ہم سے محمد بن عبیداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک بن انس نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ابن فلاں (ابن سمعان) نے خبر دی، انہیں سعید مقبری نے، انہیں ان کے باپ نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور (دوسری سند اور امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا) اور ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی ہمام سے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب کوئی کسی سے جھگڑا کرے تو چہرے (پر مارنے) سے پرہیز کرے۔“
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2559
حدیث حاشیہ: مارپیٹ میں چہرے پر مارنے سے پرہیز صرف غلام کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ یہاں چونکہ غلاموں کا بیان ہورہا تھا اس لیے عنوان میں اسی کا خصوصیت سے ذکر کیا۔ بلکہ چہرے پر مارنے سے پرہیز کا حکم تمام انسانوں بلکہ جانوروں تک کے لیے ہے۔ حضرت امام ؒنے روایت میں ایک راوی کا نام نہیں لیا۔ صرف ابن فلاں سے یاد کیا ہے اور وہ ابن سمعان ہے اور وہ ضعیف ہے۔ اسے امام مالک ؒ اور امام محمد ؒ نے جھوٹا کہا ہے اور امام بخاری نے اس کی روایت اس مقام کے سوا اور کہیں اس کتاب میں نہیں نکالی اور یہاں بھی بطور متابعت کے ہے۔ کیوں کہ امام مالک اور عبدالرزاق کی روایت بھی بیان کی۔ تشریح: اسلم کی روایت میں صاف إذا ضرب هے اور اس حدیث میں گو خادم کو مارنے کی صراحت نہیں ہے مگر امام بخاری نے اس طریق کی طرف اشارہ کیا جس کو انہوں نے ادب المفرد میں نکالا اس میں یوں ہے۔ إذا ضرب خادمه یعنی جب کوئی تم میں سے اپنے خادم کو مارے۔ حافظ ؒنے کہا یہ عام ہے خواہ کسی حد میں مارے یا تعزیر میں ہر حال میں منه پر نہ مارنا چاہئے۔ اس کی وجہ مسلم کی روایت میں یوں مذکور ہے۔ کیوں کہ اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا (وحیدی) ویسے چہرے پر مارنا ادب اور اخلاق کے بھی سراسر خلاف ہے۔ اگر مارنا ہی ہو تو جسم کے دیگر اعضاءموجود ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: قَالَ النَّوَوِيُّ قَالَ الْعُلَمَاءُ إِنَّمَا نَهَى عَنْ ضَرْبِ الْوَجْهِ لِأَنَّهُ لَطِيفٌ يَجْمَعُ الْمَحَاسِنَ وَأَكْثَرُ مَا يَقَعُ الْإِدْرَاكُ بِأَعْضَائِهِ فَيُخْشَى مِنْ ضَرْبِهِ أَنْ تَبْطُلَ أَوْ تَتَشَوَّهَ كُلُّهَا أَوْ بَعْضُهَا وَالشَّيْنُ فِيهَا فَاحِشٌ لِظُهُورِهَا وَبُرُوزِهَا بَلْ لَا يَسْلَمُ إِذَا ضَرَبَهُ غَالِبًا مِنْ شَيْنٍ اه وَالتَّعْلِيلُ الْمَذْكُورٌ حَسَنٌ لَكِنْ ثَبَتَ عِنْدَ مُسْلِمٍ تَعْلِيلٌ آخَرُ فَإِنَّهُ أَخْرَجَ الْحَدِيثَ الْمَذْكُورَ مِنْ طَرِيقِ أَبِي أَيُّوبَ الْمَرَاغِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَزَادَ فَإِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ وَاخْتُلِفَ فِي الضَّمِيرِ عَلَى مَنْ يَعُودُ فَالْأَكْثَرُ عَلَى أَنَّهُ يَعُودُ عَلَى الْمَضْرُوبِ لِمَا تَقَدَّمَ مِنَ الْأَمْرِ بِإِكْرَامِ وَجْهِهِ وَلَوْلَا أَنَّ الْمُرَادَ التَّعْلِيلُ بِذَلِكَ لَمْ يَكُنْ لِهَذِهِ الْجُمْلَةِ ارْتِبَاطٌ بِمَا قَبْلَهَا وَقَالَ الْقُرْطُبِيُّ أَعَادَ بَعْضُهُمُ الضَّمِيرَ عَلَى اللَّهِ مُتَمَسِّكًا بِمَا وَرَدَ فِي بَعْضِ طُرُقِهِ إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةِ الرَّحْمَنِ إلی آخرہ۔ (فتح الباري) خلاصہ مطلب یہ کہ علماءنے کہا ہے چہرے پر مارنے کی ممانعت اس لیے ہے کہ یہ عضو لطیف ہے جو جملہ محاسن کا مجموعہ ہے اور اکثر ادراک کا وقوع چہرے کے اعضاء ہی سے ہوتا ہے۔ پس اس پر مارنے سے خطرہ ہے کہ اس میں کئی ایک نقائص و عیوب پیدا ہوجائیں، پس یہ علت بہتر ہے جن کی بنا پر چہرے پر مارنا منع کیاگیا ہے۔ لیکن امام مسلم کے نزدیک ایک اور علت ہے۔ انہوں نے اس حدیث کو ابوایوب مراغی کی سند کے ساتھ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے۔ جس میں یہ لفظ زیادہ ہیں کہ اللہ نے آدم کو اس کی صورت پر پیدا کیا ہے اگر چہ ضمیر کے مرجع میں اختلاف ہے مگر اکثر علماءکے نزدیک یہ ضمیر مضروب ہی کی طرف لوٹتی ہے۔ اس لیے کہ پہلے چہرے کے اکرام کا حکم ہوچکا ہے۔ اگر یہ تعلیل مراد نہ لی جائے تو اس جملہ کا ماقبل سے کوئی ربط باقی نہیں رہ جاتا۔ قرطبی نے کہا کہ بعض نے ضمیر کو اللہ کی طرف لوٹایا ہے۔ دلیل میں بعض طرق کی اس عبارت کو پیش کیا ہے جس میں ذکر ہے کہ اللہ نے آدم کو رحمن کی صورت پر پیدا کیا۔ مترجم کہتا ہے کہ قرآن کی نص صریح ﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ﴾ دلیل ہے کہ اللہ پاک کو اور اس کے چہرے کو کسی سے تشبیہ نہیں دی جاسکتی۔ واللہ أعلم بالصواب۔ اہل حدیث کا یہی مذہب ہے کہ اللہ پاک اپنی ذات اور جملہ صفات میں وحدہ لاشریک لہ ہے اور اس بارے میں کرید کرنا بدعت ہے۔ جیسا کہ استواءعلی العرش کے متعلق سلف کا عقیدہ ہے۔ وباللہ التوفیق۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2559
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2559
حدیث حاشیہ: (1) صحیح مسلم کی روایت میں قاتل کی جگہ کی جگہ لفظ ضرب ہے۔ (صحیح مسلم، البروالصلة، حدیث: 6652(2612) اس حدیث میں اگرچہ خادم کو مارنے کی صراحت نہیں مگر امام بخاری ؒ نے اپنی کتاب "الادب المفرد" میں یہ روایت بیان کی ہے کہ جب تم میں سے کوئی اپنے خادم کو مارے تو چہرے پر مارنے سے پرہیز کرے۔ (الأدب المفرد، حدیث: 174)(2) مار پیٹ کے دوران چہرے پر مارنے سے بچنا صرف غلام یا خادم کے ساتھ خاص نہیں بلکہ چہرے پر مارنے سے پرہیز کا حکم تمام انسانوں بلکہ جانوروں تک کے لیے ہے کیونکہ چہرہ ایک ایسا عضو لطیف ہے جو جملہ محاسن (تمام خوبصورتیوں) کا مجموعہ ہے۔ اس پر مارنے سے کئی ایک عیوب اور نقائص کا اندیشہ ہے۔ ویسے بھی چہرے پر مارنا ادب اور اخلاق کے سراسر خلاف ہے۔ اگر مارنا ضروری ہو تو جسم کے دوسرے اعضاء کو زدوکوب کر لیا جائے۔ سکول کے اساتذہ اور مدارس کے قراء حضرات کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2559
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1287
مسلمان کو چہرے پر مارنا منع ہے «وعن ابي هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم:إذا قاتل احدكم فليجتنب الوجه متفق عليه .» ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص لڑے تو چہرے سے بچے۔“ متفق عليه۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1287]
تخریج: [بخاري 2559]، [مسلم/البر والصلة 112]، [تحفة الاشراف 204/10] فوائد: ➊ چہرے پر مارنے کی ممانعت: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے چہرے پر کوئی بھی چیز مارنا منع ہے حتیٰ کہ اپنے غلام، خادم یا شاگرد کو ادب سکھانے کے لئے یا سزا دیتے وقت بھی منہ پر کوئی چیز مارنا حرام ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک مرفوع روایت میں یہ لفظ آئے ہیں: «اذا ضرب احدكم خادمه فليجتنب الوجه»[صحيح الادب المفرد حديث نمبر130] ”جب تم میں سے کوئی اپنے خادم کو مارے تو چہرے سے بچے۔“ آپس میں لڑائی ہو جائے غصہ اور جذبات کتنے ہی مشتعل کیوں نہ ہوں مسلمان کے منہ پر ہتھیار چھوڑ کر تھپٹر بھی نہ مارے۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: «اذا قاتل احدكم اخاه فلا يلطمن الوجه»[مسلم/البروالصلة 116] ”جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی سے لڑے تو منہ پر تھپٹر نہ مارے۔“ ● سزا دیتے وقت بھی منہ پر نہ مارے: ایک روایت میں «قَاتَلَ» کی جگہ «اِذَا ضَرَبَ اَحَدُكُمْ» کے لفظ ہیں۔ [مسلم - البر والصلة 112] یعنی صرف لڑائی ہی نہیں کسی وجہ سے بھی مارے تو چہرے پر مارنے سے بچے۔ ➋ باکسنگ: باکسنگ میں چونکہ ایک دوسرے کے چہرے کو نشانہ بنایا جاتا ہے اس لئے اس حدیث کی رو سے یہ وحشیانہ کھیل حرام ہے۔ ➌ چہرے پر مارنا کیوں منع ہے؟: چہرے پر مارنے کی حرمت کی ایک وجہ تو صاف ظاہر ہے کہ یہ انسانی حسن و جمال کا مظہر ہے اور آدمی کے اکثر حواس مثلاً دیکھنا، سننا، چکھنا اور سونگھنا چہرے میں ہی پائے جاتے ہیں۔ چہرے پر مارنے کی صورت میں ان تمام حواس کا یا ان میں سے کسی ایک کا ختم ہو جانا یا خراب ہو جانا عین ممکن ہے اور شکل بگڑنے کا بھی اندیشہ ہے۔ کسی مسلم بھائی کے ساتھ اتنی زیادتی کی صورت بھی جائز قرار نہیں دی جا سکتی۔ دوسری وجہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے۔ صحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ: «اذا قاتل احدكم اخاه فليجتنب الوجه فان الله خلق آدم على صورته»[مسلم البر والصلة 115] ”جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی سے لڑے تو چہرے سے بچے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا۔“ اس حدیث میں مارنے سے ممانعت کی وجہ سے انسانی چہرے کی تکریم قرار دی گئی ہے۔ بعض لوگ اس حدیث کی یہ تشریح کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اس (آدم) کی صورت پر پیدا فرمایا، مگر ابن ابی عاصم نے ”کتاب السنہ“ میں ابويونس عن ابی ہریرة رضی اللہ عنہ کے طریق سے یہی روایت ان الفاظ میں بیان کی ہے: «من قاتل فليجتنب الوجه فان صورة وجه الانسان على صورة وجه الرحمن» ”جو شخص لڑے وہ چہرے سے بچے کیونکہ انسان کے چہرے کی صورت رحمان کے چہرے کی صورت پر ہے۔“ فتح الباری میں اس مفہوم کی اور روایات بھی لکھی ہیں، دیکھیے: [جلد 5 حديث 2559] اسحاق بن راہویہ اور احمد بن حنبل رحمها الله نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا جس میں ہے کہ اللہ نے آدم کو رحمان کی صورت پر پیدا فرمایا۔ [فتح الباري، حواله مذكوره ] البتہ یہ بات خاص طور پر مدنظر رہنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا کہ: «لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ»[الشوريٰ 11] ”اللہ کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہ سمیع و بصیر ہے۔“ اسی طرح اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا مگر اس سے مراد کیا ہے؟ اس کی اصل حقیقت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے اتنی بات یقینی ہے کہ اللہ کی مثل کوئی چیز نہیں۔ مخلوق کو خالق کے ساتھ تشبیہ نہیں دی جا سکتی۔ ➍ کافر کو چہرے پر مارنے کا حکم: بعض علماء نے لکھا ہے کہ جہاد میں بھی چہرے پر مارنا جائز نہیں، مگر یہ بات درست نہیں۔ اصل یہ ہے کہ کفار اپنے کفر کی وجہ سے شرف انسانی سے محروم ہیں ان کی کوئی تکریم نہیں «أُولَـٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ»[7-الأعراف:179] ”یہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بڑھ کر گمراه۔“ قیامت کے دن اس حقیقت کا اظہار اس طرح ہو گا کہ ابراہیم علیہ السلام کے والد آزر کا چہرہ انسان کی بجائے بجو کا کر دیا جائے گا۔ [بخاري۔ كتاب احاديث الانبياء /8 ] عزت و تکریم صرف مومن کے لئے ہے۔ «وَلِلَّـهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ»[المنافقون: 8] ”عزت صرف اللہ کے لئے، اس کے رسول کے لئے اور مومنوں کے لئے ہے۔“ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کے متعلق فرمایا۔ «فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْنَاقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ»[8-الأنفال:12] ”ان کی گردنوں کے اوپر مارو اور ان کے ہر پورے پر مارو۔“ اب ظاہر ہے گر دنوں سے اوپر کھوپڑی اور چہرہ ہی ہے۔ اور اتنی نفاست سے مارنا کہ صرف کھوپڑی پر لگے اور چہرے پر نہ لگے۔ ممکن ہی نہیں اور فرمایا کہ فرشتے کفار کو فوت کرتے وقت «يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ»[محمد: 27]”ان کے چہروں اور پیٹھوں پر مارتے ہیں۔“ سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوہ حنین میں جب کفار نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو چاروں طرف سے گھیر لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر سے اتر پڑے پھر آپ نے زمین سے مٹی کی ایک مٹھی پکڑی اور اسے ان کے چہروں کی طرف پھینک کر فرمایا: «شَاهَتِ الْوُجُوْهُ»”چہرے بگڑ جائیں۔“ تو اللہ تعالیٰ نے ان سب کی آنکھوں کو مٹی سے بھر دیا، وہ پیٹھ دے کر بھاگ کھڑے ہوئے اور اللہ نے انہیں شکست دے دی۔ [مسلم۔ كتاب الجهاد والسير /81] دیکھئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے چہروں کو نشانہ بنایا اور ان کے چہروں کے بگڑنے کے لئے خاص بددعا کی۔ ➎ بدلے کی صورت میں چہرے پر مارنا جائز ہے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ»[2-البقرة:194] ”جو تم پر زیادتی کرے تم اس پر اس کی مثل زیادتی کرو جو اس نے کی۔“ اور فرمایا: «وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنفَ بِالْأَنفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ»[5-المائدة:45] ”ہم نے ان پر اس (توراة) میں لکھ دیا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت اور زخموں کا بدلہ ہے۔“
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 173
حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه 13
´چہرے پر مارنے کی ممانعت` اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کو مارے تو چہرے (پر مارنے) سے اجتناب کرے۔“[صحيفه همام بن منبه/متفرق/حدیث: 13]
شرح الحدیث: بعض روایات میں ((قَاتَلَ)) کے بجائے ((ضَرَبَ)) آیا ہے۔ جیسا کہ مسند أحمد کی حدیث میں ہے: ((إِذَا ضَرَبَ أَحَدُکُمْ .............))(مسند احمد، رقم: 7323) اسی طرح بعض روایات میں ((فَلْیَجْتَنِبْ)) کی بجائے ((فَلْیَتَّقِ))(پس وہ بچائے) کا لفظ آیا ہے۔ جیسا کہ سنن ابو داؤد میں ہے: ((إِذَا ضَرَبَ أَحَدُکُمْ فَلْیَتَّقِ الْوَجْه .))(سنن أبو داؤد، کتاب الحدود، رقم: 4493)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے چہرے پر کوئی بھی چیز مارنا منع ہے، حتی کہ اپنے غلام کو بھی منہ پر مارنا جائز نہیں، اسی لیے اس حدیث پر امام بخاری نے باب باندھا ہے: ((بَابُ إِذَا ضَرَبَ الْعَبْدُ فَلْيَجْتَنِبِ الْوَجْهَ)) "باب اگر کوئی غلام لونڈی کو مارے تو چہرے پر نہ مارے۔ " بلکہ ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے ایک مرفوع روایت میں یہ لفظ آئے ہیں: ((إِذَا ضَرَبَ أَحَدُکُمْ خَادِمَهُ فَلْيَجْتَنِبِ الْوَجْهَ))((الأدب المفرد، رقم: 174 - سلسلة الصحیحة، رقم: 862)) "جب تم میں سے کوئی شخص اپنے خادم کو مارے تو چہرے سے اجتناب کرے۔ " آپس میں لڑائی ہو جائے، غصہ اور جذبات کتنے ہی مشتعل کیوں نہ ہوں، مسلمان کے منہ پر ہتھیار چھوڑ کر تھپڑ بھی نہ مارے۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: ((إِذَا قَاتَلَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ فَلَا يَلْطِمَنَّ الْوَجْهَ .))(صحیح مسلم، رقم: 6654) "جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی سے لڑے تو منہ پر تھپڑ نہ مارے۔ " قاضی حدود و تعزیرات میں بھی اس بات کا خیال رکھے گا۔ چناچہ علامہ عینی رحمة الله علیہ فرماتے ہیں کہ "جب ان مواقع (مراد لڑتے ہوئے) پر چہرے پر مارنے سے بچنا واجب ہے، تو پھر تعزیر، تادیب اور حدود میں تو بطریق اولیٰ بچنا واجب ہے۔ " امام أبو داؤد، ابوبکرة سے حدیث بیان کرتے ہیں، جس میں اس عورت کا قصہ ہے، جس نے زنا کیا تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس کے بارے میں رجم کا حکم سناتے ہوئے فرمایا: ((إِرْمُوْا وَتَّقُوْ الْوَجْهَ .))(سنن ابو داؤد، کتاب الحدود، رقم: 4444) "اس کو رجم کرو اور چہرہ (پر مارنے) سے بچنا۔ " جس عورت کا مرنا متعین تھا، اس کے بارے میں چہرہ پر مارنے سے منع کر دیا گیا۔ جو لوگ زندہ ہیں یا ان کی اس سے کم سزا ہے تو ان کے بارے میں تو بطریق اولٰی منع کا حکم ہے۔ " (عمدة القاری: 14/11) جمہور فقہاء کا کہنا ہے کہ جب کوئی آقا اپنے غلام یا شوہر اپنی بیوی کو مارے تو بھی اسے اس کے چہرے پر نہیں مارنا چاہیے۔ چہرے پر مارنے کی حرمت کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ چہرہ انسانی حسن و جمال کا مظہر ہے، اور آدمی کے اکثر حواس، مثلاً دیکھنا، سننا، چکھنا اور سونگھنا چہرے میں ہی پائے جاتے ہیں۔ چہرے پر مارنے کی صورت میں ان تمام حواس کا یا ان میں سے کسی ایک کا ختم ہو جانا یا خراب ہو جانا عین ممکن ہے، اور شکل بگڑنے کا بھی اندیشہ ہے، کسی مسلمان بھائی کے ساتھ اتنی زیادتی کسی صورت بھی جائز قرار نہیں دی جا سکتی۔ ویسے چہرے پر مارنا ادب اور اخلاق کے بھی سراسر خلاف ہے۔ اگر تادیباً یا تعزیراً مارنا ہی ہو تو جسم کے دوسرے اعضاء موجود ہیں۔ یاد رہے کہ کفار کے چہروں پر مارنا درست ہے، کیونکہ کفار اپنے کفر کی وجہ سے شرف انسانی سے محروم ہیں، ان کی کوئی تکریم نہیں۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: أُولَٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ (الأعراف: 179) "یہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بڑھ کر گمراہ۔ " عزت و تکریم صرف مومن کے لیے ہے۔ فرمان باری تعالٰی ہے: وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ (المنافقون: 8) "اور عزت صرف الله کے لیے اس کے رسول کے لیے، اور مومنوں کے لیے ہے۔ " یہی وجہ ہے کہ الله تعالی نے کفار کے متعلق فرمایا: فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْنَاقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ (الأنفال: 12) "پس تم ان کی گردنوں پر مارو، اور ان کے ہر ہر جوڑ پر مارو۔ " مذکورہ آیت کے الفاظ "ہر ہر جوڑ" سے ان کے چہروں پر بھی مارنے کا ثبوت ملتا ہے، کیونکہ "ہر ہر جوڑ" میں چہرہ بھی شامل ہے۔ مذید برآں سلمہ بن اکوع رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ: غزوہ حنین میں جب کفار نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو چاروں طرف سے گھیر لیا تو آپ اپنے خچر سے نیچے اترے، پھر آپ نے زمین سے مٹی کی ایک مٹھی پکڑی اور اسے ان کے چہروں کی طرف پھینک کر فرمایا: ((شَاھَتِ الْوُجُوْہُ)) "چہرے بگڑ جائیں۔ " تو الله تعالیٰ نے ان سب کی آنکھوں کو مٹی سے بھر دیا، وہ پیٹھ دے کر بھاگ کھڑے ہوئے اور الله نے انہیں شکست دے دی۔ (صحیح مسلم، رقم: 4619) مذکورہ حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کے چہروں کو نشانہ بنایا، اور ان کے چہروں کے بگڑنے کے لیے خاص بددعا فرمائی۔ اور کسی سے بدلہ لینے (انتقام و قصاص) کے لیے بھی اس کے چہرہ پر مارنا جائز ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ ۚ (البقرہ: 194) "پس جو تم پر زیادتی کرے، تم اس پر زیادتی کرو اتنی ہی جتنی اس نے تم پر زیادتی کی۔ " اور اس پر مستزاد، فرمان باری تعالیٰ ہے: وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنفَ بِالْأَنفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ ۚ (المائدہ: 45) "اور ہم نے اس تورات میں ان کے لیے حکم جاری کر دیا تھا کہ جان کے بدلے جان، اور آنکھ کے بدلے آنکھ، اور ناک کے بدلے ناک، اور کان کے بدلے کان، اور دانت کے بدلے دانت ہے اور زخموں میں بھی بدلہ ہے۔ " پس یہ چند ایسی صورتیں ہیں کہ چہرے پر مارا جا سکتا ہے، وگرنہ نہیں، والله اعلم بالصواب!
صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 13
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1066
´شراب پینے والے کی حد اور نشہ آور چیزوں کا بیان` سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جب تم میں سے کوئی حد لگائے تو چہرے کو بچائے۔ “(بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1066»
تخریج: «أخرجه البخاري، العتق، باب إذا ضرب العبد فليجتنب الوجه، حديث:2559، ومسلم، البروالصلة، باب النهي عن ضرب الوجه، حديث:2612.»
تشریح: 1. مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ سزا دیتے وقت چہرے پر مارنا ناجائز اور غلط ہے۔ 2.اگر کسی وجہ سے بچوں‘ زیر دستوں یا کسی بھی انسان یا حیوان کو مارنے کی نوبت آجائے تو چہرے پر مارنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ 3.چہرہ شرف انسانی کا ترجمان ہے۔ 4. مذکورہ حدیث کو یہاں ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حدود کے اجرا میں چہرے اور دیگر نازک اعضاء پر مارنے سے احتراز کرنا چاہیے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1066
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1287
´برے اخلاق و عادات سے ڈرانے اور خوف دلانے کا بیان` سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جب تم میں سے کوئی لڑائی کرے تو منہ پر مارنے سے اجتناب کرے۔“(بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1287»
تخریج: «أخرجه البخاري، العتق، باب إذا ضرب العبد فليجتنب الوجه، حديث:2559، ومسلم، البر والصلة، باب النهي عن ضرب الوجه، حديث:2612.»
تشریح: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ باہم لڑائی جھگڑے میں مارتے وقت منہ (چہرے) کو بچانا چاہیے۔ ایک حدیث میں ہے: ”جب کوئی کسی کو مارے تو چہرے پر مت مارے۔ “(سنن أبي داود‘ الحدود‘ باب في ضرب الوجہ في الحد‘ حدیث:۴۴۹۳) یہ اس بات کی دلیل ہے کہ چہرے پر مارنا حرام ہے‘ خواہ یہ مارنا حدود و تعزیرات میں ہو یا تادیب کے طور پر حتیٰ کہ جانوروں کے چہرے پر مارنے سے بھی گریز کرنا چاہیے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1287
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4493
´حد میں چہرے پر مارنا منع ہے۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی کسی کو مارے تو چہرے پر مارنے سے بچے۔“[سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4493]
فوائد ومسائل: اس حديث كو اس باب میں دوباره لانے سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ جس طرح حج میں چہرے پر نہیں مارنا اسی طرح تعزیری سزا میں چہرہ زد و کوب سے محفوظ رہنا چاہیے۔ واللہ اعلم
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4493
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6655
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے لڑے تو چہرے سے اجتناب کرے۔"کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:6655]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے، بعض روایات سے اس کی تفسیر ہو جاتی ہے کہ انسان کے چہرے کی صورت رحمٰن کے چہرے کی صورت پر ہے اور قرآن و سنت میں اللہ کے لیے وجه کا لفظ آیا ہے، لیکن جس طرح اس کے قدم، سمع و بصر کی کیفیت کو سمجھنا ممکن نہیں ہے، اس کی صورت کی ماہیت اور حقیقت کو جاننا بھی ممکن نہیں ہے، انسان مخلوق ہے، اس لیے اس کی صورت اس کی شان کے مطابق ہے اور رحمٰن خالق ہے، اس لیے اس کی صورت اس کے شان و مقام کے لائق ہو گی اور اسی صورت میں وہ محشر میں مومنوں کے سامنے آئے گا اور لوگ اس کو پہچان لیں گے، اگر یہ حدیث نہ ہوتی تو پھر یہ معنی کرنا ممکن تھا کہ رحمان نے اسے اپنی پسندیدہ شکل و صورت پر پیدا کیا ہے، اس لیے مار کر اسے بگاڑو نہیں، کیونکہ خوبصورتی کا حقیقی مظہر انسان کا چہرہ مہرہ ہی ہے، اگرچہ سارا جسم ہی اس نے اپنی پسند کے مطابق احسن تقویم بنایا ہے۔