وقال: مجاهد، قلت: لابن عمر الغزو، قال: إني احب ان اعينك بطائفة من مالي، قلت: اوسع الله علي، قال: إن غناك لك وإني احب ان يكون من مالي في هذا الوجه، وقال عمر: إن ناسا ياخذون من هذا المال ليجاهدوا، ثم لا يجاهدون فمن فعله فنحن احق بماله حتى ناخذ منه ما اخذ، وقال طاوس ومجاهد: إذا دفع إليك شيء تخرج به في سبيل الله، فاصنع به ما شئت وضعه عند اهلك.وَقَالَ: مُجَاهِدٌ، قُلْتُ: لِابْنِ عُمَرَ الْغَزْوَ، قَالَ: إِنِّي أُحِبُّ أَنْ أُعِينَكَ بِطَائِفَةٍ مِنْ مَالِي، قُلْتُ: أَوْسَعَ اللَّهُ عَلَيَّ، قَالَ: إِنَّ غِنَاكَ لَكَ وَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ يَكُونَ مِنْ مَالِي فِي هَذَا الْوَجْهِ، وَقَالَ عُمَرُ: إِنَّ نَاسًا يَأْخُذُونَ مِنْ هَذَا الْمَالِ لِيُجَاهِدُوا، ثُمَّ لَا يُجَاهِدُونَ فَمَنْ فَعَلَهُ فَنَحْنُ أَحَقُّ بِمَالِهِ حَتَّى نَأْخُذَ مِنْهُ مَا أَخَذَ، وَقَالَ طَاوُسٌ وَمُجَاهِدٌ: إِذَا دُفِعَ إِلَيْكَ شَيْءٌ تَخْرُجُ بِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَاصْنَعْ بِهِ مَا شِئْتَ وَضَعْهُ عِنْدَ أَهْلِكَ.
مجاہد نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے سامنے جہاد میں شرکت کا ارادہ ظاہر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں بھی اس مد میں اپنا کچھ مال خرچ کر کے تمہاری مدد کروں۔ میں نے عرض کیا کہ اللہ کا دیا ہوا میرے پاس کافی ہے۔ لیکن انہوں نے فرمایا کہ تمہاری سرمایہ داری تمہارے لیے ہے۔ میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ اس طرح میرا مال بھی اللہ کے راستے میں خرچ ہو جائے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ بہت سے لوگ اس مال کو (بیت المال سے) اس شرط پر لے لیتے ہیں کہ وہ جہاد میں شریک ہوں گے لیکن پھر وہ جہاد نہیں کرتے۔ اس لیے جو شخص یہ حرکت کرے گا تو ہم اس کے مال کے زیادہ مستحق ہیں اور ہم اس سے وہ مال جو اس نے (بیت المال سے) لیا ہے واپس وصول کر لیں گے۔ طاؤس اور مجاہد نے فرمایا کہ اگر تمہیں کوئی چیز اس شرط کے ساتھ دی جائے کہ اس کے بدلے میں تم جہاد کے لیے نکلو گے۔ تو تم اسے جہاں جی چاہے خرچ کر سکتے ہو۔ اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات میں بھی لا سکتے ہو (مگر شرط کے مطابق جہاد میں شرکت ضروری ہے)۔
(مرفوع) حدثنا الحميدي، حدثنا سفيان، قال: سمعت مالك بن انس، سال زيد بن اسلم، فقال: زيد سمعت ابي يقول: قال : عمر بن الخطابرضي الله عنه، حملت على فرس في سبيل الله، فرايته يباع، فسالت النبي صلى الله عليه وسلم اشتريه، فقال:" لا تشتره، ولا تعد في صدقتك".(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ، سَأَلَ زَيْدَ بْنَ أَسْلَمَ، فَقَالَ: زَيْدٌ سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: قَالَ : عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، حَمَلْتُ عَلَى فَرَسٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَرَأَيْتُهُ يُبَاعُ، فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشْتَرِيهِ، فَقَالَ:" لَا تَشْتَرِهِ، وَلَا تَعُدْ فِي صَدَقَتِكَ".
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا کہ میں نے مالک بن انس سے سنا، انہوں نے زید بن اسلم سے پوچھا تھا اور زید نے کہا کہ میں نے اپنے باپ سے سنا تھا، وہ بیان کرتے تھے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے اللہ کے راستے میں (جہاد کے لیے) اپنا ایک گھوڑا ایک شخص کو سواری کے لیے دے دیا تھا۔ پھر میں نے دیکھا کہ (بازار میں) وہی گھوڑا بک (فروخت ہو) رہا ہے۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا میں اسے خرید سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس گھوڑے کو تم نہ خریدو اور اپنا صدقہ (خواہ خرید کر ہی ہو) واپس نہ لو۔
Narrated `Umar bin Al-Khattab: I gave a horse to be used in Allah's Cause, but later on I saw it being sold. I asked the Prophet whether I could buy it. He said, "Don't buy it and don't take back your gift of charity."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 214
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2970
حدیث حاشیہ: ترجمۃ الباب میں وہ اجرت مراد ہے جو جہاد میں شرکت نہ کرنے والا کوئی شخص اپنی طرف سے کسی آدمی کو اجرت دے کر جہاد پر بھیجتا ہے۔ جہاں تک جہاد پر اجرت کا تعلق ہے تو ظاہر ہے کہ اجرت لینی جائز ہے۔ یوں تو جہاد کا حکم سب کے لئے برابر ہے۔ اس لئے کسی معقول عذر کے بغیر اس میں شرکت سے پہلو تہی کرنا مناسب نہیں۔ البتہ یہ صورت اس سے الگ ہے کہ کسی پر جہاد فرض یا واجب نہ ہو اور وہ جہاد میں جانے والے کی مدد کرکے ثواب میں شریک ہو جائے۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے کیا تھا۔ ہاں جہاد میں شرکت سے بچنے کے لئے اگر ایسا کرتا ہے تو بہتر نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2970
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 285
´صدقہ واپس لینا جائز نہیں ہے` «. . . لا تشتره وإن اعطاكه بدرهم، فإن العائد فى صدقته كالكلب يعود فى قيئه . . .» ”. . . اپنا صدقہ واپس لینے والا کتے کی مانند ہے جو اپنی قے (الٹی) کو چاٹ لیتا ہے . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 285]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1490، ومسلم 1620، من حديث مالك به] تفقه: ① نیز دیکھئے: حدیث: 214 ② جو شخص کسی کو صدقہ دے تو اسے واپس (یعنی دوبارہ) خرید نہیں سکتا۔ ③ جسے صدقہ دیا جائے وہ ضرورت کے وقت اسے بیچ سکتا ہے۔ ④ صدقہ واپس لینا جائز نہیں ہے۔ ⑤ شریعت نے حیل (حیلہ بازی) کا سدباب کیا ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 168
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 794
´ھبہ عمری اور رقبی کا بیان` سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک گھوڑا اللہ کے راستہ میں ایک آدمی کو سواری کے لئے دیا۔ اس نے اسے ناکارہ کر دیا۔ میں نے خیال کیا کہ وہ اسے سستے داموں بیچنے والا ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کیا میں اسے خرید سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تمہیں اگر یہ گھوڑا ایک درہم کے عوض بھی دے تب بھی نہ خریدو۔“(الحدیث)(بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 794»
تخریج: «أخرجه البخاري، الهبة، باب لا يحل لأحد أن يرجع في هبته وصدقته، حديث:2623.»
تشریح: 1. صدقہ و خیرات میں دی ہوئی چیز قیمتاً بھی واپس نہیں لینی چاہیے۔ بعض علماء نے اسے خریدنا حرام ٹھہرایا ہے۔ لیکن جمہور علماء کہتے ہیں کہ یہ نہی تنزیہی ہے۔ 2. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان کا خیرات کردہ گھوڑا خریدنے سے منع فرمایا کہ ایسی خاص صورتوں میں فروخت کرنے والا خریدار سے تسامح اور چشم پوشی کر جاتا ہے جس سے فروخت کنندہ کو نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اس طرح اس چیز کی قیمت میں کمی کا واقع ہونا گویا اپنی خیرات کو واپس لینے کے مترادف ہے جو کہ جائز نہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 794
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2616
´صدقہ خریدنے کا بیان۔` اسلم کہتے ہیں کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ میں نے (ایک آدمی کو) ایک گھوڑا اللہ کی راہ میں سواری کے لیے دیا تو اسے اس شخص نے برباد کر دیا، تو میں نے سوچا کہ میں اسے خرید لوں، خیال تھا کہ وہ اسے سستا ہی بیچ دے گا، میں نے اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا، تو آپ نے فرمایا: ”تم اسے مت خریدو گرچہ وہ تمہیں ایک ہی درہم میں دیدے، کیونکہ صدقہ کر کے پھر اسے لینے والا کتے کی طرح ہے جو قے کر کے اسے چاٹتا ہے۔“[سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2616]
اردو حاشہ: صدقہ کرنے والے کو اپنا صدقہ قیمتاً بھی لینا منع ہے۔ ممکن ہے وہ شخص اس کا لحاظ کرتے ہوئے اسے قیمت میں رعایت کرے، البتہ کوئی دوسرا شخص کسی دوسرے کا صدقہ خرید سکتا ہے کیونکہ اس کے لیے یہ صدقہ نہیں بلکہ خریدی ہوئی چیز ہے۔ گویا چیز کی حیثیت بدل جانے سے اس کا حکم بھی بدل جاتا ہے، جیسے پچھلی حدیث میں ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2616
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:15
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے یہ بات بیان کی ہے، میں نے اپنا ایک گھوڑا اللہ کی راہ میں (جہاد میں حصہ لینے کے لیے) دیا، پھر بعد میں، میں نے اس گھوڑے کو فروخت ہوتے ہوئے دیکھا تو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: کیا میں اسے خرید لوں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم اسے نہ خریدو اور تم اپنی صدقہ کی ہوئی چیز کو واپس نہ لو۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:15]
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صدقہ کی ہوئی چیز اگر بازار میں فروخت ہو رہی ہو تو صدقہ کرنے والا اس کو نہیں خرید سکتا، حالانکہ خریدنا اور چیز ہے اور صدقہ کو واپس لینا اور ہے، چونکہ ظاہری اور عمومی طور پر اس (صدقہ کی ہوئی چیز) کو خرید نا بھی واپس لینے میں شامل ہے، اس لیے اس سے منع کیا گیا ہے، تا کہ یہ صدقہ واپس لینے کا حیلہ نہ بن جائے۔ ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کسی کو اپنے گھوڑے پر سوار کرنا گویا اس کو مالک بنانا ہے، جس طرح سید نا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، جب سوار اس کو قبضے میں لے لے تو اس میں رجوع جائز نہیں ہے۔ ([فتح الباري: 492/6] امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث پر یوں باب باندھا ہے: «بـاب إذا حـمـل رجلا عـلى فرس فهو گالـعـمرى والصدقة»”جب کوئی آدمی کسی کو گھوڑا سواری کے لیے ہدیہ کر دے تو وہ عمریٰ اور صدقے کی طرح ہوتا ہے“(یعنی اسے واپس نہیں لیا جا سکتا)۔ [صحيح البخاري، قبل حديث: 2636] سید نا عمر رضی اللہ عنہ کس قدر سخی انسان تھے کہ گھوڑ ابھی صدقہ کر دیا۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 15
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4163
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک عمدہ گھوڑا اللہ کی راہ میں یعنی بطور صدقہ دیا، تو اس کے مالک نے اسے ضائع کر دیا، تو میں نے خیال کیا، وہ اس کو سستا بیچ دے گا، میں نے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا؟ تو آپﷺ نے فرمایا: ”اسے مت خریدو، اور اپنا صدقہ واپس نہ لو، کیونکہ اپنا صدقہ واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:4163]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) حَمَلْتُ عَليٰ فَرسِ: میں نے گھوڑے پر سوار کیا، یعنی گھوڑا صدقہ کیا۔ (2) عَتِيق: نفیس اور عمدہ۔ (3) اضاعه صاحبه: جس کو صدقہ میں دیا تھا، اس نے اس کی دیکھ بھال اور فروخت میں کوتاہی کی اور ضائع کر ڈالا۔ فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جو چیز صدقہ میں دے دی جائے، اس کو خریدنا جائز نہیں ہے، اور چونکہ جس کو صدقہ دیا ہے، جب اس سے خرید لیں گے، تو وہ سستے داموں آپ کو واپس کرے گا، اس لیے آپ نے اس کو صدقہ کی واپسی سے تعبیر فرمایا ہے، ائمہ کے نزدیک سستا خریدنا تو ناجائز ہے، اور صحیح قیمت پر خریدنا، ناپسندیدہ ہے، لیکن ہر دو صورت میں بیع ہو جائے گی، جبکہ اہل ظاہر کے نزدیک یہ بیع ہی درست نہیں ہے، جیسا کہ حدیث کا تقاضا ہے، لیکن اگر صدقہ کردہ چیز وراثت میں واپس آ جائے، تو ائمہ اربعہ کے نزدیک بالاتفاق جائز ہے، اگرچہ بعض اہل علم اس کو بھی درست نہیں سمجھتے، لیکن یہ موقف درست نہیں ہے، کیونکہ اس کا جواز حدیث سے ثابت ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4163
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2623
2623. حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نے فی سبیل اللہ ایک شخص کو سواری کے لیے گھوڑا دیا تو جس کے پاس وہ گھوڑا تھا اس نے (اس کی حفاظت نہ کی بلکہ) اسے خراب کر ڈالا۔ میں نے ارادہ کیا کہ اس سے وہ گھوڑا خرید لوں اور گمان یہ تھا کہ وہ مجھے سستے داموں فروخت کردے گا۔ میں نے نبی ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ”اسے مت خریدو، اگرچہ وہ تمھیں ایک درہم کے عوض دے کیونکہ صدقے کو واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کرکے اس کو چاٹ جاتا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2623]
حدیث حاشیہ: اس گھوڑے کا نام ورد تھا۔ یہ تمیم داری نے آنحضرت ﷺ کو تحفہ گزرانا تھا اور آنحضرت ﷺ نے اسے حضرت عمر ؓ کو بخش دیا تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2623
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1490
1490. حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نے ایک دفعہ اللہ کی راہ میں سواری کا گھوڑادیا۔ جس شخص کے پاس وہ گھوڑا گیا اس نے اسے بالکل خراب اور بے کار کردیا، میں نے ارادہ کیا کہ اسے خرید لوں، میرے ذہن میں یہ خیال بھی آیا کہ وہ اس گھوڑے کو سستا بیچ دے گا، میں نے نبی کریم ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا:”اسے مت خریدو اور اپنا صدقہ واپس نہ لو، اگرچہ وہ ایک درہم میں تجھے دے ڈالے کیونکہ خیرات دے کر واپس لینے والا قے کرکے چاٹنے والے کی طرح ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1490]
حدیث حاشیہ: باب کی حدیثوں سے بظاہر یہ نکلتا ہے کہ اپنا دیا ہوا صدقہ تو خریدنا حرام ہے، لیکن دوسرے کا دیا ہوا صدقہ فقیر سے فراغت کے ساتھ خرید سکتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1490
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2636
2636. حضرت عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں نے کسی کو اللہ کی راہ میں گھوڑا دیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ وہ فروخت ہو رہا ہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ”اسے مت خریدو اور اپنا صدقہ واپس نہ لو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2636]
حدیث حاشیہ: وہ جس کو دیا اس کی ملک ہوچکا اب اس میں رجوع جائز نہیں۔ باب اور حدیث میں یہی مطابقت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2636
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1490
1490. حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نے ایک دفعہ اللہ کی راہ میں سواری کا گھوڑادیا۔ جس شخص کے پاس وہ گھوڑا گیا اس نے اسے بالکل خراب اور بے کار کردیا، میں نے ارادہ کیا کہ اسے خرید لوں، میرے ذہن میں یہ خیال بھی آیا کہ وہ اس گھوڑے کو سستا بیچ دے گا، میں نے نبی کریم ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا:”اسے مت خریدو اور اپنا صدقہ واپس نہ لو، اگرچہ وہ ایک درہم میں تجھے دے ڈالے کیونکہ خیرات دے کر واپس لینے والا قے کرکے چاٹنے والے کی طرح ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1490]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں اپنا دیا ہوا صدقہ خریدنے کی حرمت ہے۔ حدیث کے ظاہر سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ لیکن جمہور علماء نے اسے کراہت اور نہی تنزیہ پر محمول کیا ہے۔ کفارے اور نذر میں دیے ہوئے مال کا بھی یہی حکم ہے۔ (2) واضح رہے کہ حضرت عمرؓ نے جو گھوڑا اللہ کی راہ میں کسی غازی کو دیا تھا اس کا نام "ورد" تھا اور وہ تمیم داری ؓ کی ملک تھا، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو ہدیہ دیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے وہ گھوڑا حضرت عمر ؓ کو عطا فرمایا اور انہوں نے فی سبیل اللہ کسی مجاہد کو دے دیا۔ (فتح الباري: 445/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1490
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2623
2623. حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نے فی سبیل اللہ ایک شخص کو سواری کے لیے گھوڑا دیا تو جس کے پاس وہ گھوڑا تھا اس نے (اس کی حفاظت نہ کی بلکہ) اسے خراب کر ڈالا۔ میں نے ارادہ کیا کہ اس سے وہ گھوڑا خرید لوں اور گمان یہ تھا کہ وہ مجھے سستے داموں فروخت کردے گا۔ میں نے نبی ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ”اسے مت خریدو، اگرچہ وہ تمھیں ایک درہم کے عوض دے کیونکہ صدقے کو واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کرکے اس کو چاٹ جاتا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2623]
حدیث حاشیہ: (1) قرینے سے معلوم ہوتا ہے کہ گھوڑا فروخت کرنے والے کی طرف سے کچھ نہ کچھ سہولت کی امید ضرور تھی، چنانچہ بیچنے والے کی طرف سے تھوڑی سی سہولت فروخت کردہ چیز کے بعض اجزاء میں رجوع کرنے کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺنے اقدام کو عود في الصدقة کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے۔ (2) اگر صدقہ کیا ہوا مال بطور وراثت حصے میں آ جائے تو اس میں کسی کو اختلاف نہیں کہ وہ لینا جائز ہے۔ (3) واضح رہے کہ حضرت عمر ؓ نے وہ گھوڑا جہاد کے لیے وقف نہیں کیا تھا کیونکہ وقف کی ہوئی چیز کی خریدوفروخت ممنوع ہوتی ہے بلکہ اس کی ملکیت میں دے دیا تھا۔ حدیث کے الفاظ سے بھی یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ وقف نہیں بلکہ ہبہ کیا تھا۔ (فتح الباري: 291/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2623
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2636
2636. حضرت عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں نے کسی کو اللہ کی راہ میں گھوڑا دیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ وہ فروخت ہو رہا ہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ”اسے مت خریدو اور اپنا صدقہ واپس نہ لو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2636]
حدیث حاشیہ: (1) شارح بخاری ابن بطال ؒفرماتے ہیں: فی سبیل اللہ گھوڑے پر سواری کرنا اگر تملیک کے لیے ہے تو وہ صدقے کی طرح ہے، اگر اس نے قبضہ کر لیا ہے تو اس میں رجوع کرنا جائز نہیں۔ اور اگر جہاد کے لیے وقف کیا ہے تو بھی رجوع جائز نہیں۔ جمہور اہل علم کا یہی موقف ہے۔ (2) قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے اسے مالک بنا دیا تھا۔ گھوڑے کو فی سبیل اللہ وقف نہیں کیا تھا۔ اگر وقف ہوتا تو اس کے فروخت کرنے اور حضرت عمر ؓ کے خریدنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دراصل امام بخاری ؒ ایک موقف کی تردید کرنا چاہتے ہیں کہ ہبہ میں رجوع جائز ہے اگرچہ وہ اجنبی کے لیے ہی کیوں نہ ہو۔ یہ موقف صحیح نہیں۔ ہبہ میں رجوع جائز نہیں جس کی تفصیل ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ (فتح الباري: 303/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2636
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3003
3003. حضرت عمر ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے اللہ کی راہ میں کسی کو گھوڑا دیا۔ پھر، جس کے پاس گھوڑا تھا، اس نے اسے فروخت کرنا چاہا یا اسے بالکل کمزور کردیا۔ اس بنا پر میں نے اسے خرید لینے کا ارادہ کیا۔ مجھے یہ بھی خیال تھا کہ وہ شخص اسے سستے داموں فروخت کردےگا، میں نے اس کے متعلق نبی ﷺ سےدریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ”اسے مت خریدو اگرچہ وہ تمھیں ایک درہم ہی میں دے کیونکہ اپنے صدقے کو واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو اپنی قے خود ہی چاٹتا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3003]
حدیث حاشیہ: ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓنے وہ گھوڑا وقف نہیں کیا تھا بلکہ بطور ہبہ کسی کو دیا تھا کیونکہ وقف شدہ چیز کی خرید و فروخت منع ہے جبکہ ہبہ کی ہوئی چیز بیچی جا سکتی ہے نیز جو چیز کسی کو فی سبیل اللہ دے دی جائے اسے خرید کر واپس لینا جائز نہیں ہاں اگر وراثت میں اپنا دیا ہوا صدقہ حصے میں آئے تو اس میں کسی کا اختلاف نہیں۔ وہ لینا جائز اور حلال ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3003