صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
78. بَابُ حَجَّةُ الْوَدَاعِ:
78. باب: حجۃ الوداع کا بیان۔
(78) Chapter. Hajjat-ul-Wada.
حدیث نمبر: 4404
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عمرو بن خالد، حدثنا زهير، حدثنا ابو إسحاق، قال: حدثني زيد بن ارقم:" ان النبي صلى الله عليه وسلم غزا تسع عشرة غزوة، وانه حج بعد ما هاجر حجة واحدة لم يحج بعدها حجة الوداع"، قال ابو إسحاق: وبمكة اخرى.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ:" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزَا تِسْعَ عَشْرَةَ غَزْوَةً، وَأَنَّهُ حَجَّ بَعْدَ مَا هَاجَرَ حَجَّةً وَاحِدَةً لَمْ يَحُجَّ بَعْدَهَا حَجَّةَ الْوَدَاعِ"، قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ: وَبِمَكَّةَ أُخْرَى.
ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر بن معاویہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسحاق سبیعی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انیس غزوے کئے اور ہجرت کے بعد صرف ایک حج کیا۔ اس حج کے بعد پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی حج نہیں کیا۔ یہ حج، حجۃ الوداع تھا۔ ابواسحاق نے بیان کیا کہ دوسرا حج آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ہجرت سے پہلے) مکہ میں کیا تھا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Zaid bin Arqam: The Prophet fought nineteen Ghazwas and performed only one Hajj after he migrated (to Medina), and did not perform another Hajj after it, and that was Hajj-ul-Wada`,' Abu 'Is-haq said, "He performed when he was in Mecca."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 686


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري4471زيد بن أرقمكم غزوت مع رسول الله قال سبع عشرة كم غزا النبي قال تسع عشرة
   صحيح البخاري3949زيد بن أرقمكم غزا النبي من غزوة قال تسع عشرة كم غزوت أنت معه قال سبع عشرة أيهم كانت أول قال العسيرة أو العشير فذكرت لقتادة فقال العشير
   صحيح البخاري4404زيد بن أرقمغزا تسع عشرة غزوة حج بعد ما هاجر حجة واحدة لم يحج بعدها حجة الوداع
   صحيح مسلم3035زيد بن أرقمغزا تسع عشرة حج بعد ما هاجر حجة واحدة حجة الوداع
   صحيح مسلم4692زيد بن أرقمكم غزا رسول الله قال تسع عشرة كم غزوت أنت معه قال سبع عشرة غزوة أول غزوة غزاها قال ذات العسير أو العشير
   صحيح مسلم4693زيد بن أرقمغزا تسع عشرة غزوة حج بعد ما هاجر حجة لم يحج غيرها حجة الوداع

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4404 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4404  
حدیث حاشیہ:
یہ ابو اسحاق کا خیال ہے صحیح یہ ہے کہ آپ نے مکہ میں رہتے وقت بہت حج کئے تھے۔
آپ ہر سال حج کرتے تھے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4404   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4404  
حدیث حاشیہ:

ابواسحاق کی روایت سے وہم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہجرت سے پہلے ایک حج کیا ہے، حالانکہ آپ نے ہجرت سے پہلے متعدد حج کیے ہیں کیونکہ آپ نے مکہ میں رہتے ہوئے کوئی حج ترک نہیں کیا۔

قریش کے لیے توحج بیت اللہ وجہ فخرومباہات تھا، اس سے وہ دوسرے قبائل سے پہچانے جاتے تھے۔
جب قریش کافر ہونے کے باوجود حج ترک نہ کرتے تھے تو کیا رسول اللہ ﷺ اسے چھوڑدیتے ہوں گے؟ ایسا ہرگز نہیں بلکہ حضرت جبیر بن معطم ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو حج کے موقع پر دیکھا تھا کہ آپ میدان عرفات میں وقوف کررہے تھے جبکہ قریش مزدلفہ سے آگے نہیں بڑھتے تھے، نیز اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ رسول اللہ ﷺ حج کے موقع پر مختلف قبائل کو دین اسلام کی دعوت دیتے تھے۔
انصار کے ساتھ تینوں بیعتیں بھی حج کے موقع پر ہوئی تھیں۔
(فتح الباري: 134/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4404   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4692  
ابو اسحاق سے روایت ہے کہ عبداللہ بن یزید، لوگوں کو نماز استسقاء پڑھانے کے لیے نکلے، تو دو رکعتیں پڑھ کر بارش کے لیے دعا مانگی، اس دن میری ملاقات حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالی عنہ سے ہوئی، میرے اور ان کے درمیان ایک آدمی کے سوا اور کوئی نہ تھا، یا میرے اور ان کے درمیان ایک آدمی تھا، تو میں نے ان سے پوچھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے غزوات میں شرکت کی؟ انہوں نے جواب دیا، انیس (19) میں، میں نے پوچھا، تو نے آپ کے ساتھ کتنے غزوات میں حصہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4692]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
غزوہ سے مراد وہ جنگ ہے،
جس میں آپ نے بنفس نفیس شرکت فرمائی اور ان کی تعداد میں اختلاف ہے،
جس کی وجہ یہ ہے،
بعض نے معمولی غزوات کو نظر انداز کر دیا،
یا قریبی غزوات کو ایک دوسرے میں داخل کر دیا،
جیسا کہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے پہلا غزوہ ذات العسیر یا ذات العشیر کو قرار دیا ہے حالانکہ اس سے پہلے غزوہ ابوایا ودان،
غزوہ بواط اور غزوہ تعاقب کر زبن جابرفہری ہو چکے تھے اور غزوہ ذات العسیر چوتھا غزوہ تھا،
موسیٰ بن عقبہ،
محمد بن اسحاق اور محمد بن سعد وغیر ہم ےغزوات کی تفصیل تعداد ستائیس (27)
لکھی ہے،
جن میں نو غزوات میں جنگ میں حصہ لیا اور غزوہ احزاب اور غزوہ بنی قریظہ کو ایک شمار کریں تو تعداد آٹھ ہو گی،
صحیح تعداد یہ ہے،
بعض نے تعداد انیس (19)
اکیس (21)
بائیس(22)
چوبیس(24)
پچیس (25)
اور چھبیس(26)
بھی لکھی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4692   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4471  
4471. حضرت ابو اسحاق سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت زید بن ارقم ؓ سے پوچھا کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ کتنے غزوات میں شرکت کی ہے؟ انہوں نے کہا: سترہ (17) میں۔ میں نے (پھر) پوچھا: نبی ﷺ نے (خود) کتنے غزوات میں حصہ لیا؟ انہوں نے فرمایا: انیس (10) (غزوات) میں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4471]
حدیث حاشیہ:
یعنی ان جہادوں میں آنحضرتﷺ بہ نفس نفیس تشریف لے گئے۔
جنگ ہویا نہ ہو۔
ابویعلیٰ کی روایت میں اکیس جہاد ایسے منقول ہیں جن میں آنحضرت ﷺ تشریف لے گئے ہیں۔
بعض نے کہا آپ ستائیس جہادوں میں خود تشریف لے گئے ہیں اور47 لشکر ایسے روانہ کئے ہیں جن میں خود شریک نہیں ہوئے، جن جہادوں میں جنگ ہوئی وہ نو ہیں۔
بدر، احد، مریسیع، خندق، بنی قریظہ، خیبر، فتح مکہ، حنین، اور طائف۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4471   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3949  
3949. حضرت ابو اسحاق سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں حضرت زید بن ارقم ؓ کے پہلو میں (بیٹھا ہوا) تھا کہ ان سے پوچھا گیا: نبی ﷺ نے کتنی جنگیں لڑی ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ انیس (19)۔ میں نے پوچھا: آپ کتنی جنگوں میں آپ ﷺ کے ہمراہ تھا؟ انہوں نے فرمایا: سترہ (17) میں۔ میں نے پوچھا سب سے پہلا غزوہ کون سا تھا؟ انہوں نے بتایا کہ عشیر یا عسیرہ۔ میں نے حضرت قتادہ ؓ سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ (صحیح لفظ) عشیرہ ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3949]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ کفار قریش کے ایک قافلہ کی خبر سن کر تشریف لے گئے تھے مگر قافلہ تو نہیں ملا ہاں جنگ بدر اس کے نتیجہ میں وقوع میں آئی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3949   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3949  
3949. حضرت ابو اسحاق سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں حضرت زید بن ارقم ؓ کے پہلو میں (بیٹھا ہوا) تھا کہ ان سے پوچھا گیا: نبی ﷺ نے کتنی جنگیں لڑی ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ انیس (19)۔ میں نے پوچھا: آپ کتنی جنگوں میں آپ ﷺ کے ہمراہ تھا؟ انہوں نے فرمایا: سترہ (17) میں۔ میں نے پوچھا سب سے پہلا غزوہ کون سا تھا؟ انہوں نے بتایا کہ عشیر یا عسیرہ۔ میں نے حضرت قتادہ ؓ سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ (صحیح لفظ) عشیرہ ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3949]
حدیث حاشیہ:

غزوہ بدر کا سبب عشیرہ کا سفرتھا۔
رسول اللہ ﷺ قریش کے سردارابوسفیان کا پیچھا کرنے کے لیے نکلے جو شام سے مالِ تجارت لے کر واپس مکے جارہے تھے۔
اور ابوجہل وغیرہ اس کے تعاون کے لیے نکلے۔
مالِ تجارت والا قافلہ تو بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔
لیکن مقام بدر پر اسلام اور کفر کے مابین عظیم معرکہ برپا ہوا جس میں ابوجہل اور قریش کے بڑے بڑے سورما مارے گئے۔
کفر کی ٹوٹ گئی اور اسلام کا عروج شروع ہوا۔

امام بخاری ؒ نے کتاب المغازی کا آغاز غزوہ عشیرہ سے کیا ہے اور اس میں زید بن ارقم ؓ کی روایت لائے ہیں، حالانکہ اہل سیر کا اتفاق ہے کہ اس سے پہلے تقریباً تین غزوات ہوچکےتھے۔
اس بنا پر حضرت زید بن ارقم ؓ کے قول کی یہ توجیہ ہوگی کہ شاید اس وقت حضرت زید ؓ مسلمان نہ ہوئے ہوں، یا انھوں نے چھوٹے چھوٹے غزوات کو ذکر کرنا مناسب خیال نہ کیا ہو، یا انھوں نے اپنے علم کے مطابق بیان کیا ہو اور اس عشیرہ سے پہلے غزوات کا انھیں علم نہ ہوسکا۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ کی غرض اول المغازی کو بیان کرنا نہیں بلکہ غزوہ عشیرہ کاخاص طورپر اس لیے ذکر کیا ہے کہ وہ غزوہ بدر کبریٰ کے لیے بطور تمہید کے ہے۔
انھوں نے ابن اسحاق کا قول بھی اسی لیے ذکر کیا جاتا ہےتاکہ حضرت زید بن ارقم کی روایت سے اول المغازی کا وہم دور ہوجائے۔

غزوہ عشیرہ سے پہلے سرایا اور غزوات حسب ذیل ہیں:
۔
سریہ سیف البحر رمضان 1ہجری۔
۔
سریہ رابغ شوال 1ہجری۔
۔
غزوہ ابواء صفر 2ہجری۔
۔
سریہ ضرار ذی القعدہ 1ہجری۔
۔
غزوہ بواط ربیع الاول 2ہجری۔
۔
غزوہ سفوان ربیع الاول 2ہجری۔
۔
اس کے بعد غزوہ عشیرہ جمادی الاولیٰ 2ہجری میں پیش آیا۔
پھر سریہ نخلہ رجب 2ہجری میں ہوا۔
آخر میں غزوہ بدر کبریٰ ہوا جو حق وباطل کے درمیان حقیقی فیصلہ کن غزوہ تھا جسے قرآن نے یوم الفرقان کا نام دیا ہے۔

واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آٹھ جنگیں خود لڑی ہیں ان میں بدر، اُحد، احزاب، بنی مصطلق، خبیر، مکہ، حنین اور طائف سرفہرست ہیں۔
بنوقریظہ سے جنگ، احزاب ہی کا حصہ تھا۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3949   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.