صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: جہاد کا بیان
The Book of Jihad (Fighting For Allah’S Cause)
112. بَابُ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا لَمْ يُقَاتِلْ أَوَّلَ النَّهَارِ أَخَّرَ الْقِتَالَ حَتَّى تَزُولَ الشَّمْسُ:
112. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دن ہوتے ہی اگر جنگ نہ شروع کر دیتے تو سورج کے ڈھلنے تک لڑائی ملتوی رکھتے۔
(112) Chapter. If the Prophet (p.b.u.h) had not started fighting during the early hours of the day, he would delay it till the sun had declined (i.e., after midday).
حدیث نمبر: 2966
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) ثم قام في الناس خطيبا، قال: ايها الناس لا تتمنوا لقاء العدو وسلوا الله العافية، فإذا لقيتموهم فاصبروا واعلموا ان الجنة تحت ظلال السيوف، ثم قال:" اللهم منزل الكتاب، ومجري السحاب، وهازم الاحزاب اهزمهم، وانصرنا عليهم".(مرفوع) ثُمَّ قَامَ فِي النَّاسِ خَطِيبًا، قَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ لَا تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ الْعَدُوِّ وَسَلُوا اللَّهَ الْعَافِيَةَ، فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاصْبِرُوا وَاعْلَمُوا أَنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ ظِلَالِ السُّيُوفِ، ثُمَّ قَالَ:" اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الْكِتَابِ، وَمُجْرِيَ السَّحَابِ، وَهَازِمَ الْأَحْزَابِ اهْزِمْهُمْ، وَانْصُرْنَا عَلَيْهِمْ".
‏‏‏‏ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: لوگو! دشمن کے ساتھ جنگ کی خواہش اور تمنا دل میں نہ رکھا کرو، بلکہ اللہ تعالیٰ سے امن و عافیت کی دعا کیا کرو، البتہ جب دشمن سے مڈبھیڑ ہو ہی جائے تو پھر صبر و استقامت کا ثبوت دو، یاد رکھو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں دعا کی «اللهم منزل الكتاب ومجري السحاب وهازم الأحزاب،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اهزمهم وانصرنا عليهم‏"‏‏.‏» اے اللہ! کتاب کے نازل کرنے والے، بادل بھیجنے والے، احزاب (دشمن کے دستوں) کو شکست دینے والے، انہیں شکست دے اور ان کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

And then he got up among the people and said, "O people! Do not wish to face the enemy (in a battle) and ask Allah to save you (from calamities) but if you should face the enemy, then be patient and let it be known to you that Paradise is under the shades of swords." He then said,, "O Allah! The Revealer of the (Holy) Book, the Mover of the clouds, and Defeater of Al-Ahzab (i.e. the clans of infidels), defeat them infidels and bestow victory upon us."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4 , Book 52 , Number 210


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري2833عبد الله بن علقمةإذا لقيتموهم فاصبروا
   صحيح البخاري7237عبد الله بن علقمةلا تتمنوا لقاء العدو وسلوا الله العافية
   صحيح البخاري3025عبد الله بن علقمةلا تمنوا لقاء العدو وسلوا الله العافية إذا لقيتموهم فاصبروا الجنة تحت ظلال السيوف اللهم منزل الكتاب ومجري السحاب وهازم الأحزاب اهزمهم وانصرنا عليهم
   صحيح البخاري2966عبد الله بن علقمةلا تتمنوا لقاء العدو وسلوا الله العافية إذا لقيتموهم فاصبروا الجنة تحت ظلال السيوف اللهم منزل الكتاب ومجري السحاب وهازم الأحزاب اهزمهم وانصرنا عليهم
   صحيح مسلم4542عبد الله بن علقمةلا تتمنوا لقاء العدو واسألوا الله العافية إذا لقيتموهم فاصبروا الجنة تحت ظلال السيوف اللهم منزل الكتاب ومجري السحاب وهازم الأحزاب اهزمهم وانصرنا عليهم
   سنن أبي داود2631عبد الله بن علقمةلا تتمنوا لقاء العدو وسلوا الله العافية إذا لقيتموهم فاصبروا الجنة تحت ظلال السيوف اللهم منزل الكتاب ومجري السحاب وهازم الأحزاب اهزمهم وانصرنا عليهم

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2966 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2966  
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ جہاں تک ممکن ہو لڑائی کو ٹالنا اچھا ہے۔
اگر کوئی صلح کی عمدہ صورت نکل سکے۔
کیونکہ اسلام فتنہ و فساد کے سخت خلاف ہے۔
ہاں جب کوئی صورت نہ بنے اور دشمن مقابلہ ہی پر آمادہ ہو تو جم کر اور خوب ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے اور ایسے موقعہ پر اس دعائے مسنونہ کا پڑھنا ضروری ہے جو یہاں مذکور ہوئی ہے۔
یعنی اَللّٰھُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ سَرِیْعَ الْحِسَابِ اھْزِمِ الْاَحْزَابَ،اَللّٰھُمَّ اھْزِمْھُمْ وَزَلْزِلْھُمْ وانصُرنَا علیھِم جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔
اس کا مطلب یہ کہ جنت کے لئے مالی و جانی قربانی کی ضرورت ہے جنت کا سودا کوئی سستا سودا نہیں ہے۔
جیسا کہ آیت قرآن ﴿اِنَّ اللہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّة﴾ (التوبة: 111)
میں مذکور ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2966   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2966  
حدیث حاشیہ:

سورج ڈھلنے تک انتظار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت مدد کی ہوائیں چلتی ہیں اور دن ٹھنڈا ہونے کے باعث جم کر لڑائی کی جاتی ہے، نیز مسلمان اپنی نمازوں میں مجاہدین کے لیے دعائیں کرتے ہیں، چنانچہ نعمان بن مقرن ؓ بیان کرتے ہیں:
رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ وہ ایک جنگ میں شریک تھے، جب فجر طلوع ہوتی تو آپ لڑائی سے رُک جاتے، پھر جب سور ج طلوع ہوتا تو دوپہر تک جنگ کرتے، پھر زوال آفتاب کےبعد حملہ کرتے اور عصر کے وقت رُک جاتے، پھر نماز عصر کے بعد حملہ کرتے۔
کہا جاتا ہے کہ اس وقت نصرت کی ہوائیں چلتی ہیں اور اہل ایمان اپنے لشکروں کے لیے نمازوں میں دعائیں کرتے ہیں۔
(جامع الترمذي، السیر، حدیث: 1612)

نصرت کی ہوا سے مرادبادصبا ہے جو بالعموم فتح ونصرت کا باعث ہوتی ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنگ وقتال اسلام کی نظر میں ذاتی طور پر کوئی مرغوب چیز نہیں۔
جہاں تک ممکن ہو اس سے بچنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2966   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2631  
´دشمن سے مڈبھیڑ کی آرزو اور تمنا مکروہ ہے۔`
عمر بن عبیداللہ بن معمر کے غلام اور ان کے کاتب (سکریٹری) سالم ابونضر کہتے ہیں کہ عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے ان کو جب وہ خارجیوں کی طرف سے نکلے لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لڑائی میں جس میں دشمن سے سامنا تھا فرمایا: لوگو! دشمنوں سے مڈبھیڑ کی تمنا نہ کرو، اور اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرو، لیکن جب ان سے مڈبھیڑ ہو جائے تو صبر سے کام لو، اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے، پھر فرمایا: اے اللہ! کتابوں کے نازل فرمانے والے، بادلوں کو چلانے والے، اور جتھوں کو شکست دینے والے، انہیں شکست دے، اور ہمیں ان پر غل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2631]
فوائد ومسائل:

جنگ کوئی عام کھیل نہیں جب اس سے واسطہ پڑتا ہے۔
تو حقیقت کھلتی ہے۔
کہ انسان ایمان اور بہادری کے کس معیار پر ہے۔
اس لئے آرزو یہ ہونی چاہیے کہ یہ موقع ہی نہ آئےتو اچھا ہے۔
مگر جب دوبدو ہونا لازمی ٹھہرے۔
تواللہ پر توکل کرتے ہوئے اپنی قوت وبسالت کا بھر پور اظہار کرنا چاہیے۔
شہادت کی تمنا بھی اسی طرح ہے۔
کہ موقع آنے پر انسان سردھڑ کی بازی لگانے سے دریغ نہ کرے۔
مگر بے موقع یا بے مقصد جان دے دینا تو کوئی معنی نہیں رکھتا۔


حروری خارجیوں کاایک نام ہے۔
کیونکہ یہ لوگ صفین سے واپس آئے۔
تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے الگ ہوکر کوفہ سے باہر مضافات میں حرورا نام کے ایک مقام پرجمع ہوگئے۔
اور یہی ان کا پہلا مرکز تھا۔
اس کی طرف نسبت سے یہ لوگ حروری کہلائے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2631   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4542  
حضرت عبداللہ بن ابی رضی اللہ تعالی عنہ نے عمر بن عبیداللہ رضی اللہ تعالی عنہ کو جب وہ خوارج سے جنگ کے لیے نکلا آگاہی کے لیے یہ خط لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات دشمن کے مقابلہ کے لیے نکلتے تو سورج ڈھلنے کا انتظار فرماتے، جب سورج ڈھل جاتا تو یہ خطاب فرماتے، اے لوگو، دشمن سے مڈ بھیڑ کی آرزو نہ کرو اور اللہ سے عافیت کی درخواست کرو اور جب دشمن سے ٹکراؤ ہو جائے تو ثابت قدم رہو اور یقین کر لو، جنت تلواروں کے سایہ تلے ہے۔ پھر آپ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4542]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
دشمن سے مقابلہ کی صورت میں،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کا آغاز صبح کی نماز کے بعد فرماتے تھے،
کیونکہ صبح کی نماز میں پیچھے رہنے والے مسلمان دعائے قنوت نازلہ کے ذریعہ مسلمانوں کی فتح و نصرت اور دشمن کی ہزیمت،
مغلوبیت کی اللہ کے حضور درخواست کرتے ہیں اور صبح کے وقت انسان تازہ دم اور چاک و چوبند ہوتا ہے،
اگر لڑائی کا آغاز صبح کو نہ ہو سکتا تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم زوال کا انتظار فرماتے،
تاکہ مسلمان نماز ظہر میں قنوت نازلہ کر لیں اور ہوا کے چلنے سے دھوپ کی حدت و تپش میں کمی آ جائے اور مسلمان پوری دلجمعی کے ساتھ لڑائی میں شریک ہو جائیں۔
الجنة تحت ظلال السيوف:
اس میں انتہائی اختصار کے ساتھ،
انتہائی موثر انداز میں،
جہاں کا ثواب بیان کر کے،
اتحاد و اتفاق کی فضاء میں اپنے دور کا اسلحہ استعمال کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور آخر میں دعا کے ذریعہ اللہ کی نصرت و حمایت کے اسباب کے حصول کے ذریعہ مجاہدوں کے حوصلہ کو بڑھایا ہے کہ وہ کتاب اتارنے والا ہے،
جس میں مسلمانوں کی نصرت کا وعدہ ہے کہ وہ بادلوں کو چلانے والا ہے کہ وہ قدرت کاملہ کا مالک ہے،
کائنات کے ظاہری اسباب سے جو چاہے کام لے سکتا ہے اور ان کے ذریعہ دشمن کو ہزیمت سے دوچار کر سکتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4542   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2833  
2833. حضرت ابو نضرسالم سے روایت ہے، کہ حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی ؓنے تحریر لکھی جسے میں نے خود پڑھا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب دشمن سے تمھاری مڈبھیڑ ہو جائے تو صبر سے کام لو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2833]
حدیث حاشیہ:
یعنی مستقل مزاجی کے ساتھ جمے رہو اور حالات جیسے بھی ہوں بد دل ہرگز نہ ہو‘ بزدلی یا فرار مومن کی شان نہیں۔
اگر موت مقدر نہیں ہے تو یقیناً سلامتی کے ساتھ واپسی ہوگی اور موت مقدر ہے تو کوئی طاقت نہ بچا سکے گی۔
یہی ایمان اور یقین ہے جو مرد مومن کو غازی یا شہید کے معزز القاب سے ملقب کرتا ہے۔
ارشادِ باری ہے ﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا سْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ﴾ (البقرة: 153)
ترجمہ:
اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو‘ بے شک اللہ پاک صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2833   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2833  
2833. حضرت ابو نضرسالم سے روایت ہے، کہ حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی ؓنے تحریر لکھی جسے میں نے خود پڑھا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب دشمن سے تمھاری مڈبھیڑ ہو جائے تو صبر سے کام لو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2833]
حدیث حاشیہ:

اس کامطلب یہ ہے کہ ایسے حالات میں مستقل مزاجی کے ساتھ جمے رہو اور حالات جیسے بھی ہوں بددل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ بزدلی اور فرارمومن کی شان نہیں اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللَّـهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾ اے ایمان والو!جب کسی گروں سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو،اللہ کو بکثرت یاد کیاکرو تاکہ تم کامیاب رہو۔
(الأنفال: 45/8)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ دوران جنگ میں اللہ تعالیٰ کو بکثرت یاد کرنا ثابت قدمی کا باعث ہے اور کامیابی کا راز ہے۔
حدیث میں صبر سے مراد یہی ہے کہ ذکر الٰہی سے اپنے دل کومطمئن رکھو۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2833   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7237  
7237. حضرت سالم ابو نضر مولیٰ عمر بن عبید اللہ سے روایت ہے جو اپنے آقا کے کاتب تھے‘ انہوں نے بتایا کہ حضرت عبد اللہ بن ابی اوفیٰ ؓ نے انہیں خط لکھا جسے میں نے خود پڑھا‘ اس میں یہ مضمون تھا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: دشمن سے مقابلے کی تمنا نہ کرو بلکہ اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7237]
حدیث حاشیہ:
دشمن سے مقابلے کی خواہش مکروہ ہے لیکن یہ شہادت کی تمنا کے منافی نہیں کیونکہ شہادت کا حصول تو اسلام کی نصرت اور اس کے غلبے کےساتھ ممکن ہے لیکن مقابلے کی خواہش کرنااس کے برعکس ہوسکتا ہے، نیز دشمن سے ملاقات کی کراہت اس شخص کے لیے ہے جو اپنی قوت پر ہی اعتماد کرے اور خود کو بڑا خیال کرے، ایسے شخص کے لیے دشمن سے مڈ بھیڑ کی خواہش کرنا مکروہ ہے۔
(فتح الباري: 275/13)
ایک حدیث میں ہے:
دشمن سے مقابلے کی خواہش نہ کرو لیکن جب آمنا سامنا ہو جائے تو ڈٹ کر مقابلہ کرو۔
(صحیح البخاري، الجھاد والسیر، حدیث: 3026)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7237   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.