(مرفوع) حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا مالك، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لاصحاب الحجر:" لا تدخلوا على هؤلاء المعذبين إلا ان تكونوا باكين ان يصيبكم مثل ما اصابهم".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْن بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِ الْحِجْرِ:" لَا تَدْخُلُوا عَلَى هَؤُلَاءِ الْمُعَذَّبِينَ إِلَّا أَنْ تَكُونُوا بَاكِينَ أَنْ يُصِيبَكُمْ مِثْلُ مَا أَصَابَهُمْ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب حجر کے متعلق فرمایا کہ اس «معذب» قوم کی بستی سے جب تمہیں گزرنا ہی ہے تو تم روتے ہوئے گزرو، کہیں تم پر بھی وہ عذاب نہ آ جائے جو ان پر آیا تھا۔
Narrated Ibn `Umar: Allah's Apostle said to his companions who were at Al-Hijr, "Do not enter upon these people who are being punished, except in a weeping state, lest the same calamity as of theirs should befall you..."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 704
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4420
حدیث حاشیہ: ان احادیث پر امام بخاری ؒ نے یہ عنوان قائم کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مقام حجر میں پڑاؤ کیا، حالانکہ ان میں پڑاؤ کرنے کا ذکر نہیں بلکہ وہاں سے گزرنے کا بیان ہے؟ دراصل امام بخاری ؒ نے اس عنوان سے ایک حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں پڑاؤ کرنے کی صراحت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے مقام حجر میں پڑاؤ کیا تو آپ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حکم دیا: اس کنویں کا پانی نہ خود پیو اور نہ جانوروں ہی کو پلاؤ بلکہ اگر اس پانی سے آٹا گوندھاہے تو وہ بھی حیوانات کو کھلا دیا جائے۔ (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3378) چونکہ یہ واقعہ غزوہ تبوک سے واپسی پر پیش آیا تھا، اس حوالے سے امام بخاری ؒ نےاسے ذکر کیا ہے۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4420
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:668
668- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی حجر کے رہنے والوں کے بارے میں فرمایا تھا: ”تم ان لوگوں کے ہاں، جنہیں عذاب دیا گیا ہے، یہاں روتے ہوئے داخل ہو، اگر رونہیں سکتے تو تم وہاں نہ جاؤ، کیونکہ مجھے یہ اندیشہ ہے کہ تمہیں بھی وہی عذاب لاحق ہوگا، جو انہیں لاحق ہوا تھا۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:668]
فائدہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جگہ پر پڑاؤ نہیں کیا بلکہ اپنا سر جھکا لیا اور جلدی جلدی چلنے لگے تا آنکہ اس وادی کو عبور کر لیا۔ [صحيح البخاري: 4419] نیز عذاب والی جگہوں پر نماز پڑھانا بھی درست نہیں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 669
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7465
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حجر کے پاس سے گزرے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا:" جن لوگوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے ان کی رہائش گاہوں میں داخل نہ ہونا مگر اس طرح کہ تم رورہے ہو۔ڈرہے کہ تمھیں بھی وہی عذاب نہ آئےجس نے انھیں آلیا تھا "پھر آپ نے زور سے سواری کو ہانکا رفتار تیز کی یہاں تک کہ اس جگہ کو پیچھے چھوڑ دیا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:7465]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حجر کا علاقہ جہاں قوم ثمود آباد تھی، وہاں سے غزوۂ تبوک کے موقع پر گزرے ہیں، کیونکہ یہ جگہ خیبر اور تبوک کے درمیان واقع ہے، جہاں آج بھی کھنڈرات موجود ہیں، عذاب شدہ قوموں کے علاقہ سے گزرتےہوئے رونا چاہیے، یا کم از کم رونی صورت ہی بنانی چاہیے کہ کہیں ہم بھی ا س عذاب کا شکار نہ ہوجائیں اور ان علاقوں سےصرف ضرورت کے تحت یا عبرت اور سبق آموزی کے لیے ہی جانا چاہیے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7465
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7465
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حجر کے پاس سے گزرے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا:" جن لوگوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے ان کی رہائش گاہوں میں داخل نہ ہونا مگر اس طرح کہ تم رورہے ہو۔ڈرہے کہ تمھیں بھی وہی عذاب نہ آئےجس نے انھیں آلیا تھا "پھر آپ نے زور سے سواری کو ہانکا رفتار تیز کی یہاں تک کہ اس جگہ کو پیچھے چھوڑ دیا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:7465]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حجر کا علاقہ جہاں قوم ثمود آباد تھی، وہاں سے غزوۂ تبوک کے موقع پر گزرے ہیں، کیونکہ یہ جگہ خیبر اور تبوک کے درمیان واقع ہے، جہاں آج بھی کھنڈرات موجود ہیں، عذاب شدہ قوموں کے علاقہ سے گزرتےہوئے رونا چاہیے، یا کم از کم رونی صورت ہی بنانی چاہیے کہ کہیں ہم بھی ا س عذاب کا شکار نہ ہوجائیں اور ان علاقوں سےصرف ضرورت کے تحت یا عبرت اور سبق آموزی کے لیے ہی جانا چاہیے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7465
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4419
4419. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ جب نبی ﷺ مقام حجر سے گزرے تو آپ نے فرمایا: ”جن لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہو جب تم ان کی بستیوں سے گزرو تو گریہ و زاری کرتے ہوئے گزرو مبادا تم پر وہی عذاب آ جائے جو ان پر آیا تھا۔“ پھر آپ نے اپنے سر مبارک پر چادر ڈال لی اور بڑی تیزی کے ساتھ چلنے لگے یہاں تک کہ اس وادی سے باہر نکل گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4419]
حدیث حاشیہ: روایت میں مذکورہ مقام ”حجر“ حضرت صالح ؑ کی قوم ثمود کی بستی کانام ہے۔ یہ وہی قوم ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا عذاب زلزلہ شدید دھماکوں اور بجلی کی کڑک کی صورت میں نازل ہوتھا۔ جب آنحضرت ﷺ غزوئہ تبوک کے لیے تشریف لے جارہے تھے تو یہ مقام راستے میں پڑا تھا۔ حجر، شام اور مدینہ کے درمیان ایک بستی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4419
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3380
3380. سالم بن عبد اللہ اپنے باپ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓسے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ جب مقام حجر سے گزرے تو فرمایا: ”جن لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے ان کی رہائش گاہوں میں مت جاؤ، مگر روتے ہوئے وہاں سے گزرجاؤ، مبادا تم اسی عذاب سے دوچار ہو جاؤجو ان پر آیا تھا۔“ پھر آپ نے سواری پر بیٹھے بیٹھے اپنی چادر سے چہرے کو ڈھانپ لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3380]
حدیث حاشیہ: اللہ کے عذاب سے کس قدر ڈرنا چایئے اور خدا اوررسو ل اللہ ﷺ کی کھلم کھلا مخالفت کرنے والوں سے کتنا بچنا چاہئے‘ یہ مذکورہ حدیثوں سے ظاہر ہے کہ ان لوگوں کی بستی کا پانی بھی نہ لینے دیا اور اس پانی سے جو آٹا گوندھ لیا تھا‘ اسے بھی جانوروں کے آگے ڈال دینے کا حکم آپ نے فرمایا۔ اللھم احفظنا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3380
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3381
3381. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ان لوگوں کے مقامات میں مت جاؤ جنھوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا تھا، ہاں وہاں سے گریہ و زاری کرتے ہوئے گزرجاؤ، مبادا تمھیں وہ مصیبت پہنچے جس سے وہ دو چار ہوئے تھے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3381]
حدیث حاشیہ: اگر چہ یہ حدیث تمام مطلق بدکرداروں کو شامل ہے مگر آپ نے یہ حدیث اس وقت فرمائی جب آپ حجر پر سے گزرے جہاں ثمود کی قوم بستی تھی جیسے پچھلی روایت سے معلوم ہوتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3381
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:433
433. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ان عذاب یافتہ قوموں کے آثار سے اگر تمہارا گزر ہو تو اس طرح گزرو کہ تم پر یہ گریہ و بکا طاری ہو۔ اگر رو نہ سکو تو وہاں سے مت گزرو،مبادا تم پر وہی عذاب آ جائے جس نے انہیں اپنی گرفت میں لیا تھا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:433]
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری ؒ کا دوسرا استدلال یہ مرفوع حدیث ہے کہ نبی ﷺ جب غزوہ تبوک کے لیے جاتے ہوئے دیار ثمود یعنی مقام حجر سے گزرے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر ایسے مقامات سے گزرنے کی مجبوری ہو تو اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے گزرنا چاہیے، غفلت اور بے پروائی سے کام نہیں لینا چاہیے۔ علامہ ابن بطال ؒ نے امام بخاری ؒ کے استدلال سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایسے مقامات پر نماز پڑھنا جائز ہے، کیونکہ نماز میں بھی رونا اور عاجزی کرنا ہوتا ہے۔ (شرح ابن بطال: 87/2) گویا ابن بطال ؒ کے نزدیک مذکورہ حدیث حضرت علی ؓ کے عمل کے مطابق نہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ حدیث پورے طور پر حضرت علی ؓ کے عمل کے مطابق ہے، کیونکہ اس حدیث میں ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے وہاں پڑاؤ نہیں کیا۔ جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا سر جھکا لیا اور جلدی جلدی چلنے لگے تاآنکہ اس وادی کو عبور کر لیا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4419) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے وہاں قیام نہیں فرمایا اور نہ نماز ہی پڑھی۔ جیسا کہ حضرت علی ؓ نے بابل کے خسف شدہ مقام سے گزرتے ہوئے کیا تھا، اس لیے معلوم ہوا کہ عذاب والے علاقوں اور خسف شدہ مقامات میں قیامت کرنا اور وہاں نماز ادا کرنا شارع علیہ السلام کو پسند نہیں۔ اور یہی امام بخاری ؒ کا مقصود ہے۔ یہ شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ گریہ وبکاتو کمال خشوع کی علامت ہے اور نماز میں یہ کیفیت مطلوب ہے، اس لیے نماز سے روکنا کیسے ثابت ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نماز کے اندر جو خشوع خضوع مطلوب ہے، وہ نماز ہی کے سلسلے میں ہے اور صورت مذکورہ میں جو گریہ طاری ہو گا وہ عذاب یافتہ اقوام کے احوال میں غور وفکر سے متعلق ہے جو نماز میں مطلوب حضور قلب کے منافی ہے۔ واللہ أعلم۔ 2۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انسان کوخود اپنی خبر گیری کرتے رہنا چاہیے، نیز عذاب شدہ اقوام کے مقامات پر رہائش رکھنے کی ممانعت ہے، اگر وہاں سے بامر مجبوری کبھی گزرنا پڑے تو جلدی جلدی گزرناچاہیے۔ جیسا کہ درج ذیل آیت کریمہ سے بھی اس کا اشارہ ملتا ہے: ﴿ وَسَكَنتُمْ فِي مَسَاكِنِ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنَا بِهِمْ وَضَرَبْنَا لَكُمُ الْأَمْثَالَ﴾”اور تم ایسے لوگوں کی بستیوں میں آباد ہوئے تھے جنھوں نے اپنے آپ پر ظلم ڈھایا تھا اور تم پر واضح ہو چکا تھا کہ ان سے ہم نے کیا سلوک کیا تھا اور ہم نے تمھیں ان کے حالات بھی بتا دیے تھے۔ “(إبراهیم: 14۔ 45)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 433
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3381
3381. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ان لوگوں کے مقامات میں مت جاؤ جنھوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا تھا، ہاں وہاں سے گریہ و زاری کرتے ہوئے گزرجاؤ، مبادا تمھیں وہ مصیبت پہنچے جس سے وہ دو چار ہوئے تھے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3381]
حدیث حاشیہ: یہ احادیث تمام بد کرداروں کو شامل ہیں اگرچہ آپ نے یہ حکم اس وقت دیا جب آپ مقام حجر سے گزرے تھے جو قوم ثمود کا مسکن تھا بہر حال اللہ کے عذاب سے ڈرتے رہنا چاہیے اور شریعت کی مخالفت کرنے والوں کی صحبت سے بچ کر رہنا چاہیے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام ؓ کو ایسے ظلم پیشہ لوگوں کے گھروں میں داخل ہونے سے روکا بلکہ آپ نے وہاں کے کنوؤں کا پانی استعمال کرنے سے بھی منع فرما دیا اور اس پانی سے جو آٹا گوندھا گیا تھا اسے بھی جانوروں کو ڈال دینے کا حکم دیا۔ واللہ المستعان۔
تنبیہ: صحیح بخاری کے درسی نسخے میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت ذکر کردہ احادیث حضرت لوط ؑ کے تذکرے کے بعد ہیں وہ مقام اس عنوان اور احادیث کے لیے بالکل غیر موزوں اور نامناسب تھا۔ چونکہ قرآن کریم میں سیدنا نوح ؑ کے بعد حضرت ہود ؑ اور ان کے بعد حضرت صالح ؑ کا ذکر ہے اسی ترتیب کے مطابق ہم نے حضرت صالح ؑ کے ذکر کو درج کیا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے بھی اسی ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے اور اس پر ایک نوٹ لکھا ہے۔ (فتح الباري: 460/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3381
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4702
4702. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اصحاب الحجر کے متعلق فرمایا تھا: ”اس قوم کی بستی سے جب گزرنا پڑے تو روتے ہوئے گزرو اور اگر روتے ہوئے نہیں گزر سکتے تو پھر وہاں نہ جاؤ، مبادا تم پر وہی عذاب آ جائے جو ان پر آیا تھا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4702]
حدیث حاشیہ: 1۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ؓ سفر تبوک میں جب حجر کے مقام پر پہنچے تو آپ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حکم دیا کہ ان کے کنوؤں سے پانی نہ پئیں اور نہ ڈول بھریں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کی: ہم نے تو آٹا گوندھ لیا ہے اور پانی بھر لیا ہے آپ نے فرمایا: ”آٹا پھینک دو اور پانی بہادو۔ “(صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3378) ایک دوسری روایت کے مطابق آپ نے وہ آٹا اونٹوں کو کھلانے کی اجازت دے دی اور آپ نے حکم دیا کہ اس کنویں سے پانی پلاؤ جس سے اونٹنی پانی پیتی تھی، (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3379) پھر آپ نےچادر سے اپنا سر ڈھانپ لیا اور تیزی سے اپنی سواری کو چلاتے ہوئے وہاں سے نکل گئے۔ (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3380) 2۔ ان واقعات سے یہ بتانا مقصود تھا کہ اگر مشرکین مکہ بھی قوم ثمود کی ڈگر پر چل رہے ہیں تو ان کا انجام بھی وہی ہونے والا ہے، لہٰذا ان سے الجھنے کی ضرورت نہیں مناسب وقت آنے پر اللہ تعالیٰ ان سے نمٹ لے گا۔ واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4702