(موقوف) حدثنا محمد بن محبوب، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن محمد، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال:" لم يكذب إبراهيم عليه السلام إلا ثلاث كذبات ثنتين منهن في ذات الله عز وجل قوله إني سقيم سورة الصافات آية 89 وقوله بل فعله كبيرهم هذا سورة الانبياء آية 63، وقال: بينا هو ذات يوم وسارة إذ اتى على جبار من الجبابرة، فقيل له: إن ها هنا رجلا معه امراة من احسن الناس فارسل إليه فساله عنها، فقال: من هذه، قال: اختي فاتى سارة، قال: يا سارة ليس على وجه الارض مؤمن غيري وغيرك، وإن هذا سالني فاخبرته انك اختي فلا تكذبيني فارسل إليها فلما دخلت عليه ذهب يتناولها بيده فاخذ، فقال: ادعي الله لي ولا اضرك فدعت الله فاطلق، ثم تناولها الثانية فاخذ مثلها او اشد، فقال: ادعي الله لي ولا اضرك فدعت فاطلق فدعا بعض حجبته، فقال: إنكم لم تاتوني بإنسان إنما اتيتموني بشيطان فاخدمها هاجر فاتته وهو قائم يصلي فاوما بيده مهيا، قالت: رد الله كيد الكافر او الفاجر في نحره واخدم هاجر، قال: ابو هريرة تلك امكم يا بني ماء السماء".(موقوف) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" لَمْ يَكْذِبْ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَام إِلَّا ثَلَاثَ كَذَبَاتٍ ثِنْتَيْنِ مِنْهُنَّ فِي ذَاتِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ قَوْلُهُ إِنِّي سَقِيمٌ سورة الصافات آية 89 وَقَوْلُهُ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا سورة الأنبياء آية 63، وَقَالَ: بَيْنَا هُوَ ذَاتَ يَوْمٍ وَسَارَةُ إِذْ أَتَى عَلَى جَبَّارٍ مِنَ الْجَبَابِرَةِ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ هَا هُنَا رَجُلًا مَعَهُ امْرَأَةٌ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ فَسَأَلَهُ عَنْهَا، فَقَالَ: مَنْ هَذِهِ، قَالَ: أُخْتِي فَأَتَى سَارَةَ، قَالَ: يَا سَارَةُ لَيْسَ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ مُؤْمِنٌ غَيْرِي وَغَيْرَكِ، وَإِنَّ هَذَا سَأَلَنِي فَأَخْبَرْتُهُ أَنَّكِ أُخْتِي فَلَا تُكَذِّبِينِي فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا فَلَمَّا دَخَلَتْ عَلَيْهِ ذَهَبَ يَتَنَاوَلُهَا بِيَدِهِ فَأُخِذَ، فَقَالَ: ادْعِي اللَّهَ لِي وَلَا أَضُرُّكِ فَدَعَتِ اللَّهَ فَأُطْلِقَ، ثُمَّ تَنَاوَلَهَا الثَّانِيَةَ فَأُخِذَ مِثْلَهَا أَوْ أَشَدَّ، فَقَالَ: ادْعِي اللَّهَ لِي وَلَا أَضُرُّكِ فَدَعَتْ فَأُطْلِقَ فَدَعَا بَعْضَ حَجَبَتِهِ، فَقَالَ: إِنَّكُمْ لَمْ تَأْتُونِي بِإِنْسَانٍ إِنَّمَا أَتَيْتُمُونِي بِشَيْطَانٍ فَأَخْدَمَهَا هَاجَرَ فَأَتَتْهُ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فَأَوْمَأَ بِيَدِهِ مَهْيَا، قَالَتْ: رَدَّ اللَّهُ كَيْدَ الْكَافِرِ أَوِ الْفَاجِرِ فِي نَحْرِهِ وَأَخْدَمَ هَاجَرَ، قَالَ: أَبُو هُرَيْرَةَ تِلْكَ أُمُّكُمْ يَا بَنِي مَاءِ السَّمَاءِ".
ہم سے محمد بن محبوب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے محمد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابراہیم علیہ السلام نے تین مرتبہ جھوٹ بولا تھا، دو ان میں سے خالص اللہ عزوجل کی رضا کے لیے تھے۔ ایک تو ان کا فرمانا (بطور توریہ کے) کہ ”میں بیمار ہوں“ اور دوسرا ان کا یہ فرمانا کہ ”بلکہ یہ کام تو ان کے بڑے (بت) نے کیا ہے۔“ اور بیان کیا کہ ایک مرتبہ ابراہیم علیہ السلام اور سارہ علیہا السلام ایک ظالم بادشاہ کی حدود سلطنت سے گزر رہے تھے۔ بادشاہ کو خبر ملی کہ یہاں ایک شخص آیا ہوا ہے اور اس کے ساتھ دنیا کی ایک خوبصورت ترین عورت ہے۔ بادشاہ نے ابراہیم علیہ السلام کے پاس اپنا آدمی بھیج کر انہیں بلوایا اور سارہ علیہا السلام کے متعلق پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ میری بہن ہیں۔ پھر آپ سارہ علیہا السلام کے پاس آئے اور فرمایا کہ اے سارہ! یہاں میرے اور تمہارے سوا اور کوئی بھی مومن نہیں ہے اور اس بادشاہ نے مجھ سے پوچھا تو میں نے اس سے کہہ دیا کہ تم میری (دینی اعتبار سے) بہن ہو۔ اس لیے اب تم کوئی ایسی بات نہ کہنا جس سے میں جھوٹا بنوں۔ پھر اس ظالم نے سارہ کو بلوایا اور جب وہ اس کے پاس گئیں تو اس نے ان کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہا لیکن فوراً ہی پکڑ لیا گیا۔ پھر وہ کہنے لگا کہ میرے لیے اللہ سے دعا کرو (کہ اس مصیبت سے نجات دے) میں اب تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ چنانچہ انہوں نے اللہ سے دعا کی اور وہ چھوڑ دیا گیا۔ لیکن پھر دوسری مرتبہ اس نے ہاتھ بڑھایا اور اس مرتبہ بھی اسی طرح پکڑ لیا گیا، بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت اور پھر کہنے لگا کہ اللہ سے میرے لیے دعا کرو، میں اب تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ سارہ علیہا السلام نے دعا کی اور وہ چھوڑ دیا گیا۔ اس کے بعد اس نے اپنے کسی خدمت گار کو بلا کر کہا کہ تم لوگ میرے پاس کسی انسان کو نہیں لائے ہو، یہ تو کوئی سرکش جن ہے (جاتے ہوئے) سارہ علیہ السلام کے لیے اس نے ہاجرہ علیہا السلام کو خدمت کے لیے دیا۔ جب سارہ آئیں تو ابراہیم علیہ السلام کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ آپ نے ہاتھ کے اشارہ سے ان کا حال پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے کافر یا (یہ کہا کہ) فاجر کے فریب کو اسی کے منہ پر دے مارا اور ہاجرہ علیہا السلام کو خدمت کے لیے دیا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے «بني ماء السماء.»(اے آسمانی پانی کی اولاد! یعنی اہل عرب) تمہاری والدہ یہی (ہاجرہ علیہا السلام) ہیں۔
Narrated Abu Huraira: Abraham did not tell a lie except on three occasion. Twice for the Sake of Allah when he said, "I am sick," and he said, "(I have not done this but) the big idol has done it." The (third was) that while Abraham and Sarah (his wife) were going (on a journey) they passed by (the territory of) a tyrant. Someone said to the tyrant, "This man (i.e. Abraham) is accompanied by a very charming lady." So, he sent for Abraham and asked him about Sarah saying, "Who is this lady?" Abraham said, "She is my sister." Abraham went to Sarah and said, "O Sarah! There are no believers on the surface of the earth except you and I. This man asked me about you and I have told him that you are my sister, so don't contradict my statement." The tyrant then called Sarah and when she went to him, he tried to take hold of her with his hand, but (his hand got stiff and) he was confounded. He asked Sarah. "Pray to Allah for me, and I shall not harm you." So Sarah asked Allah to cure him and he got cured. He tried to take hold of her for the second time, but (his hand got as stiff as or stiffer than before and) was more confounded. He again requested Sarah, "Pray to Allah for me, and I will not harm you." Sarah asked Allah again and he became alright. He then called one of his guards (who had brought her) and said, "You have not brought me a human being but have brought me a devil." The tyrant then gave Hajar as a girl-servant to Sarah. Sarah came back (to Abraham) while he was praying. Abraham, gesturing with his hand, asked, "What has happened?" She replied, "Allah has spoiled the evil plot of the infidel (or immoral person) and gave me Hajar for service." (Abu Huraira then addressed his listeners saying, "That (Hajar) was your mother, O Bani Ma-is-Sama (i.e. the Arabs, the descendants of Ishmael, Hajar's son).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 578
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3358
حدیث حاشیہ: روایت میں حضرت ابراہیم ؑ کے متعلق تین جھوٹ کا ذکر ہے جو حقیقت میں جھوٹ نہ تھے۔ کیوں کہ لفظ جھوٹ انبیاءؑ کی شان سے بہت بعید ہے۔ ایسے جھوٹ کو دوسرے لفظوں میں توریہ کہا جاتا ہے۔ ایک توریہ وہ ہے جس کا ذکر قرآن پاک میں آیا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کے ساتھ جانے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ﴿إني سَقِیم﴾ میں اپنے دکھ کی وجہ سے چلنے سے مجبور ہوں۔ وہ دکھ قوم کے افعال اور حرکات بد دیکھ کر دل کے دکھی ہونے پر اشارہ تھا۔ انبیاء و مصلحین اپنی قوم کی خرابیوں پر دل سے کڑھتے رہتے ہیں۔ آیت کا یہی مطلب ہے۔ اس کو توریہ کرکے لفظ جھوٹ سے تعبیر کیاگیا۔ دوسرا ظاہری جھوٹ جو اس حدیث میں مذکور ہے حضرت سارہ ؑ کو اس ظالم بادشاہ کے ظلم سے بچانے کے لیے اپنی بہن قرار دینا۔ یہ دینی اعتبار سے تھا۔ دینی اعتبار سے سارے مومن مرد و عورت بھائی بہن ہوتے ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ کی مراد یہی تھی۔ تیسرا جھوٹ بتوں کے متعلق قرآن مجید میں وارد ہوا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کے بت خانے کو اجاڑ کر کلہاڑا بڑے بت کے ہاتھ میں دے دیا تھا اور دریافت کرنے پر فرمایا تھا کہ یہ کام اس بڑے بت نے کیا ہوگا، بت پرستوں کی حماقت ظاہر کرنے کے لیے یہ طنز کے طور پر فرمایا تھا۔ بطور توریہ اسے بھی جھوٹ کے لفظ سے تعبیر کیاگیا ہے۔ بہرحال اس حدیث پر بھی منکرین حدیث کا اعتراض محض حماقت ہے۔ اللہ ان کو نیک سمجھ عطا کرے۔ آمین۔ روایت میں عربوں کو آسمان سے پانی پینے والی قوم کہاگیا ہے کیوں کہ اہل عرب کا زیادہ تر گزران بارش ہی پر ہے۔ اگرچہ آج کل وہاں کنویں اور نہریں بنائی جارہی ہیں اور یہ سعودی حکومت کے کارنامے ہیں۔ أیدہ اﷲ بنصرہ العزیز آمین۔ حضرت ہاجرہ ؑ اس بادشاہ کی بیٹی تھیں جسے اس نے برکت حاصل کرنے کے لیے حضرت ابراہیم ؑ کے حرم میں داخل کردیا تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3358
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3358
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت ہاجرہ ؓ کی بیٹی تھیں جسے اس نے حصول برکت کے لیے حضرت ابراہیم ؑ کے حرم میں دے دیا تھا۔ یہی عرب کی والدہ ہیں اور انھیں آسمان کا پانی پینے والا کہا گیا ہے کیونکہ اہل عرب کا زیادہ تر گزارا بارش کے پانی پر ہی تھا۔ اگرچہ آج کل کنویں اور نہریں بنادی گئیں ہیں اور یہ سب سعودی حکومت کے کارنامے ہیں۔ ﴿أيَّدَهُ اللهُ بِنَصْرِهِ العَزِيز﴾ 2۔ حضرت ابراہیم ؑ کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”وہ انتہائی سچے انسان اور ایک نبی تھے۔ “(مریم: 19/41) بعض لوگوں نے اس آیت کریمہ کے پیش نظر صحیح بخاری مذکورہ حدیث پر اعتراض کرتے اور اس کی صحت کے متعلق زبان درازی کرتے ہوئے لکھا ہے: ایک گروہ روایت پرستی میں غلو کرکے اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ اسے بخاری ومسلم کے چند راویوں کی صداقت زیادہ عزیز ہے اور اسے اس بات کی پروا نہیں کہ اس سے ایک نبی پر جھوٹ بولنے کا الزام عائد ہوتا ہے، حالانکہ ان تین میں سے دو کا ذکر قرآن کریم میں ہے۔ بتوں کو آپ نے توڑا لیکن پوچھنے پر آپ نے کہہ دیا: ”اس بڑے بہت نے انھیں توڑا ہے۔ “(الأنبیاء: 21/63) اسی طرح جب ان کی قوم جشن منانے کے لیے باہرگئی تو آپ کوساتھ لے جانے کو کہا، آپ نے کہہ دیا: ”میں بیمار ہوں۔ “(الصفت: 89/37) پھر اس وقت جاکر ان کے بت بھی توڑڈالے تو پھر بیمار کیسے تھے؟ کیا یہ باتیں خلاف واقعہ نہیں تھیں؟ دراصل معترضین کا اصل رخ قرآن کریم کی طرف ہونا چاہیے نہ کہ تکذیب حدیث کی طرف پھر رسول اللہ ﷺ نے آغاز حدیث میں یہ الفاظ فرمائے ہیں کہ سیدنا ابراہیم ؑ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، یہ ان کے فی الواقع صدیق ہونے کی بہت بڑی شہادت ہے۔ کہ ان سے 175 سالہ زندگی میں تین سے زیادہ مرتبہ خلاف واقعہ بات سرزد نہیں ہوئی جبکہ ہم لوگ ساری زندگی میں نہیں بلکہ ایک دن رات میں کئی مرتبہ جھوٹ بولتے ہیں۔ اعتراض کرنے والے خود ہی فیصلہ کریں کہ ایک شخص اپنی طویل ترزندگی میں تین سے زیادہ مرتبہ خلاف واقعہ نہ بولے تو اسے صدیق کہا جاسکتا یا نہیں؟ پھر ان تینوں کرنے کے لیے کہیں جیسا کہ حدیث بالا سے ثابت ہے۔ سارہ کا واقعہ اگرچہ یہ بھی اللہ کے لیے تھا لیکن اس میں کچھ حظ انسان بھی پایا جاتا ہے۔ یہ بات بھی انھوں نے اپنی جان بچانے کے لیے کہی تھی۔ اس بادشاہ کادستور تھا کہ وہ حسین عورت کو زبردستی چھین لیتا۔ اگر اس کے ساتھ اس کا خاوند ہوتاتو اسے مروا ڈالتا اور اگر اس کے ساتھ اس کا بھائی یا کوئی دوسرا رشتے دار ہوتا تو اس سے صرف عورت چھینتا مگر اس کی جان لینے سے درگزر کرتاتھا۔ اگرحضرت ابراہیم ؑ نے اپنی جان بچانے کے لیے خلاف واقعہ بات کی تو اس میں کون سی قیامت آگئی۔ حالانکہ وہ بھی ایک طرح سے جھوٹ نہیں بنتا جیسا کہ حدیث کے الفاظ بتا رہے کہ وہ آپ کی دینی بہن تھی۔ اگرجان بچانے کی خاطر مردار کھانا جائز ہےتو خلاف واقعہ بولنے کی اجازت کیوں نہیں۔ جان بچانے کے لیے تو اللہ تعالیٰ نے کلمہ کفر تک کہنے کی بھی اجازت دی ہے بشرط یہ کہ دل میں ایسی کوئی بات نہ ہو۔ (النحل: 106/16) ہمیشہ سچ بولنا، جھوٹ اور خلاف واقعہ بات سے پرہیز کرنا ایک شرعی حکم ہے، تاہم بعض اوقات شریعت میں خلاف واقعہ بات کی اجازت دی گئی ہے، مثلاً: میاں بیوی کے درمیان صلح کرانے کے لیے باتیں بنانے اور خلاف واقعہ باتیں کرنے کی اجازت ہے کیونکہ اس میں خیر اور اصلاح کا پہلو نمایاں ہوتاہے، اسی طرح جہاد میں دشمن کو ہراساں کرنے کے لیے بھی ایسی باتوں کی اجازت ہے، جو خلاف واقعہ ہوں، حالانکہ لغوی اعتبار سے ان باتوں پر بھی کذب کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ بہرحال کسی دینی مقصد کے لیے بطورتعریض والزام ایسی گفتگو کرنا جو بظاہر خلاف واقعہ ہوایسا جھوٹ نہیں جس پر وعید آئی ہو۔ ایسا کرنا نہ صرف جائز بلکہ بعض اوقات ضروری ہوتا ہے۔ ایسی گفتگو کو ظاہر اعتبار سے توجھوٹ کہا جاسکتا ہے لیکن حقیقت میں یہ جھوٹ نہیں بلکہ اسے توریہ کہا جاتا ہے۔ بہرحال یہ حدیث حضرت ابراہیم ؑ کی عظمت کی دلیل ہے، اسی لیے امام بخاری ؒ نے اسے بیان فرمایا ہے۔ اس پر طعن یا اس کی صحت سے انکار کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ سب بے بنیاد باتیں ہیں جو منکرین حدیث نے حدیث سے نفرت پیدا کرنے کے لیے مشہور کررکھی ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3358
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2212
´آدمی اپنی بیوی کو بہن کہہ کر پکارے تو کیسا ہے؟` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابراہیم علیہ السلام نے صرف تین جھوٹ بولے ۱؎ جن میں سے دو اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے تھے، پہلا جب انہوں نے کہا کہ میں بیمار ہوں ۲؎، دوسرا جب انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا: بلکہ یہ تو ان کے اس بڑے کی کارستانی ہے، تیسرا اس موقعہ پر جب کہ وہ ایک سرکش بادشاہ کے ملک سے گزر رہے تھے ایک مقام پر انہوں نے قیام فرمایا تو اس سرکش تک یہ بات پہنچی، اور اسے بتایا گیا کہ یہاں ایک شخص ٹھہرا ہوا ہے اور اس کے ساتھ ایک انتہائی خوبصورت عورت ہے، چنانچہ اس نے ابراہیم علیہ ال۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2212]
فوائد ومسائل: بیوی کو عادتا یا محبت واکرام میں بہن کہنا کسی ظرح روا نہیں لیکن کہیں کسی واقعی شرعی ضرورت سے توریہ کے طور پر کہے تو مباح ہے۔ جیسے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے معروف قصے میں وارد ہوا ہے۔
2۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق اس حدیث کو بعض متجدد ناقابل تسلیم کہتے ہیں۔ بلکہ تمام ذخیرہ احادیث کو مشکوک عجمی سازش اور نہ معلوم کس کس لقب سے یاد کرتے ہیں ان کا انداز تحریر وگفتگو کچھ یوں ہوتا ہے کہ قرآن مجید کے مقابلے میں احادیث کے راویوں کو یوں جھٹلا دینا اور ضعیف کہنا زیادہ بہتر اور آسان ہے کجا یہ کہ قرآن مجید کی تغلیط کی جائے۔ قرآن مجید نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں بصراحت کہا ہےکہ (إِنَّه كانَ صدِّيقًا نَبِيًّا)(مريم:٤١) بلاشبہ وہ انتہائی سچے نبی تھے اس فکر کے حامل لوگوں کو ذرا غور کرنا چاہیے کہ قرآن مجید بھی تو ہمارے پاس ان راویوں کے ذریعے سے پہنچا ہے جن کے ذریعے سے احادیث پہنچی ہیں۔ حق وصداقت اور دیانت کے اعلٰی ترین معیار کے عدیم المثال اصول قرآن مجید اور احادیث نبویہ کی نقل وروایت کے سلسلے میں ایک ہی ہیں۔ جہاں جو فرق ہے وہ بصیرت اہل علم سے مخفی نہیں اور اس وجہ سے احادیث کو کئی درجات میں تقسیم کرکے ان کے حکم بھی الگ الگ بتائے گئے ہیں۔ اس حدیث کو قرآن مجید کے واقعتا خلاف کہنا دیانت علمی کے خلاف ہے۔ تفسیر احسن البیان (از حافظ صلاح الدین یوسف ؒ) میں سے درج ذیل اقتباس پیش کر دینا مناسب ہے۔ حافظ صاحب موصوف سورۃالانبیاء کی آیت 63 (قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا فَاسْأَلُوهُمْ إِنْ كَانُوا يَنْطِقُونَ) کے ذیل میں لکھتے ہیں (حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ان اقوال کو) یقینا حقیقت کے اعتبار سے جھوٹ نہیں کہا جا سکتا۔ گویا کذب اللہ کے ہاں قابل مواخذہ نہیں ہے کیونکہ وہ اللہ ہی کے لیے بولے گئے ہیں۔ درآں حالیکہ کوئی گناہ کا کام نہیں ہوسکتا۔ اور یہ تب ہی ہوسکتا ہے کہ ظاہری طور پر کذب ہونے کے باوجود وہ حقیقتا کذب نہ ہو۔ لیکن (چونکہ ان کا صدر وابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام جیسے جلیل القدر جلیل القدر اور عظیم انسان سے ہوا لہذا) انہیں کذب سے تعبیر کردیا گیا ہے جیسے حضرت آدم علیہ السلام کے لیے عصي اور غوي کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ حالانکہ خود قرآن ہی میں ان کے فعل اکل شجر کو نسیان اور ارادے کی کمزوری کا نتیجہ بھی بتلایا گیا ہے۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ کسی کام کے دو پہلو بھی ہوسکتے ہیں۔ من وجہ اس میں استحسان اور من وجہ ٰظاہری قباحت کا پہلو ہو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ قول اس پہلو سے ظاہری طور پر کذب ہی ہے کہ واقعے کے خلاف تھا۔ بتوں کو انہوں نے خود توڑا تھا۔ لیکن ان کا انتساب بڑے بت کی طرف کیا۔ مگر چونکہ مقصد ان کا تعریفیں اور اثبات توحید تھا اس لیے حقیقت کے اعتبار سے ہم اسے جھوٹ کے بجائے اتمام حجت کا ایک طریق اور مشرکین کی بے عقلی کے اثبات واظہار کا ایک انداز کہیں گے۔ علاوہ ازیں حدیث میں ان کذبات کا ذکر جس ضمن میں آیا ہے وہ بھی قابل غور ہے اور وہ میدان حشر میں اللہ کے روبرو جا کر سفارش کرنے سے اس لیے گریز کرنا کہ ان سے دنیا میں تین موقعوں پر لغزش کا صدور ہوا ہے۔ درآں حالیکہ وہ لغزشیں نہیں ہیں یعنی حقیقت اور مقصد کے اعتبار سے وہ جھوٹ نہیں ہے۔ مگر وہ اللہ کی عظمت وجلال کی وجہ سے اتنے خوف زدہ ہونگے کہ یہ باتیں جھوٹ کے ساتھ ظاہری مماثلت کی وجہ سے قابل گرفت نظر آئیں گی۔ گویا حدیث کا مقصد حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جھوٹا ثابت کرنا ہرگز نہیں ہے بلکہ اس کیفیت کا اظہار ہے جو قیامت والے دن خشیت الہی کی وجہ سے ان پر طاری ہوگی۔ پھر لطف یہ ہے کہ ان تینوں باتوں میں سے دو تو خود قرآن میں مذکور ہیں حدیث میں تو صرف ان کا حوالہ ہے۔ تیسری بات البتہ صرف حدیث میں مذکور ہے مگر جن حالات میں وہ بات کہی گئی ہےان حالات میں خود قرآن نے اظہار کفر تک اجازت دی ہے۔ پس اگر حدیث پر اعتاب اتارنا ہے تو پہلے یہ حضرات قرآن پر اعتاب اتاریں۔ اور اس سے اپنی براءت کا اظہار کریں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2212
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3166
´سورۃ انبیاء سے بعض آیات کی تفسیر۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابراہیم علیہ السلام نے تین معاملات کے سوا کسی بھی معاملے میں کبھی بھی جھوٹ نہیں بولا، ایک تو یہ ہے کہ آپ نے کہا: میں بیمار ہوں، حالانکہ آپ بیمار نہیں تھے، (دوسرا) آپ نے سارہ کو اپنی بہن کہا: (جب کہ وہ آپ کی بیوی تھیں)(تیسرا، آپ نے بت توڑا) اور پوچھنے والوں سے آپ نے کہا: بڑے (بت) ان کے اس بڑے نے توڑے ہیں، (ان سے پوچھ لیں)۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3166]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: مولف یہ حدیث ارشاد باری: ﴿قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا﴾(الأنبیاء: 64) کی تفسیرمیں لائے ہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3166
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6145
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ابراہیم علیہ السلام نے تین دفعہ توریہ و تعریض کے سوا کبھی توریہ سے کام نہیں لیا، دو دفعہ اللہ کی خاطر، آپ کا کہنا، میں بیمار ہوں، (روحانی طور پر) بلکہ یہ کام ان کے بڑے نے کیا ہے اور ایک بار حضرت سارہ کے معاملے میں، کیونکہ وہ ایک جابر حکمران کی زمین میں آئے اور حضرت سارہ ان کے ساتھ تھیں، جو بہت زیادہ حسین تھیں تو آپ نے اس سے کہا، اس جابر (سرکش) کو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:6145]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) كذبات: كذبة کی جمع ہے، امام ابن انباری کا قول ہے، کذب کی پانچ صورتیں ہیں۔ (1) نقل کرنے والے نے جو بات سنی ہے، اس کو تبدیل کر دیا اور یہی بات نقل و بیان کر دی، جس کا پتہ نہیں ہے، یہ شکل و قسم انسان کو گناہ گار بناتی ہے اور شرافت کو ختم کر دیتی ہے۔ 2۔ چوک جانا، غلطی کرنا، عربوں کے کلام میں کذب کا یہ معنی بہت استعمال ہوا ہے۔ (3) باطل ہونا خاک میں مل جانا، کہتے ہیں، كذب الرجل: آدمی کی امید و رجا خاک میں مل گئی، ناکام ہو گئی۔ (4) کسی کو دھوکہ میں رکھنا۔ (5) ایسی بات کہنا جو کذب کے مشابہ ہو، لیکن اس سے مقصد صحیح ہو اور كذب ابراهيم ثلاث كذبات، والی حدیث میں یہی معنی مراد ہے کہ انہوں نے جھوٹ کے مشابہ بات کہی، جب کہ حقیقتاً تینوں حکم صادق تھے، تاج العروس فصل الكاف من باب الباء، گویا کذب کا لفظ توریہ و تعریض کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ (2) اني سقيم: میں بیمار ہوں، انہوں نے جسمانی اور مادی بیماری سمجھی، حالانکہ آپ کا مقصود روحانی بیماری تھا کہ میری روح تمہاری ان شرکیہ حرکتوں کی وجہ سے تڑپ رہی ہے اور میں تمہارے شرک کی بنا پر پریشان ہوں اور یہ نہی بھی ہو سکتا ہے کہ مجھے خطرہ ہے، اگر میں تمہارے ساتھ چلا گیا تو تمہاری شرکیہ حرکتوں دیکھ کر بیمار ہو جاؤں گا۔ (3) بل فعله كبيرهم هذا: کہ تم ان بتوں کو نفع اور نقصان کا مالک سمجھتے ہو اور بڑے کرنی والے قرار دیتے ہو، میں کہتا ہوں، یہ کام اس بڑے نے کیا، ان سے پوچھو تو سہی، اگر یہ بولتے ہیں، گویا یہ تهكم اور استھزاء کے طور پر کہا ہے، جس طرح ایک بد خط اپنے ایک خوش نویس دوست سے، ایک خوش خط تحریر کے بارے میں پوچھتا ہے، یہ آپ نے لکھی ہے تو وہ جواب دے، نہیں جناب یہ تو آپ ہی نے لکھی ہے، مقصد یہ ہے، یہ پوچھنے کی کیا ضرورت ہے، یہ میں نے ہی لکھی ہے، یعنی بظاہر جس چیز کی نفی کی ہے، حقیقت میں اس کا اثبات کیا ہے۔ فوائد ومسائل: اس حدیث میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف تین كَذَبات کی نسبت کی گئی، جبکہ قرآن مجید ابراہیم علیہ السلام کو صديقا نبيا کا معزز لقب دیتا ہے، اس لیے بعض قدیم و جدید علماء نے اس متفق علیہ یعنی بخاری و مسلم کی روایت کا انکار کیا ہے، حالانکہ یہ کذبات کا لفظ تو توریہ اور تعریض کے لیے استعمال ہوا اور توریہ و تعریض کا استعمال بالکل جائز ہے، جس میں متکلم اپنی بات کا ایک ایسا مفہوم و معنی مراد لیتا ہے، جو صحیح اور درست ہوتا ہے اور سامع اس کا دوسرا معنی لیتا ہے، جس کی رو سے متکلم والا معنی درست نہیں ہوتا، جیسا کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کا مشہور واقعہ ہے کہ حضرت ام سلیم نے محسوس کیا، حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سارے دن کی محنت شاقہ کے بعد تھکے ہارے گھر آئیں گے، انہیں ایسی صورت میں ان کے محبوب لخت جگر کی موت کی المناک اطلاع دینا مناسب نہیں ہے، صبح جب آرام سے اٹھیں گے ان کو بتا دوں گی، چنانچہ انہوں نے اپنے لخت جگر کو چارپائی پر لٹا کر اوپر چادر ڈال دی اور گھر کے ایک طرف اس کو رکھ دیا، جب حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ گھر آئے اور آتے ہی پوچھا، بچہ کیسا ہے؟ تو حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: هدأ نفسه وارجو ان يكون قد استراح، اسے سکون آ گیا ہے اور مجھے امید ہے، اس کی تکلیف کٹ گئی ہے، حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے سمجھا بچے کو واقعی آرام آ گیا ہے، اس کی بیماری کٹ گئی ہے، حالانکہ حضرت ام سلیم کا مقصد یہ تھا، بچہ فوت ہو گیا ہے، اس لیے اس کی ہر قسم کی تکلیف اور بیماری ختم ہو گئی ہے تو حضرت ابو طلحہ کے اعتبار سے یہ معنی صحیح نہیں ہے، جبکہ حضرت ام سلیم کے فہم و ذہن کی رو سے یہ معنی درست ہے، اس کو تعریض کہتے ہیں۔ اور اس حدیث سے معلوم ہوا، حضرت ابراہیم نے اپنی پوری زندگی میں، توریہ اور تعریض سے بہت کم کام لیا ہے اور قیامت کے دن اس کو اپنی ایک کمزوری کے طور پر پیش کریں گے تو اس طرح یہ حدیث ان کی عظمت شان پر دلالت کرتی ہے یا ان کی توہین کرتی ہے؟ پہلے ایک غلط معنی لیا گیا اور پھر اس کی آڑ میں ایک صحیح حدیث کا انکار کر دیا گیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے، حضرت سارہ کو اپنی بہن قرار دینے کا مشورہ اس لیے دیا کہ بہن تو بہرحال پرایا دھن ہے، اس نے دوسرے گھر سدھارنا ہوتا ہے، لیکن بیوی رفیقہ حیات ہے، اس نے خاوند کے ساتھ رہنا ہوتا ہے، اس لیے اگر وہ کہتی ہیں، ابراہیم کی بیوی ہوں تو وہ راستہ صاف کرنے کے لیے، حضرت ابراہیم کو راستہ سے ہٹانے کے لیے قتل کروا دیتا اور حضرت سارہ کے لیے اس کے چنگل سے نکلنے کی کوئی امید نہ رہتی، اس کے برعکس ابراہیم علیہ السلام کے زندہ رہنے کی صورت میں، وہ اس کی نجات و خلاصی کے لیے کوئی تدبیر اختیار کرتے، جیسا کہ یہاں فورا وہ نماز میں کھڑے ہو گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے لگے ہیں، اس طرح ان کی زندگی بھی بچ گئی اور دعا کے نتیجہ میں میاں بیوی کی عزت و ناموس بھی بچ گئی، جبکہ ایک خادمہ بھی مل گئی، جب جابر حکمران نے دست درازی کی کوشش کی تو حضرت ابراہیم اور حضرت سارہ کی دعا کے نتیجہ میں اس کا ہاتھ شدت کے ساتھ جکڑ لیا گیا اور اس نے فورا دعا کی درخواست کی، لیکن اس کی بدعہدی کی بنا پر اس کی پکڑ میں اضافہ ہوتا گیا، حتیٰ کہ گھٹن کی بنا پر وہ ایڑیاں رگڑنے لگا اور حضرت سارہ کو اس کی ہلاکت کا خطرہ پیدا ہو گیا اور وہ ڈر گئیں کہ مجھے قاتلہ قرار دیا جائے گا، اس لیے انہوں نے اس کے حق میں دعا فرمائی اور آخر میں اس سے دعا کی درخواست کے باوجود شیطان یعنی بڑا سرکش جن قرار دیا، کیونکہ یہ لوگ بڑے بڑے کارنامے جنوں کی طرف منسوب کرتے تھے اور ان کی بہت تعظیم و توقیر کرتے تھے، اس لیے اس نے ان کو خوش کرنے کے لیے بطور خادمہ اپنی لخت ہاجرہ پیش کی تاکہ حضرت سارہ کا غصہ فرو ہو جائے اور اس کو نقصان نہ پہنچائے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھے خیر الانام ص 237 تا 245) عربوں کا نسب چونکہ خالص تھا یا ان کی گزر اوقات حیوانات پر تھی، جو سبزہ کھا کر پلتے تھے اور سبزہ آسمانی بارش سے ہوتا تھا، اس لیے ان کو ماء السماء کہا گیا اور بقول قاضی عیاض، اس سے مراد انصاری لوگ ہیں اور ان کے جد امجد کو ماء السماء کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔