(مرفوع) حدثنا احمد بن محمد، اخبرنا عبد الله، اخبرنا حميد الطويل، عن انس بن مالك رضي الله عنه: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم رجع من غزوة تبوك، فدنا من المدينة، فقال:" إن بالمدينة اقواما ما سرتم مسيرا، ولا قطعتم واديا إلا كانوا معكم"، قالوا: يا رسول الله، وهم بالمدينة، قال:" وهم بالمدينة حبسهم العذر".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجَعَ مِنْ غَزْوَةِ تَبُوكَ، فَدَنَا مِنْ الْمَدِينَةِ، فَقَالَ:" إِنَّ بِالْمَدِينَةِ أَقْوَامًا مَا سِرْتُمْ مَسِيرًا، وَلَا قَطَعْتُمْ وَادِيًا إِلَّا كَانُوا مَعَكُمْ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَهُمْ بِالْمَدِينَةِ، قَالَ:" وَهُمْ بِالْمَدِينَةِ حَبَسَهُمُ الْعُذْرُ".
ہم سے احمد بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو حمید طویل نے خبر دی اور انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک سے واپس ہوئے۔ اور مدینہ کے قریب پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مدینہ میں بہت سے ایسے لوگ ہیں کہ جہاں بھی تم چلے اور جس وادی کو بھی تم نے قطع کیا وہ (اپنے دل سے) تمہارے ساتھ ساتھ تھے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگرچہ ان کا قیام اس وقت بھی مدینہ میں ہی رہا ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، وہ مدینہ میں رہتے ہوئے بھی (اپنے دل سے تمہارے ساتھ تھے) وہ کسی عذر کی وجہ سے رک گئے تھے۔
Narrated Anas bin Malik: Allah's Apostle returned from the Ghazwa of Tabuk, and when he approached Medina, he said, "There are some people in Medina who were with you all the time, you did not travel any portion of the journey nor crossed any valley, but they were with you they (i.e. the people) said, "O Allah's Apostle! Even though they were at Medina?" He said, "Yes, because they were stopped by a genuine excuse."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 707
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4423
حدیث حاشیہ: ان جملہ مرویات میں کسی نہ کسی طرح سے سفر تبوک کا ذکر آیا ہے۔ باب اور احادیث میں یہی وجہ مطابقت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4423
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4423
حدیث حاشیہ: یہ لوگ معذورتھے، کسی مجبوری کی بنا پر سفر پر قادر نہیں تھے لیکن ان کی نیت درست تھی، اس لیے وہ ثواب میں صحابہ کرام ؓ کے ساتھ شریک تھ۔ اس سے معلوم ہوا کہ معذور جب کسی عذر کی وجہ سے کوئی کام چھوڑدے تو اسے کام کرنے والے کے برابر ثواب ملے گا۔ اس حدیث میں بھی غزوہ تبوک کا حوالہ تھا، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بیان فرمایا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4423
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2508
´عذر کی بنا پر جہاد میں نہ جانے کی اجازت کا بیان۔` انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم مدینہ میں کچھ ایسے لوگوں کو چھوڑ کر آئے کہ تم کوئی قدم نہیں چلے یا کچھ خرچ نہیں کیا یا کوئی وادی طے نہیں کی مگر وہ تمہارے ساتھ رہے“، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ ہمارے ہمراہ کیسے ہو سکتے ہیں جب کہ وہ مدینہ میں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں عذر نے روک رکھا ہے۔“[سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2508]
فوائد ومسائل: حسن نیت اور اخلاص کی بنا پر ایک معذور انسان بھی وہ درجات حاصل کرلیتا ہے۔ جوایک مجاہد اور عامل حاصل کرتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2508
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2764
´جو شخص عذر کی وجہ سے جہاد میں شریک نہ ہو اس کے حکم کا بیان۔` انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک سے لوٹے، اور مدینہ کے نزدیک پہنچے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مدینہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ جس راہ پر تم چلے اور جس وادی سے بھی تم گزرے وہ تمہارے ہمراہ رہے“، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: مدینہ میں رہ کر بھی وہ ہمارے ساتھ رہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، مدینہ میں رہ کر بھی، عذر نے انہیں روک رکھا تھا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2764]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مدینے میں ہونے کے باوجود سفر میں مجاہدین کے ساتھ ہونے کا مطلب سفر کی مشقتوں کے ثواب میں شرکت ہے۔ یہ ثواب انھیں خلوص نیت کی وجہ سے ملا۔
(2) کسی واقعی عذر کی وجہ سے جہاد میں شریک نہ ہونے والا اگر خلوص دل سے شرکت کی تمنا رکھتا ہوتو وہ ثواب کا مستحق ہوجاتا ہے۔
(3) عذر والے صحابہ رضی اللہ عنہ کا جہاد میں شریک ہونا ذاتی طور پر نہ تھا کیونکہ ایک انسان ایک وقت میں دو مقامات پر موجود نہیں ہوسکتا۔ اگر یہ کرامت کسی کو حاصل ہوسکتی ہے تو ان مخلص صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوتی لیکن رسول اللہﷺ نے وضاحت فرمادی کہ وہ حضرات عملی طور پر مدینے ہی میں تھے جہاد میں اور جہاد کے سفر میں ذاتی طور پر حاضر نہیں تھے ورنہ عذر کے رکاوٹ بننے کا کوئی مفہوم نہیں رہتا۔ اگلی حدیث میں وضاحت ہے کہ یہ شرکت ثواب میں تھی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2764
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2839
2839. حضرت انس ؓسے روایت ہے، کہ نبی ﷺ ایک لڑائی (تبوک) میں شریک تھے تو آپ نے فرمایا: ” کچھ لوگ مدینہ طیبہ میں ہمارےپیچھے رہ گئے ہیں مگر ہم جس گھاٹی یا میدان میں جائیں گے وہ (ثواب میں)ضرورہمارے ساتھ ہوں گے کیونکہ وہ کسی عذر کی وجہ سے رک گئے ہیں۔“(راوی حدیث)موسیٰ بن عقبہ نے کہا: ہم کو حمد نے حمید سے، انھوں نے موسیٰ بن انس سے، انھوں نے اپنے باپ سے روایت کی کہ نبی ﷺ نے فرمایا۔ ابو عبد اللہ (امام بخاری ؒ)نے فرمایاکہ پہلی سند زیادہ صحیح ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2839]
حدیث حاشیہ: پہلی سند وہ جس میں حمید اور انس کے درمیان موسیٰ بن انس کا واسطہ نہیں ہے یہی زیادہ صحیح ہے۔ جنگ تبوک میں پیچھے رہ جانے والوں میں کچھ واقعی ایسےمخلص تھے جن کے عذرات صحیح تھے‘ وہ دل سے شرکت چاہتے تھے مگر مجبوراً پیچھے رہ گئے‘ ان ہی کے بارے میں آپ ﷺنے یہ بشارت پیش فرمائی۔ ترجمہ اور باب میں مطابقت ظاہر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2839
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2839
2839. حضرت انس ؓسے روایت ہے، کہ نبی ﷺ ایک لڑائی (تبوک) میں شریک تھے تو آپ نے فرمایا: ” کچھ لوگ مدینہ طیبہ میں ہمارےپیچھے رہ گئے ہیں مگر ہم جس گھاٹی یا میدان میں جائیں گے وہ (ثواب میں)ضرورہمارے ساتھ ہوں گے کیونکہ وہ کسی عذر کی وجہ سے رک گئے ہیں۔“(راوی حدیث)موسیٰ بن عقبہ نے کہا: ہم کو حمد نے حمید سے، انھوں نے موسیٰ بن انس سے، انھوں نے اپنے باپ سے روایت کی کہ نبی ﷺ نے فرمایا۔ ابو عبد اللہ (امام بخاری ؒ)نے فرمایاکہ پہلی سند زیادہ صحیح ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2839]
حدیث حاشیہ: 1۔ غزوہ تبوک کے وقت کچھ لوگ ایک معقول عذر کی وجہ سے پیچھے رہ گئے تھے۔ رسول اللہ ﷺنےفرمایا: ”ایسے معذور لوگ اجروثواب میں ہمارے ساتھ شریک ہیں کیونکہ ان کی خواہش تھی کہ ہمارے ساتھ شریک ہوتے لیکن عذر کی وجہ سے شریک نہیں ہوسکے،اس لیے ان کی نیت کی بنا پر انھیں ثواب میں شریک کیا گیا۔ “ 2۔ حدیث کے آخرمیں امام بخاری ؒنے ایک سند کا حوالہ دیا ہے،پھر فیصلہ کیا کہ پہلی سند جس میں موسیٰ کا واسطہ نہیں دوسری سند سے صحیح تر ہے جس میں موسیٰ کا واسطہ ہے۔ 3۔ اس حدیث میں عذر عام ہے جو کبھی بیماری کی صورت میں ہوتا ہے اور کبھی سفر کی قدرت نہ ہونے کی شکل میں۔ اگرچہ صحیح مسلم کی روایت میں بیماری کی صراحت ہے تاہم اسے غالب صورت پر محمول کیا جائے گا۔ (صحیح مسلم، الإمارة، حدیث: 4932(1911) و فتح الباري: 58/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2839