حدثنا قتيبة بن سعيد حدثنا الليث عن ابن شهاب عن عبد الرحمن بن كعب بن مالك ان جابر بن عبد الله رضي الله عنهما اخبره ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يجمع بين الرجلين من قتلى احد في ثوب واحد ثم يقول: «ايهم اكثر اخذا للقرآن» . فإذا اشير له إلى احد، قدمه في اللحد، وقال: «انا شهيد على هؤلاء يوم القيامة» . وامر بدفنهم بدمائهم، ولم يصل عليهم، ولم يغسلوا.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَجْمَعُ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ مِنْ قَتْلَى أُحُدٍ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ ثُمَّ يَقُولُ: «أَيُّهُمْ أَكْثَرُ أَخْذًا لِلْقُرْآنِ» . فَإِذَا أُشِيرَ لَهُ إِلَى أَحَدٍ، قَدَّمَهُ فِي اللَّحْدِ، وَقَالَ: «أَنَا شَهِيدٌ عَلَى هَؤُلاَءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» . وَأَمَرَ بِدَفْنِهِمْ بِدِمَائِهِمْ، وَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِمْ، وَلَمْ يُغَسَّلُوا.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک نے اور انہیں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے شہداء کو ایک ہی کپڑے میں دو دو کو کفن دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم دریافت فرماتے کہ ان میں قرآن کا عالم سب سے زیادہ کون ہے؟ جب کسی ایک کی طرف اشارہ کر کے آپ کو بتایا جاتا تو لحد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہی کو آگے فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن میں ان سب پر گواہ رہوں گا۔ پھر آپ نے تمام شہداء کو خون سمیت دفن کرنے کا حکم فرما دیا اور ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھی اور نہ انہیں غسل دیا گیا۔
Narrated Jabir bin `Abdullah: Allah's Apostle used to shroud two martyrs of Uhud in one sheet and then say, "Which of them knew Qur'an more?" When one of the two was pointed out, he would put him first in the grave. Then he said, "I will be a witness for them on the Day of Resurrection." He ordered them to be buried with their blood (on their bodies). Neither was the funeral prayer offered for them, nor were they washed.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 406
يجمع بين الرجلين من قتلى أحد في ثوب واحد ثم يقول أيهم أكثر أخذا للقرآن فإذا أشير له إلى أحد قدمه في اللحد أنا شهيد على هؤلاء يوم القيامة أمر بدفنهم بدمائهم ولم يصل عليهم ولم يغسلوا
يجمع بين الرجلين من قتلى أحد ويقول أيهما أكثر أخذا للقرآن فإذا أشير له إلى أحدهما قدمه في اللحد أنا شهيد على هؤلاء يوم القيامة أمر بدفنهم بدمائهم ولم يغسلوا
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4079
حدیث حاشیہ: شہدائے اُحد کے فضائل ومناقب کا کیا کہنا! یہ اسلام کے وہ نامور فرزند ہیں جنھوں نے اپنے خون سے اسلام کے پودے کو پروان چڑھایا۔ اسلامی تاریخ قیامت تک ان پر ناز کرے گی۔ ان میں سے دو، دوآدمیوں کو ملاکر ایک قبر میں اتارکر، انھیں غسل دیے بغیردفن کیا گیا اور قیامت کے دن یہ اسی حالت میں اللہ کی عدالت عالیہ میں حاضر ہوں گے۔ کسی نے خوب کہا ہے: بنا کر دند خوش رسمے بخاک وخون غلطیدن۔ ۔ ۔ اللہ رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را۔ ۔ ان حضرات کے فی سبیل اللہ شہید ہونے کی وجہ سے اللہ کے ہاں مغفرت ہوئی اب نماز جنازہ پڑھنے کی کیا ضرورت ہے، البتہ اگر کوئی پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے بہرحال نماز جنازہ مشروع ہے۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4079
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 441
´ضرورت کے وقت ایک کفن میں دو آدمیوں کو کفنانا` ”. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہداء احد کے دو دو آدمیوں کو ایک لباس میں جمع کرتے تھے . . .“[بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 441]
لغوی تشریح: «قَتْلٰي» «قتيل» کی جمع ہے جو مقتول کے معنی میں ہے۔ «اُحدٟ»”ہمزہ“ اور ”حا“ دونوں پر ضمہ ہے۔ اضافت کی وجہ سے مجرور ہے۔ مدینہ کے شمال میں مشہور و معروف پہاڑ کا نام ہے۔ غزوہ احد اسی پہاڑ کے پاس لڑا گیا جو تاریخ اسلام میں مشہور و معروف ہے۔ یہ غزوہ 3 ہجری شوال کے مہینے میں ہوا تھا جس میں ستر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جام شہادت نوش کیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رباعی دانت بھی زخمی ہوئے۔ «اَيُّهُمْ اَكْثَرُ اَخْذاً لِلْقُرْآنِ» جسے قرآن زیادہ ازبر ہو اور اس کا زیادہ علم رکھتا ہو۔ «فَيُقَدَّمُهُ» تقدیم سے ماخوذ ہے، یعنی اسے پہلے رکھتے اور آگے کرتے۔ «الَلَّحُدِ» میت کو قبر میں رکھنے کے لیے قبر کے پہلو میں جو شگاف رکھا جاتا ہے اسے لحد کہتے ہیں۔
فوائد و مسائل: اس حدیث سے کئی مسائل ثابت ہوتے ہیں: ➊ ضرورت کے وقت ایک کفن میں دو آدمیوں کو کفنانا درست ہے۔ ➋ دو یا اس سے زیادہ میتوں کو ایک ہی قبر میں دفن کرنا بھی جائز ہے، البتہ ان میں صاحب قرآن کو پہلے داخل کرنا چاہیے اور قبلے کی جانب مقدم کرنا چاہیے۔ ➌ شہدائے فی سبیل اللہ کو غسل نہیں دیا جاتا جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شہدائے احد کے بارے میں فرمایا: ”انھیں غسل مت دو، ان کا ہر ایک زخم قیامت کے روز مشک اور کستوری جیسی خوشبو دے رہا ہو گا۔“[مسند احمد: 299/3] ➍ شہداء کا جنازہ بھی ضروری نہیں۔ جن روایات میں شہدائے احد کی نماز جنازہ پڑھنے کا ذکر ہے اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ پر ستر تکبیریں کہنے کا ذکر ہے، امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ روایات صحیح نہیں۔ صحیح بخاری میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے آٹھ سال بعد شہدائے احد کا جنازہ پڑھا۔ [صحيح البخاري، الجنائز، حديث: 1344] امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ان کے لیے دعائے مغفرت ہے ورنہ شہید کی نماز جنازہ کے قائلین مدت درار کے بعد قبر پر جنازہ پڑھنے کے قائل کیوں نہیں؟
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 441
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1957
´شہیدوں کی نماز جنازہ نہ پڑھنے کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ احد کے مقتولین میں سے میں سے دو آدمیوں کو ایک کپڑے میں اکٹھا کرتے، پھر پوچھتے: ”ان دونوں میں کس کو قرآن زیادہ یاد تھا؟“ جب لوگ ان دونوں میں سے ایک کی طرف اشارہ کرتے تو آپ اسے قبر میں پہلے رکھتے، اور فرماتے: ”میں ان پر گواہ ہوں“، آپ نے انہیں ان کے خون سمیت دفن کرنے کا حکم دیا، اور نہ ان کی نماز جنازہ پڑھی گئی ۱؎ اور نہ انہیں غسل دیا گیا۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1957]
1957۔ اردو حاشیہ: ➊ ”آگے رکھتے“ تاکہ اس کی فضیلت ظاہر ہو۔ ➋ ”خون سمیت“ تاکہ ان کی مظلومیت قائم رہے اور قیامت کے دن ان کی فضیلت ظاہر ہو کیونکہ جس حال میں کوئی دفن ہو گا اسی حال میں قیامت کے دن اٹھایا جائے گا۔ ➌ شہید کو غسل اور جنازے کے بغیر دفن کرنا اس کی امتیازی شان ہے۔ شہید کے جنازے کی بحث سابقہ حدیث میں گزر چکی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1957
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1514
´شہداء کی نماز جنازہ اور ان کی تدفین۔` جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ احد کے شہداء میں سے دو دو تین تین کو ایک کپڑے میں لپیٹتے، پھر پوچھتے: ”ان میں سے قرآن کس کو زیادہ یاد ہے“؟ جب ان میں سے کسی ایک کی جانب اشارہ کیا جاتا، تو اسے قبر (قبلہ کی طرف) میں آگے کرتے، اور فرماتے: ”میں ان لوگوں پہ گواہ ہوں،، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ان کے خونوں کے ساتھ دفن کرنے کا حکم دیا، نہ تو آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھی، اور نہ غسل دلایا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1514]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت ان لوگوں کی دلیل ہے۔ جو شہید کی نماز جنازہ پڑھنے کے قائل نہیں ہیں۔ لیکن بعض روایات سے نماز جنازہ پڑھنے کا جواز بھی ثابت ہوتا ہے۔ جیسا کہ گزشتہ روایات میں مذکور ہے اس لئے اس مسئلے میں توسع ہے۔ تاہم نماز جنازہ پڑھنا بھی علماء کے نزدیک مستحب ہے۔ جیسا کہ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے۔ کیونکہ نماز جنازہ دعا اور عبادت ہے۔ لیکن اس استحباب پر شہید کی نماز جنازہ پڑھنے کو اشتہار بازی اور دنیاوی اغراض ومقاصد کے ذریعہ بنا لینا کوئی پسندیدہ امر نہیں ہے۔ اس طریقے سے تو اس کا جواز اور استحباب بھی محل نظر ہوجاتا ہے۔
(2) خاص حالات میں ایک سے زیادہ افراد کو ایک قبر میں دفن کرنا جائز ہے۔
(3) حفظ قرآن ایک شرف ہے۔ جس کا خیال دفن کرتے ہوئے بھی رکھا جانا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1514
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1345
1345. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ شہدائے اُحد کے دودوآدمیوں کو جمع کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1345]
حدیث حاشیہ: حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1345
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1345
1345. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ شہدائے اُحد کے دودوآدمیوں کو جمع کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1345]
حدیث حاشیہ: (1) دو آدمیوں کو جمع کرنا قبر میں ہے یا کفن میں، اگر کفن میں جمع کرنا ہے تو اس سے لازم ہے کہ قبر میں اکٹھے دفن ہوں۔ حدیث میں دو آدمیوں کو جمع کرنے کا ذکر ہے جبکہ عنوان میں تین آدمیوں کا بھی ذکر ہے، چنانچہ امام بخاری ؒ نے اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ دو اور تین آدمیوں کو ایک ہی قبر میں دفن کرتے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ اُحد کے دن انصار رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ ہم تو زخموں سے چور ہیں اور بہت مشقت ہو رہی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”قبروں کو گہرا اور وسیع کرو پھر دو یا تین آدمی ایک قبر میں دفن کرو۔ “(سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3215)(2) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ بوقت ضرورت دو عورتوں کو بھی ایک قبر میں جمع کیا جا سکتا ہے، اسی طرح مرد اور عورت کو بھی ایک ساتھ دفن کیا جا سکتا ہے، اس صورت میں آدمی کو آگے اور عورت کو اس کے پیچھے رکھا جائے، نیز درمیان میں مٹی وغیرہ سے رکاوٹ کھڑی کر دی جائے، خصوصا جبکہ مرد اور عورت باہم اجنبی ہوں۔ (فتح الباري: 270/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1345
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1346
1346. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:نبی ﷺ نے اُحد کے دن فرمایا:”ان شہداء کو خون سمیت دفن کردو۔“ اور آپ نے انھیں غسل بھی نہ دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1346]
حدیث حاشیہ: (1) شہید کو غسل نہ دینے کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ شہید ہونا ایک عبادت ہے اور خون اس عبادت کا اثر ہے، اسے باقی رہنا چاہیے۔ حدیث میں ہے کہ اس خون سے کستوری کی خوشبو پھوٹے گی۔ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شہدائے اُحد کے متعلق فرمایا: ”انہیں غسل نہ دو کیونکہ ان کے ہر زخم سے قیامت کے دن کستوری کی مہک آئے گی۔ “(مسندأحمد299/3)(2) اس روایت کے عموم کے پیش نظر شافعیہ نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ شہید اگر اجنبی یا حائضہ عورت ہو تو اسے بھی غسل نہیں دیا جائے گا۔ بعض نے کہا ہے کہ غسل میت کی نیت کے بغیر انہیں غسل دیا جائے، جیسا کہ حضرت حنظلہ ؓ کو فرشتوں نے غسل جنابت دیا تھا۔ لیکن اگر غسل دینا واجب ہوتا تو فرشتوں کے غسل کو کافی نہ خیال کیا جاتا، بلکہ اس کے سرپرست حضرات کو غسل کے متعلق کہا جاتا۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ جنبی شہید کو غسل دینا ضروری نہیں۔ (فتح الباري: 270/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1346