● صحيح البخاري | 2867 | أنس بن مالك | وجدنا فرسكم هذا بحرا |
● صحيح البخاري | 2862 | أنس بن مالك | ما رأينا من فزع وإن وجدناه لبحرا |
● صحيح البخاري | 2857 | أنس بن مالك | ما رأينا من فزع وإن وجدناه لبحرا |
● صحيح البخاري | 2627 | أنس بن مالك | استعار النبي فرسا من أبي طلحة يقال له المندوب فركب فلما رجع قال ما رأينا من شيء وإن وجدناه لبحرا |
● صحيح البخاري | 2866 | أنس بن مالك | على فرس عري ما عليه سرج في عنقه سيف |
● صحيح البخاري | 2908 | أنس بن مالك | لم تراعوا لم تراعوا ثم قال وجدناه بحرا أو قال إنه لبحر |
● صحيح البخاري | 6033 | أنس بن مالك | لن تراعوا لن تراعوا وهو على فرس لأبي طلحة عري ما عليه سرج في عنقه سيف فقال لقد وجدته بحرا أو إنه لبحر |
● صحيح البخاري | 2820 | أنس بن مالك | سبقهم على فرس وقال وجدناه بحرا |
● صحيح البخاري | 6212 | أنس بن مالك | ما رأينا من شيء وإن وجدناه لبحرا |
● صحيح البخاري | 3040 | أنس بن مالك | تلقاهم النبي على فرس لأبي طلحة عري وهو متقلد سيفه فقال لم تراعوا لم تراعوا ثم قال رسول الله وجدته بحرا يعني الفرس |
● صحيح البخاري | 2968 | أنس بن مالك | ما رأينا من شيء وإن وجدناه لبحرا |
● صحيح البخاري | 2969 | أنس بن مالك | لم تراعوا إنه لبحر فما سبق بعد ذلك اليوم |
● صحيح مسلم | 6006 | أنس بن مالك | أحسن الناس وكان أجود الناس وكان أشجع الناس فزع أهل المدينة ذات ليلة فانطلق ناس قبل الصوت فتلقاهم رسول الله راجعا وقد سبقهم إلى الصوت وهو على فرس لأبي طلحة عري في عنقه السيف وهو يقول لم تراعوا لم تراعوا قال وجدناه بحرا أو إنه لبحر قال وكان فرسا يبطأ |
● صحيح مسلم | 6007 | أنس بن مالك | فزع فاستعار النبي فرسا لأبي طلحة يقال له مندوب فركبه فقال ما رأينا من فزع وإن وجدناه لبحرا |
● جامع الترمذي | 1685 | أنس بن مالك | ما كان من فزع وإن وجدناه لبحرا |
● جامع الترمذي | 1687 | أنس بن مالك | أحسن الناس وأجود الناس وأشجع الناس قد فزع أهل المدينة ليلة سمعوا صوتا قال فتلقاهم النبي على فرس لأبي طلحة عري وهو متقلد سيفه فقال لم تراعوا لم تراعوا فقال النبي وجدته بحرا |
● جامع الترمذي | 1686 | أنس بن مالك | ما رأينا من فزع وإن وجدناه لبحرا |
● سنن أبي داود | 4988 | أنس بن مالك | ما رأينا شيئا أو ما رأينا من فزع وإن وجدناه لبحرا |
● سنن ابن ماجه | 2772 | أنس بن مالك | لن تراعوا يردهم ثم قال للفرس وجدناه بحرا أو إنه لبحر |
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2627
2627. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نےکہا: ایک دفعہ مدینہ طیبہ میں دشمن کا خوف ساپیدا ہوا تو نبی ﷺ نے حضرت ابو طلحہ ؓ سے ایک گھوڑا مستعار لیا جسے مندوب کہا جا تا تھا۔ آپ اس پر سوار ہوئے۔ جب واپس تشریف لائے تو فرمایا: ” کوئی گڑبڑ نہیں ہے۔ یہ گھوڑا تو سمندر کی موج ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2627]
حدیث حاشیہ:
دریا کی طرح تیز اور بے تکان جاتا ہے۔
دوسری روایت میں ہے۔
آپ ننگی پیٹھ پر سوار ہوئے۔
آپ کے گلے میں تلوار پڑی تھی۔
آپ اکیلے اسی طرف تشریف لے گئے جدھر سے مدینہ والوں نے آواز سنی تھی۔
سبحان اللہ! آنحضرت ﷺ کی شجاعت اس واقعہ سے معلوم ہوتی ہے کہ اکیلے تنہا دشمن کی خبر لینے کو تشریف لے گئے۔
سخاوت ایسی کہ کسی مانگنے والے کا سوال رد نہ کرتے۔
شرم اور حیا اور مروت ایسی کہ کنواری لڑکی سے بھی زیادہ۔
عفت ایسی کہ کبھی بدکاری کے پاس تک نہ پھٹکے، حسن اور جمال ایسا کہ سارے عرب میں کوئی آپ کا نظیر نہ تھا۔
نفاست اور نظافت ایسی کہ جدھر سے نکل جاتے، درودیوار معطر ہوجاتے۔
حسن خلق ایسا کہ دس برس تک حضرت انس ؓ خدمت میں رہے کبھی ان کو جھڑکا تک نہیں۔
عدل اور انصاف ایسا کہ اپنے سگے چچا کی بھی کوئی رعایت نہ کی۔
فرمایا اگر فاطمہ ؓ بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کٹواڈالوں، عبادت اور ریاضت ایسی کہ نماز پڑھتے پڑھتے پاؤںمیں ورم آگیا۔
بے طمعی ایسی کہ لاکھ روپے آئے، سب مسجد نبوی میں ڈلوادئیے اور اسی وقت بٹوادئیے۔
صبر وقناعت ایسی کہ دو دو مہینے تک چولہا گرم نہ ہوتا۔
جو کی سوکھی روٹی اور کھجور پر اکتفاءکرتے۔
کبھی دو دو تین تین فاقے ہوتے۔
ننگے بوریے پر لیٹتے۔
بدن پر نشان پڑجاتا مگر اللہ کے شکر گزار اور خوش و خرم رہتے۔
حرف شکایت زبان پر نہ لاتے۔
کیا ان سب امور کے بعد کوئی احمق سے احمق بھی آپ کی نبوت اور پیغمبری میں شک کرسکتا ہے؟ صلی اللہ علیه وعلی آله و أصحابه وسلم۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2627
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2820
2820. حضرت انس ؓسے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ تمام لوگوں سے زیادہ خوبصورت، سب لوگوں سے زیادہ بہادر اور سب سے زیادہ فیاض تھے۔ (ایک رات ایسا ہوا کہ) اہل مدینہ خوف زدہ ہوئے تو نبی کریم ﷺ گھوڑے پر سوار ہوکر سب سے پہلے آئے اور فرمایا: ”(فکر کی کوئی بات نہیں) البتہ ہم نے اس گھوڑے کو سمندر کی طرح رواں دواں پایا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2820]
حدیث حاشیہ:
یعنی بے تکان چلا ہی جاتا ہے‘ کہیں رکتا یا اڑتا نہیں ہے۔
آنحضرتﷺ رات کے وقت بنفس نفیس یکہ و تنہا آواز کی طرف تشریف لے گئے اور دشمن کا کچھ بھی ڈر نہ کیا۔
سبحان اللہ شجاعت ایسی‘ سخاوت ایسی‘ حسن و جمال ظاہری ایسا‘ کمالات باطنی ایسے‘ قوت ایسی‘ رحم و کرم ایسا کہ کبھی سائل کو محروم نہیں کیا‘ کبھی کسی سے بدلہ لینا نہیں چاہا‘ جس نے معافی چاہی معاف کردیا۔
عبادت اور خدا ترسی ایسی کہ رات رات بھر نماز پڑھتے پڑھتے پاؤں ورم کر گئے‘ تدبیر اور رائے ایسی کہ چند روز ہی میں عرب کی کایا پلٹ کر رکھ دی‘ بڑے بڑے بہادروں اور اکڑوں کو نیچا دکھا دیا‘ ایسے عظیم پیغمبر ﷺ پر لاکھوں بار درود و سلام۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2820
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2857
2857. حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک رات مدینہ طیبہ میں کچھ دہشت سی طاری ہوئی تو نبی ﷺ نے ہمارا ایک گھوڑا مستعار لیا جسے مندوب کہا جاتا تھاپھر آپ نے فرمایا: ”ہم نے تو کوئی خوف کی بات نہیں دیکھی، البتہ ہم نے اس گھوڑے کو سمندر کی طرح (خوب تیز رو) پایا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2857]
حدیث حاشیہ:
ایک دفعہ مدینہ میں رات کو ایسا خیال لوگوں کو ہوا کہ اچانک کسی دشمن نے شہر پر حملہ کردیا ہے‘ آنحضرت ﷺ خود بنفس نفیس مندوب گھوڑے پر سوار ہو کر اندھیری رات میں اس کی تحقیق کے لئے نکلے مگر اس افواہ کو آپ ﷺ نے غلط پایا‘ یہی واقعہ یہاں مذکور ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2857
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2866
2866. حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ نبی ﷺ گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر جس پر زین نہیں تھی سوار ہو کر صحابہ کرام ؓسے آگے نکل گئے تھے۔ آپ کی گردن مبارک میں تلوار لٹک رہی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2866]
حدیث حاشیہ:
سبحان اللہ! یہ حسن و جمال اور یہ شجاعت اور بہادری ننگی پیٹھ گھوڑے پر سواری کرنا بڑے ہی شہسواروں کا کام ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اس فن میں آنحضرتﷺ یکتائے روزگار تھے۔
بارہا ایسے مواقع آئے کہ آپ ﷺ نے بہترین شہسواری کا ثبوت پیش فرمایا۔
صد افسوس کہ آج کل عوام تو درکنار خواص یعنی علماء و مشائخ نے ایسی اہم سنتوں کو بالکل ترک کردیا ہے۔
خاص کر علماء کرام میں بہت ہی کم ایسے ملیں گے جو ایسے فنون مسنونہ سے الفت رکھتے ہوں حالانکہ یہ فنون قرآن و سنت کی روشنی میں مسلمانوں کے عوام و خواص میں بہت زیادہ ترویج کے قابل ہیں۔
آج کل نشانہ بازی جو بندوق سے سکھائی جاتی ہے وہ بھی اسی میں داخل ہے اور فن حرب سے متعلق جو نئی ایجادات ہیں‘ ان سب کو اس پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2866
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2867
2867. حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ ایک مرتبہ اہل مدینہ کو کوئی خطرہ محسوس ہوا تو نبی ﷺ حضرت ابو طلحہ ؓ کے گھوڑے پر سوار ہوئے۔ وہ گھوڑا سست رفتار تھا یا اس کی رفتار میں سستی تھی۔ پھر جب آپ واپس آئے تو فرمایا: ”ہم نے تو آپ کے اس گھوڑے کو (روانی میں) دریا جیسا پایا ہے۔“ چنانچہ اس کے بعد کوئی گھوڑا اس سے آگے نہیں نکل سکتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2867]
حدیث حاشیہ:
یہ گھوڑا بے حد سست رفتار تھا لیکن آنحضرتﷺ کی سواری کی برکت سے ایسا تیز اور چالاک ہوگیا کہ کوئی گھوڑا اس کے برابر نہیں چل سکتا تھا۔
آپ اس سست رفتار گھوڑے پر سوار ہوئے‘ اسی سے باب کا مطلب نکلا۔
آنحضرتﷺ نے یہ اقدام فرما کر آئندہ آنے والے خلفائے اسلام کے لئے ایک مثال قائم فرمائی تاکہ وہ سست الوجود بن کر نہ رہ جائیں بلکہ ہر موقع پر بہادری و جرات و مقابلہ میں عوام سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2867
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2908
2908. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی کریم ﷺ تمام لوگوں سے زیادہ خوبصورت اور دلیر تھے۔ ایک رات اہل مدینہ پر سخت خوف و ہراس طاری ہوا تو وہ خوفناک آواز کی طرف نکلے۔ نبی کریم ﷺ سب سے پہلے آگے روانہ ہوئے اور واقعے کی تحقیق کی۔ آپ اس وقت حضرت ابو طلحہ ؓ کے ایسے گھوڑے پر سوار تھے جس پر زین نہیں تھی۔ آپ ﷺ نے اپنے گلے میں تلوار لٹکائی ہوئی تھی اور فرمارہےتھے: ”مت گھبراؤ، تمھیں گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔“ پھر آپ نے فرمایا: ”ہم نے اس گھوڑے کو سمندر (کی طرح سبک رفتار) پایا۔“ یا (یہ) فرمایا: ”بلاشبہ یہ (گھوڑا) سمندر ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2908]
حدیث حاشیہ:
مدینہ میں ایک دفعہ رات کو دشمن کے حملے کی افواہ پھیل گئی تھی۔
اسی کی تحقیق کے لئے آپ حضرت ﷺ خود بنفس نفیس نکلے اور چاروں طرف دور دور تک ملاحظہ فرما کر واپس ہوئے اور لوگوں کو بتلایا کہ کچھ خطرہ نہیں ہے۔
جس گھوڑے پر آپﷺ سوار تھے اس کی تیز رفتاری سے بہت خوش ہوئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2908
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3040
3040. حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ سب لوگوں سے زیادہ خوبصورت، سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے، چنانچہ ایک دفعہ اہل مدینہ خوفزدہ ہوئے۔ جب انھوں نےایک ہولناک آواز سنی تو نبی کریم ﷺ حضرت ابو طلحہ ؓ کے گھوڑے کی تنگی پیٹھ پر سوار ہوئے جبکہ آپ اپنے گلے میں تلوار لٹکائے ہوئے تھے۔ آپ نے لوگوں سے فرمایا: ”مت گھبراؤ، پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔“ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے (سبک رفتاری میں) اس گھوڑے کو دریا کی طرح پایا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3040]
حدیث حاشیہ:
بعض دشمن قبائل کی طرف سے مدینہ منورہ پر اچانک شب خونی کا خطرہ تھا‘ اور ایک دفعہ اندھیری رات میں کسی نامعلوم آواز سے ایسا شبہ ہوگیا تھا جس کی تحقیق کے لئے سب سے پہلے خود رسول کریمﷺ نکلے اور آپ مدینہ کے چاروں طرف دور دور تک پتہ لے کر واپس لوٹے اور مسلمانوں کی تسلی دلائی کہ کوئی خطرہ نہیں ہے‘ اسی سے باب کا مضمون ثابت ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3040
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2862
2862. حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ مدینہ طیبہ میں ایک دفعہ خوف طاری ہوا تو نبی ﷺ نے حضرت ابو طلحہ سے گھوڑا مستعار لیا جسے مندوب کہا جاتا تھا۔ پھر آپ اس پر سوارہوئے اور فرمایا: ”خوف وہر اس کی کوئی بات ہم نے نہیں دیکھی بلاشبہ اس(گھوڑے) کو ہم نے(روانی میں) دریا ہی پایا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2862]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے مشکل ہے کیونکہ فرس تو عربی زبان میں نر اور مادہ دونوں کو کہتے ہیں۔
بعضوں نے کہا إن وجدناہ میں جو ضمیر مذکور ہے اس سے حضرت امام بخاریؒ نے یہ نكالا کہ وہ نر گھوڑا تھا۔
اب باب کا یہ مطلب کہ شریر جانور پر سوار ہونا اس سے نکالا کہ نر اکثر مادیان کی بہ نسبت تیز اور شریر ہوتا ہے‘ اگرچہ کبھی مادہ نر سے بھی زیادہ شریر اور سخت ہوتی ہے (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2862
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6033
6033. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ سب سے زیادہ خوبصورت سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے اہل مدینہ ایک رات خوف وہراس میں مبتلا ہوئے تو وہ شور کی طرف بڑھے لیکن نبی ﷺ ان کو آگے سے ملے کیونکہ آپ اٹھنے والے شوروغل کی طرف سے سب سے پہلے تشریف لے گئے تھے۔ آپ نے فرمایا: ”گھبراؤ نہیں کوئی خطرے کی بات نہیں۔“ آپ ﷺ اس وات ابو طلحہ ؓ کے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار تھے، اس پر کوئی زین وغیرہ نہ تھی۔ آپ کی گردن میں تلوار آویزاں تھی اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے اس گھوڑے کو روانی میں سمندر کی طرح پایا۔“ یا فرمایا: ”یہ گھوڑا (تیز رفتاری میں) گویا سمندر ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6033]
حدیث حاشیہ:
اصول فضائل جو آدمی کو کسب اور ریاضت اور محنت سے حاصل ہو سکتے ہیں تین ہیں عفت اور شجاعت اور سخاوت اور حسن وجمال یہ فضیلت وہبی ہے تو آپ کی ذات مجموعہ کمالات فطری اور کسبی تھی، بے شک جس کا نام نامی ہی محمد ہو (صلی اللہ علیہ وسلم)
اسے اوصاف محمودہ کا مجموعہ ہونا ہی چاہیئے۔
آپ از سر تا پا اوصاف حمیدہ فاضلہ کے جامع تھے، شجاعت اور سخاوت میں اس قدر بڑھے ہوئے کہ آپ کی نظیر کوئی شخص اولاد آدم میں پیدا نہیں ہوا سچ ہے۔
۔
حسن یوسف دم عیسیٰ ید بیضا داری آنچہ خوہاں ہمہ دارند تو تنہا داری (صلی اللہ علیہ وسلم)
حضرت ابو طلحہ کا نام زید بن سہل انصاری ہے۔
یہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی ماں کے خاوند ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6033
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2627
2627. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نےکہا: ایک دفعہ مدینہ طیبہ میں دشمن کا خوف ساپیدا ہوا تو نبی ﷺ نے حضرت ابو طلحہ ؓ سے ایک گھوڑا مستعار لیا جسے مندوب کہا جا تا تھا۔ آپ اس پر سوار ہوئے۔ جب واپس تشریف لائے تو فرمایا: ” کوئی گڑبڑ نہیں ہے۔ یہ گھوڑا تو سمندر کی موج ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2627]
حدیث حاشیہ:
(1)
عاریت، اس لین دین کو کہتے ہیں جس میں ملکیت تو منتقل نہیں ہوتی، البتہ کسی چیز کا فائدہ عارضی طور پر منتقل ہو جاتا ہے۔
مقصد یہ ہے کہ کسی چیز کا فائدہ اور نفع ہبہ کرنا بھی جائز ہے۔
(2)
واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ مدینے میں دشمن کے آنے کی افواہ پھیلی تو رسول اللہ ﷺ نے شہر کا جائزہ لینے کے لیے حضرت ابو طلحہ ؓ کا گھوڑا عاریتاً لیا، واپسی پر بتایا کہ کوئی خطرہ نہیں ہے، البتہ گھوڑا اس طرح اڑتا ہے گویا سمندر کی موج ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ لوگوں کو امن و امان کی خوشخبری دینا مستحب امر ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2627
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2820
2820. حضرت انس ؓسے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ تمام لوگوں سے زیادہ خوبصورت، سب لوگوں سے زیادہ بہادر اور سب سے زیادہ فیاض تھے۔ (ایک رات ایسا ہوا کہ) اہل مدینہ خوف زدہ ہوئے تو نبی کریم ﷺ گھوڑے پر سوار ہوکر سب سے پہلے آئے اور فرمایا: ”(فکر کی کوئی بات نہیں) البتہ ہم نے اس گھوڑے کو سمندر کی طرح رواں دواں پایا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2820]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ ﷺ رات کے وقت خوف زدگی کے عالم میں تن تنہا تشریف لے گئے اور دشمن کا کچھ بھی ڈر محسوس نہ کیا۔
2۔
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا حسن و جمال جرات و شجاعت اور جود و سخاوت بیان ہوئی ہے آپ ﷺ نے کبھی کسی سائل کو محروم نہیں کیا۔
کبھی کسی سے ذاتی انتقام نہیں لیا۔
جس شخص نے معافی طلب کی اسے معاف کردیا۔
آپ ایسے عبادت گزار کے رات بھر نماز پڑھتے پاؤں پر ورم آجاتا۔
آپ کی تدبیر ورائے ایسی کہ چند دنوں میں عرب کی کایا پلٹ دی بڑے بڑے بہادروں کو نیچا دکھا دیا۔
3۔
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ انسان کو خطرے کے وقت بزدلی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ جرات و دلیری کے ساتھ سخت اور مشکل حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے۔
رسول اللہ ﷺ کی سیرت سے یہی سبق ملتا ہے۔
۔
۔
صلی اللہ علیه وسلم۔
۔
۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2820
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2857
2857. حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک رات مدینہ طیبہ میں کچھ دہشت سی طاری ہوئی تو نبی ﷺ نے ہمارا ایک گھوڑا مستعار لیا جسے مندوب کہا جاتا تھاپھر آپ نے فرمایا: ”ہم نے تو کوئی خوف کی بات نہیں دیکھی، البتہ ہم نے اس گھوڑے کو سمندر کی طرح (خوب تیز رو) پایا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2857]
حدیث حاشیہ:
1ان احادیث سے مقصود یہ ہے کہ نام وغیرہ رکھنا صرف انسان کے ساتھ خاص نہیں بلکہ حیوانات کے نام رکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
امام بخاری ؒنے اس سلسلے میں چار احادیث پیش کی ہیں۔
پہلی حدیث میں حضرت ابوقتادہ ؓ کے گھوڑے کا نام جرادہ ذکر ہوا جبکہ دوسری حدیث میں رسول اللہ ﷺکے ایک گھوڑے کا نام"لحیف یالخیف" بیان ہواہے۔
تیسری حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا گدھے پر سوار ہونا ذکر کیا جس کانام عفیر تھا اور چوتھی حدیث میں حضرت ابوطلحہ ؓکے گھوڑے کا نام "مندوب" بیان ہوا ہے۔
ان احادیث میں صرف گھوڑوں اور گدھے کے نام ہیں۔
دوسری احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ایک"دلدل" نامی خچر بھی تھا اور ایک اونٹنی کا نام "قصواء" اور دوسری کا نام "عضباء" تھا، نیز آپ کی سات بکریاں تھیں جن کے الگ الگ نام تھے۔
ان میں سے ایک کا نام "عیثہ" تھا اور رسول اللہ ﷺ کے چوبیس گھوڑے جن کے الگ نام تھے،چنانچہ سکب اور مرتجز کے نام کتب احادیث میں ملتے ہیں۔
(عمدة القاري: 172/10)
2۔
دوسری حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ اگرسواری کا جانور برداشت کرسکتا ہو تو زیادہ افراد اس پر سواری کرسکتے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2857
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2862
2862. حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ مدینہ طیبہ میں ایک دفعہ خوف طاری ہوا تو نبی ﷺ نے حضرت ابو طلحہ سے گھوڑا مستعار لیا جسے مندوب کہا جاتا تھا۔ پھر آپ اس پر سوارہوئے اور فرمایا: ”خوف وہر اس کی کوئی بات ہم نے نہیں دیکھی بلاشبہ اس(گھوڑے) کو ہم نے(روانی میں) دریا ہی پایا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2862]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ ﷺ حضرت ابوطلحہ ؓ کے مندوب نامی گھوڑے پر سوار ہوئے اور اس کی تعریف فرمائی کہ یہ گھوڑا روانی اور دریا کی طرح ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو نرگھوڑے کی سواری پسند تھی۔
2۔
اس کے نرہونے پر ضمیر مذکر بھی دلالت کرتی ہے۔
اور نر گھوڑا مادہ کی نسبت زیادہ تیز اور شر یرہوتا ہے اگرچہ بعض اوقات گھوڑی،نرسے بھی زیادہ سخت اور شریر ہوتی ہے لیکن عام طور پر یہ وصف گھوڑوں میں پایا جاتا ہے۔
3۔
امام بخاری ؒ کی غرض نر اور شریر گھوڑے پر سوارہونے کی رغبت دلاتا ہے جس پر حضرت راشد بن سعد کا اثر دلالت کرتا ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2862
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2866
2866. حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ نبی ﷺ گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر جس پر زین نہیں تھی سوار ہو کر صحابہ کرام ؓسے آگے نکل گئے تھے۔ آپ کی گردن مبارک میں تلوار لٹک رہی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2866]
حدیث حاشیہ:
1۔
یہ حدیث اس واقعے سے متعلق ہے کہ جب مدینہ طیبہ میں خوف و ہراس پھیلا تھا اور رسول اللہ ﷺ حضرت ابو طلحہ ؓ کا گھوڑا ادھار لے کر آگے نکل گئے تھے۔
2۔
اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کی تواضع اور عجز و انکسار کا بھی پتہ چلتا ہے نیز یہ بھی کہ آپ گھوڑسواری میں پوری مہارت رکھتے تھے، پھر بوقت ضرورت تلوار زیب تن کرنے میں بھی کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے۔
3۔
علمائے کرام کو چاہیے کہ وہ اس طرح کے فنون حرب میں دلچسپی رکھیں۔
جنگ سے متعلق جو نئی ایجادات ہیں ان سب کو اس پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2866
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2867
2867. حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ ایک مرتبہ اہل مدینہ کو کوئی خطرہ محسوس ہوا تو نبی ﷺ حضرت ابو طلحہ ؓ کے گھوڑے پر سوار ہوئے۔ وہ گھوڑا سست رفتار تھا یا اس کی رفتار میں سستی تھی۔ پھر جب آپ واپس آئے تو فرمایا: ”ہم نے تو آپ کے اس گھوڑے کو (روانی میں) دریا جیسا پایا ہے۔“ چنانچہ اس کے بعد کوئی گھوڑا اس سے آگے نہیں نکل سکتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2867]
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت ابو طلحہ ؓ کا یہ مندوب نامی گھوڑا انتہائی سست رفتار تھا رسول اللہ ﷺ کی برکت سے وہ ایسا تیز رفتار ہوا کہ کوئی گھوڑا اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔
2۔
رسول اللہ ﷺ نے یہ اقدام فرما کر آئندہ آنے والے اپنے ورثاء کے لیے ایک مثال قائم کر دی کہ وہ ہر موقع پر جرات اور بہادری کا مظاہرہ کریں اور کسی وقت بھی عوام الناس سے پیچھے نہ رہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2867
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2908
2908. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی کریم ﷺ تمام لوگوں سے زیادہ خوبصورت اور دلیر تھے۔ ایک رات اہل مدینہ پر سخت خوف و ہراس طاری ہوا تو وہ خوفناک آواز کی طرف نکلے۔ نبی کریم ﷺ سب سے پہلے آگے روانہ ہوئے اور واقعے کی تحقیق کی۔ آپ اس وقت حضرت ابو طلحہ ؓ کے ایسے گھوڑے پر سوار تھے جس پر زین نہیں تھی۔ آپ ﷺ نے اپنے گلے میں تلوار لٹکائی ہوئی تھی اور فرمارہےتھے: ”مت گھبراؤ، تمھیں گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔“ پھر آپ نے فرمایا: ”ہم نے اس گھوڑے کو سمندر (کی طرح سبک رفتار) پایا۔“ یا (یہ) فرمایا: ”بلاشبہ یہ (گھوڑا) سمندر ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2908]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث میں تلوار کے میان کا ذکر نہیں ہے لیکن تلوار کے ذکر میں اس کا ذکر خود بخود آجاتاہے کیونکہ اس کے بغیر تلوار نہیں لٹکائی جاسکتی۔
2۔
رسول اللہ ﷺنے حضرت ابوطلحہ ؓ کے گھوڑے کی تعریف فرمائی کہ وہ دریا کے پانی کی طرح تیز چلتاہے گویا وہ پانی پر تیرتا ہے اور سواری کرنے والے کو ذرہ بھر تکلیف نہیں ہوتی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2908
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2968
2968. حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک دفعہ مدینہ طیبہ میں خوف و ہراس پھیلا تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو طلحہ ؓ کے گھوڑے پر سوار ہو کر خود پیش قدمی کی اور واپس آکر فرمایا: ”ہم نے تو وہاں کچھ نہیں دیکھا، البتہ اس گھوڑے کو دریا جیسا پایا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2968]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے امام بخاری ؒنے متعدد مسائل کااستباط کیا ہے۔
اس مقام پر عنوان سے مطابقت واضح ہے کہ خوف و ہراس کے وقت کسی سپاہی کو حکم دینے کی بجائے خود امام کافریضہ ہے کہ وہ اس کی حقیقت کا پتہ چلانے کے لیے پیش قدمی کرے،چنانچہ ایسے حالات میں خود رسول اللہ ﷺ گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار ہوئے اورگلے میں تلوار لٹکائی، پھر مقام خوف کی طرف پیش قدمی کی اورلوگوں کوتسلی دی کہ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔
۔
۔
صلی اللہ علیه وسلم۔
۔
۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2968
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3040
3040. حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ سب لوگوں سے زیادہ خوبصورت، سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے، چنانچہ ایک دفعہ اہل مدینہ خوفزدہ ہوئے۔ جب انھوں نےایک ہولناک آواز سنی تو نبی کریم ﷺ حضرت ابو طلحہ ؓ کے گھوڑے کی تنگی پیٹھ پر سوار ہوئے جبکہ آپ اپنے گلے میں تلوار لٹکائے ہوئے تھے۔ آپ نے لوگوں سے فرمایا: ”مت گھبراؤ، پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔“ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے (سبک رفتاری میں) اس گھوڑے کو دریا کی طرح پایا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3040]
حدیث حاشیہ:
1۔
مدینہ طیبہ میں جب اسلامی حکومت قائم ہوئی تو دشمن قبائل کی طرف سے اچانک شبخون کا خطرہ تھا۔
ایک دفعہ اندھیری رات میں ایک خوفناک آواز آنے پر اس قسم کا شبہ پیدا ہوا تو حالات کا جائزہ لینے کے لیے خود رسول اللہ ﷺ تن تنہا باہر تشریف لے گئے اور مدینہ طیبہ کے چاروں طرف دور دور تک جائزہ لے کر واپس لوٹے اور اہل مدینہ کو تسلی دی کہ کوئی خطرے والی بات نہیں ہے۔
2۔
امام بخاری ؒنے اس سے ثابت کیا ہے کہ اگر اس قسم کے ہنگامی حالات پیدا ہوں تو امیر لشکر یا اس کے قائم مقام کو خودد اس کا جائزہ لینا چاہیے اور لوگوں کو افواہ سازی کا موقع نہیں دینا چاہیے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3040
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6033
6033. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ سب سے زیادہ خوبصورت سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے اہل مدینہ ایک رات خوف وہراس میں مبتلا ہوئے تو وہ شور کی طرف بڑھے لیکن نبی ﷺ ان کو آگے سے ملے کیونکہ آپ اٹھنے والے شوروغل کی طرف سے سب سے پہلے تشریف لے گئے تھے۔ آپ نے فرمایا: ”گھبراؤ نہیں کوئی خطرے کی بات نہیں۔“ آپ ﷺ اس وات ابو طلحہ ؓ کے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار تھے، اس پر کوئی زین وغیرہ نہ تھی۔ آپ کی گردن میں تلوار آویزاں تھی اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے اس گھوڑے کو روانی میں سمندر کی طرح پایا۔“ یا فرمایا: ”یہ گھوڑا (تیز رفتاری میں) گویا سمندر ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6033]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت انس رضی اللہ عنی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تین اوصاف بیان کرنے پر اکتفا کیا ہے کیونکہ یہ اوصاف، جامع اخلاق ہیں۔
انھیں اصول اخلاق بھی کہا جاتا ہے۔
ان میں حسن وجمال تو وہبی فضیلت ہے جسے انسان محنت سے حاصل نہیں کر سکتا، باقی شجاعت وسخاوت جیسے اوصاف محنت وکوشش سے حاصل ہو سکتے ہیں۔
(2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی مجموعۂ کمالات فطری وکسبی تھی۔
آپ سرتاپا اوصاف حمیدہ اور اخلاق فاضلہ کے جامع تھے۔
شجاعت وسخاوت میں اس قدر بڑھے ہوئے کہ آپ کی نظیر نہیں پیش کی جا سکتی، کسی نے خوب کہا ہے:
حسنِ یوسف،دمِ عیسیٰ، ید بیضاداری آنچہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا داری
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6033
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6212
6212. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک دفعہ مدینہ طیبہ میں گھبراہٹ پیدا ہوئی تو نبی ﷺ حضرت طلحہ ؓ کے گھوڑے پر سوار ہوئے اور فرمایا: ”ہمیں تو خوف وہراس کی کوئی چیز نظر نہیں آئی البتہ ہم نے اس گھوڑے کو سمندر پایا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6212]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑے کی رفتار کو سمندر سے تشبیہ دی کہ یہ بڑی روانی اور سکون سے دوڑتا ہے، پھر اس کی روانی کی صفت کو مجازی طور پر گھوڑے پر بولا گیا۔
(2)
بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے الفاظ استعمال کیے جن کے ظاہری معنی مراد نہیں تھے۔
بعض اوقات ایسا کرنا جائز ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6212