�
فقہ الحدیث منکرین اعتراض کرتے ہیں:
یہ ایک ایسی حدیث ہے کہ جس کا ثبوت نہ تو عقل سے ہوتا ہے نہ نقل سے، لیکن عقل سے پس ظاہر ہے.... إلی قولہ: اور لیکن نقل سے پس یہ معلوم ہے کہ کسی زمانہ میں شرع حیوانات پر نازل نہیں ہوئی، یہ ہمیشہ سے قانون شرعی سے غیر مکلف اور آزاد رہے، نہ ان کو کسی عبادت کا حکم ہوا اور نہ ان کا کوئی فعل جرم ٹھہرایا گیا... إلی آخرہ
{أقول:} مجھے نہایت حیرت ہے کہ ہنوز آپ حدیث سے بھی ناواقف ہیں کہ حدیث کس کو کہتے ہیں؟ صحابی کے قول کو بار بار حدیث کہتے جاتے ہیں۔ یہ واقعہ عمرو بن میمون رحمہ اللہ کا بیان کردہ ہے، جو ایک تابعی ہیں، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«مخضرم مشھور، ثقہ عابد» [تقريب التهذيب:427] نیز دیکھیں
[تهذيب التهذيب:96/8] اے جناب! جیسے آپ نے اس قصہ کو عقل و نقل کے خلاف کہا ہے مخالفین اسلام قرآن مجید کے اس قصہ کو بھی غلط کہتے ہیں کہ قابیل نے جب ہابیل کو مار ڈالا، مارنے کے بعد وہ پچھتایا اور حیران تھا کہ کیا کرے؟ تو اللہ نے ایک کوا بھیجا، چنانچہ ارشاد ہے:
«فَطَوَّعَتْ لَهُ نَفْسُهُ قَتْلَ أَخِيهِ فَقَتَلَهُ فَأَصْبَحَ مِنَ الْخَاسِرِينَ» «كَيْفَ يُوَارِي سَوْءَةَ أَخِيهِ قَالَ يَا وَيْلَتَى أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ مِثْلَ هَـذَا الْغُرَابِ فَأُوَارِيَ سَوْءَةَ أَخِي فَأَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِينَ» «فَبَعَثَ اللَّـهُ غُرَابًا يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ لِيُرِيَهُ كَيْفَ يُوَارِي سَوْءَةَ أَخِيهِ قَالَ يَا وَيْلَتَى أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ مِثْلَ هَـذَا الْغُرَابِ فَأُوَارِيَ سَوْءَةَ أَخِي فَأَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِينَ» [المائدۃ: 31،32،33] یعنی قابیل کو اس کے نفس نے اپنے بھائی ہابیل کے مار ڈالنے کی رغبت دلائی، پس مار ڈالا اس کو، پس ہو گیا نامرادوں سے، پس بھیجا اللہ نے ایک کوا جو کھودتا تھا زمین کو
(چونچ سے) تاکہ دکھلائے اس کو کیونکر چھپائے لاش اپنے بھائی کی، قابیل نے کہا اے افسوس! کیا عاجز ہو گیا میں اس بات سے کہ ہو جاؤں مثل اس کوے کےڈھانکوں نعش اپنے بھائی کی پس ہوگیا وہ پشیمان۔
حالانکہ جس طرح یہ قرانی قصہ صحیح ہے، اسی طرح وہ بھی صحیح ہے، کیونکہ دونوں کا مآل ایک ہے اور وہ یہ کہ جس طرح الله کی قدرت کا ایک نمونہ بغرض تعلیم و عبرت ظہور میں آیا اور ایک کوے نے دوسرے کو دفن کیا، اسی طرح ایک صحابی کے دل میں قبل از اسلام کی خوبی جمانے کے لیے ان کے مشاہدہ سے یہ حرکت بندروں کی گزاری۔ آپ جس طرح اس صحیح واقعہ کو خلاف عقل و نقل ٹھہراتے ہیں، اس قرآنی واقعہ کو بھی ٹھہرائیے اور دل کھول کر فراغت سے اللہ پر اعتراض کیجئے کہ وہ تو غیر مکلف اور آزاد ہیں، پھر ان کو شرعی طور پر فن کرنے کی کیا ضرورت؟حالانکہ جس طرح یہ مسلّم ہے کہ یہ کوا دراصل فرشتہ تھا، جب بشکل غراب تعلیم کے لیے آیا تھا اور اس نے دوسرے حقیقی کوے کو مار کر دفن کیا، اسی طرح ان بندورں نے بھی، جو تمام جن تھے، اس جنگل میں بندورں کی شکل میں نمودار ہو کر ایک کافر مشرک کو قدرت کا کرشمہ دکھلایا۔
فتح الباری میں ہے:
«فلعل ھؤلاء كانوا من الجن، وإنھم من جملة المكلفين ... إلی قوله: فلا يستلزم إيقاع الكتليف علی الحيوان.» ”یہ لوگ جنوں سے تھے اور وہ مثل انسان کے مکلّف ہیں، پس حیوان کے مکلّف ہونے کا الزام اٹھ گیا۔
“ [فتح الباري:160/7] آپ نے
(معترض، منکرین حدیث نے) جو رسالہ کے
[ص: 16] میں ابن عبدالبر کا قول عینی سے نقل کیا ہے، اس میں بھی آگے صاف موجود ہے:
«كانوا من الجن، لأن العبادات في الجن والإنس دون غيرھا.» ”یعنی وہ جنوں سے تھے اور عبادت کے مکلّف جن و انس ہیں نہ کہ غیر۔
“ [عمدة القاري:300/16] پس آپ کا اعتراض اٹھ گیا اور اس سے روایت کی صحت پر بھی کچھ بٹہ نہیں لگا، کیونکہ جس امر کی بنا پر آپ نے اپنے رسالے کے صفحہ
[17] کے نصف صفحہ تک روایت پر کلام کیا ہے اور روات کی عدم ثقاہت یوں ہی فرضاً ثابت کی ہے، وہ باطل ہو گئی۔
آئیے اب ہم آپ کو اس روایت کی بابت کرمانی کا قول سنا دیں، فرماتے ہیں:
«الحديث المذ كور في معظم الاصول التي وقفنا عليھا.» ”یعنی یہ روایت معظم اصول کی ہے اور نہایت معتبر ہے۔
“ [فتح الباري:433/15] غرض روایت مذکورہ میں کسی طرح کا کلام نہیں ہو سکتا۔