(مرفوع) حدثنا صدقة بن الفضل، اخبرنا يحيى، عن سفيان، عن حبيب بن ابي ثابت، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال: قال عمر:" ابي اقرؤنا، وإنا لندع من لحن ابي، وابي يقول: اخذته من في رسول الله صلى الله عليه وسلم فلا اتركه لشيء، قال الله تعالى: ما ننسخ من آية او ننسها نات بخير منها او مثلها سورة البقرة آية 106".(مرفوع) حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ:" أُبَيٌّ أَقْرَؤُنَا، وَإِنَّا لَنَدَعُ مِنْ لَحَنِ أُبَيٍّ، وَأُبَيٌّ يَقُولُ: أَخَذْتُهُ مِنْ فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا أَتْرُكُهُ لِشَيْءٍ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا سورة البقرة آية 106".
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم کو یحییٰ بن سعید قطان نے خبر دی، انہیں سفیان ثوری نے، انہیں حبیب بن ابی ثابت نے، انہیں سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، ابی بن کعب ہم میں سب سے اچھے قاری ہیں لیکن ابی جہاں غلطی کرتے ہیں اس کو ہم چھوڑ دیتے ہیں (وہ بعض منسوخ التلاوۃ آیتوں کو بھی پڑھتے ہیں) اور کہتے ہیں کہ میں نے تو اس آیت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ مبارک سے سنا ہے، میں کسی کے کہنے سے اسے چھوڑنے والا نہیں اور اللہ نے خود فرمایا ہے «ما ننسخ من آية أو ننسأها نأت بخير منها أو مثلها» کہ ”ہم جب کسی آیت کو منسوخ کر دیتے ہیں پھر یا تو اسے بھلا دیتے ہیں یا اس سے بہتر لاتے ہیں۔“
Narrated Ibn `Abbas: `Umar said, Ubai was the best of us in the recitation (of the Qur'an) yet we leave some of what he recites.' Ubai says, 'PI have taken it from the mouth of Allah's Apostle and will not leave for anything whatever." But Allah said "None of Our Revelations do We abrogate or cause to be forgotten but We substitute something better or similar." 2.106
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 61, Number 527
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5005
حدیث حاشیہ: گویا اس آیت سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابی کا رد کیا کہ بعض آیات منسوخ التلاوت یا منسوخ الحکم ہو سکتی ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سننا اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کی تلاوت منسوخ نہ ہوئی ہو۔ قرآن عزیز کا سرکاری نسخہ از تبرکات حضرت العلام فاضل نبیل مولانا اسماعیل صاحب شیخ الحدیث دار العلوم محمدیہ گوجرانوالہ (رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قرآن مقدس کی جو تحریر صورت صحف و اجزاء میں موجود تھی اسے سرکاری تحریر کہنا چاہئے اس تحریر کی روشنی میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے واقعہ حرہ کے بعد سرکاری نسخہ مرتب فرمایا اسی کی بنیاد پر وہ سرکاری نسخے لکھے گئے جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے مختلف گورنروں کو ارسال فرمائے۔ ہجوں کے اختلاف اور خط کے نامکمل ہونے کی وجہ سے جب شبہ پیدا ہوا تو حفظ کے ساتھ جزوی نوشتوں سے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تصحیح کی خاطر قریش کے لغت و لہجہ کو اساس قرار دیا گیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت راشدہ میں حفاظ اور قراء کی موت سے قرآن عزیز کے ضائع ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت راشدہ میں عجمی عنصر کی کثرت اور عجمی ہجوں کی یورش کی وجہ سے سرکاری نسخے پر نظر ثانی کی گئی اور سب سے بڑی خوبی یہ ہوئی کہ تمام مشکوک دستاویز کو ضائع کر دیا گیا تا کہ بحث اور تشکیک کے لئے کوئی مواد باقی نہ رہ جائے، اب وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس بعینہ وہی قرآن مقدس تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی زندگیوں میں بار بار پڑھا اور اسے سرکاری دستاویز کے طور پر لکھوایا اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی بر وقت کوشش اس قدر کارگر ہوئی کہ آج تک اس میں ایک حرف کی بھی کمی و بیشی نہیں ہو سکی اور اس میں متواتر قراءت صحیح طور پر آگئی اور تمام شذ وذ کو ایک طرف کر دیا گیا۔ اتقان میں حافظ سیوطی نے اور زرکشی نے (برہان فی علوم القرآن) میں بعض امور ایسے ذکر فرمائے ہیں جن سے قرآن عزیز کی جمع و ترتیب کے متعلق بعض شبہات پیدا ہو سکتے ہیں۔ بعض دوسری روایات سے بھی اس کی تائید ہوئی ہے، لیکن قرآن عزیزحفظ کے بعد جس عظیم الشان تواتر سے منقول ہوا ہے اس کے سامنے ان آحاد اور آثار کی کوئی اصلیت نہیں رہ جاتی۔ علامہ ابن حزم الملل والنحل میں فرماتے ہیں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا اس وقت اسلام جزیرہ عرب میں پھیل چکا تھا بحرقلزم اور سواحل یمن سے گزر کر خلیج فارس اور فرات کے کناروں تک اسلام کی روشنی پھیل چکی تھی۔ پھر اسلام شام کی آخری سرحدوں سے ہوتا ہوا بحیرئہ قلزم کے کناروں تک شائع ہو چکا تھا، اس وقت جزیرئہ عرب میں اس قدر شہر اور بستیاں وجود میں آگئی تھیں کہ جن کی تعداد اللہ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔ یمن، بحرین، عمان، نجد، بنوطے کے پہاڑ، مضر اور ربیعہ و قضاعہ کی آبادیاں، طائف، مکہ مدینہ یہ سب لوگ مسلمان ہو چکے تھے ان میں مسجدیں بھر پور تھیں۔ ہر شہر ہر گاؤں ہر بستی کی مساجد میں قرآن مجید پڑھا یا جاتا تھا۔ بچے اور عورتیں قرآن جانتے تھے اور اس کے لکھے ہوئے نسخے ان کے پاس موجود تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عالم بالا کو تشریف لے گئے مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہ تھا وہ صرف ایک جماعت تھے اور ایک ہی دین سے وابستہ تھے حضرت ابو بکر صدیق صکی خلافت راشدہ ڈھائی سال رہی ان کی خلافت میں فارس روم کے بعض حصص اور یمامہ کا علاقہ بھی اسلامی قلم رو میں شامل ہوا قرآن عزیز کی قراءت میں مزید اضافہ ہوا لوگوں نے قرآن مقدس کو لکھا۔ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت ابوذر اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہم و غیرہم نے قرآن مجید کے نسحے لکھے اور جمع کئے ہر شہر میں قرآن مجید کے نسخے موجود تھے اور ان ہی میں پڑھا جا رہا تھا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا صورت حال بدستور تھی ان کی خلافت میں مسیلمہ اور اسود عنسی کا فتنہ کھڑا ہوا، یہ دونوں نبوت کے مدعی تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا کھلے طور پر اعلان کرتے تھے۔ بعض لوگوں نے زکٰوۃ سے انکار کیا۔ بعض قبائل نے کچھ دن ارتداد اختیار کیا لیکن ان ہی قبائل کے مسلمانوں نے ان کا مقابلہ کیا اور ایک سال نہیں گزرنے پایا تھا کہ فتنہ و فساد ختم ہوگیا اور حالات بدستو اعتدال پر آ گئے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بعد مسند خلافت کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زینت بخشی۔ فارس پورا فتح ہو گیا۔ شام، الجزائر، مصر اور افریقہ کے بعض علاقے اسلامی قلمرومیں شامل ہوئے۔ مسجد یں تعمیر ہوئیں قرآن عزیز پڑھا جانے لگا تمام ممالک میں صلی اللہ علیہ وسلم قرآن عزیز کے مخطوطے شائع ہوئے مشرق و مغرب تک مکاتب میں علماء سے لے کر بچوں تک۔ قرآن کی تلاوت ہونے لگی، پورے دس سال یہ سلسلہ جاری رہا۔ اسلام میں کبھی اختلاف نہ تھا وہ ایک ہی ملت کے پابند تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے انتقال کے وقت مصر، عراق، شام، یمن کے علاقوں میں کم ازکم قرآن عزیز کے ایک لاکھ نسخے شائع ہو چکے ہوں گے۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں اسلامی فتوحات اور بھی وسیع ہوئیں اور قرآن عزیز کی اشاعت مفتوحہ ممالک میں وسیع پیمانہ پر ہوئی۔ قرآن مجید کے شائع شدہ نسخوں کا اس وقت شمار نا ممکن ہوگا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت سے اختلافات کا دور شروع ہوا اور روافض کی تحریک نے زور پکڑا اور روافض ہی کی وجہ سے قرآن مجید کی حفاظت کے متعلق اعتراضات اور شبہات شروع ہوئے، صورت حال یہ تھی کہ نابغہ اور زہیر کے اشعار میں کوئی کمی بیشی کردے تو یہ ممکن نہیں، دنیا میں اسے ذلیل و خوار ہونا پڑ ے گا۔ قرآن مجید کا معاملہ تو اور بھی مختلف ہے۔ اس وقت قرآن مجید اندلس، بربر، سوڈان، کابل، خراسان، ترک اور صقلیہ اور ہندوستان تک پھیل چکا تھا۔ اس سے روافض کی حماقت ظاہر ہوئی وہ قرآن مجید کی جمع و تالیف میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مہتمم کہتے ہیں یہی حال مسیحی اور سماجی مشنریوں کا ہے۔ یہ لوگ روافض سے سیکھ کر قرآن مجید کو اپنے نوشتوں کی طرح محرف ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ ان حالات میں کمی و بیشی ایک حرف کی بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ یا کسی دوسرے شخص کے لئے ناممکن تھی۔ روافض اور ان کے تلامذہ کی یہ غلط بیانی یوں بھی واضح ہوتی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پانچ سال نو ماہ تک با اختیار خلیفہ رہے اور ان کے بعد حضرت حسن ہوئے۔ انہوں نے قرآن کے بدلنے کا حکم نہیں دیا نہ ہی اپنی حکومت میں قرآن عزیز کا دوسرا صحیح نسخہ شائع فرمایا۔ یہ کیسے باور کر لیا جائے کہ پوری اسلامی قلم رو میں غلط اور محرف قرآن پڑھا جائے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اسے آسانی سے گوارہ کریں۔ (مختصر الفصل في الملل و النحل، ابن حزم) حافظ ابن حزم نے قرآن عزیز کی حفاظت کے متعلق یہ بیان مسیحی اور روافض کی غلط بیانیوں کے متعلق لکھا ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد عرصہ تک شائع ہوتی رہیں، شیعہ چونکہ مسلمان کہلاتے تھے اور تقیہ کا رواج ان کے ہاں عام تھا اس لئے اس قسم کا مضموم لٹریچر رواۃ کی غلطی سے اہل سنت کی روایا ت میں بھی آ گیا گو محدثین نے ایسی روایات کی حقیقت کو واضح کر دیا ہے اور ان کے کذب اور وضع کی حقیقت کو واضح کر دیا۔ فن حدیث کے ماہر ان روایات اور آثار کی حقیقت کو سمجھتے ہیں لیکن ابن حزم نے اصولی اور اتفاقی جواب دیا ہے کہ اس عظیم الشان تواتر کے سامنے اس مشکوک ذخیرئہ روایات کی اہمیت نہیں، ا س لئے جب تعارض ہی نہیں تو تطبیق اور ترجیح کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ناقل خلیل احمد رازی ولد حضرت مولانا محمد داؤد راز مد ظله العالي رہپوہ ضلع گوڑ گاؤ ں (ھر یانہ) الحمد للہ ماہ صفرالمظفر 1394ھ کا دوسرا عشرہ ہے، عصر کا وقت ہے۔ آج اس پارے کی تسوید ختم کر رہا ہوں مجھ کو خود معلوم نہیں کہ اس پارے کے ہر ایک لفظ کو میں نے کتنی کتنی دفعہ پڑھا ہے اور حک و اضافہ کے لئے کتنی مرتبہ قلم کو استعمال کیا ہے، پھر بھی انسان ہوں، کم فہم ہوں، بس یہی کہہ سکتا ہوں کہ اس اہم خدمت میں جو بھی کوتاہی ہوئی ہو اللہ پاک اسے معاف کرے۔ امید ہے کہ مخلص علماء کرام بھی کوتاہیوں کے لئے چشم عفو سے کام لیں گے اور پر خلوص اصلا ح فرما کر میری دعائیں حاصل کریں گے۔ یا اللہ! جس طرح تو نے اس اہم کتاب کا یہ دوسرا حصہ بھی پورا کرا دیا ہے تیسرے حصہ کو بھی جو پارہ 21 سے شروع ہوکر 30 پر ختم ہوا سے بھی پورا کرا دیجیو۔ میری عمر مستعار کو اس قدر مہلت عطا فرمائیو کہ بہ شرف تکمیل سے مشرف ہو سکوں اور قیامت کے دن اپنے جملہ معاونین کرام و ہمدردان عظام کو ہمراہ لے کر لواء حمد کے نیچے حضرت سیدنا امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں دربار نبوی میں حوض کوثر پر حاضری دیکر یہ حقیر خدمت پیش کرسکوں اور ہم کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک سے جام کوثر نصیب ہو۔ ربنا تقبل منا إنك أنت السمیع العلیم و صلی اللہ علی خیر خلقه محمد و اٰله و أصحابه أجمعین برحمتك یا أرحم الراحمین آمین ثم آمین۔ نا چیز خادم حدیث نبوی محمد داؤد ولد عبد اللہ راز السلفی موضع رہپوہ۔ ضلع، گوڑگاؤں ہریانہ (بھارت)(6-3-74)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5005
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5005
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی قرآن کریم کے قاری اور بہترین عالم تھے لیکن وہ اپنے مصحف پر حد سے زیادہ اعتماد کرتے تھے۔ جب انھیں بتایا جاتا کہ آپ فلاں آیت کی تلاوت کرتے ہیں۔ حالانکہ اس کی تلاوت منسوخ ہو چکی ہے تو وہ اس سے رجوع نہ کرتے بلکہ کہتے کہ میں نے تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دہن مبارک سے سنا ہے۔ 2۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آیت قرآن سے استدلال کیا کہ بعض قرآنی آیات کا نسخ خود قرآن سے ثابت ہے۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سننا اس امر کے لیے ضروری نہیں ہے کہ اس کی تلاوت منسوخ نہیں ہوئی، لہٰذا حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قراءت میں جو آیات منسوخ التلاوۃ ہیں ہم انھیں تسلیم نہیں کرتے بلکہ انھیں چھوڑ دیتے ہیں۔ (فتح الباري: 68/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5005