(مرفوع) حدثني إسحاق , اخبرنا يعقوب , حدثني ابن اخي ابن شهاب , عن عمه , اخبرني عروة بن الزبير انه , سمع مروان بن الحكم ,والمسور بن مخرمة يخبران خبرا من خبر رسول الله صلى الله عليه وسلم في عمرة الحديبية , فكان فيما اخبرني عروة عنهما:" انه لما كاتب رسول الله صلى الله عليه وسلم سهيل بن عمرو يوم الحديبية على قضية المدة , وكان فيما اشترط سهيل بن عمرو انه قال: لا ياتيك منا احد وإن كان على دينك إلا رددته إلينا , وخليت بيننا وبينه , وابى سهيل ان يقاضي رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا على ذلك , فكره المؤمنون ذلك وامعضوا فتكلموا فيه , فلما ابى سهيل ان يقاضي رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا على ذلك كاتبه رسول الله صلى الله عليه وسلم , فرد رسول الله صلى الله عليه وسلم ابا جندل بن سهيل يومئذ إلى ابيه سهيل بن عمرو , ولم يات رسول الله صلى الله عليه وسلم احد من الرجال إلا رده في تلك المدة وإن كان مسلما , وجاءت المؤمنات مهاجرات فكانت ام كلثوم بنت عقبة بن ابي معيط ممن خرج إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهي عاتق , فجاء اهلها يسالون رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يرجعها إليهم حتى انزل الله تعالى في المؤمنات ما انزل".(مرفوع) حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ , أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ , حَدَّثَنِي ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ , عَنْ عَمِّهِ , أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّهُ , سَمِعَ مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ ,وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ يُخْبِرَانِ خَبَرًا مِنْ خَبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عُمْرَةِ الْحُدَيْبِيَةِ , فَكَانَ فِيمَا أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ عَنْهُمَا:" أَنَّهُ لَمَّا كَاتَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُهَيْلَ بْنَ عَمْرٍو يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ عَلَى قَضِيَّةِ الْمُدَّةِ , وَكَانَ فِيمَا اشْتَرَطَ سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو أَنَّهُ قَالَ: لَا يَأْتِيكَ مِنَّا أَحَدٌ وَإِنْ كَانَ عَلَى دِينِكَ إِلَّا رَدَدْتَهُ إِلَيْنَا , وَخَلَّيْتَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ , وَأَبَى سُهَيْلٌ أَنْ يُقَاضِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا عَلَى ذَلِكَ , فَكَرِهَ الْمُؤْمِنُونَ ذَلِكَ وَامَّعَضُوا فَتَكَلَّمُوا فِيهِ , فَلَمَّا أَبَى سُهَيْلٌ أَنْ يُقَاضِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا عَلَى ذَلِكَ كَاتَبَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَرَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا جَنْدَلِ بْنَ سُهَيْلٍ يَوْمَئِذٍ إِلَى أَبِيهِ سُهَيْلِ بْنِ عَمْرٍو , وَلَمْ يَأْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ مِنَ الرِّجَالِ إِلَّا رَدَّهُ فِي تِلْكَ الْمُدَّةِ وَإِنْ كَانَ مُسْلِمًا , وَجَاءَتِ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَكَانَتْ أُمُّ كُلْثُومٍ بِنْتُ عُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ مِمَّنْ خَرَجَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ عَاتِقٌ , فَجَاءَ أَهْلُهَا يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَرْجِعَهَا إِلَيْهِمْ حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِي الْمُؤْمِنَاتِ مَا أَنْزَلَ".
مجھ سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو یعقوب بن ابراہیم نے خبر دی ‘ کہا کہ مجھ سے میرے بھتیجے ابن شہاب نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے چچا محمد بن مسلم بن شہاب نے کہا کہ مجھ کو عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہوں نے مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما سے سنا ‘ دونوں راویوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عمرہ حدیبیہ کے بارے میں بیان کیا تو عروہ نے مجھے اس میں جو کچھ خبر دی تھی ‘ اس میں یہ بھی تھا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور (قریش کا نمائندہ) سہیل بن عمرو حدیبیہ میں ایک مقررہ مدت تک کے لیے صلح کی دستاویز لکھ رہے تھے اور اس میں سہیل نے یہ شرط بھی رکھی تھی کہ ہمارا اگر کوئی آدمی آپ کے یہاں پناہ لے خواہ وہ آپ کے دین پر ہی کیوں نہ ہو جائے تو آپ کو اسے ہمارے حوالے کرنا ہی ہو گا تاکہ ہم اس کے ساتھ جو چاہیں کریں۔ سہیل اس شرط پر اڑ گیا اور کہنے لگا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس شرط کو قبول کر لیں اور مسلمان اس شرط پر کسی طرح راضی نہ تھے۔ مجبوراً انہوں نے اس پر گفتگو کی (کہا یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ مسلمان کو کافر کے سپرد کر دیں) سہیل نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا تو صلح بھی نہیں ہو سکتی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ شرط بھی تسلیم کر لی اور ابوجندل بن سہیل رضی اللہ عنہ کو ان کے والد سہیل بن عمرو کے سپرد کر دیا (جو اسی وقت مکہ سے فرار ہو کر بیڑی کو گھسیٹتے ہوئے مسلمانوں کے پاس پہنچے تھے)(شرط کے مطابق مدت صلح میں مکہ سے فرار ہو کر) جو بھی آتا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے واپس کر دیتے ‘ خواہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوتا۔ اس مدت میں بعض مومن عورتیں بھی ہجرت کر کے مکہ سے آئیں۔ ام کلثوم بنت عقبہ ابن ابی معیط بھی ان میں سے ہیں جو اس مدت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی تھیں ‘ وہ اس وقت نوجوان تھیں ‘ ان کے گھر والے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے مطالبہ کیا کہ انہیں واپس کر دیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے مومن عورتوں کے بارے میں وہ آیت نازل کی جو شرط کے مناسب تھی۔
Narrated `Urwa bin Az-Zubair: That he heard Marwan bin Al-Hakam and Al-Miswar bin Makhrama relating one of the events that happened to Allah's Apostle in the `Umra of Al-Hudaibiya. They said, "When Allah's Apostle concluded the truce with Suhail bin `Amr on the day of Al-Hudaibiya, one of the conditions which Suhail bin `Amr stipulated, was his saying (to the Prophet), "If anyone from us (i.e. infidels) ever comes to you, though he has embraced your religion, you should return him to us, and should not interfere between us and him." Suhail refused to conclude the truce with Allah's Apostle except on this condition. The believers disliked this condition and got disgusted with it and argued about it. But when Suhail refused to conclude the truce with Allah's Apostle except on that condition, Allah's Apostle concluded it. Accordingly, Allah's Apostle then returned Abu Jandal bin Suhail to his father, Suhail bin `Amr, and returned every man coming to him from them during that period even if he was a Muslim. The believing women Emigrants came (to Medina) and Um Kulthum, the daughter of `Uqba bin Abi Mu'ait was one of those who came to Allah's Apostle and she was an adult at that time. Her relatives came, asking Allah's Apostle to return her to them, and in this connection, Allah revealed the Verses dealing with the believing (women).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 496
إن قريشا جمعوا لك جموعا وقد جمعوا لك الأحابيش وهم مقاتلوك وصادوك عن البيت ومانعوك فقال أشيروا أيها الناس علي أترون أن أميل إلى عيالهم وذراري هؤلاء الذين يريدون أن يصدونا عن البيت فإن يأتونا كان الله قد قطع عينا من المشركين وإلا تركناهم محروبين قال أبو بكر
لما كاتب رسول الله سهيل بن عمرو يوم الحديبية على قضية المدة وكان فيما اشترط سهيل بن عمرو أنه قال لا يأتيك منا أحد وإن كان على دينك إلا رددته إلينا وخليت بيننا وبينه وأبى سهيل أن يقاضي رسول الله إلا على ذلك فكره
ما خلأت وما ذلك لها بخلق ولكن حبسها حابس الفيل ثم قال والذي نفسي بيده لا يسألوني اليوم خطة يعظمون بها حرمات الله إلا أعطيتهم إياها ثم زجرها فوثبت فعدل عنهم حتى نزل بأقصى الحديبية على ثمد قليل الماء فجاءه بديل بن ورقاء الخزاعي ثم أتاه يعني عروة بن مسعود
جعل يكلم النبي كلما كلمه أخذ بلحيته والمغيرة بن شعبة قائم على رأس النبي ومعه السيف وعليه المغفر فضرب يده بنعل السيف وقال أخر يدك عن لحيته فرفع عروة رأسه فقال من هذا قالوا المغيرة بن شعبة
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4181
حدیث حاشیہ: 1۔ مقام حدیبیہ میں جو دفعات صلح طے ہوئی تھیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ قریش کا جو آدمی اپنے سرپرست کی اجازت کے بغیر محمد ﷺ کے پاس جائے گا وہ اسے واپس کردیں گے لیکن محمد ﷺ کے ساتھیوں میں سے جو شخص قریش کے پاس آئے گا وہ اسے واپس نہیں کریں گے۔ ابھی صلح نامے کی تحریر مکمل نہیں ہوئی تھی کہ سہیل نے بیٹے ابوجندل ؓ اپنی بیڑیاں گھسیٹتے ہوئے وہاں آپہنچے، انھوں نے خود کو مسلمانوں کے درمیان ڈال دیا۔ اس پر سہیل نے کہا: یہ پہلا شخص ہے جس کی واپسی کا میں مطالبہ کرتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ابھی تو ہم نے صلح نامے کی تحریر مکمل نہیں کی۔ “ بہرحال سہیل کے اصرار پر ابوجندل ؓ کو واپس کردیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں فرمایا: ”ابوجندل! صبر کرو اور اسے باعث ثواب خیال کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اور تمہارے ساتھ جو دوسرے کمزور مسلمان ہیں ان سب کے لیے کشادگی اور پناہ کی جگہ پیدا کرے گا۔ ہم نے چونکہ قریش سے صلح کرلی ہے۔ اس لیے ہم بدعہدی نہیں کرسکتے۔ “ 2۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ ایماندار عورتیں ہجرت کر کے مدینے آئیں تو ان کے گھر والوں نے معاہدے کی رو سے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا لیکن رسول اللہ ﷺ نے یہ مطالبہ اس دلیل کی بنیاد پر مستردکردیا کہ واپسی کی دفعہ کااطلاق مردوں پر ہوتا ہے عورتوں پر نہیں کیونکہ اس کے الفاظ یہ تھے: ”ہماری جو آدمی آپ کے پاس آجائےگا آپ اسے لازمی طور پر واپس کردیں گے خواہ وہ آپ ہی کےدین پر کیوں نہ ہو۔ “ نیز قرآن کریم میں صراحت ہے کہ اگر تمھیں معلوم ہوجائے کہ وہ عورتیں فی الواقع ایماندار ہیں تو انھیں کافروں کی طرف واپس نہ کرو، ایسی عورتیں کافروں کے لیے حلال نہیں اور نہ کافر ہی ان کےلیے حلال ہیں۔ (الممتحنة: 10/60) اس سے معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہوتی، لہذا ام کلثوم ؓ سمیت دوسری مہاجر عورتیں واپس نہیں کی گئیں۔ 3۔ صلح حدیبیہ کی تفصیلات اورحضرت ابوبصیر ؓ کا واقعہ جاننے کے لیے صحیح بخاری حدیث 2732 کا مطالعہ کریں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4181
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1128
´جزیہ اور صلح کا بیان` سیدنا مسور بن مخرمہ اور مروان رضی اللہ عنہ دونوں سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے سال نکلے۔ راوی نے لمبی حدیث بیان کی ہے اور اس میں یہ مذکور ہے کہ یہ وہ (دستاویز) ہے جس پر محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے سہیل بن عمرو سے صلح کی ہے کہ دس سال جنگ بند رہے گی۔ اس عرصہ میں لوگ امن سے رہیں گے اور ان میں سے ہر ایک (جنگ سے) اپنا ہاتھ روکے رکھے گا۔ ابوداؤد اور اس کی اصل بخاری میں ہے اور مسلم نے اس حدیث کا کچھ حصہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور اس میں ہے کہ تم میں سے جو کوئی ہمارے پاس آئے گا اسے ہم واپس نہیں کریں گے اور ہمارا کوئی آدمی تمہارے پاس آ جائے تو تم اسے ہمارے پاس واپس لوٹا دو گے۔ انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! کیا ہم یہ لکھ لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ” ہاں! جو شخص ہم میں سے ان کے پاس چلا جائے گا اسے اللہ تعالیٰ نے دور کر دیا اور ان میں سے جو ہمارے پاس آئے گا تو اللہ تعالیٰ اس کیلئے ضرور کشائش اور کوئی راستہ نکال دے گا۔“۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 1128»
تخریج: «أخرجه أبوداود، الجهاد، باب في صلح العدو، حديث:2765، وأصله عند البخاري، الشروط، حديث /2731، وحديث أنس: أخرجه مسلم، الجهاد، حديث:1784.»
تشریح:
راویٔ حدیث: «مروان رحمہ اللہ» اس سے مروان بن حکم اموی مراد ہیں۔ ابوعبدالملک کنیت تھی۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے مدینہ منورہ کے گورنر مقرر ہوئے۔ یزید کی وفات اور اس کے بیٹے معاویہ کی خلافت سے علیحدگی کے بعد حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے حریف بن کر مصر وشام پر قابض ہوگئے تھے۔ ان کی وفات دمشق میں ۶۵ہجری میں ہوئی۔ «حضرت سہیل بن عمرو رضی اللہ عنہ» سہیل بن عمرو کا شمار قریش کے سرکردہ شرفاء و رؤسا میں ہوتا تھا۔ ان کے عقلاء اور خطباء میں سے ایک تھے۔ بدر کے روز قید ہوئے۔ اس وقت کافر تھے۔ فتح مکہ کے روز اسلام قبول کیا۔ فتنۂارتداد کے موقع پر قریش ان کی وجہ سے اسلام پر ثابت قدم رہے۔ ۴ا ہجری میں یرموک کے موقع پر شہید ہوئے۔ یا ان کی وفات مرج صفر میں یا طاعون عمواس میں ۱۸ ہجری میں ہوئی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1128
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2765
´دشمن سے صلح کرنے کا بیان۔` مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے سال ایک ہزار سے زائد صحابہ کے ہمراہ نکلے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحلیفہ پہنچے تو ہدی کو قلادہ پہنایا، اور اشعار کیا، اور عمرہ کا احرام باندھا، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی، اس میں ہے: اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چلے یہاں تک کہ جب ثنیہ میں جہاں سے مکہ میں اترتے ہیں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی آپ کو لے کر بیٹھ گئی، لوگوں نے کہا: ”حل حل“۱؎ قصواء اڑ گئی، قصواء اڑ گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قصواء اڑی نہیں اور نہ ہی اس کو اڑنے کی عادت ہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2765]
فوائد ومسائل: کفار سے ایسا پیمان کہ ایک مدت تک کے لئے ہم آپس میں قتال نہیں کریں گے۔ جائز ہے مگر چاہیے کہ اس کی ابتداء اور مطالبہ کفار کی طرف سے ہو۔ مسلمانوں کا ابتدائی طور پر انہیں یہ پیش کش کرنا کسی طرح پسندیدہ نہیں۔ کیونکہ اس میں کمزوری اور ہتک کا اظہار ہے۔ اور لازمی ہے کہ صلح کے ساتھ ساتھ مسلمان اپنی تیاری سے غافل نہ رہیں۔ ممکن ہے کہ دشمن دھوکہ دے جائے۔ سورہ انفال میں اس امر کی مشروعیت کا بیان مذکورہ ہے۔ (وَإِن جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ۔ ۔ ۔ وَإِن يُرِيدُوا أَن يَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ اللَّـهُ ۚ)(الأنفال:61۔ 62) اگر وہ کفار صلح کی طرف مائل ہوں۔ تو آپ بھی اس کےلئے جھک جایئں اور اللہ پر توکل کریں۔ بلا شبہ وہ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔ اور اگر انہوں نے آپ کو دھوکا دینے کا ارادہ کیا ہو تو پھر اللہ آپ کےلئے کافی ہے۔ ۔ ۔ درج زیل حدیث میں صلح حدیبیہ کا واقعہ ہے جو یہاں مختصر ہے چاہیے کہ دیگر کتب حدیث وسیرت میں تفصیل سے اس کا مطالعہ کیا جائے۔ انتہائی جامع حدیث ہے۔ اور بے شمار مسائل کی حامل ہے۔ فوائد ومسائل۔ یہ حدیث بہت سے فوائد پر مشتمل ہے۔ ہر ذمہ دار شخص کو اس پر خوب غور کرنا چاہیے۔
1۔ مسلمان حکمران کی کافروں کے ساتھ صلح کے وقت سب سے پہلی ترجیح اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور عظمت ہونی چاہیے۔
2۔ مسنون یہ ہے کہ بیت اللہ کو روانہ کی جانے والی قربانی کے گلے می جوتوں کا ہار ڈال دیاجائے اور اونٹ یا اونٹنی ہو تو اس کے کوہان کی دایئں جانب ہلکا سا چیر لگا کر خون اس پر چپڑ دیا جائے۔ اس چیر لگانے کو اشعار کہتے ہیں۔
3۔ قصواء رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی کا نام ولقب تھا۔ لفظی معنی ہیں۔ کان کٹی 4۔ ابرہہ کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ جس میں وہ ایک عظیم لائو لشکر اور ہاتھی لے کر آیا تھا۔ کہ بیت اللہ کو منہدم کردے۔ مگر اللہ کی تدبیر سے پرندوں کی سنگریزوں کی بارش سے سارا لشکر ہلاک ہو گیا۔ اور کعبہ اور مکہ دونوں محفوظ ومامون رہے۔
5۔ یعنی اللہ کے حرم میں قتل وغارت نہ ہو۔ اور دونوں قوموں کے مابین صلح ہوجائے۔
6۔ بدیل بن ورقہ نے رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو بطور خیر خواہی کے یہ خبر دی کہ کعب بن لوی اور عامر بن لوی اپنی تمام تر قوت کے ساتھ حدیبیہ کے پار مکہ کی جانب جنگ کے لئے تیار ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے بتایا کہ در اصل ہم لڑائی کے لئے آئے ہی نہیں ہیں۔ لیکن اگر مجبور کیا گیا۔ تو اس وقت تک لڑوں گا۔ جب تک اللہ اپنے اس دین اسلام کو غالب نہ فرما دے۔ یا میری گردن کٹ جائے اور جان چلی جائے۔
7۔ ا ہل عرب میں یہ رواج تھا کہ دو برابر کے ساتھی آپس میں گفتگو کے دوران میں دوسرے کو نرمی اور ملائمت پر آمادہ کرنے کےلئے یہ انداز اختیار کیا کرتے تھے۔ مگر حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے واضح کردیا کہ تم ان کے برابر کے نہیں ہو۔ یہ تو افضل البشر ہیں۔
8۔ خطرے اور اظہار وجاہت کے موقع پر حفاظت وغیرہ کے لئے محافظوں کو کھڑا کرنا جائز اور مطلوب ہے۔ مگر جہاں کوئی معقول سبب نہ ہو وہاں لوگوں کو کھڑا کرنا تکبر میں شمار ہوتا ہے۔ اور ایک ناجائز عمل ہے۔
9۔ دھوکے فریب سے حاصل کردہ مال کسی صورت جائز نہیں۔ مگر دارالحرب اور قتال کی صورت میں حاصل ہونے والا مال غنیمت کہلاتا ہے۔
10۔ سہیل نے معاہدہ لکھتے وقت بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پراعتراض کیا۔ کہ ہم الرحمٰن کو نہیں جانتے اور نبی کریم ﷺ کے متعلق محمد رسول اللہﷺ لکھنا بھی قبول نہیں کیا۔ مگر آپ نے شرعی مصلحت کے تحت اس کی یہ باتیں باوجود غلط ہونے کے گوارا کرلیں۔ اور باسمك اللهم اور محمد بن عبد اللہ لکھا گیا۔ اس نرم روی کا نتیجہ یہ نکلا کہ بعد ازاں یہی لوگ اسلام لے آئے۔ اور اسلام کے فدا کار سپاہی ثابت ہوئے۔
11۔ ساحل سمند ر پر جمع ہونے والی یہ جماعت قریش کے قافلوں پرحملے کرتی۔ اور ان کے تجارتی قافلوں کےلئے ایک بڑا خطرہ ثابت ہوئی بالآخر نے قریش نے درخواست کی کہ ہم اپنی اس شرط سے دستبردار ہوتے ہیں۔ کہ اہل مکہ میں سے مسلمان ہونے والے کو واپس کیا جائے۔ اس طرح ان لوگوں کو مدینے بلا لیا گیا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2765
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4655
´خلفاء کا بیان۔` مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے زمانے میں نکلے، پھر راوی نے حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں کہ آپ کے پاس وہ یعنی عروہ بن مسعود آیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرنے لگا، جب وہ آپ سے بات کرتا، تو آپ کی ڈاڑھی پر ہاتھ لگاتا، مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے تھے، ان کے پاس تلوار تھی اور سر پر خود، انہوں نے تلوار کے پر تلے کے نچلے حصہ سے اس کے ہاتھ پر مارا اور کہا: اپنا ہاتھ ان کی ڈاڑھی سے دور رکھ، عروہ نے اپنا سر اٹھایا اور بولا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا: مغیرہ بن شعبہ ہیں۔ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4655]
فوائد ومسائل: امام ابو داود کے اسلوب سے واضح ہوتا ہے کہ اوپر کی احادیث میں حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی جو سیاسی حمایت کی ہے، وہ ان کے شرف صحابیت اور اللہ کے ہاں ان کے مقام کی منافی نہیں ہے۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ دیگر کتنے ہی صحابہ تھے جو اپنی اپنی سوچ کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ یا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حامی یا مخالف تھے اور یہ سب ان کے اجتہادات تھے۔ اس لیے ہم کسی کو بھی صراحت سے غلط کہنے کے مجاز ہوں تو ان کے شرف صحابیت رسول اللہ ﷺ کے لیے ان کی وفا شعاری اور ان بشارتوں کے پیش نظر جو رسول اللہ ﷺ نے انکے متعلق فرمائی ہیں صرف نظرکرنا اور ان کے فعال کی تاویل کرنا واجب ہے۔ (رضي الله تعالی عنهم و أرضاهم)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4655
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4179
4179. حضرت مسور بن مخرمہ اور حضرت مروان بن حکم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ حدیبیہ کے سال ایک ہزار سے کچھ زائد صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ساتھ روانہ ہوئے۔ آپ جب ذوالحلیفہ پہنچے تو آپ نے قربانی کے جانوروں کو ہار پہنائے اور ان کا شعار کیا۔ وہاں سے آپ نے عمرے کا احرام باندھا، پھر قبیلہ خزاعہ سے ایک جاسوس بھیجا اور خود نبی ﷺ سفر کرتے رہے۔ جب غدیر اشطاط پہنچے تو آپ کے جاسوس نے اطلاع دی کہ قریش نے آپ (کے مقابلے) کے لیے بہت بڑا لشکر تیار کیا ہوا ہے۔ انہوں نے مختلف قبائل کو اکٹھا کر رکھا ہے اور وہ آپ سے لڑنا چاہتے ہیں، نیز آپ کو بیت اللہ سے روکنے کا پروگرام رکھتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اے لوگو! مجھے مشورہدو، کیا تم مناسب سمجھتے ہو کہ میں ان کے اہل و عیال پر حملہ کر دوں جو ہمیں بیت اللہ سے روکنا چاہتے ہیں؟ اگر وہ لوگ (اپنے اہل و عیال کو بچانے کی خاطر) ہمارے پاس (لڑائی کرنے) آ گئے تو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4179]
حدیث حاشیہ: 1۔ احابیش سے مراد مختلف قبائل ہیں جنھوں نے قریش سے عہد وپیمان کررکھا تھا، ان میں اکثر قبائل بنوقارہ کے تھے۔ یہ لوگ حدیبیہ کے سال قریش کےہاں مکہ چلے گے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کو بیت اللہ کے طواف سے روکا جائے، رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے مشورہ طلب کیا کہ سیدھا بیت اللہ جانا چاہیے یا احابیش کے بال بچوں پر حملہ کردینا چاہیے؟ حضرت ابوبکر ؓ نے مشورہ دیا کہ آپ منازل احابیش پر حملہ نہ کریں بلکہ سیدھا بیت اللہ کا رخ کریں، ممکن ہے کہ جاسوس کی خبر غلط ہو۔ اگر ہم ان منازل تک چلے گئے تو ہمیں لڑنا پڑے گا۔ آپ یوں خیال کریں کہ ہم نے کوئی جاسوس نہیں بھیجا ہے۔ بہرحال آپ نے حضرت ابوبکر ؓ کا مشورہ قبول کرکے سیدھے بیت اللہ جانے کا حکم دیا۔ 2۔ غدیر اشطاط، حدیبیہ کی طرف سے ایک مقام کا نام ہے اورعسفان کی طرف واقع ہے۔ وہاں پانی جمع رہتا ہے۔ بہرحال رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے لوٹ مار کا ارادہ تر ک کردیا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4179