کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیونکر شروع ہوئی
The Book of The Beginning of Creation
4. بَابُ صِفَةِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ:
4. باب: (سورۃ الرحمن کی اس آیت کی تفسیر کہ) سورج اور چاند دونوں حساب سے چلتے ہیں۔
(4) Chapter. Characteristic of the sun and the moon. [The sun and the moon run on their fixed courses (exactly) caculated with measured out stages for each (for reckoning)]. (V.55:5)
(مرفوع) حدثني محمد بن المثنى، حدثنا يحيى، عن إسماعيل، قال: حدثني قيس، عن ابي مسعود رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" الشمس والقمر لا ينكسفان لموت احد، ولا لحياته، ولكنهما آيتان من آيات الله، فإذا رايتموهما فصلوا".(مرفوع) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنِي قَيْسٌ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ، وَلَا لِحَيَاتِهِ، وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا فَصَلُّوا".
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے اسماعیل ابی خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا اور ان سے ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”سورج اور چاند میں کسی کی موت یا حیات پر گرہن نہیں لگتا۔ بلکہ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے نشانی ہیں اس لیے جب تم ان میں گرہن دیکھو تو نماز پڑھو۔“
Narrated Abu Mas`ud: The Prophet said, "the sun and the moon do not eclipse because of the death or life of someone, but they are two signs amongst the Signs of Allah. So, if you see them, offer the Prayer (of eclipse).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 54, Number 426
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3204
حدیث حاشیہ: ان جملہ احادیث میں کسی نہ کسی طرح سے چاند اور سورج کا ذکر آیا ہے اس لیے ان کو یہاں نقل کیاگیا۔ ان کے بارے میں جو کچھ زبان رسالت مآب ﷺ سے منقول ہوا اس سے آگے بڑھ کر بولنا مسلمان کے لیے روا نہیں ہے۔ آج کے حالات نے چاند اور سورج کے وجود کو مزید واضح کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا کہ ﴿لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ﴾(حم السجدہ: 37) یعنی چاند سورج کو سجدہ نہ کرو، یہ تو اللہ پاک کی پیدا کی ہوئی مخلوق ہیں۔ سجدہ کرنے کے قابل صرف اللہ ہے جس نے ان سب کو وجود بخشا ہے۔ چاند میں جانے کے دعویداروں نے جو کچھ بتلایا ہے اس سے بھی قرآن پاک کی تصدیق ہوتی ہے کہ چاند بھی دیگر مخلوقات کی طرح ایک مخلوق ہے وہ کوئی دیوی دیوتا یا مافوق المخلوق کوئی اور چیز نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3204
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3204
حدیث حاشیہ: 1۔ ان تمام احادیث میں کسی نہ کسی حوالے سے سورج اور چاند کا ذکر آیاہے اس لیے امام بخاری ؒ نے انھیں بیان فرمایاہے۔ چونکہ یہ تمام انقلابات قدرت الٰہی کے تحت ہوتے رہتے ہیں لہٰذا ایسے مواقع پر خصوصیت کے ساتھ اللہ کو یاد کرنا نماز پڑھنا اور صدقہ و خیرات کرنا ایمان کی ترقی کا باعث ہے۔ 2۔ دور حاضر میں چاند اور سورج کے گرہن کی جو وجہ بیان کی جاتی ہے کہ سورج اور چاند کے درمیان زمین حائل ہو جاتی ہے وہ شان قدرت ہی کا مظاہرہ ہے لہٰذا قرآن و حدیث میں کہیں بھی تضاد اور اختلاف نہیں ہے دراصل اللہ تعالیٰ انھیں بے نور کر کے اہل دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ اگر ایسی فرمانبردار اور تابع فرمان مخلوق کو بے نور کیا جا سکتا ہے تو انسان جو سراسر نا فرمانی اور طغیانی میں مصروف ہیں انھیں بھی کسی وقت صفحہ ہستی سے مٹایا جا سکتا ہے۔ دوسرا سبق یہ ہے کہ یہ دونوں اس قابل نہیں کہ انھیں معبود کا درجہ دیا جائے اور انھیں سجدہ کیا جائے بلکہ سجدے کے لائق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس نے انھیں پیدا فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ﴾”تم سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو بلکہ صرف اللہ کو سجدہ کرو جس نے انھیں پیدا کیا ہے اگر تمھیں اس کی عبادت کرنا منظور ہے۔ “(حم السجدة: 37) مقصد یہ ہے کہ سورج اور چاند دونوں عروج و زوال سے دوچار ہوتے رہتے ہیں وہ الٰہ نہیں ہو سکتے لہٰذا تم اگر فی الواقع اللہ کی عبادت کرنا چاہتے ہو تو براہ راست اللہ کی عبادت کرو جو ان کا خالق اور مالک ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3204