(مرفوع) حدثنا الحميدي، حدثنا سفيان، حدثنا الزهري، سمعت عروة، قلت لعائشة رضي الله عنها، فقالت:" إنما كان من اهل بمناة الطاغية التي بالمشلل لا يطوفون بين الصفا والمروة، فانزل الله تعالى إن الصفا والمروة من شعائر الله سورة البقرة آية 158، فطاف رسول الله صلى الله عليه وسلم والمسلمون، قال سفيان: مناة بالمشلل من قديد. وقال عبد الرحمن بن خالد، عن ابن شهاب، قال عروة، قالت عائشة: نزلت في الانصار كانوا هم وغسان قبل ان يسلموا يهلون لمناة مثله. وقال معمر: عن الزهري، عن عروة، عن عائشة:" كان رجال من الانصار ممن كان يهل لمناة ومناة صنم بين مكة والمدينة، قالوا: يا نبي الله، كنا لا نطوف بين الصفا والمروة تعظيما لمناة نحوه.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، سَمِعْتُ عُرْوَةَ، قُلْتُ لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَقَالَتْ:" إِنَّمَا كَانَ مَنْ أَهَلَّ بِمَنَاةَ الطَّاغِيَةِ الَّتِي بِالْمُشَلَّلِ لَا يَطُوفُونَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ سورة البقرة آية 158، فَطَافَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمُون، قَالَ سُفْيَانُ: مَنَاةُ بِالْمُشَلَّلِ مِنْ قُدَيْدٍ. وَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ عُرْوَةُ، قَالَتْ عَائِشَةُ: نَزَلَتْ فِي الْأَنْصَارِ كَانُوا هُمْ وَغَسَّانُ قَبْلَ أَنْ يُسْلِمُوا يُهِلُّونَ لِمَنَاةَ مِثْلَهُ. وَقَالَ مَعْمَرٌ: عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ:" كَانَ رِجَالٌ مِنْ الْأَنْصَارِ مِمَّنْ كَانَ يُهِلُّ لِمَنَاةَ وَمَنَاةُ صَنَمٌ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ، قَالُوا: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، كُنَّا لَا نَطُوفُ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ تَعْظِيمًا لِمَنَاةَ نَحْوَهُ.
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ میں نے عروہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ منات بت کے نام پر احرام باندھتے جو مقام مشلل میں تھا، وہ صفا اور مروہ کے درمیان (حج و عمرہ میں) سعی نہیں کرتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت نازل کی «إن الصفا والمروة من شعائر الله»”بیشک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں“ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے درمیان طواف کیا اور مسلمانوں نے بھی طواف کیا۔ سفیان نے کہا کہ ”مناۃ“ مقام قدید پر مشلل میں تھا اور عبدالرحمٰن بن خالد نے بیان کیا کہ ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یہ آیت انصار کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ اسلام سے پہلے انصار اور غسان کے لوگ منات کے نام پر احرام باندھتے تھے، پہلی حدیث کی طرح۔ اور معمر نے زہری سے بیان کیا، ان سے عروہ نے، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ قبیلہ انصار کے کچھ لوگ منات کے نام کا احرام باندھتے تھے۔ منات ایک بت تھا جو مکہ اور مدینہ کے درمیان رکھا ہوا تھا (اسلام لانے کے بعد) ان لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! ہم منات کی تعظیم کے لیے صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہیں کیا کرتے تھے۔
Narrated `Urwa: I asked `Aisha (regarding the Sai between As Safa and Al-Marwa). She said, "Out of reverence to the idol Manat which was placed in Al-Mushailal, those who used to assume Ihram in its name, used not to perform Sai between As-Safa and Al-Marwa, so Allah revealed: 'Verily! The As-Safa and Al-Marwa (two mountains at Mecca) are among the symbols of Allah.' (2.158). Thereupon, Allah's Messenger and the Muslims used to perform Sai (between them)." Sufyan said: The (idol) Manat was at Al-Mushailal in Qudaid. `Aisha added, "The Verse was revealed in connection with the Ansar. They and (the tribe of) Ghassan used to assume lhram in the name of Manat before they embraced Islam." `Aisha added, "There were men from the Ansar who used to assume lhram in the name of Manat which was an idol between Mecca and Medina. They said, "O Allah's Messenger ! We used not to perform the Tawaf (Sai) between As-Safa and Al-Marwa out of reverence to Manat."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 384
لو كانت كما تقول كانت فلا جناح عليه أن لا يطوف بهما إنما أنزلت هذه الآية في الأنصار كانوا يهلون لمناة وكانت مناة حذو قديد وكانوا يتحرجون أن يطوفوا بين الصفا والمروة فلما جاء الإسلام سألوا رسول الله عن ذلك فأنزل الله إن الصفا والمروة من
لو كان كما تقول لكان فلا جناح عليه أن لا يطوف بهما إنما أنزل هذا في أناس من الأنصار كانوا إذا أهلوا أهلوا لمناة في الجاهلية فلا يحل لهم أن يطوفوا بين الصفا والمروة فلما قدموا مع النبي للحج ذكروا ذلك له فأنزل الله هذه الآية فلعمري
الأنصار كانوا قبل أن يسلموا هم وغسان يهلون لمناة فتحرجوا أن يطوفوا بين الصفا والمروة وكان ذلك سنة في آبائهم من أحرم لمناة لم يطف بين الصفا والمروة وإنهم سألوا رسول الله عن ذلك حين أسلموا فأنزل الله في ذلك إن الصفا والمروة من شعائ
ما أتم الله حج امرئ ولا عمرته لم يطف بين الصفا والمروة ولو كان كما تقول لكان فلا جناح عليه أن لا يطوف بهما وهل تدري فيما كان ذاك إنما كان ذاك أن الأنصار كانوا يهلون في الجاهلية لصنمين على شط البحر يقال لهما إساف ونائلة ثم يجيئون فيطوفون بين الصفا والمروة
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4861
حدیث حاشیہ: مشلل قدید میں ایک مقام کا نام تھا منات کا بت خانہ وہیں تھا۔ اساف اور نائلہ نامی دو بت صفا اور مروہ پر تھے۔ الحمدللہ اسلام نے ان سب کو اجاڑ کر پرچم توحید عرب کے چپے چپے پر لہرا دیا۔ الحمد للہ الذي صدق وعدہ و نصر عبدہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4861
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4861
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث کی وضاحت ہم نے سورہ بقرہ آیت: 158 باب: 21 حدیث: 4495۔ کے فوائد میں کردی ہے قارئین کرام اسے ایک نظر دیکھ لیں۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے منات کے تعارف کے پیش نظر اس حدیث کو یہاں ذکر کیا ہے۔ (بِالْمُشَلَّلِ مِنْ قُدَيْدٍ) میں منات کا آستانہ تھا۔ اساف اور نائلہ نامی دو بت صفا اور مروہ پر نصب تھے مسلمانوں نے انھیں نیست ونابود کر کے وہاں تو حید کا پرچم لہرادیا۔ 3۔ قرون اولیٰ کے بعد ایک مرتبہ پھر عرب کی سر زمین میں شرکیہ مظاہر عام ہو گئے تھے اللہ تعالیٰ نے مجدد الدعوۃ شیخ محمد بن عبدالوہاب کو توفیق دی انھوں نے درعیہ کے حاکم کو ساتھ ملا کر ان کا مظاہر شرک کو ختم کیا اور اسی دعوت کی تجدید ایک مرتبہ پھر والی نجد و حجاز سلطان عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نےکی اور تمام پختہ قبروں اور آستانوں کا خاتمہ کیا۔ الحمد للہ! اب سعودی عرب میں اسلامی احکام کے مطابق نہ کوئی پختہ قبر ہے اور نہ کوئی مزار ہی نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ موجودہ سعودی عرب حکومت کو تا دیر قائم رکھے اور اس کے بد خواہوں کا خود محاسبہ کرے جو دن رات اس کے خلاف خبث باطن کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4861
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1901
´صفا اور مروہ کا بیان۔` عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا اور میں ان دنوں کم سن تھا: مجھے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «إن الصفا والمروة من شعائر الله» کے سلسلہ میں بتائیے، میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی ان کے درمیان سعی نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں، عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: ”ہرگز نہیں، اگر ایسا ہوتا جیسا تم کہہ رہے ہو تو اللہ کا قول «فلا جناح عليه أن يطوف بهما» کے بجائے «فلا جناح عليه أن لا يطوف بهما»”تو اس پر ان کی سعی نہ کرنے میں کوئی گناہ نہیں“ ہوتا، یہ آیت دراصل انصار کے بارے میں اتری، وہ مناۃ (یعنی زمانہ جاہلیت کا بت) کے لیے حج کرتے تھے اور مناۃ قدید ۱؎ کے سامنے تھا، وہ لوگ صفا و مروہ کے بیچ سعی کرنا برا سمجھتے تھے، جب اسلام آیا تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا، اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «إن الصفا والمروة من شعائر الله»۲؎۔“[سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1901]
1901. اردو حاشیہ: قرآن مجید کو محض لغت کی بنیاد پر سمجھنے کی کوشش کرنا اور احادیث صحیحہ سے اعراض کرنا بہت بڑی جہالت ہے قرآن مجید کا وہی فہم معتبر ہے۔اور اسلام کی حقیقی تعبیر وہی ہے۔جو سلف صالحین (صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین)نے کی ہے۔ شان نزول جو صحیح احادیث و اسانید سے ثابت ہیں۔ ان سے استفادہ کرنا بھی از حد ضروری ہے۔جیسے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے وضاحت فرمائی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1901
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2971
´صفا و مروہ کا بیان۔` عروہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے اللہ کے قول «فلا جناح عليه أن يطوف بهما» کے متعلق پوچھا (میں نے کہا کہ اس سے تو پتا چلتا ہے کہ) کوئی صفا و مروہ کی سعی نہ کرے، تو قسم اللہ کی اس پر کوئی حرج نہیں، اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میرے بھانجے! تم نے نامناسب بات کہی ہے۔ اس آیت کا مطلب اگر وہی ہوتا جو تم نے نکالا ہے تو یہ آیت اس طرح اترتی «فلا جناح عليه أن لا يطوف بهما»”اگر کوئی صفا و مروہ کی سعی نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔“ لیکن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2971]
اردو حاشہ: حضرت عائشہؓ کا استدلال کس قدر مضبوط ہے کہ اگر یہ طواف ضروری نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ صراحتاً بیان فرماتا کہ جو طواف نہ کرے،ا سے کوئی گناہ نہیں جبکہ آیت کے الفاظ یہ ہیں کہ جو طواف کرے، اسے کوئی گناہ نہیں۔ گویا کچھ لوگ ان کے طواف میں گناہ محسوس کرتے تھے۔ ان کا وہم دور کرنے کے لیے یہ آیت اتری۔ اس آیت میں اس طواف کے وجوب واستحباب کی بحث نہیں بلکہ اس کا وجوب اس آیت کے ابتدائی حصے اور رسول اللہﷺ کے طرز عمل اور فرامین سے معلوم ہوتا ہے۔ (دیکھیے، حدیث نمبر: 2970) صفا مروہ کے طواف میں گناہ محسوس کرنے والے دو گروہ تھے: ایک تو وہ جن کا ذکر اس حدیث میں ہوا ہے۔ دوسرے وہ جو جاہلیت میں صفا مروہ کا طواف کرتے تھے مگر اسلام لانے کے بعد انھوں نے اسے گناہ سمجھا۔ اس آیت نے ان دونوں قسم کے گروہوں کی غلط فہمی دور کر دی۔ اب سعی کرنا ضروری ہے جیسا کہ اس حدیث میں حضرت عائشہؓ کے آخری الفاظ سے صاف معلوم ہوتا ہے۔ امام شافعی، احمد اور دیگر محدثین رحمہم اللہ سب سعی کو رکن سمجھتے ہیں کہ اس کے بغیر حج و عمرہ نہیں ہوگا۔ احناف کے مسلک کی تفصیل سابقہ حدیث میں دیکھیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2971
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3079
عروہ بیان کرتے ہیں، میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعلیٰ عنہ سے عرض کیا، میرا خیال ہے، اگر کوئی آدمی صفا اور مروہ کی سعی نہ کرے، تو یہ چیز اس کے لیے نقصان دہ نہیں ہے، انہوں نے پوچھا، کیوں؟ میں نے کہا، کیونکہ اللہ کا فرمان ہے: (صفا اور مروہ اللہ کے دین کے شعار ہیں، جو شخص حج یا عمرہ کرے، تو اس پر ان کا طواف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔)(سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 178)[صحيح مسلم، حديث نمبر:3079]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اساف اور نائلہ دو بت تھے جوصفا اور مروہ پر رکھے گئے تھے، بعض انصاری قبائل صفا اور مروہ کا طواف ان کی خاطر کرتے تھے جب اسلام آ گیا انہوں نے خیال کیا اگر اب ہم نےان کا طواف کیا تو یہی سمجھا جائےگا کہ ہم جاہلی رسم کے مطابق یہ کام کر رہے ہیں اس لیے ہمیں یہ کام نہیں کرنا چاہیے ان کو ساحل سمندر پر واقع قراردینا راوی کا وہم ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مطلب یہ ہے کہ آیت میں صفا اورمروہ کے طواف کرنے والے سے گناہ کو ساقط اور دور قرار دیا گیا ہے اگر ان کےطواف کی ضرورت نہ ہوتی تو طواف نہ کرنے والے سے گناہ اٹھانا چاہیے تھا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ۔ اور محدثین کے نزدیک صفا اور مروہ کے درمیان سعی حج اور عمرہ کا رکن ہے جس کے بغیر نہ عمرہ ہو سکتا ہے اور نہ حج لیکن امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ۔ سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ اور حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سعی حج اورعمرہ کے لیے واجب ہے فرض اور رکن نہیں ہے اس لیے دم (قربانی) سے اس کی تلافی ہو جائے گی اور حج ہو جائے گا اورامام ابن قدامہ کے نزدیک امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا یہی قول ہے بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہم اور ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نہ یہ رکن ہے اور نہ واجب سنت ہے۔ صحیح حدیث کا تقاضا یہی ہے کہ یہ رکن ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3079
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3080
عروہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا، میں سمجھتا ہوں، اگر میں صفا اور مروہ کے درمیان طواف نہ کروں تو کوئی گناہ نہیں ہے، انہوں نے پوچھا، کیوں؟ میں نے عرض کیا، کیونکہ اللہ کا فرمان ہے، صفا اور مروہ اللہ کے دین کی نشانیوں میں سے ہیں، تو جو شخص حج اور عمرہ میں ان کا طواف کرے تو کوئی گناہ نہیں ہے، انہوں نے فرمایا: اگر بات وہ ہوتی جو تو کہتا ہے، تو آیت اس طرح ہوتی، اگر ان کا طواف نہ کرے تو کوئی گناہ نہیں، یہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:3080]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث میں انصار کے دوسرے گروہ کا تذکرہ ہے جو جاہلیت کے دور میں صفا اور مروہ کا طواف نہیں کرتے تھے اور اپنی عادت کے مطابق اب بھی اس کے لیے تیار نہ تھے اس آیت کے ذریعے ان کے دلوں کی کراہت کو دور کر دیا گیا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3080
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4495
4495. حضرت عروہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں ابھی نوعمر تھا کہ میں نے نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ سے دریافت کیا کہ اللہ تعالٰی کے اس ارشاد کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے: "بےشک صفا اور مروہ اللہ تعالٰی کی یادگار چیزوں میں سے ہیں، لہذا جب کوئی بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی حرج نہیں کہ وہ ان کے درمیان سعی کرے۔" میرے خیال کے مطابق اگر کوئی ان کی سعی نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔ اس پر حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: ایسا ہرگز نہیں۔ اگر مسئلہ تیرے خیال کے مطابق ہوتا تو آیت کے الفاظ اس طرح ہوتے: "اگر کوئی ان کا طواف نہ کرے تو چنداں گناہ نہیں۔" درحقیقت یہ آیت انصار کے متعلق نازل ہوئی تھی جو (قبل از اسلام) منات بت کے نام سے لبیك کہتے تھے۔ وہ بت مقام قدید پر رکھا تھا اور انصار صف و مروہ کی سعی کو اچھا خیال نہیں کرتے تھے۔ جب اسلام آیا تو انہوں نے اس کے متعلق۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4495]
حدیث حاشیہ: 1۔ صفاء مسجد حرام کے نزدیک ایک پہاڑی کا نام ہے، اسی طرح مروہ بھی اس کے شمالی جانب ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے۔ ان دونوں کے درمیان نشیب میں وادی تھی۔ حضرت ہاجرہ ؑ اپنے بچے اسماعیل ؑ کی پیاس بجھانے کے لیے پانی کی تلاش میں دونوں پہاڑیوں کے درمیان دوڑلگانے لگیں۔ صفا مروہ کے درمیان سعی اُسی دوڑ کی یاد گار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی سعی کو مناسک میں شامل فرمایا جو اس نے اپنے بندے ابراہیم ؑ کو سکھائے تھے۔ 2۔ اہل مدینہ اوس اور خزرج اسلام سے پہلے منات طاغیہ کی پوجا کرتے تھے اور اس کا تلبیہ پڑھتے تھے، اسی طرح اہل مکہ نے صفا اور مروہ پر اساف اور نائلہ نام کے دو بت نصب کررکھے تھے۔ مشہور تھا کہ اہل مدینہ اوراہل مکہ کے بتوں کے درمیان عداوت تھی، اسی وجہ سے ان کے متعلقین کے تعلقات بھی کشیدہ تھے۔ دور جاہلیت میں صورت حال اس طرح تھی کہ اہل مدینہ منات سے تعلق رکھتے تھے، اس لیے وہ حج کے موقع پر بیت اللہ کا طواف تو کرتے لیکن صفا اور مروہ پر نہیں جاتے تھے کیونکہ وہاں اہل مکہ کے بت اساف اور نائلہ نصب تھے اور اہل مکہ حج کے موقع پر بیت اللہ کاطواف بھی کرتے تھے۔ اوراپنے بتوں سے عقیدت کی بنا پر صفا اور مروہ کی سعی بھی کرتے۔ جب اہل مدینہ اور اہل مکہ مسلمان ہوئے تو اساف اور نائلہ کے متعلقین اہل مکہ کہنے لگے کہ ہم مسلمان ہیں، اس لیے حج کے موقع پر بیت اللہ کاطواف تو کریں گے لیکن صفا اور مروہ کی سعی نہیں کریں گے کیونکہ یہ جاہلیت کاعمل ہے اور اہل مدینہ کو دوشبہات کی بناپر صفا اور مروہ کی سعی سے ہچکچاہٹ تھی: ایک تو طبعی نفرت تھی جو پہلے سے ان کے اندر موجود تھی، دوسرا یہ کہ دورجاہلیت کافعل تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت میں اہل مکہ اور اہل مدینہ دونوں کو نصیحت فرمائی ہے۔ 3۔ حضرت عائشہ ؓ کے بھانجے حضرت عروہ بن زبیر ؓ کو شبہ لاحق ہوا کہ (لَاجُنَاحَ) کامطلب ہے کہ صفا اور مروہ کی سعی ضروری نہیں کیونکہ (لَاجُنَاحَ) کامصداق تومباحات کے دائرے میں ہوتا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے جواب دیا کہ جو کچھ تم نے سمجھاہے وہ مبنی برحقیقت نہیں کیونکہ گناہ کی نفی توسعی کے کرنے میں ہے، یعنی اس کے کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس میں چار چیزیں آسکتی ہیں: ممکن ہے وہ فرض ہو، واجب ہو۔ سنت ہو یا مباح ہو، حضرت عروہ ؒ نے عدم طواف پر نفیِ جُنَاح خیال کیا، حالانکہ یہ انداز تو کسی چیز کے حرام اور مکروہ ہونے پر اختیار کیا جاتا ہے اور یہ بات تب ثابت ہوتی جب آیت اس طرح ہوتی: "اگر ان کا طواف نہ کرے تو کوئی گناہ نہیں۔ " لیکن آپ کا اسلوب اس کے برعکس ہے۔ دراصل یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں ہے جنھیں طواف کرنے میں شبہ تھا، انھیں عدم طواف میں تو کوئی شبہ نہیں تھا۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4495