(مرفوع) الا إن الله حرم عليكم دماءكم واموالكم كحرمة يومكم هذا، في بلدكم هذا، في شهركم هذا، الا هل بلغت؟" قالوا: نعم، قال:" اللهم اشهد ثلاثا ويلكم او ويحكم، انظروا لا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض".(مرفوع) أَلَا إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَيْكُمْ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ؟" قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:" اللَّهُمَّ اشْهَدْ ثَلَاثًا وَيْلَكُمْ أَوْ وَيْحَكُمْ، انْظُرُوا لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ".
خوب سن لو کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر تمہارے آپس کے خون اور اموال اسی طرح حرام کئے ہیں جیسے اس دن کی حرمت اس شہر اور اس مہینے میں ہے۔ ہاں بولو! کیا میں نے پہنچا دیا؟ صحابہ رضی اللہ عنہم بولے کہ آپ نے پہنچا دیا۔ فرمایا: اے اللہ! تو گواہ رہیو، تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ دہرایا۔ افسوس! (آپ نے «ويلكم» فرمایا یا «ويحكم»، راوی کو شک ہے) دیکھو، میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے (مسلمان) کی گردن مارنے لگ جاؤ۔
No doubt,! Allah has made your blood and your properties sacred to one another like the sanctity of this day of yours, in this town of yours, in this month of yours." The Prophet added: No doubt! Haven't I conveyed Allah's Message to you? " They replied, "Yes," The Prophet said thrice, "O Allah! Be witness for it." The Prophet added, "Woe to you!" (or said), "May Allah be merciful to you! Do not become infidels after me (i.e. my death) by cutting the necks (throats) of one another."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5 , Book 59 , Number 685
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4403
حدیث حاشیہ: اس طور پر کہ کافروں کو چھوڑ کر آپس ہی میں لڑنے لگو۔ ظاہر حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ مسلمان کا بلاوجہ شرعی خون کرنا کفر ہے۔ ابن عبا س ؓ کا یہی قول ہے لیکن دوسرے علماء نے تاویل کی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کافروں کا سا فعل نہ کرو۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ وداع کے بارے میں شک میں رہے کہ آنحضرت ﷺ کا وداع مراد ہے یا مکہ کا وداع مراد ہے۔ مگر بعد میں معلوم ہوا کہ خود آپ کاوداع مراد تھا۔ آپ ﷺ پھر چند دنوں بعد ہی انتقال فرماگئے۔ آنحضرت ﷺ کا یہ خطبہ بھی حجۃ الوداع کا خطبہ ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4403
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4403
حدیث حاشیہ: 1۔ حجۃ الوداع کی وجہ تسمیہ کا علم خاص خاص حضرات کوتھا کہ اس سے مراد رسول اللہ ﷺ کا انتقال پر ملال ہے۔ عام لوگ حجۃ الوداع کا نام استعمال کرتے تھے لیکن اس کی حقیقی وجہ تسمیہ سے بے خبر تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ شاید میں اس سال کے بعد تمھیں نہ دیکھ سکوں توعام لوگوں نے یہ خیال کیا کہ اس سال کے بعد پھر ایسے اجتماع کے ساتھ آپ حج نہیں کریں گے۔ اس وجہ سے انھوں نے اس حج کو حجۃ الوداع کہا لیکن جب آپ کا چند ماہ بعد انتقال ہوا تو لوگوں کو علم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی الوداعی گفتگو کسی خاص گروہ کے ساتھ مختص نہ تھی بلکہ آپ عوام وخاص سب سے رخصت ہورہے تھے۔ 2۔ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”شاید میں اس حج کے بعد دوبارہ حج نہ کرسکوں،اس لیے تم مجھ سے مناسک حج سیکھ لو۔ “(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3137(1297) اسی طرح دیگر روایات سے رسول اللہ ﷺ کی قرب وفات کا علم ہوتا ہے، اس وجہ سے اسے حجۃ الوداع کہا گیا۔ بہرحال اکثر صحابہ کرام ؓ کو اس بات کا علم نہ ہوسکا کہ رسول اللہ ﷺ ہم سے جدا ہورہے ہیں یا کوئی اور ہم سے الوداع ہورہا ہے۔ جب آپ فوت ہوگئے تو معلوم ہوا کہ آپ نے لوگوں کو وصیت کرکے انھیں الوداع فرمایا اور انھیں وصیت فرمائی تھی کہ میرے بعد کافروں جیسے کام نہ کرنا، پھر اللہ کی گواہی کے ساتھ اس الوداع کومزید تقویت پہنچائی۔ (فتح الباري: 133/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4403