صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
1. بَابُ قَوْلِهِ: {بَرَاءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدْتُمْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ} :
1. باب: آیت کی تفسیر ”اعلان بیزاری ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان مشرکین سے جن سے تم نے عہد کر رکھا ہے (اور اب عہد کو انہوں نے توڑ دیا ہے)“۔
(1) Chapter. Allah’s Statement: “Freedom from (all) obligations (is declared) from Allah and His Messenger (ﷺ) to those of the Mushrikun [polytheiest, pagans, idolaters, disbelievers in the Oneness of Allah and His Messenger Muhammad (ﷺ)] with whom you made a treaty." (V.9:1)
حدیث نمبر: Q4654-2
Save to word اعراب English
وليجة: كل شيء ادخلته في شيء، الشقة: السفر الخبال الفساد والخبال الموت، ولا تفتني: لا توبخني، كرها: وكرها واحد، مدخلا: يدخلون فيه، يجمحون: يسرعون، والمؤتفكات: ائتفكت انقلبت بها الارض، اهوى: القاه في هوة، عدن: خلد عدنت بارض، اي اقمت ومنه معدن، ويقال في معدن صدق في منبت صدق، الخوالف: الخالف الذي خلفني فقعد بعدي، ومنه يخلفه في الغابرين، ويجوز ان يكون النساء من الخالفة، وإن كان جمع الذكور فإنه لم يوجد على تقدير جمعه، إلا حرفان فارس وفوارس وهالك وهوالك الخيرات، واحدها خيرة وهي الفواضل، مرجئون مؤخرون الشفا شفير وهو حده، والجرف ما تجرف من السيول والاودية، هار هائر يقال تهورت البئر إذا انهدمت وانهار مثله لاواه شفقا وفرقا، وقال الشاعر: إذا قمت ارحلها بليل تاوه آهة الرجل الحزينوَلِيجَةً: كُلُّ شَيْءٍ أَدْخَلْتَهُ فِي شَيْءٍ، الشُّقَّةُ: السَّفَرُ الْخَبَالُ الْفَسَادُ وَالْخَبَالُ الْمَوْتُ، وَلَا تَفْتِنِّي: لَا تُوَبِّخْنِي، كَرْهًا: وَكُرْهًا وَاحِدٌ، مُدَّخَلًا: يُدْخَلُونَ فِيهِ، يَجْمَحُونَ: يُسْرِعُونَ، وَالْمُؤْتَفِكَاتِ: ائْتَفَكَتِ انْقَلَبَتْ بِهَا الْأَرْضُ، أَهْوَى: أَلْقَاهُ فِي هُوَّةٍ، عَدْنٍ: خُلْدٍ عَدَنْتُ بِأَرْضٍ، أَيْ أَقَمْتُ وَمِنْهُ مَعْدِنٌ، وَيُقَالُ فِي مَعْدِنِ صِدْقٍ فِي مَنْبَتِ صِدْقٍ، الْخَوَالِفُ: الْخَالِفُ الَّذِي خَلَفَنِي فَقَعَدَ بَعْدِي، وَمِنْهُ يَخْلُفُهُ فِي الْغَابِرِينَ، وَيَجُوزُ أَنْ يَكُونَ النِّسَاءُ مِنَ الْخَالِفَةِ، وَإِنْ كَانَ جَمْعَ الذُّكُورِ فَإِنَّهُ لَمْ يُوجَدْ عَلَى تَقْدِيرِ جَمْعِهِ، إِلَّا حَرْفَانِ فَارِسٌ وَفَوَارِسُ وَهَالِكٌ وَهَوَالِكُ الْخَيْرَاتُ، وَاحِدُهَا خَيْرَةٌ وَهِيَ الْفَوَاضِلُ، مُرْجَئُونَ مُؤَخَّرُونَ الشَّفَا شَفِيرٌ وَهُوَ حَدُّهُ، وَالْجُرُفُ مَا تَجَرَّفَ مِنَ السُّيُولِ وَالْأَوْدِيَةِ، هَارٍ هَائِرٍ يُقَالُ تَهَوَّرَتِ الْبِئْرُ إِذَا انْهَدَمَتْ وَانْهَارَ مِثْلُهُ لَأَوَّاهٌ شَفَقًا وَفَرَقًا، وَقَالَ الشَّاعِرُ: إِذَا قُمْتُ أَرْحَلُهَا بِلَيْلٍ تَأَوَّهُ آهَةَ الرَّجُلِ الْحَزِينِ
‏‏‏‏ «وليجة‏» وہ چیز جو کسی دوسری چیز کے اندر داخل کی جائے (یہاں مراد بھیدی ہے)۔ «الشقة‏» سفر یا دور دراز راستہ۔ «خبال» کے معنی فساد اور «خبال» موت کو بھی کہتے ہیں۔ «ولا تفتني‏» یعنی مجھ کو مت جھڑک، مجھ پر خفا مت ہو۔ «كَرها‏» اور «كُرها‏» دونوں کا معنی ایک ہے یعنی زبردستی ناخوشی سے۔ «مدخلا‏» گھس بیٹھنے کا مقام (مثلا سرنگ وغیرہ)۔ «يجمحون‏» دوڑتے جائیں۔ «مؤتفكات‏» یہ «ائتفكت انقلبت بها الأرض‏.‏» سے نکلا ہے یعنی اس کی زمین الٹ دی گئی۔ «أهوى‏» یعنی اس کو ایک گڑھے میں دھکیل دیا۔ «عدن‏» کا معنی ہمیشگی کے ہیں۔ عرب لوگ بولتے ہیں «عدنت بأرض» یعنی میں اس سر زمین میں رہ گیا۔ اس سے «معدن» کا لفظ نکلا ہے۔ (جس کا معنی سونے یا چاندی یا کسی اور دھات کی کان کے ہیں)۔ «معدن صدق‏.‏» یعنی اس سر زمین میں جہاں سچائی اگتی ہے۔ «الخوالف»، «خالف» کی جمع ہے۔ «خالف» وہ جو مجھ کو چھوڑ کر پیچھے بیٹھ رہا۔ اسی سے ہے یہ حدیث «يخلفه في الغابرين» یعنی جو لوگ میت کے بعد باقی رہ گئے تو ان میں اس کا قائم مقام بن (یعنی ان کا محافظ اور نگہبان ہو)۔ اور «الخوالف» سے عورتیں مراد ہیں اس صورت میں یہ «يخلفه» کی جمع ہو گی (جیسے «فاعلة» کی جمع «فواعل» آتی ہے)۔ اگر «خالف» مذکر کی جمع ہو تو یہ «شاذ» ہو گی ایسے مذکر کی زبان عرب میں دو ہی «جمعه» آتی ہیں جیسے «فارس» اور «فوارس» اور «هالك» اور «هوالك‏» ۔ «الخيرات‏»، «خيرة» کی جمع ہے۔ یعنی نیکیاں بھلائیاں۔ «مرجئون‏» ڈھیل میں دیئے گئے۔ «الشفا» کہتے ہیں «شفير» کو یعنی کنارہ۔ «الجرف» وہ زمین جو ندی نالوں کے بہاؤ سے کھد جاتی ہے۔ «هار‏» گرنے والی اسی سے ہے «تهورت البئر» یعنی کنواں گر گیا۔ «لأواه‏» یعنی خدا کے خوف سے اور ڈر سے آہ و زاری کرنے والا جیسے شاعر ( «مشقب عبدى») کہتا ہے۔

حدیث نمبر: Q4654
Save to word اعراب English
وقال ابن عباس: اذن: يصدق، تطهرهم وتزكيهم بها: ونحوها كثير والزكاة الطاعة والإخلاص، لا يؤتون الزكاة: لا يشهدون ان لا إله إلا الله، يضاهون: يشبهون.وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أُذُنٌ: يُصَدِّقُ، تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا: وَنَحْوُهَا كَثِيرٌ وَالزَّكَاةُ الطَّاعَةُ وَالْإِخْلَاصُ، لَا يُؤْتُونَ الزَّكَاةَ: لَا يَشْهَدُونَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، يُضَاهُونَ: يُشَبِّهُونَ.
‏‏‏‏ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ «أذن» اس شخص کو کہتے ہیں جو ہر بات سن لے اس پر یقین کر لے «تطهرهم» اور «تزكيهم بها» کے ایک معنی ہیں۔ قرآن مجید میں ایسے مترادف الفاظ بہت ہیں۔ «الزكاة» کے معنی بندگی اور اخلاص کے ہیں۔ «لا يؤتون الزكاة» کے معنی یہ کہ کلمہ «لا إله إلا الله» کی گواہی نہیں دیتے۔ «يضاهون» ای «يشبهون» یعنی اگلے کافروں کی سی بات کرتے ہیں۔

حدیث نمبر: 4654
Save to word مکررات اعراب English
(موقوف) حدثنا ابو الوليد، حدثنا شعبة، عن ابي إسحاق، قال: سمعت البراء رضي الله عنه، يقول:" آخر آية نزلت يستفتونك قل الله يفتيكم في الكلالة سورة النساء آية 176، وآخر سورة نزلت براءة".(موقوف) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ:" آخِرُ آيَةٍ نَزَلَتْ يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلالَةِ سورة النساء آية 176، وَآخِرُ سُورَةٍ نَزَلَتْ بَرَاءَةٌ".
ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا۔ انہوں نے کہا کہ سب سے آخر میں یہ آیت نازل ہوئی تھی «يستفتونك قل الله يفتيكم في الكلالة‏» اور سب سے آخر میں سورۃ برات نازل ہوئی۔

Narrated Al-Bara: The last Verse that was revealed was: 'They ask you for a legal verdict: Say: Allah directs (thus) about Al-Kalalah (those who leave no descendants or ascendants as heirs).' And the last Sura which was revealed was Baraatun (9) .
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 177


صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4654 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4654  
حدیث حاشیہ:
کفار مکہ نے صلح حدیبہ میں جو جوعہد کئے تھے تھوڑے ہی دنوں بعد وہ عہد انہوں نے توڑ ڈالے اور مسلمانوں کے حلیف قبیلہ بنو خزاعہ کو انہوں نے بری طرح قتل کیا۔
ان کی فریاد پر رسول کریم ﷺ کو بھی قدم اٹھانا پڑا اور اسی موقع پر سورۃ براءت کی یہ ابتدائی آیات نازل ہوئیں۔
آخری سورہ کا مطلب یہ کہ اکثر آیات اس کی آخر میں اتری ہیں۔
آخری آیت ﴿وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ﴾ (البقرة: 281)
ہے جس کے چند دن بعد آپ کا انتقال ہو گیا۔
(صلی اللہ علیه وسلم)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4654   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4654  
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں ہے کہ مکمل سورت جو آخر میں نازل ہوئی وہ سورہ براءت ہے، آخری خاتمہ سورت جو نازل ہوا وہ سورۃ النساء کا خاتمہ ہے۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4364)

حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ سب سے آخر میں آیۃ الربا نازل ہوئی جبکہ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری آیت کلالہ ہے۔
ان دونوں احادیث میں مندرجہ ذیل طریقے سے تطبیق دی گئی ہے۔
میراث کے متعلق نازل ہونے والی آخری آیت کلالہ ہے اورحلت و حرمت کے متعلق آخری آیت آیۃ الربا ہے۔
مذکورہ دونوں حکم رسول اللہ ﷺ کی زندگی کے آخری سال میں نازل ہوئے اس لیے دونوں پر آخری ہونے کا اطلاق کیا گیا ہے۔
حضرت براء بن عازب اور حضرت ابن عباس ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے نقل نہیں فرمایا بلکہ انھوں نے اپنے اپنے اجتہاد سے ایسا کہا ہے۔
واللہ اعلم۔

آخری سورت سے مراد اس کا بیشتر حصہ ہے کیونکہ سورہ براءت کا زیادہ حصہ غزوہ تبوک میں نازل ہوا جو رسول اللہ ﷺ کا آخری آخری غزوہ ہے۔
واللہ أعلم و علمه أتم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4654   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.