صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
1. بَابُ قَوْلِهِ: {وَظِلٍّ مَمْدُودٍ} :
1. باب: آیت کی تفسیر ”اور جنت کے درختوں کا بہت ہی لمبا سایہ ہو گا“۔
(1) Chapter. The Statement of Allah: “And in shade long extended.” (V.56:30)
حدیث نمبر: Q4881
Save to word اعراب English
وقال مجاهد: رجت: زلزلت، بست: فتت لتت كما يلت السويق المخضود الموقر حملا، ويقال ايضا: لا شوك له، منضود: الموز والعرب المحببات إلى ازواجهن، ثلة: امة، يحموم: دخان اسود، يصرون: يديمون الهيم الإبل الظماء، لمغرمون: لملومون مدينين محاسبين، روح: جنة ورخاء، وريحان: الريحان الرزق، وننشئكم: فيما لا تعلمون في اي خلق نشاء، وقال غيره: تفكهون: تعجبون، عربا: مثقلة واحدها عروب مثل صبور وصبر يسميها اهل مكة العربة، واهل المدينة الغنجة، واهل العراق الشكلة، وقال: في خافضة لقوم إلى النار، ورافعة: إلى الجنة، موضونة: منسوجة ومنه وضين الناقة والكوب لا آذان له ولا عروة، والاباريق ذوات الآذان، والعرى، مسكوب: جار، وفرش مرفوعة: بعضها فوق بعض، مترفين: ممتعين، ما تمنون: من النطف يعني هي النطفة في ارحام النساء، للمقوين: للمسافرين والقي القفر، بمواقع النجوم: بمحكم القرآن، ويقال: بمسقط النجوم إذا سقطن ومواقع وموقع واحد، مدهنون: مكذبون مثل، لو تدهن فيدهنون فسلام لك: اي مسلم لك إنك من اصحاب اليمين، والغيت إن وهو معناها كما، تقول: انت مصدق مسافر، عن قليل إذا كان قد، قال: إني مسافر، عن قليل وقد يكون كالدعاء له كقولك فسقيا من الرجال إن رفعت السلام، فهو من الدعاء، تورون: تستخرجون اوريت اوقدت، لغوا: باطلا تاثيما: كذبا.وَقَالَ مُجَاهِدٌ: رُجَّتْ: زُلْزِلَتْ، بُسَّتْ: فُتَّتْ لُتَّتْ كَمَا يُلَتُّ السَّوِيقُ الْمَخْضُودُ الْمُوقَرُ حَمْلًا، وَيُقَالُ أَيْضًا: لَا شَوْكَ لَهُ، مَنْضُودٍ: الْمَوْزُ وَالْعُرُبُ الْمُحَبَّبَاتُ إِلَى أَزْوَاجِهِنَّ، ثُلَّةٌ: أُمَّةٌ، يَحْمُوم: دُخَانٌ أَسْوَدُ، يُصِرُّونَ: يُدِيمُونَ الْهِيمُ الْإِبِلُ الظِّمَاءُ، لَمُغْرَمُونَ: لَمَلُومُونَ مَدِينِينَ مُحَاسَبِينَ، رَوْحٌ: جَنَّةٌ وَرَخَاءٌ، وَرَيْحَانٌ: الرَّيْحَانُ الرِّزْقُ، وَنُنْشِئَكُمْ: فِيمَا لَا تَعْلَمُونَ فِي أَيِّ خَلْقٍ نَشَاءُ، وَقَالَ غَيْرُهُ: تَفَكَّهُونَ: تَعْجَبُونَ، عُرُبًا: مُثَقَّلَةً وَاحِدُهَا عَرُوبٌ مِثْلُ صَبُورٍ وَصُبُرٍ يُسَمِّيهَا أَهْلُ مَكَّةَ الْعَرِبَةَ، وَأَهْلُ الْمَدِينَةِ الْغَنِجَةَ، وَأَهْلُ الْعِرَاقِ الشَّكِلَةَ، وَقَالَ: فِي خَافِضَةٌ لِقَوْمٍ إِلَى النَّارِ، وَرَافِعَةٌ: إِلَى الْجَنَّةِ، مَوْضُونَةٍ: مَنْسُوجَةٍ وَمِنْهُ وَضِينُ النَّاقَةِ وَالْكُوبُ لَا آذَانَ لَهُ وَلَا عُرْوَةَ، وَالْأَبَارِيقُ ذَوَاتُ الْآذَانِ، وَالْعُرَى، مَسْكُوبٍ: جَارٍ، وَفُرُشٍ مَرْفُوعَةٍ: بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ، مُتْرَفِينَ: مُمَتَّعِينَ، مَا تُمْنُونَ: مِنَ النُّطَفِ يَعْنِي هِيَ النُّطْفَةُ فِي أَرْحَامِ النِّسَاءِ، لِلْمُقْوِينَ: لِلْمُسَافِرِينَ وَالْقِيُّ الْقَفْرُ، بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ: بِمُحْكَمِ الْقُرْآنِ، وَيُقَالُ: بِمَسْقِطِ النُّجُومِ إِذَا سَقَطْنَ وَمَوَاقِعُ وَمَوْقِعٌ وَاحِدٌ، مُدْهِنُونَ: مُكَذِّبُونَ مِثْلُ، لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ فَسَلَامٌ لَكَ: أَيْ مُسَلَّمٌ لَكَ إِنَّكَ مِنْ أَصْحَابِ الْيَمِينِ، وَأُلْغِيَتْ إِنَّ وَهُوَ مَعْنَاهَا كَمَا، تَقُولُ: أَنْتَ مُصَدَّقٌ مُسَافِرٌ، عَنْ قَلِيلٍ إِذَا كَانَ قَدْ، قَالَ: إِنِّي مُسَافِرٌ، عَنْ قَلِيلٍ وَقَدْ يَكُونُ كَالدُّعَاءِ لَهُ كَقَوْلِكَ فَسَقْيًا مِنَ الرِّجَالِ إِنْ رَفَعْتَ السَّلَامَ، فَهُوَ مِنَ الدُّعَاءِ، تُورُونَ: تَسْتَخْرِجُونَ أَوْرَيْتُ أَوْقَدْتُ، لَغْوًا: بَاطِلًا تَأْثِيمًا: كَذِبًا.
‏‏‏‏ مجاہد نے کہا «رجت‏» کا معنی ہلائی جائے۔ «بست‏» چور چور کئے جائیں گے اور ستو کی طرح لت پت کر دیئے جائیں گے۔ «المخضود» بوجھ لدے ہوئے یا جن میں کانٹا نہ ہو۔ «منضود‏»، «موز» (کیلا)۔ «عربا» اپنے خاوند کی پیاری بیوی۔ «ثلة‏» امت گروہ۔ «حموم‏» کالا دھواں۔ «يصرون‏» ہٹ دھرمی کرتے، ہمیشہ کرتے تھے۔ «الهيم» پیاسے اونٹ۔ «لمغرمون‏» ٹوٹے میں آ گئے، ڈنڈ ہوا۔ «روح‏» بہشت، آرام، راحت۔ «ريحان‏» رزق، روزی۔ «وننشأكم‏ فيما لا تعلمون» یعنی جس صورت میں ہم چاہیں تم کو پیدا کریں۔ مجاہد کے سوا اوروں نے کہا «تفكهون‏» کا معنی «تعجبون» تعجب کرتے جائیں۔ «عربا‏ مثقلة» ‏‏‏‏ (یعنی ضمہ کے ساتھ) «عروب» کی جمع جیسے «صبور» کی جمع «صبر» آتی ہے ( «عروب» خوبصورت پیاری عورت) مکہ والے ایسی عورت کو «عربة» کہتے ہیں۔ اور مدینہ والے «غنجة» اور عراق والے «الشكلة‏» کہتے ہیں۔ «خافضة‏» ایک قوم کو نیچا دکھانے والی یعنی دوزخ میں لے جانے والی۔ «رافعة‏» ایک قوم کو بلند کرنے والے یعنی بہشت میں لے جانے والی۔ «موضونة‏» سونے سے بنے ہوئے، اسی سے نکلا ہے «وضين الناقة» یعنی اونٹنی کا زیر بند (تنگ)۔ «كوب» آبخورہ جس میں ٹونٹی اور کنڈا نہ ہو۔ ( «اكوب» جمع ہے) «ابريق» وہ کوزہ جس میں ٹونٹی کنڈہ ہو۔ «اباريق» اس کی جمع ہے۔ «مسكوب‏» بہتا ہوا، جاری۔ «وفرش مرفوعة‏» اونچے بچھونے یعنی ایک کے اوپر ایک تلے اوپر بچھائے گئے۔ «مترفين‏» کا معنی آسودہ، آرام پروردہ تھے۔ «ما تمنون‏» نطفہ جو عورتوں کے رحموں میں ڈالتے ہو۔ «للمقوين‏» مسافروں کے فائدے کے لیے یہ «قي» سے نکلا ہے «قي» کہتے ہیں بےآب و گیاہ میدان کو۔ «بمواقع النجوم‏» سے قرآن کی محکم آیتیں مراد ہیں بعضوں نے کہا تارے ڈوبنے کے مقامات۔ «واقع» جمع ہے، اس کا واحد «موقع» دونوں کا (جب «مضاف» ہوں) ایک ہی معنی ہے۔ «مدهنون‏» جھٹلانے والے جیسے اس آیت میں ہے «لو تدهن فيدهنون‏ فسلام لك‏ من أصحاب اليمين» کا یہ معنی ہے۔ «مسلم لك إنك من أصحاب اليمين» یعنی یہ بات مان لی گئی ہے چاہے کہ تو داہنے ہاتھ والوں میں سے ہے تو ان کا لفظ گرا دیا گیا مگر اس کا معنی قائم رکھا گیا اس کی مثال یہ ہے کہ مثلاً کوئی کہے میں اب تھوڑی دیر میں سفر کرنے والا ہوں اور تو اس سے کہے «أنت مصدق مسافر عن قليل» یہاں بھی «أن» محذوف ہے یعنی «أنت مصدق أنك مسافر عن قليل» کبھی سلام کا لفظ بطور دعا کے مستعمل ہوتا ہے اگر مرفوع ہو جیسے «فسقيا» نصب کے ساتھ دعا کے معنوں میں آتا ہے یعنی اللہ تجھ کو سیراب کرے۔ «تورون‏» سلگاتے ہو آگ نکالتے ہو «أوريت» سے یعنی میں نے سلگایا، لغو، باطل، جھوٹ۔ «تأثيما‏» جھوٹ، غلط۔

حدیث نمبر: 4881
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة رضي الله عنه، يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم قال:" إن في الجنة شجرة يسير الراكب في ظلها مائة عام، لا يقطعها، واقرءوا إن شئتم وظل ممدود سورة الواقعة آية 30".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّ فِي الْجَنَّةِ شَجَرَةً يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّهَا مِائَةَ عَامٍ، لَا يَقْطَعُهَا، وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ وَظِلٍّ مَمْدُودٍ سورة الواقعة آية 30".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، وہ کہتے تھے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں ایک درخت طویل ہو گا (اتنا بڑا کہ) سوار اس کے سایہ میں سو سال تک چلے گا اور پھر بھی اس کا سایہ ختم نہ ہو گا اگر تمہارا جی چاہے تو اس آیت «وظل ممدود‏» کی قرآت کر لو۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "In Paradise there is a tree which is so big that a rider can travel in its shade for one hundred years without passing it; and if you wish, you can recite: 'In shade long extended.' 56.30.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 403


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري4881عبد الرحمن بن صخرفي الجنة شجرة يسير الراكب في ظلها مائة عام لا يقطعها واقرءوا إن شئتم وظل ممدود
   صحيح البخاري3253عبد الرحمن بن صخرفي الجنة لشجرة يسير الراكب في ظلها مائة سنة واقرءوا إن شئتم وظل ممدود
   صحيح مسلم7138عبد الرحمن بن صخرفي الجنة لشجرة يسير الراكب في ظلها مائة سنة
   جامع الترمذي2523عبد الرحمن بن صخرفي الجنة لشجرة يسير الراكب في ظلها مائة سنة
   سنن ابن ماجه4335عبد الرحمن بن صخرفي الجنة شجرة يسير الراكب في ظلها مائة سنة لا يقطعها واقرءوا إن شئتم وظل ممدود وماء مسكوب
   صحيفة همام بن منبه5عبد الرحمن بن صخرفي الجنة شجرة يسير الراكب في ظلها مائة عام لا يقطعها
   مسندالحميدي1165عبد الرحمن بن صخر
   مسندالحميدي1214عبد الرحمن بن صخر

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4881 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4881  
حدیث حاشیہ:
یہ سایہ سورج کا نہ ہوگا بلکہ خدا کے نور کا سایہ ہوگا بعض نے کہا خدا کے عرش کا سایہ ہوگا کیونکہ جنت میں سورج نہ ہوگا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4881   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4881  
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں ہے:
بہترین عمدہ،تیار شدہ تیز رفتار گھوڑا بھی سوسال تک اسے طے نہیں کرسکے گا۔
(صحیح مسلم، الجنة و نعیمھا، حدیث: 7139(2828)
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سدرۃ المنتہیٰ کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا:
سوار اس کی شاخوں کے سائے میں سوسال چلتا رہےگا۔
۔
۔
یافرمایا۔
۔
۔
اس کے سائے میں سو سوار آسکیں گے۔
اس پر پتنگے سونے کے ہوں گے اور اس کا پھل بڑے مٹکوں کی طرح ہوگا۔
(جامع الترمذي، صفة الجنة، حدیث: 2541)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4881   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه 5  
´جنت کے درخت کا سایہ`
«. . . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فِي الْجَنَّةِ شَجَرَةٌ يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّهَا مِائَةَ عَامٍ لا يَقْطَعُهَا " . . . .»
. . . اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً جنت میں ایک درخت ہے جس کے سائے میں ایک سوار سو (۱۰۰) سال تک چلتا رہے تو بھی اس کو ختم نہ کرے گا . . . [صحيفه همام بن منبه: 5]
شرح حدیث:
مذکورہ حدیث میں جنت میں لگے اس درخت کا ذکر ہے کہ کوئی شخص سواری پر اس کے سائے میں سو (100) سال بھی چلتا رہے جب بھی اس کا سایہ ختم نہ ہو گا۔
جنت کا تعلق اخروی جہان سے ہے، وہاں کا نظام، وہاں کا ماحول اور وہاں کے قوانین ہمارے اس زمین والے جہان سے بالکل مختلف ہیں، لہذا اس جہان کے قوانین کو اس جہان کے قوانین پر قیاس کرنا بالکل غلط ہے۔
جب کوئی آدمی اس کا انکار کرے کہ اتنا بڑا درخت اور اس کا اتنا لمبا سایہ کیسے ہو سکتا ہے؟
درحقیت یہ حدیث قرآن مجید کی اس آیت کی تفسیر ہے جس میں فرمایا:
«وَظِلٍّ مَّمْدُودٍ» [الواقعة: 30]
اور لمبے پھیلے ہوئے سائے ہوں گے۔
اور جنت کی چوڑائی بیان کرتے ہوئے فرمایا:
«وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ» [آل عمران: 133]
اور جلدی کرو اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف (دوڑو)، جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، جو پرہیزگاروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔
اور دوسرے مقام پر فرمایا:
«سَابِقُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ» [الحديد: 21]
دوڑو اپنے رب کی مغفرت کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی کشادگی آسمان و زمین کی کشادگی کی مانند ہے۔
تو جب جنت کی کشادگی آسمان و زمین کے برابر ہے تو پھر یہ بعید نہیں کہ اس جنت میں اتنا بڑا درخت ہو کہ جس کا سایہ سو (100) سال سواری دوڑانے کے بعد بھی ختم نہ ہو۔
یہی حدیث صحیح بخاری میں برقم (3252) موجود ہے، اور اس کے آخر میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
«وَاقْرَؤُا إِنْ شِئْتُمْ وَظِلٍّ مَّمْدُودٍ» [الواقعه: 30]
اور اگر چاہو تو پڑھ لو......، اور لمبے پھیلے ہوئے ساحے ہوں گے۔
حدیث کے سیاق و سباق سے یہ بات واضح ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم درحقیقت اس آیت کریمہ کی تفسیر فرما رہے ہیں کہ لمبے پھیلے ہوئے سایے ہوں گے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کی لمبائی بیان کر دی، اور یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا وظیفہ تھا کہ قرآن مجید کی تفسیر و تشریح کرتے اور اس کے مبہمات اور مجملات کی وضاحت فرماتے۔ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
«وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ» [النحل: 44]
اور ہم نے آپ کی طرف یہ ذکر (قرآن مجید) کو نازل کیا ہے کہ آپ اس کی وضاحت کر دیں۔
یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو گئی کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم قرآن کے شارح اور مفسر ہیں۔ لہذا جیسا کہ قرآن مجید قطعی الثبوت ہے، ایسے ہی حدیث رسول علی صاحبہا الصلوة والسلام بھی قطعی الثبوت ہے، اور انکار حدیث کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
   صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 80   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4335  
´جنت کے احوال و صفات کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں ایک درخت ہے، اس کے سائے میں سوار سو برس تک چلتا رہے گا لیکن وہ ختم نہ ہو گا، اگر تم چاہتے ہو تو یہ آیت پڑھو: «وظل ممدود» جنت میں دراز اور لمبا سایہ ہے (سورة الواقعة: 3)۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4335]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:
   جنت میں دھوپ نہیں ھو گی لیکن درختوں کا وجود بھی ایک نعمت ہے جس سے منظر خشگوار ہوتا ہے۔
جنت کا ایک ایک درخت اتنا بڑا ہو گا اور اس کی شاخوں کا پھیلا ؤں اس قدر ہو گا کہ دنیا کے لحاظ سے ہزاروں میل پہ محیط ہو گا۔
اس سے جنت کی وسعت کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4335   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1165  
1165- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: جنت میں ایک درخت ہے، جس کے سائے میں ایک سوار ایک سوسال تک بھی چلتا رہے گا، تو بھی اسے پار نہیں کرسکے گا، اگر تم چاہو، تو یہ آیت تلاوت کرلو۔ «وَظِلٍّ مَمْدُودٍ» ‏‏‏‏(56-الواقعة:30) اور پھیلے ہوئے سائے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1165]
فائدہ:
اس حدیث میں جنت کے ایک درخت کا ذکر ہے کہ سو سال سوار چلتا رہے تو اس کا سایہ ختم نہیں ہوگا، یہ تو صرف ایک درخت ہے، اللہ نے تو جنت میں اس سے بھی بڑی بڑی نعمتیں تیار کر رکھی ہیں، دنیا کی نعمتوں کے بارے میں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم ان کو شمار نہیں کر سکتے، تو جنت کی نعمتوں کو انسان کیسے شمار کر سکتا ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1163   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1214  
1214- سیدنا ابوہریر ہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: جنت میں ایک درخت ہے، جس کے سائے میں کوئی سوار ایک سو سال تک چلتا رہے، تو پھر بھی وہ اسے پارنہیں کرسکتا اگر تم چاہو تو یہ آیت تلاوت کرسکتے ہو۔‏‏‏‏ «وَظِلٍّ مَمْدُو» (9-التوبة:30) اور پھیلے ہوئے سائے۔ اور فجر کی نماز میں رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے شریک ہوتے ہیں، اگر تم چاہو تو یہ آیت تلاوت کرسکتے ہو۔ «وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا» ‏‏‏‏(17-الإسراء:78) اور فجر کی تلاوت، بے شک فجر کی تلاوت میں حاضر ہوتی ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1214]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جنت میں لمبے لمبے درخت ہوں گے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1212   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3253  
3253. بے شک جنت میں تمھاری کمان رکھنے کی جگہ ہر اس چیز سے بہتر ہے جس پر سورج طلوع یا غروب ہوتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3253]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں اس درخت کا نام طوبیٰ بتایا گیا ہے۔
(فتح الباري: 392/6)
ایک دوسری روایت میں ہے۔
اگر تیار شدہ تیز رفتار گھوڑا سو سال تک بھی سرپٹ دوڑتا رہے تو بھی اسے طے نہیں کرسکے گا۔
(عمدة القاري: 609/10)
سورہ واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے جنت کے سائے کے متعلق فرمایا:
وہاں جنت میں درختوں کا سایہ دور دراز تک پھیلا ہوا ہو گا۔
(الواقعة: 56۔
30)


مذکورہ احادیث و آیات سے روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جنت ایک مجسم حقیقت کا نام ہے اورجو لوگ جنت کو محض خواب و خیال کی حد تک مانتے ہیں وہ خطرناک غلطی پر ہیں۔
ممکن ہے کہ ایسے لوگوں کے لیے جنت محض ایک خواب ناقابل تعبیر ہی بنا جائے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے وساوس سے محفوظ رہے۔

بعض حضرات نے سائے سے مراد راحت و نعمت لیا ہے لیکن اس تاویل کی بجائے حقیقی معنی مراد لینا ہی زیادہ صحیح ہے کیونکہ دنیا اور جنت کی چیزوں کا موازنہ ممکن نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3253   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.