صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
کتاب: جہاد کا بیان
119. بَابُ الْجَعَائِلِ وَالْحُمْلاَنِ فِي السَّبِيلِ:
باب: کسی کو اجرت دے کر اپنے طرف سے جہاد کرانا اور اللہ کی راہ میں سواری دینا۔
وَقَالَ: مُجَاهِدٌ، قُلْتُ: لِابْنِ عُمَرَ الْغَزْوَ، قَالَ: إِنِّي أُحِبُّ أَنْ أُعِينَكَ بِطَائِفَةٍ مِنْ مَالِي، قُلْتُ: أَوْسَعَ اللَّهُ عَلَيَّ، قَالَ: إِنَّ غِنَاكَ لَكَ وَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ يَكُونَ مِنْ مَالِي فِي هَذَا الْوَجْهِ، وَقَالَ عُمَرُ: إِنَّ نَاسًا يَأْخُذُونَ مِنْ هَذَا الْمَالِ لِيُجَاهِدُوا، ثُمَّ لَا يُجَاهِدُونَ فَمَنْ فَعَلَهُ فَنَحْنُ أَحَقُّ بِمَالِهِ حَتَّى نَأْخُذَ مِنْهُ مَا أَخَذَ، وَقَالَ طَاوُسٌ وَمُجَاهِدٌ: إِذَا دُفِعَ إِلَيْكَ شَيْءٌ تَخْرُجُ بِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَاصْنَعْ بِهِ مَا شِئْتَ وَضَعْهُ عِنْدَ أَهْلِكَ.
مجاہد نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے سامنے جہاد میں شرکت کا ارادہ ظاہر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں بھی اس مد میں اپنا کچھ مال خرچ کر کے تمہاری مدد کروں۔ میں نے عرض کیا کہ اللہ کا دیا ہوا میرے پاس کافی ہے۔ لیکن انہوں نے فرمایا کہ تمہاری سرمایہ داری تمہارے لیے ہے۔ میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ اس طرح میرا مال بھی اللہ کے راستے میں خرچ ہو جائے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ بہت سے لوگ اس مال کو (بیت المال سے) اس شرط پر لے لیتے ہیں کہ وہ جہاد میں شریک ہوں گے لیکن پھر وہ جہاد نہیں کرتے۔ اس لیے جو شخص یہ حرکت کرے گا تو ہم اس کے مال کے زیادہ مستحق ہیں اور ہم اس سے وہ مال جو اس نے (بیت المال سے) لیا ہے واپس وصول کر لیں گے۔ طاؤس اور مجاہد نے فرمایا کہ اگر تمہیں کوئی چیز اس شرط کے ساتھ دی جائے کہ اس کے بدلے میں تم جہاد کے لیے نکلو گے۔ تو تم اسے جہاں جی چاہے خرچ کر سکتے ہو۔ اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات میں بھی لا سکتے ہو (مگر شرط کے مطابق جہاد میں شرکت ضروری ہے)۔