وقال انس: قال العباس للنبي صلى الله عليه وسلم: فاديت نفسي، وفاديت عقيلا، وكان علي له نصيب في تلك الغنيمة التي اصاب من اخيه عقيل، وعمه عباس.وَقَالَ أَنَسٌ: قَالَ الْعَبَّاسُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَادَيْتُ نَفْسِي، وَفَادَيْتُ عَقِيلًا، وَكَانَ عَلِيٌّ لَهُ نَصِيبٌ فِي تِلْكَ الْغَنِيمَةِ الَّتِي أَصَابَ مِنْ أَخِيهِ عَقِيلٍ، وَعَمِّهِ عَبَّاسٍ.
انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میں نے (جنگ بدر کے بعد قید سے آزاد ہونے کے لیے) اپنا بھی فدیہ دیا تھا اور عقیل رضی اللہ عنہ کا بھی حالانکہ اس غنیمت میں علی رضی اللہ عنہ کا بھی حصہ تھا جو ان کے بھائی عقیل رضی اللہ عنہ اور چچا عباس رضی اللہ عنہ سے ملی تھی۔
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن ابراہیم بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے موسیٰ نے، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انصار کے بعض لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور اجازت چاہی اور آ کر عرض کیا کہ آپ ہمیں اس کی اجازت دے دیجئیے کہ ہم اپنے بھانجے عباس کا فدیہ معاف کر دیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں ایک درہم بھی نہ چھوڑو۔
Narrated Anas: Some men of the Ansar asked for the permission of Allah's Apostle and said, "Allow us to give up the ransom from our nephew Al-`Abbas. The Prophet said (to them), "Do not leave (even) a Dirham (of his ransom).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 46, Number 714
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2537
حدیث حاشیہ: حضرت عباس کے والد عبدالمطلب کی والدہ سلمی انصار میں سے تھیں، بنی نجار کے قبیلے کی۔ اس لیے ان کو اپنا بھانجا کہا۔ سبحان اللہ! انصار کا ادب! یوں نہیں عرض کیا، اگر آپ اجازت دیں تو آپ کے چچا کا فدیہ معاف کردیں۔ کیوں کہ ایسا کہنے سے گویا آنحضرت ﷺ پر احسان رکھنا ہوتا۔ آنحضرت ﷺ خوب جانتے تھے کہ حضرت عباس مالدار ہیں۔ اس لیے فرمایا کہ ایک روپیہ بھی ان کو نہ چھوڑو۔ ایسا عدل و انصاف کہ اپنے سگے چچا تک کو بھی رعایت نہ کی پیغمبری کی کھلی ہوئی دلیل ہے۔ سمجھدار آدمی کو پیغمبری کے ثبوت کے لیے کسی بڑے معجزے کی ضرورت نہیں۔ آپ کی ایک ایک خصلت ہزار ہزار معجزوں کے برابر تھی۔ انصاف ایسا، عدل ایسا، سخاوت ایسی، شجاعت ایسی، صبر ایسا، استقلال ایسا کہ سارا ملک مخالف ہر کوئی جان کا دشمن، مگر اعلانیہ توحید کا وعظ فرماتے رہے، بتوں کی ہجو کرتے رہے۔ آخر میں عربوں جیسے سخت لوگوں کی کایا پلٹ دی۔ ہزاروں برس کی عادت بت پرستی کی چھڑا کر ان ہی کے ہاتھوں ان بتوں کو تڑوایا۔ پھرآج تیرہ سو برس گزرچکے، آپ کا دین شرقاً و غرباً پھیل رہا ہے۔ کیا کوئی جھوٹا آدمی ایسا کرسکتا ہے یا جھوٹے آدمی کا نام نیک اس طرح پر قائم رہ سکتا ہے۔ (وحیدی) عینی فرماتے ہیں: واختلف في علة المنع فقیل إنه کان مشرکا و قیل منعهم خشیة أن یقع في قلوب بعض المسلمین شيئ۔ یعنی آپ ﷺ نے کیوں منع فرمایا اس کی علت میں اختلاف ہے۔ بعض نے کہا اس لیے کہ اس وقت حضرت عباس مشرک تھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ نے اس لیے منع فرمایا کہ کسی مسلمان کے دل میں کوئی بدگمانی نہ ہو کہ آپ ﷺ نے اپنے چچا کے ساتھ ناروا رعایت کا برتاؤ کیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2537
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2537
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ اس سلسلے میں ذوالارحام اور عصبات، یعنی دور اور قریب کے رشتے داروں میں کوئی فرق نہیں۔ جس طرح دور کا رشتے دار ملکیت میں آ جانے کے بعد آزادی دیے بغیر آزاد نہیں ہو سکتا اسی طرح قربی رشتے دار بھی صرف ملکیت میں آ جانے سے آزاد نہیں ہو جاتا۔ نبی اکرم ﷺ کا حضرت عباس اور عقیل سے فدیہ لینا اس کی واضح دلیل ہے۔ (2) کیونکہ حضرت عباس اور عقیل صرف قیدی بنے تھے ملکیت میں نہیں آئے تھے، اس لیے امام بخاری ؒ کا یہ مقصد نہیں کہ ملکیت سے فوراً آزادی حاصل نہیں ہوتی بلکہ مسلمان اور کافر کے بارے میں مطلق باب قائم کرنے اور پھر یہ روایات لانے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا موقف یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مشرک رشتے دار کا مالک بنے گا تو وہ ازخود آزاد نہیں ہو گا، تاہم اگر مسلمان رشتے دار کا مالک بنے گا تو وہ ازخود آزاد ہو جائے گا۔ (فتح الباري: 208/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2537
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4018
4018. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ انصار کے کچھ آدمیوں نے رسول اللہ ﷺ سے اجازت طلب کی اور کہا کہ آپ ہمیں اجازت دیں تو ہم اپنے بھانجے حضرت عباس ؓ کا فدیہ معاف کر دیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! ان کے فدیے سے ایک درہم بھی نہ چھوڑو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4018]
حدیث حاشیہ: حضرت عباس بن عبدالمطلب ؓرسول اللہ ﷺ کے محترم چچا قبول اسلام سے پہلے بدر کی لڑائی میں قید ہوکر آئے تھے وہ انصار کے بھانجے اس رشتہ سے ہوئے کہ ان کی دادی یعنی حضرت عبد المطلب کی والدہ ماجدہ بنو نجار کے قبیلے میں سے تھیں۔ اسی رشتہ کی بناپر انصار نے ان کا فدیہ معاف کرنا چاہا۔ مگر بہت سے مصالح کی بنا پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ ان کا فدیہ پورے طور پر وصول کرو۔ آپ نے ان سے یعنی عباس ؓ سے یہ بھی فرمایا تھا کہ آپ نہ صرف اپنا بلکہ اپنے دونوں بھتیجوں عقیل اور نوفل اور اپنے حلیف عتبہ بن عمرو کا فدیہ بھی اداکریں کیونکہ آپ مالدار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں تو مسلمان ہوں مگر مکہ کے مشرک زبردستی مجھ کو پکڑ لائے ہیں۔ آپ نے فرمایا اللہ بہتر جانتا ہے اگر ایسا ہوا ہے تو اللہ تعالی آپ کے اس نقصان کی تلافی کردے گا۔ ظاہر میں تو آپ ان مکہ والوں کے ساتھ ہو کر مسلمانوں سے لڑنے آئے۔ کہتے ہیں حضرت عباس ؓ کو کعب بن عمرو انصاری ؓ نے پکڑا اور زور سے مشکیں کس دیں۔ وہ اس تکلیف سے ہائے ہائے کرتے رہے۔ ان کی آواز سن کر آنحضرت ﷺ کو رات نیند نہیں آئی۔ آخر صحابہ ؓ نے ان کی مشکیں ڈھیلی کردیں۔ تب آپ آرام سے سوئے صبح کو انصار نے آپ کو مزید خوش کرنے کے لیے ان کا فدیہ بھی معاف کرنا چاہا اور کہا کہ ہم خود اپنے پاس سے ان کا فدیہ ادا کردیں گے لیکن یہ انصاف کے خلاف تھا اس لیے آپ نے منظور نہیں فرمایا۔ اس حدیث سے باب کی مناسبت یہ ہے کہ اس میں کئی انصاری آدمیوں کا جنگ بدر میں شریک ہونا مذکور ہے۔ ان کے نام مذکور نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4018
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3048
3048. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے۔ کہ انصار کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!آپ حکم دیں تو ہم اپنے بھانجے حضرت عباس ؓ کے لیے ان کا فدیہ معاف کردیں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں، تم ان کے فدیے سے ایک درہم بھی نہ چھوڑو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3048]
حدیث حاشیہ: 1۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مشرک قیدی سے فدیہ لے کر اسے رہا کرنا جائز نہیں۔ امام بخاری ؒنے ثابت کیا ہے کہ مسلمانوں کو اگر مال کی ضرورت ہو تو مشرکین سے فدیہ لے کر انھیں چھوڑا جا سکتا ہے چنانچہ حضرت عباس ؓ جب غزوہ بدر میں قیدی بنے تو انصار نے ان کا فدیہ معاف کرنے کی پیشکش کی تو رسول اللہ ﷺ نے اسے ٹھکرادیا۔ 2۔ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کا حق وصول کرنے میں اپنے حقیقی چچا سے بھی کوئی رعایت نہ کی۔ اس طرح آپ نے دینی معاملات میں رشتے داری کی بنیاد پر سفارش کرنے کا دروازہ بھی ہمیشہ کے لیے بند کردیا۔ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد گرامی میں یہ بھی مصلحت تھی کہ اپنے حقیقی چچا سے رعایت کرنا دوسروں کے لیے بد ظنی کا ذریعہ بن سکتا ہےاس لیے آپ نے صاف صاف انکار کردیا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3048
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4018
4018. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ انصار کے کچھ آدمیوں نے رسول اللہ ﷺ سے اجازت طلب کی اور کہا کہ آپ ہمیں اجازت دیں تو ہم اپنے بھانجے حضرت عباس ؓ کا فدیہ معاف کر دیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! ان کے فدیے سے ایک درہم بھی نہ چھوڑو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4018]
حدیث حاشیہ: 1۔ رسول اللہ ﷺ کے چچا حضرت عباس ؓ قبول اسلام سے پہلے بدر کی لڑائی میں قید ہو کر آئے وہ انصار کے بھانجے اس بنا پر تھے کہ عبدالمطلب کی والدہ بنو نجار سے تھیں، اس بنا پر انھوں نے ان کا فدیہ معاف کرنا چاہا تو رسول اللہ ﷺ نے عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہو ئے فرمایا: ”ان کا فدیہ پورا پورا وصول کیا جائے۔ “ کیونکہ بھائی،باپ بیٹا کوئی بھی ہو جب وہ دین کا دشمن ہوتو اس کی پاسداری سر بسر توہین دین ہے۔ 2۔ اس حدیث کی عنوان سے مناسبت اس طرح ہے کہ حضرت عباس ؓ بدر میں قیدی ہوئے اور ان کی سفارش کرنے والے انصار بھی غزوہ بدر میں شرکت کر چکے تھے۔ حضرت عباس ؓ نے کہا تھا کہ میں تو مسلمان ہوں مگر مشرکین مکہ مجھے زبردستی پکڑ کر لائے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اگر حقیقت میں ایسا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی تلافی کردے گا۔ بظاہر تو آپ ان اہل مکہ کے ساتھ شام ہو کر مسلمانوں سے لڑنے آئے ہیں۔ “(مسند أحمد: 353/1 و فتح الباري: 402/7)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4018