7550. سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے ہشام بن حکیم ؓ کو رسول اللہ ﷺ کی زندگی مبارک میں سورۃ الفرقان پڑھتے سنا۔ میں نے ان کی قراءت کی طرف کان لگایا تو وہ قرآن مجید بہت سے ایسے طریقوں سے پڑھ رہے تھے جو رسول اللہ ﷺ نے مجھے نہیں پڑھائے تھے۔ قریب تھا کہ میں نماز ہی میں ان پر حملہ کردیتا لیکن میں نے صبر سے کام لیا اور جب انہوں نے سلام پھیرا تو میں نے ان کی گردن میں چادر کا پھندا ڈال دیا اور کہا: تمہیں یہ سورت اس طرح کس نے پڑھائی ہے جو میں نے ابھی تم سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا: مجھے اس طرح رسول اللہﷺ نے پڑھائی ہے۔ میں نے کہا: تم جھوٹ بولتے ہو مجھے تو خود رسول اللہ ﷺ نے یہ سورت اس طرح (تمہاری قراءت) کے علاوہ طریقے پر پڑھائی ہے۔ پھر میں انہیں کھینچتا ہوا رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گیا اور کہا:اللہ کے رسول! میں نے اس شخص کو سورہ فرقان ان حروف پر پڑھتے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7550]
حدیث حاشیہ: امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے آخری حصے سے عنوان ثابت کیا ہے کہ جس قرآءت میں سہولت ہو اس کے مطابق پڑھو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے" پڑھنے۔
" کو صحابہ کی طرف منسوب کیا ہے۔
یہ اس امر کی دلیل ہے کہ قرآن پڑھنا ان کا فعل ہے۔
کیونکہ اس میں سہولت کا وصف پایا جاتا ہے۔
لوگ اس میں مختلف ہوتے ہیں۔
قرآءت میں اختلاف ہو سکتا ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ہشام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قرآءت میں ہوا مگر قرآن کریم اختلاف کا محل نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور قرآن مجید سہولت کے مطابق پڑھنا بندوں کا فعل ہے جو مخلوق ہے یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ جہاں سے قرآن یاد ہو وہاں سے قرآءت کر سکتے ہیں اور جس قدر آسانی سے پڑھا جائے اتنا ہی پڑھنا چاہیے البتہ امام کو ہدایت ہے کہ وہ قرآءت کرتے وقت اپنے مقتدیوں کا ضرور خیال رکھے۔
انتہائی ضروری نوٹ:
۔
حروف سبعہ کی تعیین میں بہت اختلاف ہے۔
بعض لوگوں نے اس سے سات لغات مراد لی ہیں لیکن یہ صحیح نہیں کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ہشام رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں قریشی تھے۔
ان کی لغت ایک تھی اس کے باوجود ان کا اختلاف ہوا۔
یہ کوئی معقول بات نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی آدمی کو قرآن مجید ایسی لغت میں سکھائیں جو اس کی لغت نہ ہو۔
بعض نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اس سے مراد ایک معنی کو مختلف مراد ف
(ہم معنی) الفاظ سے ادا کرنا ہے اگرچہ ایک ہی لغت سے ہو کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ہشام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک ہی لغت تھی لیکن اس کے باوجود ان کی قرآءت میں اختلاف ہوا۔
اس سلسلے میں دو باتوں پر اتفاق ہے۔
قرآن کریم کو سبعہ حروف سے پڑھنے کا یہ مطلب نہیں کہ قرآن کریم کے ہر لفظ کو سات طریقوں سے پڑھنا جائز ہے کیونکہ چند ایک کلمات کے علاوہ بیشترکلمات اس اصول کے تحت نہیں آتے۔
سبعہ حروف سے مرادان سات آئمہ کی قرآءت ہر گز نہیں جو اس سلسلے میں مشہور ہوئے ہیں۔
کیونکہ پہلا شخص جس نے ان سات قرآءت کو جمع کرنے کا اہتمام کیا وہ ابن مجاہد ہیں جن کا تعلق چوتھی صدی سے ہے۔
امام جزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں اس حدیث کو بہت مشکل خیال کرتا تھا حتی کہ میں نے تیس سے زیادہ سال اس پر غور وفکر کیا۔
میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ قرآءت کا اختلاف سات وجوہ سے باہر نہیں ہے۔
وہ حسب ذیل ہیں۔
معنی اور صورت خطی میں تبدیلی کے بغیر صرف حرکات میں اختلاف ہوگا جیسا کہ
(بخل) کو چار طرح سے پڑھا گیا ہے۔
(بُخلّ) بروزن قُفلّ،بَخَلّ بروزن كَرّم،بخّل بروزن فَقرّاور بُخُلّ۔
اور کلمہ
(يَحسبُ) کو"س"کے زبر اور زیر کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔
صورت خطی میں اختلاف کے بجائے صرف معنی میں اختلاف ہوگا جیساکہ
(فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ) کو دو طرح سے پڑھا گیا ہے۔
آدم کی رفعی اور کلمات کی کی نصبی حالت۔
آدم کی نصبی اور کلمات کی رفعی حالت۔
صورت خطی کے بجائے حروف میں تبدیلی ہوگی۔
جس سے معنی بھی بدل جائے گا جیسا کہ
(تَبلُوا كو تَتلُوا) پڑھا گیا ہے۔
صورت خطی کے بجائے حروف میں تبدیلی ہو گی لیکن اس سے معنی تبدیل نہیں ہو گا۔
جیسا کہ
(بَصطَة كو بَسطَة) کو
(الصِرَاط كو السِرَاط) پڑھا گیا ہے۔
صورت خطی اور حروف دونوں کی تبدیلی ہوگی جس سے معنی بھی تبدیل ہو جائے گا۔
(أَشَدَّ مِنْكُمْ كو أَشَدُّ مِنْهُم) پڑھا گیا ہے
تقدیم و تاخیر کا اختلاف ہو گا جیسا کہ
(فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ) میں ہے۔
اس میں پہلا معروف اور دوسرا مجہول ہے۔
اسے یوں پڑھا گیا ہے۔
(وَيُقْتَلُونَ فَيَقْتُلُونَ)
حروف کی کمی و بیشی میں اختلاف ہوگا جیسا کہ
(وًأَوْصّى) کو
(وَوَصَّى) پڑھا گیا ہے۔
اس کے علاوہ اظہار و ادغام، روم و اشمام، تفخیم، و ترقیق مدو قصر امالہ وفتح تخفیف و تسہیل اور ابدال و نقل وغیرہ۔
جسے فن قراءت میں اصول کا نام دیا جاتا ہے یہ ایسا اختلاف نہیں ہے جس سے معنی یا لفظ میں تبدیلی آتی ہو۔
(النشر۔
ص: 1/26) دور حاضر میں بعض اہل علم کی طرف سے دعوی کیا جاتا ہے کہ قرآن مجید کی ایک ہی قرآءت ہے جو ہمارے مصاحف میں ثبت ہے اس کے علاوہ جو قرآءت مدارس میں پڑھی پڑھائی جاتی ہیں یا بعض علاقوں میں لوگوں نے اختیار کر رکھی ہیں وہ سب فتنہ عجم کی باقیات ہیں ہمارے رجحان کے مطابق مذکورہ دعوی بلادلیل ہے کیونکہ یہ قرآءت صحابہ و تابعین سے تواتر کے ساتھ منقول ہیں اور رسم عثمانی کی حدود کے اندر اور اس کے مطابق ہیں نیز یہ اجماع امت سے ثابت ہیں جس طرح ہمارے روایت حفص کے مطابق مصاحف لکھے اور تلاوت کیے جاتے ہیں اسی طرح شمالی افریقہ اور بعض دوسرے ممالک میں روایت ورش کے مطابق مصاحف لکھے اور تلاوت کیے جاتے ہیں اور وہاں کی حکومتیں بھی سرکاری اہتمام کے ساتھ انھیں شائع کرتی ہیں میری ذاتی لائبریری میں روایت ورش کے مصحف موجود ہیں حال ہی میں سعودی عرب کے مجمع الملک فہد
(مدینہ طیبہ) نے بھی لاکھوں کی تعداد میں روایت ورش روایت دوری اورروایت کالون کے مطابق مصاحف ان مسلم ممالک کے لیے طبع کیے ہیں جن میں ان کے مطابق قرآءت کی جاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کے متن میں تمام قرآءت متواترہ کی گنجائش موجود ہے۔
اہل علم جانتے ہیں کہ موجود مصاحف کے قرآنی الفاظ رسم عثمانی کے مطابق لکھے گئے ہیں اس رسم الخط کی خوبی یہ ہے کہ اس میں تمام قرآءت متواترہ کے پڑھنے کا امکان موجود ہے اوریہ ساری قرآءت حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اطراف عالم میں بھیجے ہوئے نسخوں کے رسم الخط میں سما جاتی ہیں واضح رہے کہ قرآن کریم میں کسی بھی قرآءت کے مستند ہونے کے لیے درج ذیل قاعدہ ہے۔
" جو قرآءت قواعد عربیہ کے مطابق ہو اگرچہ یہ موافقت کسی ایک جہت سے ہو مصاحف عثمانیہ میں سے کسی ایک کے مطابق ہو خواہ یہ مطابقت احتمالاً ہو نیز وہ صحیح متواتر سند سے ثابت ہو۔
"اس اصول کے مطابق جو بھی قرآءت ہو گی وہ قرآءت صحیحہ اور ان احرف سبعہ میں سے ہے جن پر قرآن کریم نازل ہوا۔
مسلمانوں کو اس کا قبول کرنا واجب ہے اور اگر تینوں شرائط میں سےکسی شرط میں خلل آجائے تو وہ قرآءت شاذہ ضعیف یا باطل ہوگی۔
(النشرص: 1/9) یہ بات کہ تمام قرآءت حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مصاحف میں سماجاتی ہیں ہم اس کی وضاحت ایک مثال سے کرتے ہیں۔
سورہ فاتحہ کی آیت
(مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ) کو لیجئے۔
اسے رسم عثمانی میں اعراب اور نقطوں کے بغیر یوں لکھا گیا ہے
(مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ) اس آیت میں
(ملك) اور
(مٰالِكِ) اور
(مَالِكِ) دونوں طرح پڑھا جا سکتا ہے اور یہ دونوں قرآءت متواترہ ہیں روایت حفص میں سے
(مٰالِكِ) میم پر کھڑا زبر اور روایت ورش میں سے
(مَالِكِ) میم پر زبر کے ساتھ پڑھتے ہیں حجاز میں یہ دونوں الفاظ ایک ہی مفہوم کے لیے استعمال ہوتے ہیں یعنی روز جزا کا مالک یا روز جزا کا بادشاہ جو کسی علاقے کا بادشاہ ہوتا ہے وہ اس کا مالک ہی ہوتا ہے لیکن جس مقام پر اختلاف قرآءت کے متعلق متواتر سند نہ ہو وہاں رسم الخط میں گنجائش کے باوجود دوسری قرآءت پڑھنا ناجائز اور حرام ہے۔
مثلاً:
سورۃ الناس کی دوسری آیت رسم عثمانی کے مطابق اس طرح ہے
(مَلِكِ النَّاسِ) اسے تمام قرآء
(مَلِكِ النَّاسِ) ہی پڑھتے ہیں۔
اسے کوئی بھی
(مٰلِكِ النَّاسِ) کھڑے زبرکے ساتھ نہیں پڑھتا کیونکہ یہاں اختلاف قرآءت منقول نہیں ہے۔
دراصل قرآءت متواترہ کے اختلاف سے قرآن کریم میں کوئی ایسا رد بدل نہیں ہوتا جس سے اس کے مفہوم اور معنی تبدیل ہو جائیں یا حلال حرام ہو جائے بلکہ اختلاف قرآءت کے باوجود بھی قرآن ہی رہتا ہے اور اس کے نفس مضمون میں کسی قسم کا کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔
بہر حال قرآءت متواترہ جنھیں احادیث میں احرف سبعہ سے تعبیر کیا گیا ہے وہ آج بھی موجود ہیں اور اس کے انکار کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔