صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
78. بَابُ حَجَّةُ الْوَدَاعِ:
باب: حجۃ الوداع کا بیان۔
حدیث نمبر: 4403
أَلَا إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَيْكُمْ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ؟" قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:" اللَّهُمَّ اشْهَدْ ثَلَاثًا وَيْلَكُمْ أَوْ وَيْحَكُمْ، انْظُرُوا لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ".
خوب سن لو کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر تمہارے آپس کے خون اور اموال اسی طرح حرام کئے ہیں جیسے اس دن کی حرمت اس شہر اور اس مہینے میں ہے۔ ہاں بولو! کیا میں نے پہنچا دیا؟ صحابہ رضی اللہ عنہم بولے کہ آپ نے پہنچا دیا۔ فرمایا: اے اللہ! تو گواہ رہیو، تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ دہرایا۔ افسوس! (آپ نے «ويلكم» فرمایا یا «ويحكم»، راوی کو شک ہے) دیکھو، میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے (مسلمان) کی گردن مارنے لگ جاؤ۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4403 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4403
حدیث حاشیہ:
اس طور پر کہ کافروں کو چھوڑ کر آپس ہی میں لڑنے لگو۔
ظاہر حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ مسلمان کا بلاوجہ شرعی خون کرنا کفر ہے۔
ابن عبا س ؓ کا یہی قول ہے لیکن دوسرے علماء نے تاویل کی ہے۔
مطلب یہ ہے کہ کافروں کا سا فعل نہ کرو۔
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ وداع کے بارے میں شک میں رہے کہ آنحضرت ﷺ کا وداع مراد ہے یا مکہ کا وداع مراد ہے۔
مگر بعد میں معلوم ہوا کہ خود آپ کاوداع مراد تھا۔
آپ ﷺ پھر چند دنوں بعد ہی انتقال فرماگئے۔
آنحضرت ﷺ کا یہ خطبہ بھی حجۃ الوداع کا خطبہ ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4403
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4403
حدیث حاشیہ:
1۔
حجۃ الوداع کی وجہ تسمیہ کا علم خاص خاص حضرات کوتھا کہ اس سے مراد رسول اللہ ﷺ کا انتقال پر ملال ہے۔
عام لوگ حجۃ الوداع کا نام استعمال کرتے تھے لیکن اس کی حقیقی وجہ تسمیہ سے بے خبر تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ شاید میں اس سال کے بعد تمھیں نہ دیکھ سکوں توعام لوگوں نے یہ خیال کیا کہ اس سال کے بعد پھر ایسے اجتماع کے ساتھ آپ حج نہیں کریں گے۔
اس وجہ سے انھوں نے اس حج کو حجۃ الوداع کہا لیکن جب آپ کا چند ماہ بعد انتقال ہوا تو لوگوں کو علم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی الوداعی گفتگو کسی خاص گروہ کے ساتھ مختص نہ تھی بلکہ آپ عوام وخاص سب سے رخصت ہورہے تھے۔
2۔
صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”شاید میں اس حج کے بعد دوبارہ حج نہ کرسکوں،اس لیے تم مجھ سے مناسک حج سیکھ لو۔
“ (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3137(1297)
اسی طرح دیگر روایات سے رسول اللہ ﷺ کی قرب وفات کا علم ہوتا ہے، اس وجہ سے اسے حجۃ الوداع کہا گیا۔
بہرحال اکثر صحابہ کرام ؓ کو اس بات کا علم نہ ہوسکا کہ رسول اللہ ﷺ ہم سے جدا ہورہے ہیں یا کوئی اور ہم سے الوداع ہورہا ہے۔
جب آپ فوت ہوگئے تو معلوم ہوا کہ آپ نے لوگوں کو وصیت کرکے انھیں الوداع فرمایا اور انھیں وصیت فرمائی تھی کہ میرے بعد کافروں جیسے کام نہ کرنا، پھر اللہ کی گواہی کے ساتھ اس الوداع کومزید تقویت پہنچائی۔
(فتح الباري: 133/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4403