسم الله، ويمد بالرحمن، ويمد بالرحيم".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: سُئِلَ أَنَسٌ:" كَيْفَ كَانَتْ قِرَاءَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: كَانَتْ مَدًّا، ثُمَّ قَرَأَ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، يَمُدُّ بِبِسْمِ اللَّهِ، وَيَمُدُّ بِالرَّحْمَنِ، وَيَمُدُّ بِالرَّحِيمِ".
ہم سے عمرو بن عاصم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے کہ انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرآت کیسی تھی؟ انہوں نے بیان کیا کہ مد کے ساتھ۔ پھر آپ نے «بسم الله الرحمن الرحيم» پڑھا اور کہا کہ «بسم الله»(میں اللہ کی لام) کو مد کے ساتھ پڑھتے «الرحمن»(میں میم) کو مد کے ساتھ پڑھتے اور «الرحيم.»(میں حاء کو) مد کے ساتھ پڑھتے۔
Narrated Qatada: Anas was asked, "How was the recitation (of the Qur'an) of the Prophet?' He replied, "It was characterized by the prolongation of certain sounds." He then recited: In the Name of Allah, the Most Beneficent, the Most Merciful prolonging the pronunciation of 'In the Name of Allah, 'the most Beneficent,' and 'the Most Merciful.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 61, Number 566
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5046
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت قطبہ بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز فجر میں سورہ ق پڑھتے سنا، جب آپ (لَّهَا طَلْعٌ نَّضِيدٌ) پر پہنچے تو(نَّضِيدٌ) کو کھینچ کر ادا کیا۔ (السنن الکبری للبیهقي: 54/2 و فتح الباري: 114/9) 2۔ مد کی دو قسمیں ہیں۔
۔ مد اصلی حروف مدہ کو کھینچ کر پڑھا جائے۔
۔ مد غیر اصلی: جب حرف مدہ کے بعد ہمزہ ہو تو اس اس کی دو صورتیں ہیں۔
۔ اگر حروف مدہ کے بعد ہمزہ اسی کلمے میں ہو تو اسے مد متصل کہا جا تا ہے، جیسے (مَآءٍ) اور سوّء
۔ اگر حرف مدہ کے بعد ہمزہ دوسرے کلمے میں ہو تو اسے مد متصل کہا جاتا ہے، جیسے (إِلَّا أَنفُسَهُمْ) مد غیر اصلی کو خوب کھینچ کر پڑھنا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی حروف مدہ کو کھینچ کر پڑھتے تھے۔ (فتح الباري: 114/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5046
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1015
´قرأت میں آواز کھینچنے کا بیان۔` قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کیسی ہوتی تھی؟ تو انہوں نے کہا: آپ اپنی آواز خوب کھینچتے تھے۔ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 1015]
1015۔ اردو حاشیہ: یہ مطلب نہیں کہ بے جا کھینچتے تھے بلکہ جس حرف پر مد ہوتی تھی اسے لمبا کر کے پڑھتے تھے۔ مد والے حروف کو کھینچنے سے قرأت میں سکون اور ٹھہراؤ پیدا ہوتا ہے جسے ترتیل کہتے ہیں اور یہ ضروری ہے، اس سے قرآن کریم مں غور و فکر کرنے کا موقع ملتا ہے۔ تیز تیز پڑھنا جس سے سوائے یعلمون اور تعلمون کے کچھ پتہ نہ چلے، مذموم قرأت ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1015
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1465
´قرآت میں ترتیل کے مستحب ہونے کا بیان۔` قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قرآت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم مد کو کھینچتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1465]
1465. اردو حاشیہ: یعنی جن الفاظ میں مد ہے۔ ان کو مد سے اور جن میں لین ہے ان کو کو لین سے۔ مقصد یہ کہ معروف عربی لحن کے ساتھ پڑھتے تھے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1465
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1353
´تہجد (قیام اللیل) میں قرات قرآن کا بیان۔` قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آواز کو کھینچتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1353]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: مطلب یہ ہے کہ جو الفاظ کھینچ کر پڑھے جا سکتے ہیں۔ انھیں کھینچ کر لمبا کرکے پڑھتے تھے مثلاً جب کسی حرف کے ساتھ الف ملا ہوا ہو یا پیش کے بعد ساکن واؤ آ رہا ہو یا زیر کے بعد ساکن یا آرہی ہو تو ان حروف کونسبتاً طویل کرکے پڑھا جائے گا۔ صرف زیر زبر اورپیش والے حرف کو کھینچ کر پڑھنا درست نہیں جب کہ ان کے بعد الف واؤ اور یاء ساکن موجود نہ ہو مثلا ﴿۔ إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ﴾ میں إِنَّ یا أَعْطَیْنَ پڑھنا غلط ہے اسی طرح ﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾ کو فَصَلِّیْ لِرَبِّکَا پڑھنا درست نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1353