صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
53. سورة {وَالنَّجْمِ} :
باب: سورۃ النجم کی تفسیر۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: ذُو مِرَّةٍ: ذُو قُوَّةٍ، قَابَ قَوْسَيْنِ: حَيْثُ الْوَتَرُ مِنَ الْقَوْسِ، ضِيزَى: عَوْجَاءُ، وَأَكْدَى: قَطَعَ عَطَاءَهُ، رَبُّ الشِّعْرَى: هُوَ مِرْزَمُ الْجَوْزَاءِ، الَّذِي وَفَّى: وَفَّى مَا فُرِضَ عَلَيْهِ، أَزِفَتِ الْآزِفَةُ: اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ، سَامِدُونَ: الْبَرْطَمَةُ، وَقَالَ عِكْرِمَةُ: يَتَغَنَّوْنَ بِالْحِمْيَرِيَّةِ، وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ: أَفَتُمَارُونَهُ: أَفَتُجَادِلُونَهُ وَمَنْ قَرَأَ أَفَتَمْرُونَهُ يَعْنِي أَفَتَجْحَدُونَهُ، وَقَالَ: مَا زَاغَ الْبَصَرُ: بَصَرُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا طَغَى: وَمَا جَاوَزَ مَا رَأَى، فَتَمَارَوْا: كَذَّبُوا، وَقَالَ الْحَسَنُ: إِذَا هَوَى: غَابَ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَغْنَى وَأَقْنَى: أَعْطَى فَأَرْضَى.
مجاہد نے کہا کہ «ذو مرة» کے معنی زور دار، زبردست (یعنی جبرائیل علیہ السلام)۔ «قاب قوسين» یعنی کمان کے دونوں کنارے جہاں پر چلہ لگا رہتا ہے۔ «ضيزى» کے معنی ٹیڑھی، غلط تقسیم۔ «وأكدى» اور دینا موقوف کر دیا۔ «الشعرى» وہ ستارہ ہے جسے «مرزم الجوزاء» بھی کہتے ہیں۔ «الذي وفى» یعنی اللہ نے جو ان پر فرض کیا تھا وہ بجا لائے۔ «أزفت الآزفة» قیامت قریب آ گئی۔ «سامدون» کے معنی کھیل کرتے ہو۔ «برطمة.» ایک کھیل کا نام ہے۔ عکرمہ نے کہا «حميري» زبان میں گانے کے معنی میں ہے اور ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے کہا کہ «أفتمارونه» کا معنی کیا تم اس سے جھگڑتے ہو۔ بعضوں نے یوں پڑھا ہے «أفتمرونه» یعنی کیا تم اس کام کا انکار کرتے ہو۔ «ما زاغ البصر» سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چشم مبارک مراد ہے۔ «وما طغى» یعنی جتنا حکم تھا اتنا ہی دیکھا (اس سے زیادہ نہیں بڑھے)۔ «فتماروا» سورۃ القمر میں ہے یعنی جھٹلایا۔ (امام حسن بصری نے کہا «إذا هوى» یعنی غائب ہوا اور ڈوب گیا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «أغنى وأقنى» کا معنی یہ ہے کہ دیا اور راضی کیا۔