صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
36. بَابُ غَزْوَةِ الْحُدَيْبِيَةِ:
36. باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
(36) Chapter. The Ghazwa of Al- Hudaibiya.
حدیث نمبر: 4178
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد , حدثنا سفيان , قال: سمعت الزهري حين حدث هذا الحديث حفظت بعضه , وثبتني معمر , عن عروة بن الزبير , عن المسور بن مخرمة , ومروان بن الحكم يزيد , احدهما على صاحبه , قالا: خرج النبي صلى الله عليه وسلم عام الحديبية في بضع عشرة مائة من اصحابه , فلما اتى ذا الحليفة قلد الهدي واشعره واحرم منها بعمرة , وبعث عينا له من خزاعة , وسار النبي صلى الله عليه وسلم حتى كان بغدير الاشطاط اتاه عينه , قال: إن قريشا جمعوا لك جموعا , وقد جمعوا لك الاحابيش وهم مقاتلوك , وصادوك عن البيت ومانعوك , فقال:" اشيروا ايها الناس علي , اترون ان اميل إلى عيالهم وذراري هؤلاء الذين يريدون ان يصدونا عن البيت؟ فإن ياتونا كان الله عز وجل قد قطع عينا من المشركين وإلا تركناهم محروبين" , قال ابو بكر: يا رسول الله خرجت عامدا لهذا البيت لا تريد قتل احد ولا حرب احد , فتوجه له , فمن صدنا عنه قاتلناه , قال:" امضوا على اسم الله".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ حِينَ حَدَّثَ هَذَا الْحَدِيثَ حَفِظْتُ بَعْضَهُ , وَثَبَّتَنِي مَعْمَرٌ , عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ , عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ , وَمَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ يَزِيدُ , أَحَدُهُمَا عَلَى صَاحِبِهِ , قَالَا: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ فِي بِضْعَ عَشْرَةَ مِائَةً مِنْ أَصْحَابِهِ , فَلَمَّا أَتَى ذَا الْحُلَيْفَةِ قَلَّدَ الْهَدْيَ وَأَشْعَرَهُ وَأَحْرَمَ مِنْهَا بِعُمْرَةٍ , وَبَعَثَ عَيْنًا لَهُ مِنْ خُزَاعَةَ , وَسَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى كَانَ بِغَدِيرِ الْأَشْطَاطِ أَتَاهُ عَيْنُهُ , قَالَ: إِنَّ قُرَيْشًا جَمَعُوا لَكَ جُمُوعًا , وَقَدْ جَمَعُوا لَكَ الْأَحَابِيشَ وَهُمْ مُقَاتِلُوكَ , وَصَادُّوكَ عَنْ الْبَيْتِ وَمَانِعُوكَ , فَقَالَ:" أَشِيرُوا أَيُّهَا النَّاسُ عَلَيَّ , أَتَرَوْنَ أَنْ أَمِيلَ إِلَى عِيَالِهِمْ وَذَرَارِيِّ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ يُرِيدُونَ أَنْ يَصُدُّونَا عَنْ الْبَيْتِ؟ فَإِنْ يَأْتُونَا كَانَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ قَطَعَ عَيْنًا مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَإِلَّا تَرَكْنَاهُمْ مَحْرُوبِينَ" , قَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ خَرَجْتَ عَامِدًا لِهَذَا الْبَيْتِ لَا تُرِيدُ قَتْلَ أَحَدٍ وَلَا حَرْبَ أَحَدٍ , فَتَوَجَّهْ لَهُ , فَمَنْ صَدَّنَا عَنْهُ قَاتَلْنَاهُ , قَالَ:" امْضُوا عَلَى اسْمِ اللَّهِ".
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ جب زہری نے یہ حدیث بیان کی (جو آگے مذکور ہوئی ہے) تو اس میں سے کچھ میں نے یاد رکھی اور معمر نے اس کو اچھی طرح یاد دلایا۔ ان سے عروہ بن زبیر نے ‘ ان سے مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ اور مروان بن حکم نے بیان کیا ‘ ان میں سے ہر ایک دوسرے سے کچھ بڑھاتا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ کے موقع پر تقریباً ایک ہزار صحابہ کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے۔ پھر جب آپ ذو الحلیفہ پہنچے تو آپ نے قربانی کے جانور کو قلادہ پہنایا اور اس پر نشان لگایا اور وہیں سے عمرہ کا احرام باندھا۔ پھر آپ نے قبیلہ خزاعہ کے ایک صحابی کو جاسوسی کے لیے بھیجا اور خود بھی سفر جاری رکھا۔ جب آپ غدیر الاشطاط پر پہنچے تو آپ کے جاسوس بھی خبریں لے کر آ گئے۔ جنہوں نے بتایا کہ قریش نے آپ کے مقابلے کے لیے بہت بڑا لشکر تیار کر رکھا ہے اور بہت سے قبائل کو بلایا ہے۔ وہ آپ سے جنگ کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور آپ کو بیت اللہ سے روکیں گے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ مجھے مشورہ دو کیا تمہارے خیال میں یہ مناسب ہو گا کہ میں ان کفار کی عورتوں اور بچوں پر حملہ کر دوں جو ہمارے بیت اللہ تک پہنچنے میں رکاوٹ بننا چاہتے ہیں؟ اگر انہوں نے ہمارا مقابلہ کیا تو اللہ عزوجل نے مشرکین سے ہمارے جاسوس کو محفوظ رکھا ہے اور اگر وہ ہمارے مقابلے پر نہیں آتے تو ہم انہیں ایک ہاری ہوئی قوم جان کر چھوڑ دیں گے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ تو صرف بیت اللہ کے عمرہ کے لیے نکلے ہیں نہ آپ کا ارادہ کسی کو قتل کرنے کا ہے اور نہ کسی سے لڑائی کا۔ اس لیے آپ بیت اللہ تشریف لے چلیں۔ اگر ہمیں پھر بھی کوئی بیت اللہ تک جانے سے روکے گا تو ہم اس سے جنگ کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اللہ کا نام لے کر سفر جاری رکھو۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Al-Miswar bin Makhrama and Marwan bin Al-Hakam: (one of them said more than his friend): The Prophet set out in the company of more than onethousand of his companions in the year of Al-Hudaibiya, and when he reached Dhul-Hulaifa, he garlanded his Hadi (i.e. sacrificing animal), assumed the state of Ihram for `Umra from that place and sent a spy of his from Khuzi'a (tribe). The Prophet proceeded on till he reached (a village called) Ghadir-al-Ashtat. There his spy came and said, "The Quraish (infidels) have collected a great number of people against you, and they have collected against you the Ethiopians, and they will fight with you, and will stop you from entering the Ka`ba and prevent you." The Prophet said, "O people! Give me your opinion. Do you recommend that I should destroy the families and offspring of those who want to stop us from the Ka`ba? If they should come to us (for peace) then Allah will destroy a spy from the pagans, or otherwise we will leave them in a miserable state." On that Abu Bakr said, "O Allah Apostle! You have come with the intention of visiting this House (i.e. Ka`ba) and you do not want to kill or fight anybody. So proceed to it, and whoever should stop us from it, we will fight him." On that the Prophet said, "Proceed on, in the Name of Allah !"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 495


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4178 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4178  
حدیث حاشیہ:

احابیش سے مراد مختلف قبائل ہیں جنھوں نے قریش سے عہد وپیمان کررکھا تھا، ان میں اکثر قبائل بنوقارہ کے تھے۔
یہ لوگ حدیبیہ کے سال قریش کےہاں مکہ چلے گے تھے کہ رسول اللہﷺ کو بیت اللہ کے طواف سے روکا جائے، رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے مشورہ طلب کیا کہ سیدھا بیت اللہ جانا چاہیے یا احابیش کے بال بچوں پر حملہ کردینا چاہیے؟ حضرت ابوبکر ؓ نے مشورہ دیا کہ آپ منازل احابیش پر حملہ نہ کریں بلکہ سیدھا بیت اللہ کا رخ کریں، ممکن ہے کہ جاسوس کی خبر غلط ہو۔
اگر ہم ان منازل تک چلے گئے تو ہمیں لڑنا پڑے گا۔
آپ یوں خیال کریں کہ ہم نے کوئی جاسوس نہیں بھیجا ہے۔
بہرحال آپ نے حضرت ابوبکر ؓ کا مشورہ قبول کرکے سیدھے بیت اللہ جانے کا حکم دیا۔

غدیر اشطاط، حدیبیہ کی طرف سے ایک مقام کا نام ہے اورعسفان کی طرف واقع ہے۔
وہاں پانی جمع رہتا ہے۔
بہرحال رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے لوٹ مار کا ارادہ تر ک کردیا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4178   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.