1. باب: آیت کی تفسیر ”اور اپنا انعام تمہارے اوپر اور اولاد یعقوب پر پورا کرے گا جیسا کہ وہ اسے اس سے پہلے پورا کر چکا ہے، تمہارے باپ دادا ابراہیم اور اسحاق پر“۔
(1) Chapter. The Statement of Allah: “...and perfect His Favour on you and on the offspring of Yaqub (Jacob)...” (V.12:6)
وقال فضيل: عن حصين، عن مجاهد، متكا: الاترج، قال فضيل: الاترج بالحبشية متكا، وقال ابن عيينة: عن رجل، عن مجاهد، متكا، قال: كل شيء قطع بالسكين، وقال قتادة: لذو علم: لما علمناه عامل بما علم، وقال سعيد بن جبير، صواع الملك مكوك الفارسي: الذي يلتقي طرفاه كانت تشرب به الاعاجم، وقال ابن عباس: تفندون: تجهلون، وقال غيره: غيابة كل شيء غيب عنك شيئا فهو غيابة، والجب الركية التي لم تطو، بمؤمن لنا: بمصدق، اشده: قبل ان ياخذ في النقصان، يقال: بلغ اشده، وبلغوا اشدهم، وقال بعضهم: واحدها شد، والمتكا ما اتكات عليه لشراب، او لحديث، او لطعام، وابطل الذي، قال: الاترج وليس في كلام العرب الاترج، فلما احتج عليهم بانه المتكا من نمارق فروا إلى شر منه، فقالوا: إنما هو المتك ساكنة التاء، وإنما المتك طرف البظر، ومن ذلك قيل لها: متكاء وابن المتكاء، فإن كان ثم اترج، فإنه بعد المتكإ، شغفها، يقال: بلغ شغافها، وهو غلاف قلبها، واما شعفها فمن المشعوف، اصب: اميل صبا مال، اضغاث احلام: ما لا تاويل له، والضغث ملء اليد من حشيش وما اشبهه ومنه، وخذ بيدك ضغثا لا من قوله اضغاث احلام واحدها ضغث، نمير: من الميرة، ونزداد كيل بعير: ما يحمل بعير، اوى إليه: ضم إليه السقاية مكيال، تفتا: لا تزال، حرضا: محرضا يذيبك الهم، تحسسوا: تخبروا، مزجاة: قليلة، غاشية من عذاب الله: عامة مجللة.وَقَالَ فُضَيْلٌ: عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، مُتَّكَأً: الْأُتْرُجُّ، قَالَ فُضَيْلٌ: الْأُتْرُجُّ بِالْحَبَشِيَّةِ مُتْكًا، وَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: عَنْ رَجُلٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، مُتْكًا، قَالَ: كُلُّ شَيْءٍ قُطِعَ بِالسِّكِّينِ، وَقَالَ قَتَادَةُ: لَذُو عِلْمٍ: لِمَا عَلَّمْنَاهُ عَامِلٌ بِمَا عَلِمَ، وَقَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، صُوَاعَ الْمَلِكِ مَكُّوكُ الْفَارِسِيِّ: الَّذِي يَلْتَقِي طَرَفَاهُ كَانَتْ تَشْرَبُ بِهِ الْأَعَاجِمُ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: تُفَنِّدُونِ: تُجَهِّلُونِ، وَقَالَ غَيْرُهُ: غَيَابَةٌ كُلُّ شَيْءٍ غَيَّبَ عَنْكَ شَيْئًا فَهُوَ غَيَابَةٌ، وَالْجُبُّ الرَّكِيَّةُ الَّتِي لَمْ تُطْوَ، بِمُؤْمِنٍ لَنَا: بِمُصَدِّقٍ، أَشُدَّهُ: قَبْلَ أَنْ يَأْخُذَ فِي النُّقْصَانِ، يُقَالُ: بَلَغَ أَشُدَّهُ، وَبَلَغُوا أَشُدَّهُمْ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: وَاحِدُهَا شَدٌّ، وَالْمُتَّكَأُ مَا اتَّكَأْتَ عَلَيْهِ لِشَرَابٍ، أَوْ لِحَدِيثٍ، أَوْ لِطَعَامٍ، وَأَبْطَلَ الَّذِي، قَالَ: الْأُتْرُجُّ وَلَيْسَ فِي كَلَامِ الْعَرَبِ الْأُتْرُجُّ، فَلَمَّا احْتُجَّ عَلَيْهِمْ بِأَنَّهُ الْمُتَّكَأُ مِنْ نَمَارِقَ فَرُّوا إِلَى شَرٍّ مِنْهُ، فَقَالُوا: إِنَّمَا هُوَ الْمُتْكُ سَاكِنَةَ التَّاءِ، وَإِنَّمَا الْمُتْكُ طَرَفُ الْبَظْرِ، وَمِنْ ذَلِكَ قِيلَ لَهَا: مَتْكَاءُ وَابْنُ الْمَتْكَاءِ، فَإِنْ كَانَ ثَمَّ أُتْرُجٌّ، فَإِنَّهُ بَعْدَ الْمُتَّكَإِ، شَغَفَهَا، يُقَالُ: بَلَغَ شِغَافَهَا، وَهُوَ غِلَافُ قَلْبِهَا، وَأَمَّا شَعَفَهَا فَمِنَ الْمَشْعُوفِ، أَصْبُ: أَمِيلُ صَبَا مَالَ، أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ: مَا لَا تَأْوِيلَ لَهُ، وَالضِّغْثُ مِلْءُ الْيَدِ مِنْ حَشِيشٍ وَمَا أَشْبَهَهُ وَمِنْهُ، وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا لَا مِنْ قَوْلِهِ أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ وَاحِدُهَا ضِغْثٌ، نَمِيرُ: مِنَ الْمِيرَةِ، وَنَزْدَادُ كَيْلَ بَعِيرٍ: مَا يَحْمِلُ بَعِيرٌ، أَوَى إِلَيْهِ: ضَمَّ إِلَيْهِ السِّقَايَةُ مِكْيَالٌ، تَفْتَأُ: لَا تَزَالُ، حَرَضًا: مُحْرَضًا يُذِيبُكَ الْهَمُّ، تَحَسَّسُوا: تَخَبَّرُوا، مُزْجَاةٍ: قَلِيلَةٍ، غَاشِيَةٌ مِنْ عَذَابِ اللَّهِ: عَامَّةٌ مُجَلِّلَةٌ.
اور فضیل بن عیاض (زاہد مشہور) نے حصین بن عبدالرحمٰن سے روایت کیا، انہوں نے مجاہد سے انہوں نے کہا «متكأ» کا معنی «لأترج» اور خود فضیل نے بھی کہا کہ «متكأ» حبشی زبان میں «لأترج» کو کہتے ہیں۔ اور سفیان بن عیینہ نے ایک شخص (نام نامعلوم) سے روایت کی اس نے مجاہد سے انہوں نے کہا۔ «متكأ» وہ چیز جو چھری سے کاٹی جائے (میوہ ہو یا ترکاری)۔ اور قتادہ نے کہا «ذو علم» کا معنی اپنے علم پر عمل کرنے والا۔ اور سعید بن جبیر نے کہا «صواع» ایک ماپ ہے جس کو «مكوك الفارسي» بھی کہتے ہیں یہ ایک گلاس کی طرح کا ہوتا ہے جس کے دونوں کنارے مل جاتے ہیں۔ عجم کے لوگ اس میں پانی پیا کرتے ہیں۔ اور ابن عباس نے کہا «لو لا ان تفندون» اگر تم مجھ کو جاہل نہ کہو۔ دوسرے لوگوں نے کہا «غيابة» وہ چیز جو دوسری چیز کو چھپاوے غائب کر دے اور جب کچا کنواں جس کی بندش نہ ہوئی ہو۔ «وما انت بمؤمن لنا» یعنی تو ہماری بات سچ ماننے والا نہیں۔ «أشده» وہ عمر جو زمانہ انحطاط سے پہلے ہو (تیس سے چالیس برس تک) عرب بولا کرتے ہیں۔ «بلغ أشده وبلغوا أشدهم» یعنی اپنی جوانی کی عمر کو پہنچا یا پہنچے۔ بعضوں نے کہا «اشد»، «شد» کی جمع ہے۔ «متكأ» مسند، تکیہ جس پر تو پینے کھانے یا باتیں کرنے کے لیے ٹیکا دے۔ اور جس نے یہ کہا کہ «متكأ»، «لأترج» کو کہتے ہیں اس نے غلط کہا۔ عربی زبان میں «متكأ» کے معنی «لأترج» کے بالکل نہیں آئے ہیں جب اس شخص سے جو «متكأ» کے معنی «لأترج» کہتا ہے اصل بیان کی گئی کہ «متكأ» مسند یا تکیہ کو کہتے ہیں تو وہ اس سے بھی بدتر ایک بات کہنے لگا کہ یہ لفظ «المتك ساكنة التاء» ہے۔ حالانکہ «متك» عربی زبان میں عورت کی شرمگاہ کو کہتے ہیں۔ جہاں عورت کو ختنہ کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عورت کو عربی زبان میں «متكأ»( «متك» والی) کہتے ہیں اور آدمی کو «متكأ» کا پیٹ کہتے ہیں۔ اگر بالفرض زلیخا نے «لأترج» بھی منگوا کر عورتوں کو دیا ہو گا تو مسند تکیہ کے بعد دیا ہو گا۔ «شعفها» یعنی اس کے دل کے «شغاف»(غلاف) میں اس کی محبت سما گئی ہے۔ بعضوں نے «شعفها» عین مہملہ سے پڑھا ہے وہ «مشعوف» سے نکلا ہے۔ «أصب» کا معنی مائل ہو جاؤں گا جھک پڑوں گا۔ «أضغاث أحلام» پریشان خواب جس کی کچھ تعبیر نہ دی جا سکے۔ اصل میں «أضغاث»، «ضغث» کی جمع ہے یعنی ایک مٹھی بھر گھاس تنکے وغیرہ اس سے ہے (سورۃ ص میں) «خذ بيدك ضغثا» یعنی اپنے ہاتھ میں سینکوں کا ایک مٹھا لے۔ اور «أضغاث أحلام» میں «ضغث» کے یہ معنی مراد نہیں ہیں۔ بلکہ پریشان خواب مراد ہے۔ «نمير»، «ميرة» سے نکلا ہے اس کے معنی کھانے کے ہیں۔ «ونزداد كيل بعير» یعنی ایک اونٹ کا بوجھ اور زیادہ لائیں گے۔ «أوى إليه» اپنے سے ملا لیا۔ اپنے پاس بیٹھا لیا۔ «سقاية» ایک ماپ تھا (جس سے غلہ ماپتے تھے)۔ «تفتأ» ہمیشہ رہو گے۔ «فلما استياسوا» جب ناامید ہو گئے۔ «ولا تياسوا من روح الله» اللہ سے امید رکھو اس کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔ «خلصوا نجيا» الگ جا کر مشورہ کرنے لگے۔ «نجي» کا معنی مشورہ کرنے والا۔ اس کی جمع «انجية» بھی آئی ہے اس سے بنا ہے «يتنا جون» یعنی مشورہ کر رہے ہیں۔ «نجي» مفرد کا صیغہ ہے اور تثنیہ اور جمع میں «نجي» اور «انجية» دونوں مستعمل ہیں۔ «حرضا» یعنی رنج و غم تجھ کو گلا ڈالے گا۔ «تحسسوا» یعنی خبر لو، لو لگاؤ، تلاش کرو۔ «مزجاة» تھوڑی پونجی۔ «غاشية من عذاب الله» اللہ کا عام عذاب جو سب کو گھیر لے۔
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالصمد نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کریم بن کریم بن کریم بن کریم یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم تھے۔(علیہم الصلٰوۃ والسلام)۔
Narrated `Abdullah bin `Umar: The Prophet said, "The honorable, the son of the honorable the son of the honorable, i.e. Joseph, the son of Jacob, the son of Isaac, the son of Abraham."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 210
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4688
حدیث حاشیہ: اس حدیث کی آیت کریمہ سے مناسبت اس طرح ہے کہ یہ چار افراد حضرت یوسف ؑ اور ان کے باپ دادا صاحبان نبوت تھے اور ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمت کا اتمام ہوا تھا بہر حال سیدنا یوسف ؑ سب سے مکرم ہیں جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے۔ لوگوں نے عرض کی: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! سب سے مکرم کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ”جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ “ ا نھوں نے کہا: ہم یہ نہیں پوچھتے پھر آپ نے فرمایا: ”یوسف ؑ اللہ کے نبی اللہ کے نبی کے بیٹے اللہ کے نبی کے پوتے اللہ کے نبی کے پڑپوتے سب سے زیادہ مکرم ہیں۔ (صحیح البخاري، حدیث الأنبیاء، حدیث: 3353)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4688
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3390
3390. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”شریف بن شریف بن شریف بن شریف حضرت یوسف ؑ بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم ؑ ہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3390]
حدیث حاشیہ: ان جملہ روایات میں کسی نہ کسی سلسلے سے یوسف ؑ کا ذکر خیر آیا ہے۔ اسی لئے ان کو اس باب کے ذیل میں بیان کیا گیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3390
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3390
3390. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”شریف بن شریف بن شریف بن شریف حضرت یوسف ؑ بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم ؑ ہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3390]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث میں حضرت یوسف ؑ کی خاندانی شرافت کا ذکر ہے۔ کہ وہ شریف باپ کے بیٹے شریف دادا کے پوتے اور شریف پر دادا کے پوتے تھے۔ اس کی وضاحت ہم پہلے بھی کرآئے ہیں۔ 2۔ بہر حال ان جملہ آیات اور روایات میں کسی نہ کسی حوالے سے حضرت یوسف ؑ کا ذکر خیر آیا ہے اس لیے امام بخاری ؒ نے ان احادیث کو مذکورہ عنوان کے تحت بیان کیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3390