صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
The Book of The Times of As-Salat (The Prayers) and Its Superiority
41. بَابُ السَّمَرِ مَعَ الضَّيْفِ وَالأَهْلِ:
41. باب: اپنی بیوی یا مہمان سے رات کو (عشاء کے بعد) گفتگو کرنا۔
(41) Chapter. To talk with the family and the guests after the Isha prayer.
حدیث نمبر: 602
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو النعمان، قال: حدثنا معتمر بن سليمان، قال: حدثنا ابي، حدثنا ابو عثمان، عن عبد الرحمن بن ابي بكر، ان اصحاب الصفة كانوا اناسا فقراء، وان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" من كان عنده طعام اثنين فليذهب بثالث، وإن اربع فخامس او سادس، وان ابا بكر جاء بثلاثة، فانطلق النبي صلى الله عليه وسلم بعشرة، قال: فهو انا وابي وامي، فلا ادري، قال: وامراتي وخادم بيننا وبين بيت ابي بكر، وإن ابا بكر تعشى عند النبي صلى الله عليه وسلم ثم لبث حيث صليت العشاء، ثم رجع فلبث حتى تعشى النبي صلى الله عليه وسلم، فجاء بعد ما مضى من الليل ما شاء الله، قالت له امراته: وما حبسك عن اضيافك او قالت ضيفك، قال: اوما عشيتيهم، قالت: ابوا حتى تجيء، قد عرضوا فابوا، قال: فذهبت انا فاختبات، فقال: يا غنثر، فجدع وسب، وقال كلوا لا هنيئا، فقال: والله لا اطعمه ابدا وايم الله ما كنا ناخذ من لقمة إلا ربا من اسفلها اكثر منها، قال: يعني حتى شبعوا وصارت اكثر مما كانت قبل ذلك، فنظر إليها ابو بكر فإذا هي كما هي او اكثر منها، فقال لامراته: يا اخت بني فراس، ما هذا؟ قالت: لا وقرة عيني، لهي الآن اكثر منها قبل ذلك بثلاث مرات، فاكل منها ابو بكر وقال: إنما كان ذلك من الشيطان يعني يمينه، ثم اكل منها لقمة، ثم حملها إلى النبي صلى الله عليه وسلم فاصبحت عنده، وكان بيننا وبين قوم عقد فمضى الاجل ففرقنا اثنا عشر رجلا مع كل رجل منهم اناس الله اعلم كم مع كل رجل، فاكلوا منها اجمعون او كما قال".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، أَنَّ أَصْحَابَ الصُّفَّةِ كَانُوا أُنَاسًا فُقَرَاءَ، وَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ اثْنَيْنِ فَلْيَذْهَبْ بِثَالِثٍ، وَإِنْ أَرْبَعٌ فَخَامِسٌ أَوْ سَادِسٌ، وَأَنَّ أَبَا بَكْرٍ جَاءَ بِثَلَاثَةٍ، فَانْطَلَقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَشَرَةٍ، قَالَ: فَهُوَ أَنَا وَأَبِي وَأُمِّي، فَلَا أَدْرِي، قَالَ: وَامْرَأَتِي وَخَادِمٌ بَيْنَنَا وَبَيْنَ بَيْتِ أَبِي بَكْرٍ، وَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ تَعَشَّى عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ لَبِثَ حَيْثُ صُلِّيَتِ الْعِشَاءُ، ثُمَّ رَجَعَ فَلَبِثَ حَتَّى تَعَشَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ بَعْدَ مَا مَضَى مِنَ اللَّيْلِ مَا شَاءَ اللَّهُ، قَالَتْ لَهُ امْرَأَتُهُ: وَمَا حَبَسَكَ عَنْ أَضْيَافِكَ أَوْ قَالَتْ ضَيْفِكَ، قَالَ: أَوَمَا عَشَّيْتِيهِمْ، قَالَتْ: أَبَوْا حَتَّى تَجِيءَ، قَدْ عُرِضُوا فَأَبَوْا، قَالَ: فَذَهَبْتُ أَنَا فَاخْتَبَأْتُ، فَقَالَ: يَا غُنْثَرُ، فَجَدَّعَ وَسَبَّ، وَقَالَ كُلُوا لَا هَنِيئًا، فَقَالَ: وَاللَّهِ لَا أَطْعَمُهُ أَبَدًا وَايْمُ اللَّهِ مَا كُنَّا نَأْخُذُ مِنْ لُقْمَةٍ إِلَّا رَبَا مِنْ أَسْفَلِهَا أَكْثَرُ مِنْهَا، قَالَ: يَعْنِي حَتَّى شَبِعُوا وَصَارَتْ أَكْثَرَ مِمَّا كَانَتْ قَبْلَ ذَلِكَ، فَنَظَرَ إِلَيْهَا أَبُو بَكْرٍ فَإِذَا هِيَ كَمَا هِيَ أَوْ أَكْثَرُ مِنْهَا، فَقَالَ لِامْرَأَتِهِ: يَا أُخْتَ بَنِي فِرَاسٍ، مَا هَذَا؟ قَالَتْ: لَا وَقُرَّةِ عَيْنِي، لَهِيَ الْآنَ أَكْثَرُ مِنْهَا قَبْلَ ذَلِكَ بِثَلَاثِ مَرَّاتٍ، فَأَكَلَ مِنْهَا أَبُو بَكْرٍ وَقَالَ: إِنَّمَا كَانَ ذَلِكَ مِنَ الشَّيْطَانِ يَعْنِي يَمِينَهُ، ثُمَّ أَكَلَ مِنْهَا لُقْمَةً، ثُمَّ حَمَلَهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَصْبَحَتْ عِنْدَهُ، وَكَانَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمٍ عَقْدٌ فَمَضَى الْأَجَلُ فَفَرَّقَنَا اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا مَعَ كُلِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ أُنَاسٌ اللَّهُ أَعْلَمُ كَمْ مَعَ كُلِّ رَجُلٍ، فَأَكَلُوا مِنْهَا أَجْمَعُونَ أَوْ كَمَا قَالَ".
ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ سلیمان بن طرخان نے، کہا کہ ہم سے ابوعثمان نہدی نے عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما سے یہ حدیث بیان کی کہ اصحاب صفہ نادار مسکین لوگ تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے گھر میں دو آدمیوں کا کھانا ہو تو وہ تیسرے (اصحاب صفہ میں سے کسی) کو اپنے ساتھ لیتا جائے۔ اور جس کے ہاں چار آدمیوں کا کھانا ہے تو وہ پانچویں یا چھٹے آدمی کو سائبان والوں میں سے اپنے ساتھ لے جائے۔ پس ابوبکر رضی اللہ عنہ تین آدمی اپنے ساتھ لائے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دس آدمیوں کو اپنے ساتھ لے گئے۔ عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ گھر کے افراد میں اس وقت باپ، ماں اور میں تھا۔ ابوعثمان راوی کا بیان ہے کہ مجھے یاد نہیں کہ عبدالرحمٰن بن ابی بکر نے یہ کہا یا نہیں کہ میری بیوی اور ایک خادم جو میرے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ دونوں کے گھر کے لیے تھا یہ بھی تھے۔ خیر ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں ٹھہر گئے۔ (اور غالباً کھانا بھی وہیں کھایا۔ صورت یہ ہوئی کہ) نماز عشاء تک وہیں رہے۔ پھر (مسجد سے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارک میں آئے اور وہیں ٹھہرے رہے تاآنکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کھانا کھا لیا۔ اور رات کا ایک حصہ گزر جانے کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے چاہا تو آپ گھر تشریف لائے تو ان کی بیوی (ام رومان) نے کہا کہ کیا بات پیش آئی کہ مہمانوں کی خبر بھی آپ نے نہ لی، یا یہ کہ مہمان کی خبر نہ لی۔ آپ نے پوچھا، کیا تم نے ابھی انہیں رات کا کھانا نہیں کھلایا۔ ام رومان نے کہا کہ میں کیا کروں آپ کے آنے تک انہوں نے کھانے سے انکار کیا۔ کھانے کے لیے ان سے کہا گیا تھا لیکن وہ نہ مانے۔ عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں ڈر کر چھپ گیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پکارا اے غنثر! (یعنی او پاجی) آپ نے برا بھلا کہا اور کوسنے دئیے۔ فرمایا کہ کھاؤ تمہیں مبارک نہ ہو! اللہ کی قسم! میں اس کھانے کو کبھی نہیں کھاؤں گا۔ (آخر مہمانوں کو کھانا کھلایا گیا) (عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے کہا) اللہ گواہ ہے کہ ہم ادھر ایک لقمہ لیتے تھے اور نیچے سے پہلے سے بھی زیادہ کھانا ہو جاتا تھا۔ بیان کیا کہ سب لوگ شکم سیر ہو گئے۔ اور کھانا پہلے سے بھی زیادہ بچ گیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو کھانا پہلے ہی اتنا یا اس سے بھی زیادہ تھا۔ اپنی بیوی سے بولے۔ بنوفراس کی بہن! یہ کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا کہ میری آنکھ کی ٹھنڈک کی قسم! یہ تو پہلے سے تین گنا ہے۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی وہ کھانا کھایا اور کہا کہ میرا قسم کھانا ایک شیطانی وسوسہ تھا۔ پھر ایک لقمہ اس میں سے کھایا۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بقیہ کھانا لے گئے اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ وہ صبح تک آپ کے پاس رکھا رہا۔ عبدالرحمٰن نے کہا کہ ہم مسلمانوں کا ایک دوسرے قبیلے کے لوگوں سے معاہدہ تھا۔ اور معاہدہ کی مدت پوری ہو چکی تھی۔ (اس قبیلہ کا وفد معاہدہ سے متعلق بات چیت کرنے مدینہ میں آیا ہوا تھا) ہم نے ان میں سے بارہ آدمی جدا کئے اور ہر ایک کے ساتھ کتنے آدمی تھے اللہ کو ہی معلوم ہے ان سب نے ان میں سے کھایا۔ عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے کچھ ایسا ہی کہا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu `Uthman: `Abdur Rahman bin Abi Bakr said, "The Suffa Companions were poor people and the Prophet said, 'Whoever has food for two persons should take a third one from them (Suffa companions). And whosoever has food for four persons he should take one or two from them' Abu Bakr took three men and the Prophet took ten of them." `Abdur Rahman added, my father my mother and I were there (in the house). (The sub-narrator is in doubt whether `Abdur Rahman also said, 'My wife and our servant who was common for both my house and Abu Bakr's house). Abu Bakr took his supper with the Prophet and remained there till the `Isha' prayer was offered. Abu Bakr went back and stayed with the Prophet till the Prophet took his meal and then Abu Bakr returned to his house after a long portion of the night had passed. Abu Bakr's wife said, 'What detained you from your guests (or guest)?' He said, 'Have you not served them yet?' She said, 'They refused to eat until you come. The food was served for them but they refused." `Abdur Rahman added, "I went away and hid myself (being afraid of Abu Bakr) and in the meantime he (Abu Bakr) called me, 'O Ghunthar (a harsh word)!' and also called me bad names and abused me and then said (to his family), 'Eat. No welcome for you.' Then (the supper was served). Abu Bakr took an oath that he would not eat that food. The narrator added: By Allah, whenever any one of us (myself and the guests of Suffa companions) took anything from the food, it increased from underneath. We all ate to our fill and the food was more than it was before its serving. Abu Bakr looked at it (the food) and found it as it was before serving or even more than that. He addressed his wife (saying) 'O the sister of Bani Firas! What is this?' She said, 'O the pleasure of my eyes! The food is now three times more than it was before.' Abu Bakr ate from it, and said, 'That (oath) was from Satan' meaning his oath (not to eat). Then he again took a morsel (mouthful) from it and then took the rest of it to the Prophet. So that meal was with the Prophet. There was a treaty between us and some people, and when the period of that treaty had elapsed the Prophet divided us into twelve (groups) (the Prophet's companions) each being headed by a man. Allah knows how many men were under the command of each (leader). So all of them (12 groups of men) ate of that meal."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 10, Number 576


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري3581عبد الرحمن بن عبدمن كان عنده طعام اثنين فليذهب بثالث ومن كان عنده طعام أربعة فليذهب بخامس أو سادس
   صحيح البخاري602عبد الرحمن بن عبدمن كان عنده طعام اثنين فليذهب بثالث وإن أربع فخامس أو سادس
   صحيح مسلم5365عبد الرحمن بن عبدمن كان عنده طعام اثنين فليذهب بثلاثة ومن كان عنده طعام أربعة فليذهب بخامس بسادس

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 602 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 602  
تشریح:
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مہمانوں کو گھر بھیج دیا تھا اور گھر والوں کو کہلوا بھیجا تھا کہ مہمانوں کو کھانا کھلا دیں۔ لیکن مہمان یہ چاہتے تھے کہ آپ ہی کے ساتھ کھانا کھائیں۔ ادھر آپ مطمئن تھے۔ اس لیے یہ صورت پیش آئی۔ پھر آپ کے آنے پر انھوں نے کھانا کھایا۔ دوسری روایتوں میں یہ بھی ہے کہ سب نے پیٹ بھر کر کھانا کھا لیا۔ اور اس کے بعد بھی کھانے میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ یہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کرامت تھی۔ کرامت اولیاء برحق ہے۔ مگر اہل بدعت نے جو جھوٹی کرامتیں گھڑ لی ہیں۔ وہ محض لایعنی ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں ہدایت دے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 602   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:602  
حدیث حاشیہ:
(1)
دن کے اوقات میں کاروباری مصروفیات اور دیگر مشاغل کی وجہ سے انسان گھریلو ضروریات کے متعلق اہل خانہ سے تبادلۂ خیالات اور باہمی مشاورت کےلیے فرصت نہیں پاسکتا، اس لیے رات کے وقت کھانے وغیرہ سے فراغت کے بعد بیوی بچوں سے بات چیت کرنے کی گنجائش رکھی گئی ہے، نیز مہمان کی آمد کا کوئی طے شدہ وقت نہیں ہوتا، وہ کسی بھی وقت حاضر ہوسکتا ہے۔
عشاء کے بعد اس کے ساتھ مذاکرات کی ضرورت پیش آسکتی ہے، اس لیے شریعت نے ایسی ہنگامی ضروریات کا خیال رکھا ہے۔
امام بخاری ؒ اللہ چونکہ بندوں کی ضروریات کے ساتھ نصوص پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں، اس لیے آپ نے قائم کردہ عنوان کو درج بالا حدیث سے ثابت کیا ہے۔
(2)
اس حدیث سے درج ذیل مسائل کا اثبات ہوتا ہے:
٭جب لوگوں پر رزق کی تنگی ہوتو حاکم وقت ان کی کفالت بقدر وسعت دوسرے لوگوں پر ڈال سکتا ہے۔
٭رئیس قوم کے ساتھ کھانا تناول کرنے کی گنجائش ہے، اگرچہ گھر میں مہمان موجود ہوں۔
٭صاحب منزل کی طرح دیگر افراد کو بھی چاہیے کہ وہ مہمانوں کا پورا پورا خیال رکھیں۔
٭مہمانوں کو چاہیے کہ وہ صاحب منزل کے احترام کے پیش نطر کھانے کے لیے اس کا انتطار کریں۔
٭کوئی بابرکت چیز گھر میں آئے تو اہل علم اور صاحبان فضل کوبھی اس میں شریک کرنا چاہیے۔
٭اولیاء کی کرامات برحق ہیں، لیکن اہل بدعت نے اس آڑ میں جو شاخسانہ کھڑا کیا ہے وہ خود ساختہ ہے۔
٭کسی کوتاہی پر خوف اور ڈر کے پیش نظر اپنے والد یا بڑے کی نگاہوں سے اوجھل ہوجانا جائز ہے۔
٭اولاد کو کسی کوتاہی کی وجہ سے ڈانٹ پلانا اور اسے برا بھلا کہنا درست ہے۔
٭اگر کسی ناروابات پر قسم اٹھالی جائے تو اسے توڑا جاسکتا ہے۔
٭اگر ضرورت سے زائد کھانا موجود ہو تو اگلے دن کےلیے محفوظ کیا جاسکتا ہے۔
٭اگر صاحب منزل نے ہدایت کردی ہو تو مہمان کو اس کی عدم موجودگی میں کھانا کھالینا چاہیے۔
(عمدة القاري: 142/4) (3)
چونکہ کتاب المواقیت کا اختتام ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے حسب عادت براعت اختتام کا پوراپورا خیال رکھا ہے۔
اس حدیث میں (مضى الأجل)
کے الفاظ ہیں۔
ان سے موت کی طرف اشارہ ہے۔
انسان کو چاہیے کہ وہ ہر وقت موت کی تیاری میں رہے۔
دنیا کی مہلت کسی بھی وقت ختم ہوسکتی ہے۔
والله المستعان.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 602   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5365  
حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اصحاب صفہ محتاج لوگ تھے، ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہے، وہ تین کو لے اور جس کے پاس چار کا کھانا، وہ پانچواں چھٹا لے جائے۔ یا جو آپﷺ نے فرمایا: اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تین افراد کو لے آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس افراد کو لے گئے اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تین افراد لائے، کیونکہ گھر میں میں، میرا باپ اور میری ماں تھے، (اور... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:5365]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
يا عنثر:
اے نادان،
جاہل،
کمینے،
کیونکہ انہوں نے سمجھا عبدالرحمٰن نے مہمانوں کو کھانا کھلانے میں کوتاہی کی ہے،
اس لیے،
انہیں برا بھلا کہا اور ناک کٹنے کی بات کی۔
(2)
لاهنئيا:
تم نے گھر والوں کو پریشان کیا اور بیٹے کی بجائے باپ کی حاضری پر اصرار کیا،
اس لیے کھانا تمہارے لیے خوش گوار نہ ہو،
یا کھانا پڑے پڑے ٹھنڈا ہوگیا،
اس لیے خوش گوار نہیں ہے۔
فوائد ومسائل:
اصحاب صفہ،
طالب علم تھے،
جو گھر بار چھوڑ کر تعلیم کے لیے آپ کے پاس آتے تھے اور مسجد کے چھپر میں ہی رہتے تھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے کھانے کا انتظام فرماتے اور وہ خود بھی اس کے لیے کوشش کرتے اور آپ نے لوگوں کے دلوں میں ان کے لیے ہمدردی اور خیرخواہی کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے ایک دن ساتھیوں سے فرمایا،
ہر آدمی اپنی وسعت و گنجائش کے مطابق ان میں سے ایک یا دو کو لے جائے اور دوسروں کو ترغیب دینے کے لیے خود اپنے گھر کے افراد کی تعداد کے مطابق دس آدمیوں کو لے گئے،
اس طرح آپ نے آغاز اپنے گھر سے کیا اور سب سے زیادہ جودوسخا کا مظاہرہ فرمایا اور یہ اسوہ حسنہ ہی دراصل لوگوں کو حوصلہ دلاتا ہے اور ان کے اندر کام کرنے کی رغبت پیدا کرتا ہے،
جو بدقسمتی سے آج مفقود ہے،
کوئی دینی و دنیوی لیڈر دوسروں کے لیے نمونہ نہیں بنتا صرف زبانی کلامی نعروں سے لوگوں کا پیٹ بھرتا ہے،
آج یہ لوگ اپنی تجوریوں کا منہ کھول دیں تو لوگ بھی یقینا ان کی اقتدا میں اپنا مال فقراء اور مساکین کو دینے کے لیے تیار ہو جائیں اور غربت کا علاج ہو جائے اور اس حدیث سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قلبی تعلق اور ربط بھی واضح ہوتا ہے کہ وہ اپنے مہمان اپنے بیٹے کے سپرد کر کے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے گئے اور رات گئے تک،
جب تک آپ سونے نہیں گئے،
گھر واپس نہیں آئے اور پھر مہمانوں کی خدمت میں کوتاہی کا مرتکب خیال کر کے اپنے شادی شدہ بیٹے کو بھی برا بھلا کہا اور وہ ڈر کے مارے چھپ گیا،
جس سے معلوم ہوا وہ دوسروں کے لیے تو بہت نرم اور شفیق تھے،
لیکن بیٹوں کا سخت محاسبہ کرتے تھے اور انہوں نے مہمانوں کے بیجا اصرار پر غصہ کا اظہار فرماتے ہوئے،
کھانا کھانے سے انکار کیا اور قسم اٹھا دی،
لیکن جب مہمانوں نے بھی قسم اٹھا دی تو اپنی قسم کو توڑ ڈالا تاکہ مہمان بھوکے نہ رہیں اور اس کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے ان کی کرامت ظاہر کر دی کہ کھانے میں برکت ڈال دی،
جس کو دیکھ کر انہوں نے دوبارہ لقمہ لیا اور پھر کھانا آپ کو پیش کر دیا،
جس میں آپ کی کرامت کا ظہور ہوا کہ وہ کھانا بارہ افراد کے ماتحت افراد کے لیے کافی ہو گیا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5365   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3581  
3581. حضرت عبدالرحمان بن ابو بکر ؓ سے روایت ہے کہ اصحاب صفہ بہت نادار اور مفلس لوگ تھے۔ نبی کریم ﷺ نے ایک دن فرمایا: جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ تیسرے آدمی کو ساتھ لے جائے اور جس کے پاس چار آدمیوں کا کھانا ہووہ پانچویں چھٹے کو ساتھ لے جائے۔ یااسی طرح آپ نے کچھ فرمایا۔ حضرت ابوبکر ؓ اپنے ساتھ تین ہمان لے آئے جبکہ نبی کریم ﷺ اپنے ساتھ دس مہمانوں کو لے کر گئے۔ بہرحال حضرت ابوبکر ؓ گھر کے افراد سے تین آدمی زائد لائے تھے کیونکہ گھر میں میں، میرا باپ اور میری والدہ وغیرہ تھے۔ (راوی کہتا ہے کہ) مجھے یاد نہیں کہ اس(عبدالرحمان ؓ) نے بیوی بھی کہا تھا یا نہیں۔ ایک خادم جو میرے اور حضرت ابوبکر ؓ کے گھر میں کام کرتا تھا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے شام کاکھانا نبی کریم ﷺ کے ساتھ کھایا، پھر کچھ وقت وہاں ٹھہرے اور نماز عشاء وہیں ادا کی حتیٰ کہ رسول اللہ ﷺ نے شام کا کھانا تناول فرمایا۔ حضرت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3581]
حدیث حاشیہ:
حضرت صدیق اکبر ؓ کی اس بیوی کو ام رومان کہاجاتا تھا۔
ام رومان فراس بن غنم بن مالک بن کنانہ کی اولاد میں سے تھیں عرب کے محاورہ میں جو کوئی کسی قبیلے سے ہوتا ہے اس کو اس کا بھائی کہتے ہیں۔
اس حدیث میں بھی آپ کے ایک عظیم معجزہ کا ذکر ہے۔
یہی مطابقت باب ہے، اس حدیث کے ذیل میں مولانا وحید الزماں مرحوم لکھتے ہیں، ہوا یہ ہوگا کہ حضرت ابوبکر ؓ نے شام کو کھانا آنحضرت ﷺ کے گھر کھالیا ہوگا مگر آنحضرت ﷺ نے نہ کھایا ہوگا۔
عشاءکے بعد آپ نے کھایاہوگا۔
اس حدیث کے ترجمہ میں بہت اشکال ہے اور بڑی مشکل سے معنی جمتے ہیں ورنہ تکرار بے فائدہ لازم آتی ہے اور ممکن ہے راوی نے الفاظ میں غلطی کی ہو۔
چنانچہ مسلم کی روایت میں دوسرے لفظ تعشی کے بدل حتی نعس ہے یعنی آنحضرت ﷺ کے پاس اتنا ٹھہرے کہ آپ اونگھنے لگے۔
قاضی عیاض نے کہا یہی ٹھیک ہے۔
بعض راویوں نے فتفرقنا اثنا عشر رجلا نقل کیا ہے، جس کے مطابق یہاں ترجمہ کیا گیا اور بعض نسخوں میں ففرقنا یعنی ہماری بارہ ٹکڑیاں ہوگئیں۔
ہرٹکڑی ایک آدمی کے تحت میں تھی۔
بعض نسخوں میں یوں ہے کہ بارہ آدمیوں کو مسلمانوں نے نقیب بنایا۔
بعض میں فقرینا ہے۔
یعنی ہم نے بارہ آدمیوں کی ضیافت کی۔
ہر آدمی کے ساتھ کتنے آدمی تھے یہ اللہ ہی کو معلوم ہے۔
اس حدیث شریف میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی کرامت مذکور ہے مگر اولیاءاللہ کی کرامت ان کے پیغمبروں کا معجزہ ہے کیونکہ پیغمبرہی کی تابعداری کی برکت سے انکو یہ درجہ ملاہے۔
اس لیے باب کا مطلب حاصل ہوگیا۔
یہ حدیث اوپر گزر چکی ہے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3581   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3581  
3581. حضرت عبدالرحمان بن ابو بکر ؓ سے روایت ہے کہ اصحاب صفہ بہت نادار اور مفلس لوگ تھے۔ نبی کریم ﷺ نے ایک دن فرمایا: جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ تیسرے آدمی کو ساتھ لے جائے اور جس کے پاس چار آدمیوں کا کھانا ہووہ پانچویں چھٹے کو ساتھ لے جائے۔ یااسی طرح آپ نے کچھ فرمایا۔ حضرت ابوبکر ؓ اپنے ساتھ تین ہمان لے آئے جبکہ نبی کریم ﷺ اپنے ساتھ دس مہمانوں کو لے کر گئے۔ بہرحال حضرت ابوبکر ؓ گھر کے افراد سے تین آدمی زائد لائے تھے کیونکہ گھر میں میں، میرا باپ اور میری والدہ وغیرہ تھے۔ (راوی کہتا ہے کہ) مجھے یاد نہیں کہ اس(عبدالرحمان ؓ) نے بیوی بھی کہا تھا یا نہیں۔ ایک خادم جو میرے اور حضرت ابوبکر ؓ کے گھر میں کام کرتا تھا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے شام کاکھانا نبی کریم ﷺ کے ساتھ کھایا، پھر کچھ وقت وہاں ٹھہرے اور نماز عشاء وہیں ادا کی حتیٰ کہ رسول اللہ ﷺ نے شام کا کھانا تناول فرمایا۔ حضرت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3581]
حدیث حاشیہ:

اصحاب صفہ مسجد کے آخری حصے میں رہا کرتے تھے جونادار لوگوں کے لیے تیار کیا گیا تھا جن کے پاس رہنے کے لیے کوئی جگہ یا مکان نہ تھا اور ان کا وہاں اہل و عیال بھی نہ ہوتا تھا ان میں سے کسی کی شادی ہو جانے فوت ہو جانے یا سفر پر جانے کی صورت میں یہ حضرات کم و بیش ہوتے رہتے تھے وہ لوگوں کے مہمان تھے اور رسول اللہ ﷺ سے علمی فائدہ حاصل کرتے تھے۔

اس حدیث میں حضرت ابو بکر ؓ کی کرامت کا ذکر ہے مگر اولیاء کی کرامت بھی داصل ان کے پیغمبر کا معجزہ ہوتی ہے کیونکہ رسول کی فرمانبرداری کے نتیجے میں انھیں کرامت کا اعزاز ملتا ہے عنوان معجزات اور کرامات دونوں کو شامل ہے بعض شارحین نے اعتراض کیا ہے کہ عنوان علامات نبوت کا ہے جبکہ اس حدیث میں حضرت ابو بکر ؓ کی کرامت کا ذکر ہے اس لیے یہ حدیث عنوان کے مطابق نہیں لیکن اس عتراض کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ اس کھانے میں پوری برکت تو رسول اللہ ﷺ کے پاس آنے کے بعد ہوئی اس لیے اس کھانے کو تمام لشکر نے کھایا اور سب اس سے سیر ہو گئے اگرچہ اس برکت کی ابتدا حضرت ابو بکر ؓ کے گھر سے ہوئی تھی۔
اس طرح یہ حدیث معجزہ اور کرامت دونوں پر مشتمل ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3581   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.