صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: قرآن کے فضائل کا بیان
The Book of The Virtues of The Quran
9. بَابُ فَضْلِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ:
9. باب: سورۃ الفاتحہ کی فضیلت کا بیان (فضائل آمین)۔
(9) Chapter. The superiority of Fatiha-til-Kitab (The Opening Surah of the Book).
حدیث نمبر: 5006
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا يحيى بن سعيد، حدثنا شعبة، قال: حدثني خبيب بن عبد الرحمن، عن حفص بن عاصم، عن ابي سعيد بن المعلى، قال:" كنت اصلي فدعاني النبي صلى الله عليه وسلم فلم اجبه، قلت: يا رسول الله، إني كنت اصلي، قال: الم يقل الله: استجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم سورة الانفال آية 24، ثم قال: الا اعلمك اعظم سورة في القرآن قبل ان تخرج من المسجد، فاخذ بيدي فلما اردنا ان نخرج، قلت: يا رسول الله، إنك قلت لاعلمنك اعظم سورة من القرآن، قال: الحمد لله رب العالمين هي السبع المثاني والقرآن العظيم الذي اوتيته".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنِي خُبَيْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدِ بْنِ الْمُعَلَّى، قَالَ:" كُنْتُ أُصَلِّي فَدَعَانِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ أُجِبْهُ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ أُصَلِّي، قَالَ: أَلَمْ يَقُلِ اللَّهُ: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ سورة الأنفال آية 24، ثُمَّ قَالَ: أَلَا أُعَلِّمُكَ أَعْظَمَ سُورَةٍ فِي الْقُرْآنِ قَبْلَ أَنْ تَخْرُجَ مِنَ الْمَسْجِدِ، فَأَخَذَ بِيَدِي فَلَمَّا أَرَدْنَا أَنْ نَخْرُجَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ قُلْتَ لَأُعَلِّمَنَّكَ أَعْظَمَ سُورَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ، قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ هِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ الَّذِي أُوتِيتُهُ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا، کہا مجھ سے حبیب بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے حفص بن عاصم نے اور ان سے ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ نے کہ میں نماز میں مشغول تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اس لیے میں کوئی جواب نہیں دے سکا، پھر میں نے (آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر) عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نماز پڑھ رہا تھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم نہیں فرمایا ہے «استجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم‏» کہ اللہ کے رسول جب تمہیں پکاریں تو ان کی پکار پر فوراً اللہ کے رسول کے لیے لبیک کہا کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسجد سے نکلنے سے پہلے قرآن کی سب سے بڑی سورت میں تمہیں کیوں نہ سکھا دوں۔ پھر آپ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور جب ہم مسجد سے باہر نکلنے لگے تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے ابھی فرمایا تھا کہ مسجد کے باہر نکلنے سے پہلے آپ مجھے قرآن کی سب سے بڑی سورت بتائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں وہ سورت «الحمد لله رب العالمين» ہے یہی وہ سات آیات ہیں جو (ہر نماز میں) باربار پڑھی جاتی ہیں اور یہی وہ قرآن عظیم ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Sa`id Al-Mu'alla: While I was praying, the Prophet called me but I did not respond to his call. Later I said, "O Allah's Apostle! I was praying." He said, "Didn't Allah say: 'O you who believe! Give your response to Allah (by obeying Him) and to His Apostle when he calls you'?" (8.24) He then said, "Shall I not teach you the most superior Surah in the Qur'an?" He said, '(It is), 'Praise be to Allah, the Lord of the worlds. ' (i.e., Surat Al-Fatiha) which consists of seven repeatedly recited Verses and the Magnificent Qur'an which was given to me."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 61, Number 528


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري4703رافع بن أوسالحمد لله رب العالمين هي السبع المثاني والقرآن العظيم الذي أوتيته
   صحيح البخاري5006رافع بن أوسالحمد لله رب العالمين هي السبع المثاني والقرآن العظيم الذي أوتيته
   سنن ابن ماجه3785رافع بن أوسالحمد لله رب العالمين وهي السبع المثاني والقرآن العظيم الذي أوتيته

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5006 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5006  
حدیث حاشیہ:
قرآن مجید کے نازل فرمانے والے اللہ رب العالمین کا جس قدر شکر ادا کروں کم ہے کہ اس دور گرانی و ضعف قلبی و قالبی میں بخاری شریف مترجم اردو کے بیس پارے پورے کرکے تیسری منزل یعنی پارہ 21 کا آغاز کر رہا ہوں، حالات بالکل ناساز گار ہیں پھر بھی اللہ پاک سے قوی امید ہے کہ وہ اپنے کلام اور اپنے حبیب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات عالیہ کی خدمت و اشاعت کے لئے غیب سے سامان و اسباب مہیا کرے گا اور مثل سابق ان بقایا پاروں کی بھی تکمیل کرا کے اپنے پیارے بندوں اور بندیوں کے لئے اس کو باعث رشد و ہدایت قرار دے گا۔
آخری عشرہ ماہ جمادی الثانی 1394 ھ میں اس پارے کی تسوید کا کام شروع کر رہا ہوں۔
تکمیل اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔
سورۃ فاتحہ کے بارے میں حضرت حافظ صاحب فرماتے ہیں۔
اختصت الفاتحة بأنھا مبداءالقرآن وحاویة لجمیع علومه لاحتواءھا علی الثناء علی اللہ والإقرار لعبادته والإخلاص له و سوال الھدایة منه والإشارة إلی الاعتراف بالعجز عن القیام بنعمه و إلی شان المعاد و بیان عاقبة الجاحدین (فتح الباری)
یعنی سورۃ فاتحہ کی یہ خصوصیات ہیں کہ یہ علوم قرآن مجید کا خزانہ ہے جو قرآن پاک کے سارے علوم کو حاوی ہے یہ ثناء علی اللہ پر مشتمل ہے اس پر عبادت اور اخلاص کے لئے بندوں کی طرف سے اظہار اقرار ہے اور اللہ سے ہدایت مانگنے اور اپنی عاجزی کا اقرار کرنے اور اس کی نعمتوں کے قیام وغیرہ کے ایمان افروز بیانات ہیں جو بندوں کی زبان سے اس سورہ شریفہ کے ذریعہ ظاہر ہوتے ہیں۔
ساتھ ہی اس سورت میں شان معاد کا بھی اظہار ہے اور جو لوگ اسلام و قرآن کے منکرین ہیں ان کے انجام بد پر بھی نشان دہی کی گئی ہے۔
پہلے اس سورت کے متعلق ایک مفصل مقالہ دیا گیا ہے جس سے قارئین نے اس سورہ کے بارے میں بہت سی معاملات حاصل کرلی ہوں گی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5006   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5006  
حدیث حاشیہ:

اس طرح کا ایک واقعہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی پیش آیا جبکہ وہ مسجد نبوی میں نماز پڑھ رہے تھے۔
انھیں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا تھا۔
(جامع الترمذي، فضائل القرآن، حدیث: 2875)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سورت کو قرآن کریم کی عظیم تر سورت قرار دیا ہے کیونکہ اس کے پڑھنے سے بہت ثواب ملتا ہے اگرچہ دوسری سورتیں مقدار کے اعتبار سے لمبی ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے علامہ قرطبی کے حوالے سے لکھا ہے۔
فاتحہ کی خصوصیت ہے کہ وہ قرآن کریم کا مقدمہ ہے جو قرآنی علوم پر مشتمل ہے کیونکہ اس میں اللہ کی حمد و ثنا اور بندوں کی طرف سے عبادت و اخلاص کا اظہار ہے۔
اللہ تعالیٰ سے طالب ہدایت اور اپنی عاجزی کا اظہار ہے، نیز اس میں اس کی نعمتوں کے ایمان افروز بیانات آخرت کے حالات اور منکرین کا انجام بیان ہوا ہے۔
(فتح الباري: 69/9)
اس حدیث کے متعلق دیگر فوائد کتاب التفسیر میں بیان ہو چکے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5006   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3785  
´تلاوت قرآن کے ثواب کا بیان۔`
ابوسعید بن معلّیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: کیا میں مسجد سے نکلنے سے پہلے تمہیں وہ سورت نہ سکھاؤں جو قرآن مجید میں سب سے عظیم سورت ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد سے باہر نکلنے لگے تو میں نے آپ کو یاد دلایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ سورت «الحمد لله رب العالمين» ہے جو سبع مثانی ہے، اور قرآن عظیم ہے، جو مجھے عطا کیا گیا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3785]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس حدیث میں قرآن مجید کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے:
﴿وَلَقَد آتَيناكَ سَبعًا مِنَ المَثاني وَالقُر‌آنَ العَظيمَ﴾  (الحجر، 15: 87)
یقیناً ہم نے آپ کو بار بار دہرائی جانے والی سات آیات اور قرآن عظیم عطا فرمایا ہے۔

(2)
سورہ فاتحہ کو سبع مثانی اس لیے فرمایا گیا ہے کہ یہ ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے۔

(3)
سورہ فاتحہ کو قرآن عظیم کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ یہ قرآن مجید کے تمام مضامین کا خلاصہ ہے، یعنی اس میں عقیدہ توحید، عملی توحید، یعنی صرف اللہ کی عبادت اور صرف اس سے مدد مانگنا، اس کی صفات، عقیدہ آخرت، وعدہ، وعید، گزشتہ انبیاء اور ان کی امتوں کےنیک اور نا فرمان افراد کے واقعات سے عبرت اور اس کسے ہدایت کی درخواست جیسے اہم مضامین موجود ہیں۔

(4)
اہم مسئلہ سمجھانے سے پہلے اس سمجھنے کا شوق پیدا کر دیا جائے تو وہ اچھی طرح سمجھ میں آتا ہے اور یاد رہتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3785   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4703  
4703. حضرت ابو سعید بن معلٰی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میرے پاس سے نبی ﷺ گزرے جبکہ میں اس وقت نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ نے مجھے آواز دی تو میں حاضر نہ ہو سکا حتی کہ میں نے نماز مکمل کی۔ نماز سے فراغت کے بعد میں حاضر خدمت ہوا تو آپ نے فرمایا: تم اس وقت کیوں نہ آئے؟ میں نے عرض کی: میں اس وقت نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: کیا اللہ تعالٰی کا درج ذیل ارشاد نہیں ہے: اے ایمان والو! جب اللہ اور اس کا رسول تمہیں بلائے تو فورا حاضر ہو جاؤ؟ پھر آپ نے فرمایا: مسجد سے نکلنے سے پہلے پہلے میں تجھے قرآن کریم کی ایک عظیم سورت کی تعلیم نہ دوں؟ اس کے بعد آپ مسجد سے جانے کے لیے اٹھے تو میں نے آپ کو وہ بات یاد دلائی۔ آپ نے فرمایا: ﴿ٱلْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ﴾ یہی سورت سبع مثانی ہے اور یہی قرآن عظیم ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4703]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابو سعید بن معلی یہ ابو سعید حارث بن معلی انصاری ہیں۔
64ھ میں بعمر 64 سال وفات پائی (رضي اللہ عنه)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4703   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.