وقال مجاهد: ذو مرة: ذو قوة، قاب قوسين: حيث الوتر من القوس، ضيزى: عوجاء، واكدى: قطع عطاءه، رب الشعرى: هو مرزم الجوزاء، الذي وفى: وفى ما فرض عليه، ازفت الآزفة: اقتربت الساعة، سامدون: البرطمة، وقال عكرمة: يتغنون بالحميرية، وقال إبراهيم: افتمارونه: افتجادلونه ومن قرا افتمرونه يعني افتجحدونه، وقال: ما زاغ البصر: بصر محمد صلى الله عليه وسلم، وما طغى: وما جاوز ما راى، فتماروا: كذبوا، وقال الحسن: إذا هوى: غاب، وقال ابن عباس: اغنى واقنى: اعطى فارضى.وَقَالَ مُجَاهِدٌ: ذُو مِرَّةٍ: ذُو قُوَّةٍ، قَابَ قَوْسَيْنِ: حَيْثُ الْوَتَرُ مِنَ الْقَوْسِ، ضِيزَى: عَوْجَاءُ، وَأَكْدَى: قَطَعَ عَطَاءَهُ، رَبُّ الشِّعْرَى: هُوَ مِرْزَمُ الْجَوْزَاءِ، الَّذِي وَفَّى: وَفَّى مَا فُرِضَ عَلَيْهِ، أَزِفَتِ الْآزِفَةُ: اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ، سَامِدُونَ: الْبَرْطَمَةُ، وَقَالَ عِكْرِمَةُ: يَتَغَنَّوْنَ بِالْحِمْيَرِيَّةِ، وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ: أَفَتُمَارُونَهُ: أَفَتُجَادِلُونَهُ وَمَنْ قَرَأَ أَفَتَمْرُونَهُ يَعْنِي أَفَتَجْحَدُونَهُ، وَقَالَ: مَا زَاغَ الْبَصَرُ: بَصَرُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا طَغَى: وَمَا جَاوَزَ مَا رَأَى، فَتَمَارَوْا: كَذَّبُوا، وَقَالَ الْحَسَنُ: إِذَا هَوَى: غَابَ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَغْنَى وَأَقْنَى: أَعْطَى فَأَرْضَى.
مجاہد نے کہا کہ «ذو مرة» کے معنی زور دار، زبردست (یعنی جبرائیل علیہ السلام)۔ «قاب قوسين» یعنی کمان کے دونوں کنارے جہاں پر چلہ لگا رہتا ہے۔ «ضيزى» کے معنی ٹیڑھی، غلط تقسیم۔ «وأكدى» اور دینا موقوف کر دیا۔ «الشعرى» وہ ستارہ ہے جسے «مرزم الجوزاء» بھی کہتے ہیں۔ «الذي وفى» یعنی اللہ نے جو ان پر فرض کیا تھا وہ بجا لائے۔ «أزفت الآزفة» قیامت قریب آ گئی۔ «سامدون» کے معنی کھیل کرتے ہو۔ «برطمة.» ایک کھیل کا نام ہے۔ عکرمہ نے کہا «حميري» زبان میں گانے کے معنی میں ہے اور ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے کہا کہ «أفتمارونه» کا معنی کیا تم اس سے جھگڑتے ہو۔ بعضوں نے یوں پڑھا ہے «أفتمرونه» یعنی کیا تم اس کام کا انکار کرتے ہو۔ «ما زاغ البصر» سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چشم مبارک مراد ہے۔ «وما طغى» یعنی جتنا حکم تھا اتنا ہی دیکھا (اس سے زیادہ نہیں بڑھے)۔ «فتماروا» سورۃ القمر میں ہے یعنی جھٹلایا۔ (امام حسن بصری نے کہا «إذا هوى» یعنی غائب ہوا اور ڈوب گیا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «أغنى وأقنى» کا معنی یہ ہے کہ دیا اور راضی کیا۔
(مرفوع) حدثنا يحيى، حدثنا وكيع، عن إسماعيل بن ابي خالد، عن عامر، عن مسروق، قال: قلت لعائشة رضي الله عنها: يا امتاه، هل راى محمد صلى الله عليه وسلم ربه؟ فقالت: لقد قف شعري مما قلت اين انت من ثلاث من حدثكهن، فقد كذب من حدثك ان محمدا صلى الله عليه وسلم راى ربه فقد كذب، ثم قرات: لا تدركه الابصار وهو يدرك الابصار وهو اللطيف الخبير سورة الانعام آية 103 وما كان لبشر ان يكلمه الله إلا وحيا او من وراء حجاب سورة الشورى آية 51، ومن حدثك انه يعلم ما في غد فقد كذب، ثم قرات وما تدري نفس ماذا تكسب غدا سورة لقمان آية 34، ومن حدثك انه كتم فقد كذب، ثم قرات يايها الرسول بلغ ما انزل إليك من ربك سورة المائدة آية 67 الآية، ولكنه راى جبريل عليه السلام في صورته مرتين".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: يَا أُمَّتَاهْ، هَلْ رَأَى مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَبَّهُ؟ فَقَالَتْ: لَقَدْ قَفَّ شَعَرِي مِمَّا قُلْتَ أَيْنَ أَنْتَ مِنْ ثَلَاثٍ مَنْ حَدَّثَكَهُنَّ، فَقَدْ كَذَبَ مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَبَّهُ فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ: لا تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ سورة الأنعام آية 103 وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ سورة الشورى آية 51، وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا سورة لقمان آية 34، وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ كَتَمَ فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ يَأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ سورة المائدة آية 67 الْآيَةَ، وَلَكِنَّهُ رَأَى جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام فِي صُورَتِهِ مَرَّتَيْنِ".
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے وکیع نے، ان سے اسمٰعیل بن ابی خالد نے، ان سے عامر نے اور ان سے مسروق نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: اے ایمان والوں کی ماں! کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات میں اپنے رب کو دیکھا تھا؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا تم نے ایسی بات کہی کہ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے کیا تم ان تین باتوں سے بھی ناواقف ہو؟ جو شخص بھی تم میں سے یہ تین باتیں بیان کرے وہ جھوٹا ہے جو شخص یہ کہتا ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج میں اپنے رب کو دیکھا تھا وہ جھوٹا ہے۔ پھر انہوں نے آیت «لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار وهو اللطيف الخبير» سے لے کر «من وراء حجاب» تک کی تلاوت کی اور کہا کہ کسی انسان کے لیے ممکن نہیں کہ اللہ سے بات کرے سوا اس کے کہ وحی کے ذریعہ ہو یا پھر پردے کے پیچھے سے ہو اور جو شخص تم سے کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آنے والے کل کی بات جانتے تھے وہ بھی جھوٹا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے آیت «وما تدري نفس ماذا تكسب غدا» یعنی ”اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ کل کیا کرے گا۔“ کی تلاوت فرمائی۔ اور جو شخص تم میں سے کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین میں کوئی بات چھپائی تھی وہ بھی جھوٹا ہے۔ پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت کی «يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك» یعنی اے رسول! پہنچا دیجئیے وہ سب کچھ جو آپ کے رب کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے۔ ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کو ان کی اصل صورت میں دو مرتبہ دیکھا تھا۔
Narrated Masruq: I said to `Aisha, "O Mother! Did Prophet Muhammad see his Lord?" Aisha said, "What you have said makes my hair stand on end ! Know that if somebody tells you one of the following three things, he is a liar: Whoever tells you that Muhammad saw his Lord, is a liar." Then Aisha recited the Verse: 'No vision can grasp Him, but His grasp is over all vision. He is the Most Courteous Well-Acquainted with all things.' (6.103) 'It is not fitting for a human being that Allah should speak to him except by inspiration or from behind a veil.' (42.51) `Aisha further said, "And whoever tells you that the Prophet knows what is going to happen tomorrow, is a liar." She then recited: 'No soul can know what it will earn tomorrow.' (31.34) She added: "And whoever tell you that he concealed (some of Allah's orders), is a liar." Then she recited: 'O Apostle! Proclaim (the Message) which has been sent down to you from your Lord..' (5.67) `Aisha added. "But the Prophet saw Gabriel in his true form twice."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 378
لقد قف شعري مما قلت أين أنت من ثلاث من حدثكهن فقد كذب من حدثك أن محمدا رأى ربه فقد كذب قرأت لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار وهو اللطيف الخبير ما كان لبشر أن يكلمه الله إلا وحيا أو من وراء حجاب وم
إنما هو جبريل لم أره على صورته التي خلق عليها غير هاتين المرتين رأيته منهبطا من السماء سادا عظم خلقه ما بين السماء إلى الأرض فقالت أولم تسمع أن الله يقول لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار وهو اللطيف الخبير
إنما ذاك جبريل ما رأيته في الصورة التي خلق فيها غير هاتين المرتين رأيته منهبطا من السماء سادا عظم خلقه ما بين السماء والأرض ومن زعم أن محمدا كتم شيئا مما أنزل الله عليه فقد أعظم الفرية على الله يقول الله يأيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4855
حدیث حاشیہ: اس تفصیل سے اسی کو ترجیح حاصل ہوئی کہ آپ نے شب معراج میں ان آنکھوں سے اللہ کو نہیں دیکھا۔ واللہ اعلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نفی کرنا حیات دنیاوی سے متعلق ہے آخرت میں مومنوں کا دیدارالٰہی ضرور ہوگا اس کا انکار مراد نہیں ہے۔ آیت میں عام طو ر پر ہر نفس مراد ہے کہ وہ نہیں جانتا کہ کل کیا ہونے والا ہے اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی غیب دانی کی نفی ثابت ہوتی ہے دوسری آیت میں بصراحت مذکور ہے ﴿قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ﴾(النمل: 65) اب غور طلب چیز یہ ہے جب کل کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی حاصل نہیں ہے تو دوسرے ولی یا بزرگ یا پیر فقیر وشہید کس گنتی اورشمار میں ہیں۔ یہ بات الگ ہے کہ اللہ پاک اپنے کسی بندے کو وحی یا الہام کے ذریعہ سے کل کی کسی بات پر آگاہ فرما دے اس سے اس بندے کا عالم الغیب ہونا ثابت نہیں ہو سکتا جو اہل بدعت خود ساختہ مرشدوں کو غیب داں جانتے ہیں ان کے مشرک ہونے میں کوئی شک نہیں ہے وہ اشراک فی العلم کے مرتکب ہیں اور اللہ کے ہاں ان کا نام مشرکوں کے دفتر میں لکھا گیا خواہ وہ دنیا میں کتنے ہی اسلام کا دعویٰ کریں اور اپنے آپ کو مسلمان ومومن سمجھیں قرآن پاک کی ایک آیت میں ایسے ہی لوگوں کا ذکر ہے ﴿وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ﴾(یوسف: 106) یعنی کتنے ایمان کے دعویدار اللہ کے نزدیک مشرک ہیں خود فقہائے احناف نے صراحت کی ہے کہ غیر اللہ کو غیب داں جاننا کفر ہے۔ اسی طرح جو کوئی اللہ کے ساتھ اس کے رسول کو بھی غیب داں جان کر گواہ بنا دے وہ بھی مشرک ہو جاتا ہے بہر حال ایسے مشرکانہ عقائد سے ہر موحد مسلمان کو بالکل دور رہنا چاہئے۔ وباللہ التوفیق۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4855
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4855
حدیث حاشیہ: 1۔ احادیث میں اس حدیث کا سبب بیان ہوا ہے کہ کعب احبار نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرفہ میں ملاقات کی اور ان سے کچھ سوالات کیے پھر اتنے زور سے اللہ اکبر کہا کہ پہاڑ گونج اٹھا پھر اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رؤیت اورگفتگو کو تقسیم کردیا ہے کیونکہ اپنے کلام سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو شرف یاب کیا جبکہ دیدار سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مشرف ہوئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دو مرتبہ اپنے رب سے کلام کیا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ اپنے رب کو دیکھا۔ حضرت مسروق کہتے ہیں کہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس گیا اور اس گفتگو کا ذکر کیا اور پوچھا کیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروردگار کو دیکھا ہے؟ تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے وہی جواب دیا جو حدیث میں مذکورہے۔ (جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3278) 2۔ بہر حال حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس بات کی پرزور تردید کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا اس انکار کی بنیاد صرف آیات سے استنباط ہی پر نہیں بلکہ مرفوع حدیث ہے چنانچہ جب مسروق نے اس سلسلے میں حسب ذیل دو آیات کا حوالہ دیا۔ ﴿وَلَقَدْ رَآهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ﴾(التکویر81۔ 23) اور ﴿وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ﴾(النجم: 53۔ 13) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: میں نے اس امت میں سب سے پہلے اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ”اس سے مراد حضرت جبرئیل ہیں۔ میں نے انھیں اصلی صورت میں صرف دو مرتبہ دیکھا ہے میں نے انھیں آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا جبکہ ان کی جسامت نے زمین نے زمین وآسمان کے کناروں کو ڈھانپ رکھا تھا۔ “ اس کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان دو آیات کا حوالہ دیا جو حدیث بخاری میں موجود ہیں۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 439(177) ایک روایت میں صراحت ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروردگار کو اپنے دل سے دیکھا تھا۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 436(176) اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رؤیت بسری یعنی آنکھ سے دیکھنے کا انکار کرتی ہیں جبکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اقرار رؤیت قلبی یعنی دل سے دیکھنے سے متعلق ہے ان دونوں میں کوئی منافات نہیں ہے۔ 3۔ یاد رہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس عالم رنگ و بو میں رؤیت باری تعالیٰ کا انکار کرتی ہیں البتہ آخرت میں اہل ایمان دیدار الٰہی سے ضرور شرف یاب ہوں گے جیسا کہ قرآنی آیات اور احادیث سے ثابت ہے۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4855
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3234
´شب معراج نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا` «. . . عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: مَنْ زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَأَى رَبَّهُ فَقَدْ أَعْظَمَ . . .» ”. . . عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جس نے یہ گمان کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تھا تو اس نے بڑی جھوٹی بات زبان سے نکالی . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ/بَابُ إِذَا قَالَ أَحَدُكُمْ آمِينَ...: 3234]
تخريج الحديث: [112۔ البخاري فى: 59 كتاب بدي الخلق: 7 باب إذا قال أحدكم آمين۔۔۔۔ 3234]
فھم الحدیث: ان احادیث سے معلوم ہوا کہ شب معراج نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شب معراج اللہ کو دیکھنے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تو نور ہے (یا نور کے پردے میں ہے) میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں؟“[مسلم: كتاب الايمان 178] سابق مفتی اعظم سعودیہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے بھی یہی فتویٰ دیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دینا میں بیداری کی حالت میں کبھی بھی اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا۔ [مجموع فتاويٰ ابن باز 27/ 118]
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 112
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3068
´سورۃ الانعام سے بعض آیات کی تفسیر۔` مسروق کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کے پاس ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا تھا، انہوں نے کہا: اے ابوعائشہ! تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان میں سے کسی نے ایک بھی کیا تو وہ اللہ پر بڑی بہتان لگائے گا: (۱) جس نے خیال کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے (معراج کی رات میں) اللہ کو دیکھا ہے تو اس نے اللہ کی ذات کے بارے میں بڑی بہتان لگائی۔ کیونکہ اللہ اپنی ذات کے بارے میں کہتا ہے «لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار وهو اللطيف الخبير»”کہ اسے انسانی نگاہیں نہیں پا سکتی ہیں، اور وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے (یعنی اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا اور وہ سبھی کو دیکھ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3068]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: بے شک محمد نے اسے تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا (النجم: 13)
2؎: بے شک انہوں نے اسے آسمان کے روشن کنارے پر دیکھا (التکویر: 23)
3؎: جو چیز اللہ کی جانب سے تم پر اتاری گئی ہے اسے لوگوں تک پہنچا دو (النساء: 67)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3068
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 439
مسروقؒ کہتے ہیں کہ میں حضرت عائشہؓ کے پاس ٹیک لگائے ہوئے بیٹھا تھا، کہ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: ”اے ابو عائشہ! (مسروق کی کنیت ہے) تین چیزیں ہیں، جو کوئی ان میں سے کسی کا قائل ہوا اس نے اللہ پر بہت بڑا بہتان باندھا۔“ میں نے پوچھا: وہ باتیں کون سی ہیں؟ انھوں نے جواب دیا: ”جس نے یہ گمان کیا کہ محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے، تو اس نے اللہ تعالیٰ کے بارے میں بہت بڑا جھوٹ بولا۔“ مسروقؒ کہتے ہیں: میں ٹیک لگائے ہوئے بیٹھا تھا، تو سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:439]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : (1) الْفِرْيَةَ: جمع فَرِي من گھڑت بات، جھوٹ۔ (2) أَنْظِرِينِي: انظار سے ہے، مہلت دینا، ڈھیل دینا، مجھے مہلت دیجئے۔ (3) سَادًّا: سد سے ہے روکنا، بند کر دینا۔ (4) عُِظَْمُ: عین پر پیش اور ظاء ساکن ہے یا عین پر زیر اور ظاء پر زبر ہے، بڑائی جسامت کے اعتبار سے۔ فوائد ومسائل: (1) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے لیے "قَالَ" ”اس نے فرمایا“ اسی طرح "اللہُ یَقُوْلُ" ”اللہ فرماتا ہے“ کہنا درست ہے۔ خود قرآن مجید میں ہے ﴿وَاللَّـهُ يَقُولُ الْحَقَّ﴾”وہ حق فرماتا ہے۔ “(الأحزاب: 5)(2) غیب کا علم، اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے، اس کے سوا کوئی رسول، فرشتہ، ولی اور صالح انسان غیب نہیں جانتا، بعض نے اس آیت کے ترجمے میں بریکٹ کےاندر لکھا ہے (بالذات یعنی اللہ تعالیٰ کے بتلائے بغیر)(شرح صحیح مسلم: 1/775) ، سوال یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے بتلا دیا تو وہ غیب کہاں رہا۔ (3) رسول اللہ ﷺ نے پورے کا پورا مکمل قرآن امت تک پہنچا دیا ہے، کیونکہ اگر آپ اس میں کسی قسم کی کوتاہی کرتے، تویہ فریضہ رسالت کی ادائیگی میں کوتاہی ہوئی، اس لیے شیعہ کا یہ دعویٰ ہے، کہ موجودہ قرآن اصل سے کم ہے۔ یہ ایک بہتان اور افترا ہے جو ایمان کے منافی ہے۔ (4) حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی طرح حضرت عائشہؓ کی رائے بھی یہی ہے کہ حضور اکرم ﷺ کو معراج میں اللہ کا دیدار نہیں ہوا۔ (اس مسئلہ پر بحث ہم آگے کریں گے) ۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 439
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4612
4612. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جو شخص بھی تم سے یہ کہے کہ اللہ تعالٰی نے حضرت محمد ﷺ پر جو کچھ نازل کیا تھا، آپ نے اس میں سے کچھ چھپا لیا تھا تو اس نے یقینا جھوٹ بولا ہے۔ اللہ تعالٰی نے خود فرمایا ہے: "اے پیغمبر! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف نازل کیا گیا ہے، اسے لوگوں تک پہنچا دو۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:4612]
حدیث حاشیہ: چنانچہ آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر مسلمانوں سے اس بارے میں تصدیق چاہی تھی اور مسلمانوں نے بالاتفاق کہا تھا کہ بے شک آپ نے اپنے تبلیغی فرض کو پورے طور پر ادا فرما دیا۔ (صلی اللہ علیه وسلم)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4612
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7380
7380. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: اگر کوئی تم سے یہ کہے کہ سیدنا محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو اس نے جھوٹ بولا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”نظریں اسے نہیں دیکھ سکتیں“ اور جو تجھے یہ کہے کہ آپﷺ غیب جانتے تھے تو اس نے بھی غلط کہا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ غیب کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7380]
حدیث حاشیہ: سچ ہے علم غیبی کس نمی داند بجز پروردگار گر کسے دعویٰ کند ہر گزازو باور مدار جو غالی لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے علم غیب ثابت کرتے ہیں وہ قرآن مجید کی تحریف کرتے ہیں اور از خود ایک غلط عقیدہ گھڑتے ہیں۔ لوگوں کو ایسے خناس لوگوں سے دور رہ کر اپنے دین وایمان کی حفاظت کرنی چاہئیے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بھی غائبانہ خبر دی ہیں وہ سب وحی الٰہی سے ہیں۔ ان کو غیب کہنا لوگوں کو دھوکا دینا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7380
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4612
4612. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جو شخص بھی تم سے یہ کہے کہ اللہ تعالٰی نے حضرت محمد ﷺ پر جو کچھ نازل کیا تھا، آپ نے اس میں سے کچھ چھپا لیا تھا تو اس نے یقینا جھوٹ بولا ہے۔ اللہ تعالٰی نے خود فرمایا ہے: "اے پیغمبر! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف نازل کیا گیا ہے، اسے لوگوں تک پہنچا دو۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:4612]
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت عائشہ ؓ سے مروی ایک حدیث سے مذکورہ حدیث کی مزید وضاحت ہوتی ہے آپ فرماتی ہیں کہ اگر رسول اللہ ﷺ کسی آیت کو لوگوں سے چھپانا چاہتے تو اس آیت کو چھپاتے۔ "اور آپ اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھے جسے اللہ تعالیٰ ظاہر کرنے والا تھا۔ اور آپ لوگوں سے خوف کھاتے تھے حالانکہ اللہ تعالیٰ اس کا زیادہ حق دار تھا کہ آپ اس سے ڈرتے۔ "(الأحزاب: 33۔ 37) لیکن آپ نے اس آیت کو بھی نہیں چھپایا۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 440(177) 2۔ اس طرح کی ایک حدیث حضرت انس ؓ سے بھی مروی ہے۔ (صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7420) بہرحال رسول اللہ ﷺ نے پوری ذمے داری سے فریضہ تبلیغ رسالت سر انجام دیا۔ پھر آپ نے زندگی کے آخری دور میں ہزاروں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے گواہی لی۔ جب انھوں نے اثبات میں جواب دیا تو آپ نے بآواز بلند فرمایا: "یا اللہ! تو اس پر گواہ رہنا۔ " (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2950۔ (1218)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4612
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7380
7380. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: اگر کوئی تم سے یہ کہے کہ سیدنا محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو اس نے جھوٹ بولا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”نظریں اسے نہیں دیکھ سکتیں“ اور جو تجھے یہ کہے کہ آپﷺ غیب جانتے تھے تو اس نے بھی غلط کہا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ غیب کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7380]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث کا سبب ورود یہ ہے کہ ایک دفعہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کعب احبار سے ملے تو آپ نے ان سے فرمایا: ہم بنو ہاشم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا ہے۔ یہ بات سن کر کعب احبار نے نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا شرف ودیدار اوراعزاز گفتگو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان تقسیم کر دیا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ دو دفعہ ہم کلام ہوا ہے اور حضر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دفعہ اللہ تعالیٰ کا دیدار کرنے کا شرف حاصل کیا ہے۔ حضرت مسروق کہتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آیا اور عرض کی: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھاہے؟ تو انھوں نے مذکورہ حدیث بیان فرمائی۔ (جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3278) 2۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا انکار کسی مرفوع حدیث کی بنیاد پر نہیں کیا۔ اس سلسلے میں انھوں نے صرف اجتہاد پر اکتفا کیا ہے جبکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے اس کے خلاف موقف منقول ہے۔ جب کوئی صحابی بات کہے اور دوسرا مخالفت کرے تو بالاتفاق حجت نہیں ہوتی۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ پر تعجب ہوتا ہے کہ انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے متعلق ایسی بات کیوں کہی، حالانکہ صحیح مسلم میں صراحت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث سن کر حضرت مسروق نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”اور اس نے اس روشن افق پر دیکھا ہے۔ “(التکویر 23) نیز فرمایا: ”ایک مرتبہ اور بھی اس نے اسے دیکھا۔ “(النجم 13/53) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اس سے مراد جبرئیل علیہ السلام ہیں۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 439(177) صحیح مسلم کی سند کے ساتھ ابن مردودیہ نے مزید نقل کیا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: میں نے سب سے پہلے اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، میں نے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام کو اترتے ہوئے دیکھا۔ “(شرح کتاب التوحید للغنیمان: 116/1) حضرت ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ”وہ تو نور ہے میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں۔ “(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 443(178) سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے یہ آیت پڑھی: ”آپ نے جو دیکھا دل نے اس کی تکذیب نہیں کی۔ “(النجم11/53) مزید فرمایا: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو اپنے دل کی آنکھ سے دیکھا تھا۔ “(جامع الترمذي، تفسیرالقرآن، حدیث: 3281) ہمارے رجحان کے مطابق سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس صراحت کے بعد وجہ اختلاف از خود ختم ہو جاتی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا موقف ہی مبنی برحقیقت معلوم ہوتا ہے کیونکہ قرآن کریم میں یہ وضاحت ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو (اس دنیا میں) ان ظاہری آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا، البتہ عالمِ آخرت میں اہل جنت اپنے رب کےدیدار سے ضرور فیض یاب ہوں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”قیامت کے دن بہت سے چہرے تروتازہ ہوں گے اور اپنے رب کو دیکھتے ہوں گے۔ “(القیامة: 23/75) احادیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار جنت کی تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرمائے۔ آمین یارب العالمین۔ 3۔ اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ علم غیب اللہ تعالیٰ کا خاصا ہے، اس میں کوئی دوسرا شریک نہیں حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ایسا علم حاصل نہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم!) آپ ان سے کہہ دیں: میں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب کی باتیں جانتا ہوں۔ “(الأنعام 50) نیز فرمایا: ”اگرمیں غیب جانتا ہوتا تو بہت سی بھلائیاں حاصل کرلیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔ “(الأعراف: 188/7) ان آیات سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا علم نہیں تھا۔ البتہ اگر بذریعہ وحی کچھ غیب کی باتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتادی گئی ہوں تو وہ اس موضوع سے خارج ہیں۔ اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”وہ غیب دان ہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا سوائے ایسے رسول کے سے جسے وہ (کوئی غیب کی بات بتانا) پسند کرے، پھر وہ اس (وحی) کے آگے اور پیچھے محافظ لگا دیتا ہے۔ “(الجن 26۔ 27) علامات قیامت، امورآخرت، حشر نشر، حساب کتاب اور جنت دوزخ سے متعلقہ حقائق غیب سے تعلق رکھتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دیے اور انھوں نے ان کو اُمت تک پہنچا دیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے انھیں نہ تو آپ جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم کو ان کا علم تھا۔ “(ھود 49) اس بات پر اہل علم کاا تفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا علم نہیں تھا مگرجو بات اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دیتا وہ معلوم ہو جاتی، چنانچہ ابن اسحاق نے اپنی تالیف "مغازی" میں نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی گم ہوگئی تو ابن صلیت کہنے لگا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود کو پیغمبر کہتے ہیں اور آسمان کے حالات تم سے بیان کرتے ہیں لیکن انھیں اپنی اونٹنی کے متعلق معلومات نہیں ہیں کہ وہ کہاں ہے؟ یہ بات جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فلاں شخص ایسی ایسی بات کہتا ہے، اللہ کی قسم! میں تو وہی بات جانتا ہوں جو اللہ تعالیٰ مجھے بتلا دیتا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ نے مجھے اونٹنی کے متعلق بتلا دیا ہے کہ وہ فلاں گھاٹی میں ایک درخت سے اٹکی ہوئی ہے۔ “ آخر کار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین وہاں گئے اورآپ کی نشاندہی سے اسے لے آئے۔ (فتح الباري: 445/13) 4۔ ہمارے ہاں کچھ غالی قسم کے عقیدت مند ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے علم غیب ثابت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ کو (مَا كَانَ وَمَا يَكُونُ) کا علم تھا۔ ایسا عقیدہ سراسر غلط اور قرآن وسنت کے بالکل ہی خلاف ہے۔ اسی طرح کچھ شعبدہ باز اور مداری قسم کے لوگ بھی علم غیب رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور کچھ کشف والہام کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس قسم کے دعوؤں کی کیا حقیقت ہے؟ مثلاً: ایک نجومی، جوتشی جو فٹ پاتھ پر بیٹھ کر لوگوں کی قسمت کا حال بتاتا ہے اور مختلف طریقوں سے لوگوں کو غیب کی خبریں دیتا ہے اگر وہ یہ علم جانتا ہوتا تو کیا اس کم بخت کی یہ حالت زار ہو سکتی تھی؟ کیا وہ چند دنوں میں امیر کبیر نہ بن سکتا تھا؟ کچھ صوفی حضرات کشف قبور کے قائل ہیں اور کچھ استخارے کے ذریعے سے چوری وغیرہ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ سراسر جھوٹ اور بہتان ہے۔ شریعت میں ایسے کاموں کی کوئی گنجائش نہیں۔ بہرحال غیب کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا اور جو اس کا دعویٰ کرتا ہے وہ جھوٹا اور کذاب ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7380
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7531
7531. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: اگر کوئی تم سے یہ بیان کرے کہ نبی اکرم سیدنا محمد ﷺ نے وحی الہیٰ سے کچھ چھپالیا ہے تو اس کی تصدیق مت کرنا (کیونکہ وہ جھوٹا ہے)۔ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے: ”اے رسول! آپ کے رب کی طرف سے جو پیغام آپ کی طرف سے اتارا گیا ہے اسے لوگوں تک پہنچا دیجیے۔ اگر آپ نے یہ کام نہ کیا تو گویا آپ نے اس(اپنے رب) کا پیغام نہیں پہنچایا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7531]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ تبلیغ رسالت حضرات انبیاء علیہم السلام کی ذمہ داری تھی اور انھوں نے اس سلسلے میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کی، پھر قرآن کی تلاوت اور اس کی وضاحت کے ساتھ تبلیغ کرنا ان کا فعل ہے جو اللہ تعالیٰ کا پیدا کیا ہوا ہے، البتہ جو پیغام انھوں نے پہنچایا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کا کلام اور غیرمخلوق ہے۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں اس سلسلے میں جتنے بھی دلائل ہیں ان پر الگ الگ عنوان قائم کیا ہے جیسا کہ آئندہ تراجم سے معلوم ہوتا ہے۔ دراصل امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ان مسائل کی وجہ سے بہت آزمائش میں ڈالے گئے تھے، اس لیے انھوں نے اپنے موقف کی تائید میں دلائل کے انبار لگا دیے ہیں۔ فجزاه الله خير الجزاء۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7531