Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ
کتاب: انصار کے مناقب
27. بَابُ الْقَسَامَةُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ:
باب: زمانہ جاہلیت کی قسامت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3849
حَدَّثَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، قَالَ:" رَأَيْتُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ قِرْدَةً اجْتَمَعَ عَلَيْهَا قِرَدَةٌ قَدْ زَنَتْ فَرَجَمُوهَا فَرَجَمْتُهَا مَعَهُمْ".
ہم سے نعیم بن حماد نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا، ان سے حصین نے، ان سے عمرو بن میمون نے بیان کیا کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک بندریا دیکھی اس کے چاروں طرف بہت سے بندر جمع ہو گئے تھے اس بندریا نے زنا کرایا تھا اس لیے سبھوں نے مل کر اسے رجم کیا اور ان کے ساتھ میں بھی پتھر مارنے میں شریک ہوا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3849 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3849  
حدیث حاشیہ:
پوری روایت اسماعیل نے یوں نکالی عمرو بن میمون کہتے ہیں میں یمن میں تھا اپنے لوگوں کی بکریوں میں ایک اونچی جگہ پر میں نے دیکھا ایک بندر بندریا کو لے کر آیا اور اس کا ہاتھ اپنے سرکے نیچے رکھ کر سوگیا اتنے میں ایک چھوٹا بندر آیا اور بندریا کو اشارہ کیا اس نے آہستہ سے اپنا ہاتھ بندر کے سر کے نیچے سے کھینچ لیا اور چھوٹے بندر کے ساتھ چلی گئی اس نے اس سے صحبت کی میں دیکھ رہا تھا پھر بندریا لوٹی اور آہستہ سے پھر اپنا ہاتھ پہلے بندر کے سر کے نیچے ڈالنے لگی لیکن وہ جاگ اٹھا اور ایک چیخ ماری تو سب بندر جمع ہوگئے۔
یہ اس بندریا کی طرف اشارہ کرتا اور چیختا جاتا تھا۔
آخر دوسرے بندر ادھر ادھر گئے اور اس چھوٹے بندر کو پکڑ لائے۔
میں اسے پہچانتا تھا پھر انہوں نے ان کے لئے گڑھا کھودا اور دونوں کو سنگسار کر ڈالا تو میں نے یہ رجم کا عمل جانوروں میں بھی دیکھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3849   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3849  
فقہ الحدیث
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«حَدَّثَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، قَالَ:" رَأَيْتُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ قِرْدَةً اجْتَمَعَ عَلَيْهَا قِرَدَةٌ قَدْ زَنَتْ فَرَجَمُوهَا فَرَجَمْتُهَا مَعَهُمْ»
ہمیں نعیم بن حماد نے حدیث بیان کی (کہا): ہمیں ہشیم نے حدیث بیان کی، وہ حصین سے وہ عمرو بن میمون (تابعی) سے بیان کرتے ہیں کہ: میں نے جاہلیت (کے زمانے) میں ایک بندریا دیکھی جس نے زنا کیا تھا، اس پر بندر اکٹھے ہوئے، پس انہوں نے اسے رجم کیا اور میں نے ان کے ساتھ مل کر اسے رجم کیا۔ [صحيح البخاري: 3849]
↰ اس روایت کی سند کے سارے راوی ثقہ و صدوق ہیں۔
نعیم بن حماد کو جمہور محدثین نے ثقہ و صدوق کہا۔
ہشیم کی حصین بن عبدالرحمٰن سے روایت سماع پر محمول ہوتی ہے کیونکہ وہ حصین سے تدلیس نہیں کرتے تھے۔ دیکھئے: شرح علل الترمذی لابن رجب [2؍562]
ہشیم کی متابعت کے لئے دیکھئے: تاریخ دمشق لابن عساکر [49؍292]
عمرو بن میمون مشہور تابعی اور ثقہ عابد تھے۔ دیکھئے: [التقريب: 5122]
عمرو بن میمون سے یہ روایت عیسیٰ بن حطان نے مفصل بیان کر رکھی ہے۔ [تاريخ ابن عساكر 292/49، 293]
صحیح بخاری و تاریخ دمشق کے علاوہ یہ روایت درج ذیل کتابوں میں بھی ہے:
التاریخ الکبیر للبخاری [6؍367]
مستخرج الاسماعیلی اور مستخرج ابی نعیم الاصبہانی دیکھئے [فتح الباري 7؍160، 161]
[التاريخ الكبير للامام ابن ابي خيثمة ص569]
تابعی کی یہ روایت نہ قول رسول ہے اور نہ قول صحابی ہے بلکہ صرف تابعی کا قول ہے۔ اب اس قول میں بندروں سے کیا مراد ہے؟ حافظ ابن عبدالبر کے قول سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بندر جن تھے۔ دیکھئے: [فتح الباري 160/7]
جنوں کا وجود قرآن مجید سے ثابت ہے دیکھئے: سورۃ الاحقاف [آيت: 29] وغیرہ، کیا منکرین حدیث اور منکرین سزائے رجم کو اس بات پر اعتراض ہے کہ جنوں نے زنا کرنے والی جنیہ کو کیوں رجم کر دیا تھا؟ کیا جن مکلّف مخلوق نہیں ہیں؟
تنبیہ: ① شادی شدہ زانی کو سنگسار کرنا صحیح و متواتر احادیث سے ثابت ہے مثلاً دیکھئے: صحیح بخاری [6814] و صحیح مسلم [1702] اور نظم المتناثر من الحدیث المتواتر [174، حديث: 182]
تنبیہ ②: جنوں کا جانوروں کی شکل اختیار کرنا صحیح احادیث سے ثابت ہے مثلا دیکھئے: صحیح مسلم [ح2236 وترقيم دارالسلام: 5839]، وموطا امام مالک [976/2، 977ح1894]
تنبیہ ③: بندر کی شکل اختیار کئے ہوئے زانی جن کی حمایت میں یہ کہنا کہ بندر بےچارے پر زیادتی کی ہے۔ کو زنا کرنے والے جنوں (اور زانی انسانوں) کی حمایت کے سوا اور کیا نام دیا جا سکتا ہے؟ منکرین حدیث کو یہ ثابت کرنا چاہئیے کہ ان کے نزدیک جنوں کے لئے زنا کرنا معاف ہے!!
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 24، حدیث/صفحہ نمبر: 19   

  مولانا محمد ابوالقاسم سيف بنارسي حفظ الله، دفاع بخاري، تحت الحديث صحيح بخاري 3849  
فقہ الحدیث
منکرین اعتراض کرتے ہیں:
یہ ایک ایسی حدیث ہے کہ جس کا ثبوت نہ تو عقل سے ہوتا ہے نہ نقل سے، لیکن عقل سے پس ظاہر ہے.... إلی قولہ: اور لیکن نقل سے پس یہ معلوم ہے کہ کسی زمانہ میں شرع حیوانات پر نازل نہیں ہوئی، یہ ہمیشہ سے قانون شرعی سے غیر مکلف اور آزاد رہے، نہ ان کو کسی عبادت کا حکم ہوا اور نہ ان کا کوئی فعل جرم ٹھہرایا گیا... إلی آخرہ
{أقول:} مجھے نہایت حیرت ہے کہ ہنوز آپ حدیث سے بھی ناواقف ہیں کہ حدیث کس کو کہتے ہیں؟ صحابی کے قول کو بار بار حدیث کہتے جاتے ہیں۔ یہ واقعہ عمرو بن میمون رحمہ اللہ کا بیان کردہ ہے، جو ایک تابعی ہیں، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «مخضرم مشھور، ثقہ عابد» [تقريب التهذيب:427] نیز دیکھیں [تهذيب التهذيب:96/8]

اے جناب! جیسے آپ نے اس قصہ کو عقل و نقل کے خلاف کہا ہے مخالفین اسلام قرآن مجید کے اس قصہ کو بھی غلط کہتے ہیں کہ قابیل نے جب ہابیل کو مار ڈالا، مارنے کے بعد وہ پچھتایا اور حیران تھا کہ کیا کرے؟ تو اللہ نے ایک کوا بھیجا، چنانچہ ارشاد ہے:
«فَطَوَّعَتْ لَهُ نَفْسُهُ قَتْلَ أَخِيهِ فَقَتَلَهُ فَأَصْبَحَ مِنَ الْخَاسِرِينَ» «كَيْفَ يُوَارِي سَوْءَةَ أَخِيهِ قَالَ يَا وَيْلَتَى أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ مِثْلَ هَـذَا الْغُرَابِ فَأُوَارِيَ سَوْءَةَ أَخِي فَأَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِينَ» «فَبَعَثَ اللَّـهُ غُرَابًا يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ لِيُرِيَهُ كَيْفَ يُوَارِي سَوْءَةَ أَخِيهِ قَالَ يَا وَيْلَتَى أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ مِثْلَ هَـذَا الْغُرَابِ فَأُوَارِيَ سَوْءَةَ أَخِي فَأَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِينَ» [المائدۃ: 31،32،33]
یعنی قابیل کو اس کے نفس نے اپنے بھائی ہابیل کے مار ڈالنے کی رغبت دلائی، پس مار ڈالا اس کو، پس ہو گیا نامرادوں سے، پس بھیجا اللہ نے ایک کوا جو کھودتا تھا زمین کو (چونچ سے) تاکہ دکھلائے اس کو کیونکر چھپائے لاش اپنے بھائی کی، قابیل نے کہا اے افسوس! کیا عاجز ہو گیا میں اس بات سے کہ ہو جاؤں مثل اس کوے کےڈھانکوں نعش اپنے بھائی کی پس ہوگیا وہ پشیمان۔

حالانکہ جس طرح یہ قرانی قصہ صحیح ہے، اسی طرح وہ بھی صحیح ہے، کیونکہ دونوں کا مآل ایک ہے اور وہ یہ کہ جس طرح الله کی قدرت کا ایک نمونہ بغرض تعلیم و عبرت ظہور میں آیا اور ایک کوے نے دوسرے کو دفن کیا، اسی طرح ایک صحابی کے دل میں قبل از اسلام کی خوبی جمانے کے لیے ان کے مشاہدہ سے یہ حرکت بندروں کی گزاری۔ آپ جس طرح اس صحیح واقعہ کو خلاف عقل و نقل ٹھہراتے ہیں، اس قرآنی واقعہ کو بھی ٹھہرائیے اور دل کھول کر فراغت سے اللہ پر اعتراض کیجئے کہ وہ تو غیر مکلف اور آزاد ہیں، پھر ان کو شرعی طور پر فن کرنے کی کیا ضرورت؟حالانکہ جس طرح یہ مسلّم ہے کہ یہ کوا دراصل فرشتہ تھا، جب بشکل غراب تعلیم کے لیے آیا تھا اور اس نے دوسرے حقیقی کوے کو مار کر دفن کیا، اسی طرح ان بندورں نے بھی، جو تمام جن تھے، اس جنگل میں بندورں کی شکل میں نمودار ہو کر ایک کافر مشرک کو قدرت کا کرشمہ دکھلایا۔

فتح الباری میں ہے:
«فلعل ھؤلاء كانوا من الجن، وإنھم من جملة المكلفين ... إلی قوله: فلا يستلزم إيقاع الكتليف علی الحيوان.»
یہ لوگ جنوں سے تھے اور وہ مثل انسان کے مکلّف ہیں، پس حیوان کے مکلّف ہونے کا الزام اٹھ گیا۔ [فتح الباري:160/7]

آپ نے (معترض، منکرین حدیث نے) جو رسالہ کے [ص: 16] میں ابن عبدالبر کا قول عینی سے نقل کیا ہے، اس میں بھی آگے صاف موجود ہے:
«كانوا من الجن، لأن العبادات في الجن والإنس دون غيرھا.»
یعنی وہ جنوں سے تھے اور عبادت کے مکلّف جن و انس ہیں نہ کہ غیر۔ [عمدة القاري:300/16]

پس آپ کا اعتراض اٹھ گیا اور اس سے روایت کی صحت پر بھی کچھ بٹہ نہیں لگا، کیونکہ جس امر کی بنا پر آپ نے اپنے رسالے کے صفحہ [17] کے نصف صفحہ تک روایت پر کلام کیا ہے اور روات کی عدم ثقاہت یوں ہی فرضاً ثابت کی ہے، وہ باطل ہو گئی۔

آئیے اب ہم آپ کو اس روایت کی بابت کرمانی کا قول سنا دیں، فرماتے ہیں:
«الحديث المذ كور في معظم الاصول التي وقفنا عليھا.»
یعنی یہ روایت معظم اصول کی ہے اور نہایت معتبر ہے۔ [فتح الباري:433/15]

غرض روایت مذکورہ میں کسی طرح کا کلام نہیں ہو سکتا۔
   دفاع صحیح بخاری، حدیث/صفحہ نمبر: 128   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3849  
حدیث حاشیہ:

اس واقعے کی تفصیل اس طرح ہے:
عمر و بن میمون کہتے ہیں کہ میں یمن میں اپنی بکریاں چرا رہا تھا میں نے دیکھا کہ ایک بندر، بندریا کولے کر آیا اور اس کا ہاتھ اپنے سر کے نیچے رکھ کر سوگیا۔
اس دوران میں ایک چھوٹا بندرآیا۔
اس نے بندریا کو اشارہ کیا تو اس نے آہستہ سے اپنا ہاتھ بندر کے نیچے سے نکالا اور چھوٹے بندر کے ساتھ چلی گئی پھر اس نے صحبت کی، میں انھیں دیکھ رہاتھا۔
فراغت کے بعد بندریا واپس آئی اور اپنا ہاتھ بندر کے نیچے کرنے لگی۔
اتنے میں وہ بیدار ہو گیا اور ایک چیخ ماری تو بندر جمع ہوگئے۔
یہ اس بندریا کی طرف اشارہ کرتا اور چلا رہاتھا۔
آخر دوسرے بندر ادھر اُدھر گئے تو اس چھوٹے بندر کو پکڑ لائے جسے میں نے بھی پہچان لیا، پھر انھوں نے ان کے لیےایک گڑھا کھودا اور دونوں کو اس میں کھڑا کر کے سنگسار کر ڈالا۔
اس وقت میں نے رجم کا عمل انسانوں کے علاوہ جانوروں میں دیکھا۔
(فتح الباري: 202/7)

اس حدیث پر منکرین حدیث نے اعتراض کیا ہے کہ عمرو بن میمون نے کیسے سمجھ لیا کہ اس بندر نے زنا کیا ہے کیونکہ جانوروں میں تو سلسلہ ازواج نہیں ہے اور نہ بندریا کسی کی بیوی ہی تھی، پھر انھیں رجم کرنے کا کیا مطلب؟ غیر مکلف کی طرف زنا کی نسبت کرنا پھر ان پر حدود رجم قائم کرنا عجیب بات ہے؟ لیکن کیا یہ بعید از عقل ہے کہ زنا کی برائی، گندگی اور خرابی بیان کرنا مقصود ہو۔
زنا اور بد کرداری اس قدر معیوب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض حیوانات میں اس سے نفرت کا ادراک پیدا کیا اور انھوں نے اس عمل پر حدرجم جاری کی، چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ نے اس سےملتا جلتا ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک گھوڑے کو نسل کشی کے لیے اس گھوڑی کے پاس لایا گیا جس کے بطن سے وہ پیدا ہو اتھا لیکن گھوڑے نے اس سے جفتی نہ کی پھر لوگوں نے گھوڑی کو بند کمرے میں رکھا اور اس پر کپڑے ڈال کر گھوڑے کو اس پر داخل کیا تو اس نے جفتی کی۔
جب اس نے اپنی ماں کی بو سونگھی تو غیرت کے مارے اپنے آلہ تناسل کو چبا ڈالا۔
حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ جب گھوڑے میں اللہ تعالیٰ نے یہ ادراک پیدا کردیا جو ذہانت و فطانت میں بندروں سے بہت پیچھے ہے تو بندروں میں اس ادراک کا پیدا ہونا ناممکن نہیں جو بے شمار عادات میں انسانوں سے ملتے جلتے ہیں۔
(فتح الباري: 203/7)

واضح رہے کہ اس روایت کے تمام راوی ثقہ اور صدوق ہیں خود عمروبن میمون مشہور تابعی اور ثقہ عابد تھے۔
سند کے اعتبار سے اس روایت پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا البتہ روایت کے لحاظ سے اسے محل نظر ٹھہرایا گیا ہے ہمارے نزدیک زنا کی گندگی اور خرابی ظاہر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے عمرو بن میمون کو اپنی نشانی دکھائی جسے انھوں نے آگے بیان کیا ہے حیوانات کے اندر بعض اوقات اس طرح کا ادراک ممکن ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر ؒ کے بیان کردہ واقعے سے معلوم ہوتا ہے 4حافظ ابن حجر نے اس احتمال کو بھی ذکر کیا ہے کہ یہ بندر جن تھے جنھوں نے حیوانات کی شکل اختیار کر رکھی تھی اور جنات بھی انسانوں کی طرح شریعت کے مکلف ہیں اور ان پر حدود کا نفاذ کیا جاتا ہے جنوں کا وجود قرآن کریم سے ثابت ہے پھر جنوں کا حیوانات کی شکل اختیار کرنا بھی صحیح احادیث سے ثابت ہے جیسا کہ ایک جن نے سانپ کی شکل اختیار کر کے انصاری نوجوان کو مار دیا تھا۔
(صحیح مسلم، السلام، حدیث: 5839۔
(2236)
اگر بندر کی شکل اختیار کیے جن زنا کا ارتکاب کریں تو ان پر حد کیوں نہ جاری کی جائے جب کہ شادی شدہ زانی کو سنگسار کرناصحیح و متواتر احادیث سے ثابت ہے۔
بہر حال نقل روایت اور عقل و روایت کے اعتبار سے صحیح بخاری کی اس حدیث پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
منکرین حدیث تو اپنی عادت سے مجبور ہیں۔
واللہ أعلم المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3849